محمد مہتاب سیتامڑھی، مقیم مدینہ منورہ
( مدینہ طیبہ کے فضائل )
مدینہ منورہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کا بلند مقام و مرتبہ ہے ، مدینہ منورہ کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکن و مدفن ہے اسی پاک و مبارک سرزمین سے دین اسلام دنیا کے کونے کونے تک پھیلا ، اس شہر کو طیبہ اور طابہ ( یعنی پاکیزگی کا مرکز ) بھی کہتے ہیں ، اس میں اعمال کا ثواب کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری زبان مبارک سے مدینہ منورہ کے چند فضائل پیش خدمت ہیں ،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا ائے اللہ مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت سے بھی بڑھادے ، ( صحیح بخاری )
حضرت أنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یا اللہ مکہ کو تونے جتنی برکت عطا فرمائی ہے مدینہ کو اس سے دوگنی برکت عطا فرما ، (صحیح بخاری )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا جس نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آنے والی مشکلات و مصائب پر صبر کیا قیامت کے روز میں اس کا سفارش کرونگا یا فرمایا میں اس کی گواہی دوں گا (صحیح مسلم )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت کا جو بھی شخص مدینہ میں سختی و بھوک پر اور یہاں کی تکلیف و مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا (صحیح مسلم )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے نہ دجال داخل ہوسکتا ہے (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہے ( یعنی یہاں آکر موت ٹک قیام کرسکتا ہے) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہیئے کیونکہ میں اس شخص کیلئے سفارش کرونگا جو مدینہ منورہ میں مرے گا ( ترمزی )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ایمان ( قرب قیامت ) مدینہ میں سمٹ کر اس طرح واپس آجائے گا جس طرح سانپ کھوم پھر کر اپنے بل میں واپس آجاتا ہے (صحیح بخاری)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو بھی مدینہ کے رہنے والوں کے ساتھ مکر کرے گا وہ ایسا کھل جائے گا جیسا کہ پانی میں نمک کھل جاتا ہے ( یعنی اس کا وجود باقی نہ رہے گا ) (صحیح بخاری و مسلم )
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما فرما تے ہیں کہ ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا مدینہ بُرے لوگوں کو یوں الگ کردیتا ہے جس طرح آگ چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے ( صحیح مسلم )
( مسجد نبوی کی زیارت کے فضائل )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مساجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے ، مسجد نبوی ، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ (صحیح بخاری )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گُنا زیادہ ہے سواء مسجد حرام کے ، ( صحیح مسلم ) ابن ماجہ کی روایت میں پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا ذکر ہے جس خلوص و للٰھیت کے ساتھ نماز پڑھی جائے گی اسی کے مطابق اجر و ثواب ملے گا ، انشاءاللہ
حضرت أنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جس شخص میری اس ( مسجد نبوی ) فوت کئے بغیر مسلسل چالیس نمازیں ادا کیں اس کیلئے آگ سے براءت عذاب سے نجات اور نفاق سے براءت لکھی گئ ، بعض علماء نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محدثین و علماء نے صحیح قرار دیا ہے ، لہذا مدینہ منورہ کے قیام کے دوران تمام نمازیں مسجد نبوی میں ہی پڑھنے کی کوشش کریں کیونکہ ایک نماز کا ثواب ہزار گنا یا ابن ماجہ کی روایت کے مطابق پچاس ہزار گنا زیادہ ہے ، نیز حدیث میں یہ مذکور فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی انشاءاللہ
( وضاحت )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت اور آپ کی قبر اطہر پر جاکر سلام پڑھنا نہ حج کے واجبات میں سے ہے نہ مستحبات میں سے ، بلکہ مسجد نبوی کی زیارت اور وہاں پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر درود و سلام پڑھنا ہر وقت مستحب ہے اور بڑی خوش نصیبی ہے بلکہ بعض علماء نے اہل و سعت کیلئے واجب کے قریب لکھا ہے ،
