یاسر ندیم الواجدی
استاذ حدیث معہد تعلیم الاسلام شکاگو امریکہ و ڈائریکٹر دارالعلوم آن لائن
ـــــــــــــــــــــــــــ
کچھ دن پہلے راقم نے "دیوبند ماڈل امید کی اکلوتی کرن" کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا، باوجودیکہ اس میں اس بات کی صراحت تھی کی میرا ارادہ ہرگز کسی دوسرے ادارے کی تنقیص نہیں ہے بلکہ ایک ادارے: دیوبند کی ہمہ جہتی اور عالمگیریت کا اظہار ہے، کچھ ندوی احباب نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور ردوقدح کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہماری علما برادری میں یہ ایک عام مرض ہے کہ اولا تو ہم تقسیم در تقسیم ہوکر چند ہزار رہ گئے پھر قاسمی و ندوی کی ایک اور تقسیم کا شکار ہوگئے حالانکہ یہ محض ایک تعارفی نسبت ہے اور خدا جانے کیوں چلی ہے۔ نسبت تو اپنے قبیلے خاندان یا علاقے کی طرف ہونی چاہیے، مصر کے باشندے ازہر سے فارغ ہوکر بھی ازہری نہیں لکھتے ہمارا ہندوستانی طالب علم وہاں ٹہل کر آتا ہے اور ازہری ہوجاتا ہے
علیگڑھ جاکر علیگ اور جامعہ ملیہ جاکر جامعی لکھنے لگتا ہے(یہ ایک رائے ہے اس سے اختلاف ممکن ہے)، بہر حال مسئلہ یہ ہے کہ میں بہت سے قاسمی حضرات کو دیکھتا ہوں کہ ندوہ کا نام آتے ہی ان کی پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں، یہی حال کچھ ندوی حضرات کا ہے کہ دیوبند کا نام آیا اور ان کی زبان ہوشمند کا جنازہ تیار ہوا۔ پہلے تو میں قاسمی حضرات سے گزارش کروں گا کہ ندوہ اگر کچھ نہ کرتا صرف عالم جلیل علامہ سیدسلیمان ندوی اور مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہما اللہ ہی پیدا کردیتا تو بھی امت اس ادارے کا قرض ادا نہیں کرسکتی تھی۔ ثانی الذکر نے عالمی سطح پر جو خدمات انجام دی ہیں وہ اکابرین ہند میں سے کسی کے حصے میں نہیں آئیں۔ وہ عظمت کی جس چوٹی پر پہنچے تھے وہاں پہنچ کر انسان اکثر یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے، مگر حضرت کی تواضع اخلاص اور للہیت آج بھی ضرب المثل ہیں۔ اسی طرح میں ندوی احباب سے گزارش کروں گا کہ وہ اس پہلو پر بھی غور کریں کہ علامہ سیدسلیمان ندوی جیسے جبل علم کچھ سوچ کر ہی اکابر دیوبند کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور آخر کار حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا تھا۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی سوانح ان کے اکابر دیوبند کے ساتھ تعلق کے تذکرہ کے بغیر ادھوری رہے گی۔ آج بھی آپ کے اساتذہ میں فضلائے دیوبند کا نام بھی آتا ہے، حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی حضرت شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید ہیں۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان اداروں کے رشتے بہت پرانے ہیں، یہ دونوں ہی مسلمانان ہند کے ماضی اور حال کی تعلیمی واصلاحی قیادت کے ذمے دار ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی رہیں گے۔ ہم جو ابنائے دیوبند وابناے ندوہ کہلاتے ہیں اگر ایک دوسرے پر صرف اسی لئے تیر برساتے رہیں کہ ہمارا نصاب تعلیم مختلف ہے تو دراصل ہم ان دونوں مؤقر اداروں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ماضی میں غلطیاں دونوں طرف سے ہوئی ہیں اور اب دل ارجمند اور زبان ہوشمند ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان غلطیوں کو نہ دہرائیں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور ان اداروں کو امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ سمجھیں۔ فقط و السلام
