اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیبوں کا سنگم ہوتا ہے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 16 August 2018

دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیبوں کا سنگم ہوتا ہے!

از : محمد عظیم قاسمی فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
9358163428
ــــــــــــــــــــــــــــ
آج ہمارا پیارا، عزیز ملک اپنی آزادی کا جشن بڑی دھوم دھام سے منارہاہے لیکن اس لال قلعہ سے جو گرہوی رکھا جاچکا ہے (جو مستحکم ہندوستان کی نمائندگی کرتا تھا) جس ہندوستان میں ہرطرف قتل وغارتگری کا ماحول ہے جہاں آپسی پیار ومحبت کو فناکے گھاٹ اتاردینے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے سلام ہواس ہندوستانی قوم پرجو آیسے پرآشوب ماحول میں بھی اپنا جشن آزادی فراموش توکیا کرتی اسکے رنگ کو بھی پھیکا نہ ہونے دیا.
ہماراملک قدیم سے ایک گنگا جمنی تہذیب کا حامل اور پیار محبت کا گہوارا ہے
     ہمارا ملک عزیز ہندوستان ایک ایساجمہوری ملک ہے جہاں آئین ہر قوم ومذہب کو اپنے تہذیبی شناخت اور اپنے اپنے مذہبی رسوم ورواج کے مطابق زندگی گذارنے کی آزادی فراہم کرتا ہے ، آپسی بھائی چارہ پیار محبت اور مذہبی ہم آہنگی اس کی خوبصورتی کی اصل وجہ ہے ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذاہب پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ اپس مین شیر وشکر رہتے ہیں آئے ہیں انسانیت کے پیکر بن کر ہندو مسم سکھ عیسائی سب ایک دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں ، بلکہ یہ کہنا زیادہ موضوع ہوگا کہ ہماری جمہوریت ہی ہندو مسلم سکھ عیسائی کے بغیر نامکمل اور ادھوری ہے،  اس لئے ہندوستان کی طرف سے جب بھی کوئی قومی، ملی، اورتعمیری کام ہو تو اس میں چہرےاورتصویریں  سب کے نظر آنے چاہئے اور اس میں حصہ سب کا ہونا چاہیے.
 اس وقت مجھے ایک افسانہ یاد آتاہے کہ
  " آج کے ستر70 سال  پہلے جو حادثہ برصغیر میں پیش آیا جو انگریزوں کی دین تھا ایک ضعیف معمر بزرگ تقسیم وطن کے موقع پر اپنے نحیف وکمزور کندھوں پراپنے بچے کچے سرمائے کی گٹھری اٹھائے وطن عزیز ہندوستان چھوڑکر جارہے تھے کہ دلی پہنچے تو جامع مسجد دہلی کی فصیل سے مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریر سنی "کہ یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پراختیار کر رکھی ہے اس پر غور کرو ، اپنے ارادوں کو مضبوط بناؤ ،اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالوپھر دیکھو کہ تمھارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں آخر کہاں جارہے ہو؟ اور کیوں جارہے ہو؟  ابھی کل کی بات  ہے کہ جمنا کے کنارے تمھارےقافلوں نے وضوکیا تھا جامع مسجد کے مینار تمھیں پکار رہے ہیں "
اس ضعیف شخص نے سوچا کہ کہ یہ بوڑھا شخص اپنی عمر کے آخری پڑاؤمیں بڑی خوبصورت ودلنشیں باتیں کررہاہے مگر ان باتوں پر عمل شاید نہ کرسکے اپنا سفرجاری رکھا آگے بڑھے تو مہاتماگاندھی اپنی لاٹھی لئے کھڑےملے گاندھی جی نے کہا" ایسور اللہ تیرے نام سب کو سنمت دے بھگوان "
کہاں جارہے ہو رکو یہیں رہو،  اس ضعیف نےپھرکہا کہ جب تم اکیلے نہیں کھڑے ہو سکتے تو پھر میری حفاظت کیسے کروگے ؟
  ضعیف اپنے نحیف کاندھوں پر اپنی گٹھری لئے اگے بڑھے تو آگے جواہر لال نہرو بھارت کا آئین لئے ہوئے کھڑے تھے انھوں نے بھی کہا بابا کہاں جارہے ہو ضعیف نے بڑی افسردگی کے ساتھ وطن عزیز سے پیار کاجذبہ لئے کہا کہ اب یہاں نہیں رہ سکتے حالات بہت خراب ہیں نہرو جی نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا یہ آئین یہ قانون تمھاری حفاطت کرے گا تمھارادین ومذہب بھی محفوظ رہے گا تمھاری جان ومال عزت وآبرو کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا ، ضعیف نے پوچھا اس آئین میں کیا لکھا ہے نہرو جی نے کہا سیکولرزم، سوشلزم، ڈیمو کریسی.