( قبر اطہر کی زیارت کے فضائل )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص میری قبر کے پاس کھڑے ہو کر مجھ پر درود و سلام پڑھتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جو کسی اور جگہ سے درود پڑھتا ہے تو اس کی دنیا و آخرت کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں ، اور میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور سفارشی ہوں گا ، ( بیہقی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام پڑھے تو اللہ تعالیٰ مجھ تک پہونچا دیتے ہیں میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ( مسند احمد ، ابو داؤد )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص میری قبر کی زیارت کی اس کیلئے میری شفاعت واجب ہوگئ ، ( دارقطنی )
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص میری زیارت کو آئے اور اس کے سوا کوئی اور نیت اس کی نہ ہو تو مجھ پر حق ہوگیا کہ میں اس شفاعت کروں ، ( طبرانی )
حضرت أنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جس نے مدینہ آکر ثواب کی نیت سے میری قبر کی زیارت کی وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور میں قیامت کے دن اس سفارشی ہوگا ،( بیہقی )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا یا اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا ( مسند احمد )
(سفر مدینہ منورہ )
مدینہ منورہ کے پورے سفر کے دوران کثرت سے درود شریف پڑھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ائے ایمان والوں تم بھی درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو ، سورہ احزاب ، اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ارشاد فر مایا جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کیلئے دس نیکیاں لکھ دیاجاتا ہے ( ترمزی )
(مسجد نبوی میں حاضری )
شہر میں داخل ہونے کے بعد سامان و غیرہ اپنی رہائش گاہ پر رکھ کر غسل یا وضو کرکے مسجد نبوی کی طرف صاف ستھرا لباس پہن کر ادب و احترام کے ساتھ روانہ ہوں دایاں قدم اندر داخل کرکے دخول مسجد کی دعا پڑھتے ہوئے مسجد نبوی شریف میں داخل ہوجائیں مسجد نبوی میں داخل ہو کر سب سے پہلے اس حصہ میں آئے جو حجرہ مبارکہ اور منبر کے درمیان ہے جس کے متعلق خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ، یہ حصہ جنت کی کیاریوں میں ایک کیاری ہے اور دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھیں اگر اس حصہ میں جگہ نہ مل سکے تو جس جگہ چاہیں دو رکعت پڑھ لیں اگر فرض نماز شروع ہوگئی ہے تو پھر جماعت میں شریک ہوجائیں ،
( درود و سلام پڑھنا )
دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بڑے ادب و احترام کے ساتھ حجرہ مبارکہ ( جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں ) کی طرف چلیں جب آپ دوسری جالی کے سامنے پہونچ جائیں تو آپ کو تین سوراخ نظر آئیں گے ، پہلے اور بڑے گولائی والے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر آپ کے سامنے ہے ، لہذا جالیوں کی طرف رخ کرکے ادب سے کھڑے ہوجائیں نظریں نیچی رکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلال کا لحاظ کرتے ہوئے سلام پڑھیں ،،،،
الصلوۃ و السلام علیک یا رسول اللہ ،
آلصلوٰۃ و السلام علیک یا نبی اللہ ،
الصلوۃ و السلام علیک یا حبیب اللہ ،
الصلوۃ و السلام علیک یا خیر خلق اللہ ،
الصلوۃ و السلام علیک یا سید المرسلین ،
الصلوۃ و السلام علیک یا خاتم النبین ،
نماز میں جو درود شریف پڑھا جاتا ہے وہ بھی پڑھ سکتے ہیں ، اس کے بعد جالیوں میں دوسرا سوراخ اس کے سامنے کھڑے ہو کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس طرح سلام عرض کریں ،
السلام علیک یا ابا بکر صدیق رضی ،
السلام علیک یا خلیفۃ رسول اللہ ،
السلام علیک یا صاحب رسول اللہ فی الغار ،
السلام علیک یا اوّل الخلفاء ،
پھر اس کے بعد تیسرے گول سوراخ کے سامنے کھڑے ہو کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس طرح سلام عرض کریں ،
السلام علیک یا عمر بن الخطاب ،
السلام علیک یا أمیر المؤمنین ،
السلام علیک یا ثانی الخلفاء السلام علیک یا شھید المحراب ،
( وضاحت )
بس اسی کو سلام کہتے ہیں جب بھی سلام عرض کرنا ہو اسی طرح عرض کریں ،
( اھم ہدایت )
