محمد سالم قاسمی سریانوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
آج پندرہ اگست ۲۰۱۸ء ہے، اگست کی یہی پندرہ تاریخ ہر سال آتی ہے اور ’’یوم آزادی‘‘ کے نام سے جشن ومسرت کی تابانی اور اہنی طویل ترین خونچکاںداستان سنا کر رخصت ہوجاتی ہے، جس میں ہر ایک فرد جنگ آزادی اور اس میں یہاں کے محبان وطن کی پیش کردہ قربانیوں کا تذکرہ کرتا اور سنتا ہے، ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے، اور اپنی سعی بھر ایک اچھا پروگرام کرنے یا ایسے پروگراموں میں کم از کم شرکت ضرور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ایک دو سالوں سے نہیں چل رہا ہے؛ بل کہ یہ سلسلہ سات دہائیوں کو پار کر چکا ہے، آج اس سلسلہ کا یہ ’’بہترواں‘‘ جشن آزادی ہے۔
’’آزادی‘‘ کا لفظ اپنے اندر ایک وسیع ترین معنی ومفہوم رکھتا ہے، اس کا پس منظر قریب ہر ہندوستانی کو کچھ نہ کچھ یاد ضرور رہتا ہے۔ ملک عزیز کی غلامی اور اس کی آزادی کی صدیوں پر محیط طویل داستان ہے، جو ہر سال کہی اور سنی جاتی ہے، آپ اِس ملک کے اُس وقت کے حالات کا جائزہ لیجیے، کتابوں کی ورق گردانی کیجیے، جب یہ ملک آزادی سے نکل کر ’’غلامی‘‘ کی زندگی میں داخل ہوا تھا، کس طرح کی مکاریوں کی بدولت ’’سفید فام ظالموں‘‘ نے یہاں کے باشندوں کو ’’آزادی‘‘ سے محروم کرکے ان کے گلے میں ’’غلامی‘‘ کی زنجیر اور طوق ڈال دی تھی اور ہندوستانیوں کو ان کے اپنے حقوق سے محروم کردیا تھا، ان کی زبانوں پر مہر سکوت کا تالا لگا دیا تھا، قلم کو توڑ دیا گیا تھا، تجارت ومعیشت کو تباہ کردیا گیاتھا، ملک کو ظلم وبربریت کی آماجگاہ بنادیا گیا تھا…… یہ اس کے علاوہ وہ سب کچھ جو آپ سمجھتے اور لکھتے، نیز بولتے ہیں!!
ظاہر ہے کہ انسان فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے، اسے ’’غلامی‘‘ کب برداشت ہوسکتی تھی، چناں چہ سب سے پہلے مسلمانوں نے، اس کے بعد برادران وطن نے مل کر اس ملک کی ’’آزادی‘‘ کے لیے ایک طویل داستان رقم کی، جس کا ہر ورق اپنے اندر قربانیوں، مجاہدوں اور ظلم وبربریت کے خلاف سینہ سپر ہونے کو سموئے ہوئے ہے اور کھل کر اس کی حقیقت بیانی کررہا ہیـ، اسی جہد مسلسل اور سعی پیہم کا نتیجہ یہی پندرہ اگست ہے، جس کی خوشی میں آج ہم سرشار ہیں۔
لیکن!…… کیا آج ہم آزاد ہیں؟ نہیں، نہیں … ایسا بالکل نہیں ہے، ہمارے پُرخوں اور بزرگوں نے جس ’’آزاد ہندوستان‘‘ کا خوب دیکھا تھا، یہ وہ ہندوستان نہیں ہے، یہ تو کچھ الگ ہی ہے، جو کام ’’سفید فام انسانوں‘‘ نے کیا تھا، وہی کام آج یہاں کے ’’سیاہ فام‘‘انسان کررہے ہیں، پہلے غلام بنانے والے ’’غیر ملکی‘‘ تھی، آج ’’ملکی‘‘ ہیں،باتیں وہی ہیں، لیکن اسباب بدل دیے گئے، نشانے وہی ہیں، لیکن طریقے بدل دیے گئے، اِدھرچند سالوں میں جو حالات ہمارے ملک کے بنائے گئے ہیں وہ کسی با بصیرت فرد سے مخفی نہیں ہیں، اُن ’’سفید فاموں‘‘ اور یہاں کے ’’سیاہ فاموں‘‘ میں در حقیقت نشانِ راہ اور منزل کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، وہی سب کام؛ بل کہ اس سے کہیں خطرناک کام اس سے کہیں زیادہ منظم طریقے سے کیے جارہے ہیں جو ان ’’سفید فاموں‘‘ نے کیا تھا، میں ان حقائق کی تفصیل اور مماثلت میں نہیں جانا چاہتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پھر وہی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں جو سات دہائی پہلے سے گزارتے چلے آ رہے تھے، اس لیے ہمیں حقائق کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا، حالات کا جائزہ لینا ہوگا اور دور رسی، دور بینی اور دور اندیشی جو کہ ایک مسلم کا امتیاز ہے اس کو بروئے کار لاکر ایک مرتبہ پھر سے آزادی کی جد وجہد کرنی ہوگی، اپنے اکابر کے خطوط عمل کو تلاش کرنا ہوگا اور اس کے مطابق اپنے کو ڈھالنا ہوگا، تاکہ ہم واقعی اور صحیح معنی میں ’’آزاد‘‘ ہوں۔
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
محمد سالم قاسمی سریانوی
(تحریر: ۳/ ذی الحجہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۵/ اگست ۲۰۱۸ء بروز بدھ بوقت صبح )
salimmubarakpuri@gmail.com