  آپ کو حیرت ہو گی ضعیف نے وہیں اپنی گٹھری رکھ دی اور واپسی کا ارادہ کرلیا، جب تک آئین کی بالادستی قائم رہے گی جب تک جمہوریت کا بول بالارہےگا جب تک اس وطن عزیز میں سیکولرزم اور ڈیموکریسی برقرار رہےگی ہندوستان کی ترقی کوکوئی چاہ کربھی نہیں روک سکتا آپسی بھائی چارگی پیار ومحبت اسکی فضاؤں میں شامل رہے گا  اسکی گنگاجمنی تہذیب کے دشمن آپسی ہم آہنگی کے د شمن وحشت وبربریت کا ننگاناچ ناچنے والےاپنے ناپاک ارادوں میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے.
جمہوریت وگنگاجمنی تہذیب ہی اس ملک کی خوبصورتی اور اسکا حسن ہے اتنی قومیں ، اتنے مذاہب اور اس قدر تہذیبوں کا امتزاج کسی اور ملک کا حصہ نہیں ،جس طرح کسی گلستاں کا حسن اسکے مختلف، رنگارنگ اور متعددخوشبوؤں کے حامل پھول ہی ہوسکتے ہیں جو گلستاں کو مشک باربناسکتے ہیں اگر ایک ہی رنگ ونسل کے پھول ہوں تو اسکی خوبصورتی ختم ہوجاتی ہے بالکل اسی طرح وطن عزیزہندوستان ہے کہ اس گلستان رنگ وبو میں مختلف رنگ ونسل کی قومیں متعدد مذاہب وتہذیبوں کے حاملین آئین میں دیئے گئے حقوق کے مطابق آزادی کے ساتھ ملک کی تعمیر وترقی میں مختلف طرح کی خوشبوؤیں بکھیر رہی ہیں اور اسکے حسن مین چار چاند لگارہی ہیں
    اسی کی منظر کشی کرتے ہوئے اقبال سہیل نے ایک وقت کہاتھاکہ
         ـــــــــــــعـــــــــ
مل جل کے برنگ شیر وشکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر
  دریاؤں کے سنگم  سےبڑھ کرتہذ یبوں کاسنگم ہوتا ہے
ہندوستان تہذیبوں کے سنگم کی سرزمین ہےاور یہ اسوقت تک رہے گا جب تک کہ فسطائی طاقتیں اور انگرزوں کی غلامی ووفاداری کادم بھرنے والی قوتیں طاقت کے غرور میں 
   جمہوریت وآئین کو طاق نسیان نہ بنادیں گے
    اب اسوقت اگر وطن عزیز میں گذشتہ چند برسوں کے حالات واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا مشکل نہیں ہوگا کہ اب اس ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں رہ گئی یا صرف دکھاوے کی رہ گئی ہے جمہوریت کا تانا بانا کمزور کرکے ہندو راسٹرک. وبھگواکرن کیا جارہاہے حتی کہ مسلمان اب اپنے مذہبی آزادی پر خوف محسوس کرنے لگا  دلت اپنی بقا کی جنگ میں تقریبا کود پڑاہے
نہ ہی عیسائیوں کے اپنے عبادت خانے محفوظ ہیں
  ادھر چند برسوں میں کبھی گھر واپسی کے نام پر، تو کبھی گؤ رکھشاکے نام پر ،کبھی وندے ماتم کو لازمی کرکے، تو کبھی یوگا کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے پر جبر کیا جاتاہے ،خورد ونوش کے تعلق سے بھی آزادی پر پٹہ لگایاجاتا ہے.
  کبھی دادری کےاخلاق کو، کبھی الور کے عمر خان و پہلو خان کہین ہریانہ کے حافظ جنید کو اور کبھی راجستھان مین بنگال کے افراز الحق کو کبھی حیدرآباد کے روہت ویمولا کو موت کے گھاٹ اتار کراور کبھی جے این یو کے طالب علم نجیب کومارکر  جمہوریت وآئین کا مزاق اڑایا جاتا ہے.
  کبھی مک کی تاریخ وتہذیب کا حصہ رہنے والی تاریخی عمارتوں اور دیگر آثار قدیمہ کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کی تہذیبی شناخت رکھنے والے قدیم شہروں کے نام تبدیل کرکے ایک مخصوص مذہبی نمائندگی کرنے والے نام رکھے جاتے ہیں.
 آئین میں دی گئی آزادی کو بلائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے دین وایمان، اسکے مخصوص دینی امور کو جبرا تبدیل کیا جاتاہے کبھی طلاق،  تو کبھی بغیر محرم کے حج کرانے کی تجویز پاس کرکے مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے، کبھی مدرسوں کی ازادی پر قدغن اور کوئی اس کے نصاب ونظام تعلیم ردو بدلنے کی وکالت کرتاہے حتی کہ اتراکھنڈ کے مدرسوں میں مودی جی کی تصویر لگانے تک کافرمان جاری کر دیا جاتا ہے.