بعض اوقات ازدھام کی وجہ سے حجرہ مبارکہ کے سامنے ایک منٹ بھی کھڑے ہونے کا موقع نہیں ملتا ، سلام پیش کرنے والوں کو بس حجرہ مبارکہ کے سامنے سے بس یونہی گزار دیا جاتا ہے ، لہذا جب ایسی صورت ہو اور آپ لائن میں کھڑے ہو تو انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ دورد شریف پڑھتے رہیں اور حجرہ مبارکہ کے سامنے پہونچ کر دوسری جالی میں بڑے سوراخ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلتے چلتے مختصر درود و سلام پڑھیں ، پھر دوسرے اور تیسرے سوراخوں کے سامنے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں چلتے چلتے سلام عرض کریں ،
( ریاض الجنۃ )
قدیم مسجد نبوی میں منبر اور روضہ اقدس کے درمیان جو جگہ ہے وہ ریاض الجنۃ کہلاتی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے ، ریاض الجنۃ کی شناخت کیلئے یہاں سفید رنگ کا سنگ مرمر کے ستون ہیں ، ان ستونوں کو اسطوانہ کہتے ہیں ، ان ستونوں پر ان کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں ریاض الجنۃ کے پورے حصہ میں جہاں سفید اور ہری قالینوں کا فرش ہے نمازیں ادا کرنا بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے ، نیز قبولیت دعا کیلئے بھی یہ خاص مقام ہے ،
( اصحاب صفہ کا چبوترہ )
مسجد نبوی میں حجرہ مبارکہ کے پیچھے ایک چبوترہ بنا ہوا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قیام فرماتے تھے جن کا نہ گھر تھا نہ در ، جو دن رات ذکر و تلاوت کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسی درسگاہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں اصحاب صفہ کی تعداد کم اور زیادہ ہوتی رہتی تھی ، کبھی کبھی 80 تک پہنچ جاتی تھی ، سورہ الکہف کی آیت نمبر 28 انہیں اصحاب صفہ کے حق میں نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا ، اگر آپ کو موقع مل جائے تو یہاں بھی نوافل پڑھیں ذکر و تلاوت کریں اور دعائیں کریں ،
( جنت البقیع )
یہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے جو مسجد نبوی کے بہت تھوڑے فاصلے پر واقع ہے اس میں بے شمار صحابہ کرام اولیاء اللہ مدفون ہیں ، مدینہ کے قیام کے زمانے میں یہاں بھی حاضری دیتے رہیں اور ان کیلئے اور آپ اپنے لئے اللہ تعالیٰ مغفرت و رحمت اور درجات کی بلندی کیلئے دعائیں کرتے رہیں ،
( جبل احد )
مسجد نبوی سے تقریباً 4 / 5 کیلوں میٹر کے فاصلہ پر یہ مقدس پہاڑ واقع ہے جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ، ھذاجبل یحبنا و نحبہ ، احد کا پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم احد سے محبت رکھتے ہیں ( صحیح بخاری و مسلم )
اسی پہاڑ کے دامن میں سنہ3ھ میں جنگ احد ہوئی جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت زخمی ہوئے اور تقریباً 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تھے ، یہ سب شہداء اسی جگہ مدفون ہیں جس کا احاطہ کردیا گیا ہے ، اسی احاطہ کے بیچ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ ، حضرت عبد اللہ بن حبش اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہم مدفون ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے یہاں تشریف لے جاتے اور شہداء کو سلام و دعاء سے نواز تے تھے ، لہذا آپ بھی مدینہ منورہ کے قیام کے دوران کبھی کبھی تشریف لے جائیں ،
( مسجد قباء )
مسجد نبوی کے علاوہ مدینہ طیبہ میں کئی مساجد ہیں جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے نماز پڑھی ہے ، ان کی زیارت کیلئے جانے میں کوئی حرج نہیں
البتہ ان مساجد میں صرف مسجد قباء کی زیارت کرنا مسنون ہے ، باقی مساجد کی حیثیت صرف تاریخی ہے مسجد قباء مسجد نبوی سے تقریباً 4 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے مسلمانوں کی یہ سب سے پہلی مسجد ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ المکرمہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بن عوف کے پاس قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ساتھ خود اپنے دستِ مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی اس مسجد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، لمسجد اسس علی التقویٰ ، یعنی وہ مسجد جس کی بنیاد اخلاص و تقویٰ پر رکھی گئی ہے ، مسجد حرام مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد مسجد قباء دنیا بھر کی تمام مساجد میں سب سے افضل ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سوار ہوکر کبھی پیدل چل کر مسجد قباء تشریف لایا کرتے تھے ( صحیح مسلم )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص گھر سے نکلے اور اس مسجد یعنی مسجد قباء میں آکر دو رکعت نماز پڑھیں تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا ،
