مظفرپور(آئی این اے نیوز 17/اگست 2018) مدرسہ بحرالعلوم بلیا مظفرپور میں یوم آزادی کے پر وقار موقع سے رنگا رنگ پروگرام کا انعقاد کیا گیا، پروگرام کا باضابطہ آغاز مدرسہ ھذا کے طالب علم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعت پاک کا گلدستہ عزیزی رضوان عالم نے پیش کیا، نیز مدرسہ ھذا کے دو طالب علم عزیزی ناز احمد، اعجاز احمد نے قومی و ملی گیت بڑے خوبصورت اور منفرد انداز میں پڑھا، قومی ترانہ کے بعد قومی پرچم کو سلامی دی گئی، اس موقع پر پرچم کشائی کی کاروائی مدرسہ کے سکریٹری جناب تجمل حسین ,مدرسہ کے مہتمم حافظ عبدالسلام نے ادا کی.
حافظ عبدالسلام صاحب نے ان شہدائے کرام کو جنہوں نے اپنے جان کا نذرانہ پیش کرکے اس ملک کو گوری چمڑے والے انگریز سے آزاد کرایا ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ علماء دیوبند سمیت مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا، مولانا شمشیر صاحب نے علمائے دیوبند کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ آج انہیں مدارس اسلامیہ کی وجہ سے دین زندہ ہے اگر یہ مدارس زندہ نہ ہوتے تو اسلام کب کا مرچکا ہوتا، ضروت اس بات کی ہے کہ ان مدارس اسلامیہ کو مستحکم بنایا جائے کیونکہ دین کی بقاء انہیں مدارس اسلامیہ سے ہے.
مولانا عبدالخالق القاسمی مدرسہ طیبہ منت نگر مادھوپور نے کہا کہ ملک کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں جہاں ہمارے مسلم بھائیوں نے حصہ لیا وہیں غیر مسلم بھائیوں نے بھی اہم رول ادا کیا، تب جاکر ہمارا یہ ملک آزاد ہوا، مولانا نے مزید کہا کہ یہ دن ہمارے لئے خوشی و مسرت کا دن ہے آج کے دن اس ملک میں تمام مذاہب کے لوگ بلا تفریق مذہب و ملت پورے جوش و جذبہ کے ساتھ اس قومی تہوار کو مناتے ہیں، یہ قومی تہوار ملک میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو اتحاد و اتفاق کا پیغام دیتا ہے، اتحاد و اتفاق جیسی عظیم قوت سے ہی فرقہ پرست طاقت کو زیر کیا جاسکتا، مولانا نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ دور مسلمانوں کے لئے ابتلا و آزمائش کا دور ہے، ایسے موقع پر ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے، کچھ فرقہ پرست لوگ مسلمانوں کو برادریوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگ مسلمانوں کے اتحاد اتفاق کے دشمن ہیں ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.
جشن آزادی کے اس پر وقار تقریب میں مدرسہ بحرالعلوم بلیا کے طلباء و طالبات نے رنگا رنگ حب الوطنی پر موقف پروگرام پیش کیا، حاضرین نے اس پروگرام کو سن کر اساتذہ کی محنت کو سراہتے ہوئے حافظ عبدالسلام صاحب کو مبارکبادی پیش کی، حافظ عبداللہ نے آخر میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.
اس موقع پر محمد اظہار بلیا، محمد تجمل حسین، مہتاب عالم، وصی عالم، رضی اللہ، حافظ ظفر امام پچنور، محمد ارشد کے علاوہ بڑی تعداد میں گاؤں کے سرکردہ لوگ موجود تھے.
حافظ عبدالسلام صاحب نے ان شہدائے کرام کو جنہوں نے اپنے جان کا نذرانہ پیش کرکے اس ملک کو گوری چمڑے والے انگریز سے آزاد کرایا ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ علماء دیوبند سمیت مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا، مولانا شمشیر صاحب نے علمائے دیوبند کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ آج انہیں مدارس اسلامیہ کی وجہ سے دین زندہ ہے اگر یہ مدارس زندہ نہ ہوتے تو اسلام کب کا مرچکا ہوتا، ضروت اس بات کی ہے کہ ان مدارس اسلامیہ کو مستحکم بنایا جائے کیونکہ دین کی بقاء انہیں مدارس اسلامیہ سے ہے.
مولانا عبدالخالق القاسمی مدرسہ طیبہ منت نگر مادھوپور نے کہا کہ ملک کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں جہاں ہمارے مسلم بھائیوں نے حصہ لیا وہیں غیر مسلم بھائیوں نے بھی اہم رول ادا کیا، تب جاکر ہمارا یہ ملک آزاد ہوا، مولانا نے مزید کہا کہ یہ دن ہمارے لئے خوشی و مسرت کا دن ہے آج کے دن اس ملک میں تمام مذاہب کے لوگ بلا تفریق مذہب و ملت پورے جوش و جذبہ کے ساتھ اس قومی تہوار کو مناتے ہیں، یہ قومی تہوار ملک میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو اتحاد و اتفاق کا پیغام دیتا ہے، اتحاد و اتفاق جیسی عظیم قوت سے ہی فرقہ پرست طاقت کو زیر کیا جاسکتا، مولانا نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ دور مسلمانوں کے لئے ابتلا و آزمائش کا دور ہے، ایسے موقع پر ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے، کچھ فرقہ پرست لوگ مسلمانوں کو برادریوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگ مسلمانوں کے اتحاد اتفاق کے دشمن ہیں ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.
جشن آزادی کے اس پر وقار تقریب میں مدرسہ بحرالعلوم بلیا کے طلباء و طالبات نے رنگا رنگ حب الوطنی پر موقف پروگرام پیش کیا، حاضرین نے اس پروگرام کو سن کر اساتذہ کی محنت کو سراہتے ہوئے حافظ عبدالسلام صاحب کو مبارکبادی پیش کی، حافظ عبداللہ نے آخر میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.
اس موقع پر محمد اظہار بلیا، محمد تجمل حسین، مہتاب عالم، وصی عالم، رضی اللہ، حافظ ظفر امام پچنور، محمد ارشد کے علاوہ بڑی تعداد میں گاؤں کے سرکردہ لوگ موجود تھے.