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
آج پندرہ اگست ۲۰۱۸ء ہے، اگست کی یہی پندرہ تاریخ ہر سال آتی ہے اور ’’یوم آزادی‘‘ کے نام سے جشن ومسرت کی تابانی اور اہنی طویل ترین خونچکاںداستان سنا کر رخصت ہوجاتی ہے، جس میں ہر ایک فرد جنگ آزادی اور اس میں یہاں کے محبان وطن کی پیش کردہ قربانیوں کا تذکرہ کرتا اور سنتا ہے، ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے، اور اپنی سعی بھر ایک اچھا پروگرام کرنے یا ایسے پروگراموں میں کم از کم شرکت ضرور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ایک دو سالوں سے نہیں چل رہا ہے؛ بل کہ یہ سلسلہ سات دہائیوں کو پار کر چکا ہے، آج اس سلسلہ کا یہ ’’بہترواں‘‘ جشن آزادی ہے۔
’’آزادی‘‘ کا لفظ اپنے اندر ایک وسیع ترین معنی ومفہوم رکھتا ہے، اس کا پس منظر قریب ہر ہندوستانی کو کچھ نہ کچھ یاد ضرور رہتا ہے۔ ملک عزیز کی غلامی اور اس کی آزادی کی صدیوں پر محیط طویل داستان ہے، جو ہر سال کہی اور سنی جاتی ہے، آپ اِس ملک کے اُس وقت کے حالات کا جائزہ لیجیے، کتابوں کی ورق گردانی کیجیے، جب یہ ملک آزادی سے نکل کر ’’غلامی‘‘ کی زندگی میں داخل ہوا تھا، کس طرح کی مکاریوں کی بدولت ’’سفید فام ظالموں‘‘ نے یہاں کے باشندوں کو ’’آزادی‘‘ سے محروم کرکے ان کے گلے میں ’’غلامی‘‘ کی زنجیر اور طوق ڈال دی تھی اور ہندوستانیوں کو ان کے اپنے حقوق سے محروم کردیا تھا، ان کی زبانوں پر مہر سکوت کا تالا لگا دیا تھا، قلم کو توڑ دیا گیا تھا، تجارت ومعیشت کو تباہ کردیا گیاتھا، ملک کو ظلم وبربریت کی آماجگاہ بنادیا گیا تھا…… یہ اس کے علاوہ وہ سب کچھ جو آپ سمجھتے اور لکھتے، نیز بولتے ہیں!!
ظاہر ہے کہ انسان فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے، اسے ’’غلامی‘‘ کب برداشت ہوسکتی تھی، چناں چہ سب سے پہلے مسلمانوں نے، اس کے بعد برادران وطن نے مل کر اس ملک کی ’’آزادی‘‘ کے لیے ایک طویل داستان رقم کی، جس کا ہر ورق اپنے اندر قربانیوں، مجاہدوں اور ظلم وبربریت کے خلاف سینہ سپر ہونے کو سموئے ہوئے ہے اور کھل کر اس کی حقیقت بیانی کررہا ہیـ، اسی جہد مسلسل اور سعی پیہم کا نتیجہ یہی پندرہ اگست ہے، جس کی خوشی میں آج ہم سرشار ہیں۔
لیکن!…… کیا آج ہم آزاد ہیں؟ نہیں، نہیں … ایسا بالکل نہیں ہے، ہمارے پُرخوں اور بزرگوں نے جس ’’آزاد ہندوستان‘‘ کا خوب دیکھا تھا، یہ وہ ہندوستان نہیں ہے، یہ تو کچھ الگ ہی ہے، جو کام ’’سفید فام انسانوں‘‘ نے کیا تھا، وہی کام آج یہاں کے ’’سیاہ فام‘‘انسان کررہے ہیں، پہلے غلام بنانے والے ’’غیر ملکی‘‘ تھی، آج ’’ملکی‘‘ ہیں،باتیں وہی ہیں، لیکن اسباب بدل دیے گئے، نشانے وہی ہیں، لیکن طریقے بدل دیے گئے، اِدھرچند سالوں میں جو حالات ہمارے ملک کے بنائے گئے ہیں وہ کسی با بصیرت فرد سے مخفی نہیں ہیں، اُن ’’سفید فاموں‘‘ اور یہاں کے ’’سیاہ فاموں‘‘ میں در حقیقت نشانِ راہ اور منزل کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، وہی سب کام؛ بل کہ اس سے کہیں خطرناک کام اس سے کہیں زیادہ منظم طریقے سے کیے جارہے ہیں جو ان ’’سفید فاموں‘‘ نے کیا تھا، میں ان حقائق کی تفصیل اور مماثلت میں نہیں جانا چاہتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پھر وہی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں جو سات دہائی پہلے سے گزارتے چلے آ رہے تھے، اس لیے ہمیں حقائق کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا، حالات کا جائزہ لینا ہوگا اور دور رسی، دور بینی اور دور اندیشی جو کہ ایک مسلم کا امتیاز ہے اس کو بروئے کار لاکر ایک مرتبہ پھر سے آزادی کی جد وجہد کرنی ہوگی، اپنے اکابر کے خطوط عمل کو تلاش کرنا ہوگا اور اس کے مطابق اپنے کو ڈھالنا ہوگا، تاکہ ہم واقعی اور صحیح معنی میں ’’آزاد‘‘ ہوں۔
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
محمد سالم قاسمی سریانوی
(تحریر: ۳/ ذی الحجہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۵/ اگست ۲۰۱۸ء بروز بدھ بوقت صبح )
salimmubarakpuri@gmail.com