(مدینہ طیبہ کے قیام کے دوران کیا کریں )
جب تک مدینہ منورہ میں قیام ہے اس کو بہت غنیمت جانیں ، اور جہاں تک ہوسکے اپنے اوقات کو عبادت میں لگا نے کی کوشش کریں ، زیادہ وقت مسجد نبوی میں گزاریں کیونکہ معلوم نہیں کہ یہ موقع دوبارہ میسر ہو یا نہ ہو ، پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کریں کیونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار یا پچاس ہزار گُنا زیادہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوکر کثرت سے درود و سلام پڑھیں ریاض الجنۃ ( جنت کا باغیچہ ) میں جتنا موقع ملے نوافل پڑھتے رہیں اور دعائیں کرتے رہیں محراب النبی اور خاص ستونوں کے پاس بھی نفل نمازیں اور دعاؤں کا سلسلہ رکھیں ، فجر یا عصر کی نماز سے فراغت کے بعد جنت البقیع چلے جایا کریں کبھی کبھی سہولت ہوتو مسجد قباء جاکر دو رکعت نماز پڑھ آیا کریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں ، تمام گناہوں سے خصوصاً فضول باتیں اور لڑائی جگھڑے سے بلکل بچیں ، خرید و فروخت میں اپنا زیادہ وقت ضائع نہ کریں ، کیونکہ معلوم نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک شہر میں دو بارہ آنے کی سعادت زندگی میں کبھی ملے یا نہیں ،،،
( مدینۃ الرسول سے واپسی )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر ( مدینہ منورہ ) سے واپسی پر یقیناً آپ کا دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہوں گے مگر دل غمگین کو تسلی دیں بلکہ جسمانی دوری کے باوجود ہزاروں میل سے بھی ہمارا درود و سلام اللہ کے فرشتوں کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچا کرے گا ، اس مبارک سفر سے واپسی پر اس بات کا عزم کریں کہ زندگی کے جتنے دن باقی ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کریں گے ، بلکہ اپنے مولا کو راضی اور خوش رکھیں گے ، نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہی اپنی زندگی کے باقی ایام گُزاریں گے اور اللہ تعالیٰ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہونچانے ک ہر ممکن کوشش کریں گے.
( مدینہ طیبہ کے فضائل )
مدینہ منورہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کا بلند مقام و مرتبہ ہے ، مدینہ منورہ کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکن و مدفن ہے اسی پاک و مبارک سرزمین سے دین اسلام دنیا کے کونے کونے تک پھیلا ، اس شہر کو طیبہ اور طابہ ( یعنی پاکیزگی کا مرکز ) بھی کہتے ہیں ، اس میں اعمال کا ثواب کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری زبان مبارک سے مدینہ منورہ کے چند فضائل پیش خدمت ہیں ،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا ائے اللہ مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت سے بھی بڑھادے ، ( صحیح بخاری )
حضرت أنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یا اللہ مکہ کو تونے جتنی برکت عطا فرمائی ہے مدینہ کو اس سے دوگنی برکت عطا فرما ، (صحیح بخاری )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا جس نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آنے والی مشکلات و مصائب پر صبر کیا قیامت کے روز میں اس کا سفارش کرونگا یا فرمایا میں اس کی گواہی دوں گا (صحیح مسلم )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت کا جو بھی شخص مدینہ میں سختی و بھوک پر اور یہاں کی تکلیف و مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا (صحیح مسلم )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے نہ دجال داخل ہوسکتا ہے (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہے ( یعنی یہاں آکر موت ٹک قیام کرسکتا ہے) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہیئے کیونکہ میں اس شخص کیلئے سفارش کرونگا جو مدینہ منورہ میں مرے گا ( ترمزی )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ایمان ( قرب قیامت ) مدینہ میں سمٹ کر اس طرح واپس آجائے گا جس طرح سانپ کھوم پھر کر اپنے بل میں واپس آجاتا ہے (صحیح بخاری)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو بھی مدینہ کے رہنے والوں کے ساتھ مکر کرے گا وہ ایسا کھل جائے گا جیسا کہ پانی میں نمک کھل جاتا ہے ( یعنی اس کا وجود باقی نہ رہے گا ) (صحیح بخاری و مسلم )