استاذ حدیث معہد تعلیم الاسلام شکاگو امریکہ و ڈائریکٹر دارالعلوم آن لائن
ـــــــــــــــــــــــــــ
کچھ دن پہلے راقم نے "دیوبند ماڈل امید کی اکلوتی کرن" کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا، باوجودیکہ اس میں اس بات کی صراحت تھی کی میرا ارادہ ہرگز کسی دوسرے ادارے کی تنقیص نہیں ہے بلکہ ایک ادارے: دیوبند کی ہمہ جہتی اور عالمگیریت کا اظہار ہے، کچھ ندوی احباب نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور ردوقدح کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہماری علما برادری میں یہ ایک عام مرض ہے کہ اولا تو ہم تقسیم در تقسیم ہوکر چند ہزار رہ گئے پھر قاسمی و ندوی کی ایک اور تقسیم کا شکار ہوگئے حالانکہ یہ محض ایک تعارفی نسبت ہے اور خدا جانے کیوں چلی ہے۔ نسبت تو اپنے قبیلے خاندان یا علاقے کی طرف ہونی چاہیے، مصر کے باشندے ازہر سے فارغ ہوکر بھی ازہری نہیں لکھتے ہمارا ہندوستانی طالب علم وہاں ٹہل کر آتا ہے اور ازہری ہوجاتا ہے
علیگڑھ جاکر علیگ اور جامعہ ملیہ جاکر جامعی لکھنے لگتا ہے(یہ ایک رائے ہے اس سے اختلاف ممکن ہے)، بہر حال مسئلہ یہ ہے کہ میں بہت سے قاسمی حضرات کو دیکھتا ہوں کہ ندوہ کا نام آتے ہی ان کی پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں، یہی حال کچھ ندوی حضرات کا ہے کہ دیوبند کا نام آیا اور ان کی زبان ہوشمند کا جنازہ تیار ہوا۔ پہلے تو میں قاسمی حضرات سے گزارش کروں گا کہ ندوہ اگر کچھ نہ کرتا صرف عالم جلیل علامہ سیدسلیمان ندوی اور مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہما اللہ ہی پیدا کردیتا تو بھی امت اس ادارے کا قرض ادا نہیں کرسکتی تھی۔ ثانی الذکر نے عالمی سطح پر جو خدمات انجام دی ہیں وہ اکابرین ہند میں سے کسی کے حصے میں نہیں آئیں۔ وہ عظمت کی جس چوٹی پر پہنچے تھے وہاں پہنچ کر انسان اکثر یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے، مگر حضرت کی تواضع اخلاص اور للہیت آج بھی ضرب المثل ہیں۔ اسی طرح میں ندوی احباب سے گزارش کروں گا کہ وہ اس پہلو پر بھی غور کریں کہ علامہ سیدسلیمان ندوی جیسے جبل علم کچھ سوچ کر ہی اکابر دیوبند کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور آخر کار حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا تھا۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی سوانح ان کے اکابر دیوبند کے ساتھ تعلق کے تذکرہ کے بغیر ادھوری رہے گی۔ آج بھی آپ کے اساتذہ میں فضلائے دیوبند کا نام بھی آتا ہے، حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی حضرت شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید ہیں۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان اداروں کے رشتے بہت پرانے ہیں، یہ دونوں ہی مسلمانان ہند کے ماضی اور حال کی تعلیمی واصلاحی قیادت کے ذمے دار ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی رہیں گے۔ ہم جو ابنائے دیوبند وابناے ندوہ کہلاتے ہیں اگر ایک دوسرے پر صرف اسی لئے تیر برساتے رہیں کہ ہمارا نصاب تعلیم مختلف ہے تو دراصل ہم ان دونوں مؤقر اداروں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ماضی میں غلطیاں دونوں طرف سے ہوئی ہیں اور اب دل ارجمند اور زبان ہوشمند ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان غلطیوں کو نہ دہرائیں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور ان اداروں کو امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ سمجھیں۔ فقط و السلام