اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ایک محسن تھا، اب نہیں رہا.

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 7 August 2018

ایک محسن تھا، اب نہیں رہا.

(حافظ سراج الدین صاحب چھانوی اعظمی)

بقلم: ابن الحسن قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
سن 2007 میں جب میں مدرسہ فیض العلوم شیرواں عید گاہ سرائے میر اعظم گڑھ میں مدرس تھا ایک بار فصلی وصولی کے لئے چھاوں گیا، چند طلبہ بھی میرے ساتھ تھے، اجنبی جگہ طبیعت پر ایک وحشت طاری تھی، بھوک بھی چمک گئی تھی، میں چندہ کے لئے ان کے گھر گیا، حافظ جی اپنے سپالہ پوش بیٹھک میں لیٹے ہوئے تھے، سانولہ رنگ چوڑی پیشانی، گھنی سفید داڑھی، چہرے بشرے سے سمجھ داری اور ذہانت ہویدا، علیک سلیک کے بعد ایک دوسرے سے تعارف ہوا، پھر بہت ساری باتیں ہوئیں ۔
میں اس وقت "تذکرة الاولیاء" بہت محنت سے مطالعہ کر رہاتھا، بزرگوں کے واقعات نوک زبان تھے، کئی واقعات موضوع کے مناسب سنایا وہ کافی متاثر ہوئے، پھر ہمارے لئے کھانے کا نظم کیا، اور نہایت شوق اور محبت سے کھانا کھلایا ۔
 حافظ سراج الدین صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، ان کی سنجیدہ شخصیت، پر وقار وجاہت، اچھے اخلاق سے بے حد متاثر ہوا،‌ اسی سال فیض العلوم میں سالانہ جلسہ ہوا، میں نے انہیں بھی جلسہ میں آنے کی دعوت دی، انہوں نے اپنی کچھ مجبوریاں بیان کی، میں نے ان کی تمام مجبوریوں کو تسلیم کر کے جلسہ میں اصرار کے ساتھ بلایا، وہ بہ خوشی تشریف لائے، ‌میں نے ان کا قیام بطور خاص اپنے کمرہ میں کیا، وہ ظہر کے بعد مدرسہ آگئے، اور مجھ سے خوب باتیں کی، ‌وہ مجھ سے طرح طرح کے سوال کرتے، میں ان کے سوالوں کا جواب دیتا، کل ہوکر وہ جاتے وقت کہنے لگے، میں چاہتا ہوں کہ آپ بیت العلوم آجائیں، میں اپنے حضرت سے آپ کے بارے میں بات کروں گا، بعد کی ملاقاتوں میں کہنے لگے میں نے اپنے حضرت سے آپ کے لئے بات کرلی ہے اور انہوں نے وعدہ بھی کیا ہے کہ آپ کو بیت العلوم میں ضرور بلائیں گے۔
حافظ صاحب کے مجھ پر بڑے احسانات ہیں، ان ہی کی کوششوں سے میری زندگی کو ایک نیا رخ ملا، آج جو کچھ مجھ سے خیر میسر ہوتا ہے اس میں ایک بڑا حصہ حافظ جی کا بھی ہے، آج 6/8/201 عصر کے بعد خبر ملی کہ وہ البیلا محسن اب اس دنیا میں نہیں رہا. (اناللہ وانا الیہ راجعون)
جب موت کی خبر ملی تو متنبی کا یہ شعر میرے ذہن گونجنے لگا:
          ـــــــــــعـــــــــ
لولا ایادی الدھر فی الجمع بیننا
غفلنا  فلم  نشعر له بذنوب

اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے آمین ۔

حافظ صاحب بظاہر معمولی حیثیت کے آدمی تھے، مگر میری نگاہ میں ان کا مرتبہ بہت بلند تھا، وہ سادے مزاج کے بااخلاق انسان تھے، ان کے رہن سہن میں بذاذت تھی، وہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ کے ایک عرصہ سے مجلس عاملہ کے رکن تھے، وہ جب بھی مدرسہ آتے مجھ سے ضرور ملتے، اگر ملاقات نہ ہوتی تو لوگوں سے پوچھتے پھرتے اور جب تک ملاقات نہ ہوتی انہیں سکون نہیں آتا، وہ کم گو، کم آمیز تھے، لیکن کسی سے ملتے تو کھل کر بات کرتے، انہیں انساب میں بڑی مہارت تھی، لوگوں کی شکل وصورت دیکھ کر بتا دیتے کہ کس خاندان کا ہے، عادات واطوار سے پرکھ لیتے کہ کس خاندان سے تعلق ہے، پرانے لوگوں کا سلسلہ نسب بہت تفصیل سے بتاتے، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، ایک بار ایک طالب کے ذریعہ میں نے ان کا نمبر لینا چاہا، انہوں نے کہلوا بھیجا میں ہی کل آپ کے پاس آتا ہوں، چنانچہ تشریف لائے اور صبح سے شام تک میرے پاس رہے، مجھے ان کی اس محبت سے بے حد مسرت ہوئی، ڈیرھ دو سال پہلے ان پر فالج کا اثر ہوا، اسی وقت سے صاحب فراش تھے ۔
مدرسہ بیت العلوم کے طلبہ و اساتذہ ان کی وفات پر سوگوار ہیں، ان کے لئے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا، احباب سے بھی درخواست ہے کہ دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا اہتمام کریں ۔