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما فرما تے ہیں کہ ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا مدینہ بُرے لوگوں کو یوں الگ کردیتا ہے جس طرح آگ چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے ( صحیح مسلم )
( مسجد نبوی کی زیارت کے فضائل )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مساجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے ، مسجد نبوی ، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ (صحیح بخاری )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گُنا زیادہ ہے سواء مسجد حرام کے ، ( صحیح مسلم ) ابن ماجہ کی روایت میں پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا ذکر ہے جس خلوص و للٰھیت کے ساتھ نماز پڑھی جائے گی اسی کے مطابق اجر و ثواب ملے گا ، انشاءاللہ
حضرت أنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جس شخص میری اس ( مسجد نبوی ) فوت کئے بغیر مسلسل چالیس نمازیں ادا کیں اس کیلئے آگ سے براءت عذاب سے نجات اور نفاق سے براءت لکھی گئ ، بعض علماء نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محدثین و علماء نے صحیح قرار دیا ہے ، لہذا مدینہ منورہ کے قیام کے دوران تمام نمازیں مسجد نبوی میں ہی پڑھنے کی کوشش کریں کیونکہ ایک نماز کا ثواب ہزار گنا یا ابن ماجہ کی روایت کے مطابق پچاس ہزار گنا زیادہ ہے ، نیز حدیث میں یہ مذکور فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی انشاءاللہ
( وضاحت )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت اور آپ کی قبر اطہر پر جاکر سلام پڑھنا نہ حج کے واجبات میں سے ہے نہ مستحبات میں سے ، بلکہ مسجد نبوی کی زیارت اور وہاں پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر درود و سلام پڑھنا ہر وقت مستحب ہے اور بڑی خوش نصیبی ہے بلکہ بعض علماء نے اہل و سعت کیلئے واجب کے قریب لکھا ہے ،
( قبر اطہر کی زیارت کے فضائل )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص میری قبر کے پاس کھڑے ہو کر مجھ پر درود و سلام پڑھتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جو کسی اور جگہ سے درود پڑھتا ہے تو اس کی دنیا و آخرت کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں ، اور میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور سفارشی ہوں گا ، ( بیہقی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام پڑھے تو اللہ تعالیٰ مجھ تک پہونچا دیتے ہیں میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ( مسند احمد ، ابو داؤد )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص میری قبر کی زیارت کی اس کیلئے میری شفاعت واجب ہوگئ ، ( دارقطنی )
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو شخص میری زیارت کو آئے اور اس کے سوا کوئی اور نیت اس کی نہ ہو تو مجھ پر حق ہوگیا کہ میں اس شفاعت کروں ، ( طبرانی )
حضرت أنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جس نے مدینہ آکر ثواب کی نیت سے میری قبر کی زیارت کی وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور میں قیامت کے دن اس سفارشی ہوگا ،( بیہقی )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا یا اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا ( مسند احمد )
(سفر مدینہ منورہ )
مدینہ منورہ کے پورے سفر کے دوران کثرت سے درود شریف پڑھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ائے ایمان والوں تم بھی درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو ، سورہ احزاب ، اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ارشاد فر مایا جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کیلئے دس نیکیاں لکھ دیاجاتا ہے ( ترمزی )
(مسجد نبوی میں حاضری )
شہر میں داخل ہونے کے بعد سامان و غیرہ اپنی رہائش گاہ پر رکھ کر غسل یا وضو کرکے مسجد نبوی کی طرف صاف ستھرا لباس پہن کر ادب و احترام کے ساتھ روانہ ہوں دایاں قدم اندر داخل کرکے دخول مسجد کی دعا پڑھتے ہوئے مسجد نبوی شریف میں داخل ہوجائیں مسجد نبوی میں داخل ہو کر سب سے پہلے اس حصہ میں آئے جو حجرہ مبارکہ اور منبر کے درمیان ہے جس کے متعلق خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ، یہ حصہ جنت کی کیاریوں میں ایک کیاری ہے اور دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھیں اگر اس حصہ میں جگہ نہ مل سکے تو جس جگہ چاہیں دو رکعت پڑھ لیں اگر فرض نماز شروع ہوگئی ہے تو پھر جماعت میں شریک ہوجائیں ،