  یہی نہیں بلکہ دلتوں ، مظلوموں ،کسانوں کے حق کی لڑائی لڑنے والے ان کے حقوق کی آواز بلند کرنےوالے ملک کے ابھرتے ہوئے  نوجوان دلت رہنماؤں کو ڈرادھمکاکر ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے گجرات کے جگنیش میوانی، جے این یو کے کنہیاکمار اسکی تازہ مثال ہیں حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی اگر کوئی بولے تو اس پر حملہ کرادیاجاہے اور وہ ہمیشہ حکومت و بی جے پی کی رڈار پر ہوتا ہے.
  پریس و میڈیا کی آزادی کاحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، میڈیا کسی بھی ملک کی جمہوریت کے لئے ایک ستون ہے ملک کی تعمیر وترقی میں اس کا اہم رول ہوتاہے ملک کے مفاد کے خلاف ہونے والے ہرکام و ہر فیصلے پر آواز اٹھانا اس کا فرض ہوتا ہے لیکن اب میڈیا کی ازادی بھی خطرے میں ہے اب میڈیا وصحافی صرف حکومت کی منشاء کے مطابق بولتے ہیں ملک کا مفاد ان کے پیش نظر نہیں
  چند گنتی کے میڈیا اہل کار اور صحافی ہیں جو
 چپ رہنا ہے ظلم کی تائیدمیں شامل
حق بات کہو جراءت ایمان نہ بیچو
 کے حقیقی مصداق ہیں جو جراءت وہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری آزادی کے ساتھ بولتے ہیں تو انھیں طرح طرح کی دھمکیوں کا سامناکرنا پڑتا ہے.
  حتی کہ اب جب پانی سر سے اوپر آگیا تواب جب عدلیہ بھی آئینی و جمہوری اصولوں سے منحرف ہونے لگا تو سپریم کے کورٹ کے چار محترم ججو ں کو پریس کانفرنس کرکے ملک کی عوام کو آگاہ کرنا پڑا کہ اب عدلیہ بھی محفوظ نہیں تاکہ 20 سال بعد ملک کا دانشور طبقہ یہ نہ کہے کہ ہم نے اپنے ضمیر کو بیچ دیا تھا ،گویا اب جمہوریت کے مندر سے بھی خطرے کی گھنٹہ بج گئی اور اسطرح اب ملک کے ہر باشندے اور ہر سیکولر طبقہ کو آگاہی ہو گئی کہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ کو اب تک کے سب سےسنگین چیلنج و بحران کا سامنا ہے.
 بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ججوں کے ذریعہ کی گئی کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے بے باکی سےکہاتھا کہ " عدالتی نظام میں مرکزی حکومت کی مداخلت کہ وجہ سےعدالتی جمہوریت خطرے میں پڑگئی ہے "
   اور بی جے پی کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر یسونت سنہا نےبھی اسوقت کہاتھا کہ "پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ٹھیک سے کام نہیں کررہاہے کا سیدھامطلب ہے کہ ملک میں جمہوریت خطرے میں ہے "
  سیوسینا سربراہ اودھوٹھاکرے نے یہ بھی کہاتھا کہ "انصاف کے دیوتاکو گونگا بہرہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے "
12 جنوری 2018 بروز جمعہ کو سابق چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر نے لال بہادر ساستری کی برسی کے موقع پر یادگاری خطبہ دیتے ہوئے توبڑی بےباکی کے ساتھ صاف کہا تھاہے کہ "اس ملک میں مذہب کے نام پر جو کچھ ہورہاہے وہ ٹھیک نہیں ہے، ہندوتو کی سیاست ملک کے عالمی طاقت بننے کی راہ میں حائل ہے فرقہ پرستی کا راستہ اپناکر پوری دنیا میں اپنا لوہا نہیں منواسکتے اس کے لئے سیکولر بنناہوگا ملک کے قائدین نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی ملک کو سیکولر راہ پر ڈالا تھا "
سال گذشتہ سابق امریکی صدر براق اباما نے اپنے ہندوستان دورے کے آخر میں ہندوستان میں عیسائیوں چرچوں و اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی طرف اشارہ کوتے ہوئے کہہ گئے تھے. کہ ملک میں اقلیتیں محفوظ نہیں،اور  نائب صدرجمہوریہ اپنے الوداعی خطاب میں بھی اس خدشے کابرملا اظہار کیا تھا.
 سیاسی، سماجی ،عدالتی نظام کے حاملین کی آراءصرف اس لئے قلمبند کردیئے گئے تاکہ ملک کا ہر باسندہ خطرے سے آگاہ ہو کر اس کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس کے لئے تگ و دوکرے
 اور سوچے کہ
ہر دم آپس کا یہ جھگڑا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کل کیا ہوگا ملک کانقشہ
میں بھی سوچوں توبھی سوچ
 ترمیم کی معذرت کے ساتھ
آزادی سب کو مبارک ہو خداکرے یہ ملک صحیح معنوں آزاد و سیکولر رہ کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہو
اور ملک کے اندرونی دشمنوں سے ملک اور اسکی سلامتی کی حفاظت کرے
آمین