( درود و سلام پڑھنا )
دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بڑے ادب و احترام کے ساتھ حجرہ مبارکہ ( جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں ) کی طرف چلیں جب آپ دوسری جالی کے سامنے پہونچ جائیں تو آپ کو تین سوراخ نظر آئیں گے ، پہلے اور بڑے گولائی والے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر آپ کے سامنے ہے ، لہذا جالیوں کی طرف رخ کرکے ادب سے کھڑے ہوجائیں نظریں نیچی رکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلال کا لحاظ کرتے ہوئے سلام پڑھیں ،،،،
الصلوۃ و السلام علیک یا رسول اللہ ،
آلصلوٰۃ و السلام علیک یا نبی اللہ ،
الصلوۃ و السلام علیک یا حبیب اللہ ،
الصلوۃ و السلام علیک یا خیر خلق اللہ ،
الصلوۃ و السلام علیک یا سید المرسلین ،
الصلوۃ و السلام علیک یا خاتم النبین ،
نماز میں جو درود شریف پڑھا جاتا ہے وہ بھی پڑھ سکتے ہیں ، اس کے بعد جالیوں میں دوسرا سوراخ اس کے سامنے کھڑے ہو کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس طرح سلام عرض کریں ،
السلام علیک یا ابا بکر صدیق رضی ،
السلام علیک یا خلیفۃ رسول اللہ ،
السلام علیک یا صاحب رسول اللہ فی الغار ،
السلام علیک یا اوّل الخلفاء ،
پھر اس کے بعد تیسرے گول سوراخ کے سامنے کھڑے ہو کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس طرح سلام عرض کریں ،
السلام علیک یا عمر بن الخطاب ،
السلام علیک یا أمیر المؤمنین ،
السلام علیک یا ثانی الخلفاء السلام علیک یا شھید المحراب ،
( وضاحت )
بس اسی کو سلام کہتے ہیں جب بھی سلام عرض کرنا ہو اسی طرح عرض کریں ،
( اھم ہدایت )
بعض اوقات ازدھام کی وجہ سے حجرہ مبارکہ کے سامنے ایک منٹ بھی کھڑے ہونے کا موقع نہیں ملتا ، سلام پیش کرنے والوں کو بس حجرہ مبارکہ کے سامنے سے بس یونہی گزار دیا جاتا ہے ، لہذا جب ایسی صورت ہو اور آپ لائن میں کھڑے ہو تو انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ دورد شریف پڑھتے رہیں اور حجرہ مبارکہ کے سامنے پہونچ کر دوسری جالی میں بڑے سوراخ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلتے چلتے مختصر درود و سلام پڑھیں ، پھر دوسرے اور تیسرے سوراخوں کے سامنے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں چلتے چلتے سلام عرض کریں ،
( ریاض الجنۃ )
قدیم مسجد نبوی میں منبر اور روضہ اقدس کے درمیان جو جگہ ہے وہ ریاض الجنۃ کہلاتی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے ، ریاض الجنۃ کی شناخت کیلئے یہاں سفید رنگ کا سنگ مرمر کے ستون ہیں ، ان ستونوں کو اسطوانہ کہتے ہیں ، ان ستونوں پر ان کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں ریاض الجنۃ کے پورے حصہ میں جہاں سفید اور ہری قالینوں کا فرش ہے نمازیں ادا کرنا بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے ، نیز قبولیت دعا کیلئے بھی یہ خاص مقام ہے ،
( اصحاب صفہ کا چبوترہ )
مسجد نبوی میں حجرہ مبارکہ کے پیچھے ایک چبوترہ بنا ہوا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قیام فرماتے تھے جن کا نہ گھر تھا نہ در ، جو دن رات ذکر و تلاوت کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسی درسگاہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں اصحاب صفہ کی تعداد کم اور زیادہ ہوتی رہتی تھی ، کبھی کبھی 80 تک پہنچ جاتی تھی ، سورہ الکہف کی آیت نمبر 28 انہیں اصحاب صفہ کے حق میں نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا ، اگر آپ کو موقع مل جائے تو یہاں بھی نوافل پڑھیں ذکر و تلاوت کریں اور دعائیں کریں ،
( جنت البقیع )
یہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے جو مسجد نبوی کے بہت تھوڑے فاصلے پر واقع ہے اس میں بے شمار صحابہ کرام اولیاء اللہ مدفون ہیں ، مدینہ کے قیام کے زمانے میں یہاں بھی حاضری دیتے رہیں اور ان کیلئے اور آپ اپنے لئے اللہ تعالیٰ مغفرت و رحمت اور درجات کی بلندی کیلئے دعائیں کرتے رہیں ،
( جبل احد )
مسجد نبوی سے تقریباً 4 / 5 کیلوں میٹر کے فاصلہ پر یہ مقدس پہاڑ واقع ہے جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ، ھذاجبل یحبنا و نحبہ ، احد کا پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم احد سے محبت رکھتے ہیں ( صحیح بخاری و مسلم )
اسی پہاڑ کے دامن میں سنہ3ھ میں جنگ احد ہوئی جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت زخمی ہوئے اور تقریباً 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تھے ، یہ سب شہداء اسی جگہ مدفون ہیں جس کا احاطہ کردیا گیا ہے ، اسی احاطہ کے بیچ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ ، حضرت عبد اللہ بن حبش اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہم مدفون ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے یہاں تشریف لے جاتے اور شہداء کو سلام و دعاء سے نواز تے تھے ، لہذا آپ بھی مدینہ منورہ کے قیام کے دوران کبھی کبھی تشریف لے جائیں ،
( مسجد قباء )
مسجد نبوی کے علاوہ مدینہ طیبہ میں کئی مساجد ہیں جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے نماز پڑھی ہے ، ان کی زیارت کیلئے جانے میں کوئی حرج نہیں
البتہ ان مساجد میں صرف مسجد قباء کی زیارت کرنا مسنون ہے ، باقی مساجد کی حیثیت صرف تاریخی ہے مسجد قباء مسجد نبوی سے تقریباً 4 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے مسلمانوں کی یہ سب سے پہلی مسجد ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ المکرمہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بن عوف کے پاس قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ساتھ خود اپنے دستِ مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی اس مسجد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، لمسجد اسس علی التقویٰ ، یعنی وہ مسجد جس کی بنیاد اخلاص و تقویٰ پر رکھی گئی ہے ، مسجد حرام مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد مسجد قباء دنیا بھر کی تمام مساجد میں سب سے افضل ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سوار ہوکر کبھی پیدل چل کر مسجد قباء تشریف لایا کرتے تھے ( صحیح مسلم )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص گھر سے نکلے اور اس مسجد یعنی مسجد قباء میں آکر دو رکعت نماز پڑھیں تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا ،
(مدینہ طیبہ کے قیام کے دوران کیا کریں )
جب تک مدینہ منورہ میں قیام ہے اس کو بہت غنیمت جانیں ، اور جہاں تک ہوسکے اپنے اوقات کو عبادت میں لگا نے کی کوشش کریں ، زیادہ وقت مسجد نبوی میں گزاریں کیونکہ معلوم نہیں کہ یہ موقع دوبارہ میسر ہو یا نہ ہو ، پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کریں کیونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار یا پچاس ہزار گُنا زیادہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوکر کثرت سے درود و سلام پڑھیں ریاض الجنۃ ( جنت کا باغیچہ ) میں جتنا موقع ملے نوافل پڑھتے رہیں اور دعائیں کرتے رہیں محراب النبی اور خاص ستونوں کے پاس بھی نفل نمازیں اور دعاؤں کا سلسلہ رکھیں ، فجر یا عصر کی نماز سے فراغت کے بعد جنت البقیع چلے جایا کریں کبھی کبھی سہولت ہوتو مسجد قباء جاکر دو رکعت نماز پڑھ آیا کریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں ، تمام گناہوں سے خصوصاً فضول باتیں اور لڑائی جگھڑے سے بلکل بچیں ، خرید و فروخت میں اپنا زیادہ وقت ضائع نہ کریں ، کیونکہ معلوم نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک شہر میں دو بارہ آنے کی سعادت زندگی میں کبھی ملے یا نہیں ،،،
( مدینۃ الرسول سے واپسی )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر ( مدینہ منورہ ) سے واپسی پر یقیناً آپ کا دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہوں گے مگر دل غمگین کو تسلی دیں بلکہ جسمانی دوری کے باوجود ہزاروں میل سے بھی ہمارا درود و سلام اللہ کے فرشتوں کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچا کرے گا ، اس مبارک سفر سے واپسی پر اس بات کا عزم کریں کہ زندگی کے جتنے دن باقی ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کریں گے ، بلکہ اپنے مولا کو راضی اور خوش رکھیں گے ، نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہی اپنی زندگی کے باقی ایام گُزاریں گے اور اللہ تعالیٰ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہونچانے ک ہر ممکن کوشش کریں گے.