اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: نئی نسل کا ابھرتا ہوا شاعر و صحافی "شرف الدین ساحل تیمی"

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 10 September 2018

نئی نسل کا ابھرتا ہوا شاعر و صحافی "شرف الدین ساحل تیمی"

میر ساحل تیمی
استاد:مدرسہ سلفیہ، نرکٹیا، روتہٹ نیپال
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
سر زمین مدھوبنی ہمیشہ سے علماء، ادباء اور شعراء کا گہوارہ رہا ہے. یہ ضلع اپنی گوناگوں خصوصیات وامتیازات کی بنیاد پر ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی اپنی ایک شناخت رکھتا ہے. سر زمین مدھوبنی اپنے دامن میں ایسے ایسے قصبہ اور شہر کو سمویے ہوئی ہے جہاں علماء، ادباء اور شعراء کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہیں. اسی ضلع کے دامن میں ایک چھوٹی مگر علمی وادبی بستی بھی ہے جسے لوگ تیلیاپوکھر کے نام سے جانتے ہیں جہاں تقریبا پچاس سے زائد حفاظ کرام اور چالیس سے زاید سند یافتہ علماء کرام کی ایک مؤقر جماعت پائ جاتی ہے،میں ان سبھوں کو نہیں جانتا لیکن جس شخص کے شب و روز کو کئ سالوں تک بہت قریب سے دیکھا ہے اور فراغت کے بعد مسلسل جن کی تحریروں، غزلوں اور نظموں کو پڑھ رہا ہوں وہ نوخیز، بے باک، حق گو، سچائ کا علمبردار صحافئ شاعر شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی حفظہ اللہ
کی ذات گرامی ہے، موصوف کی پیدائش :٢٨-١١-١٩٩٥ کو بہار کے مشہور و معروف ضلع مدهوبنی کی ایک علمی وادبی بستی"تیلیاپوکھر" میں ہوئی، صغر سنی ہی میں والد محترم کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا پھر بھی ماں کی ممتا اور بڑے بھائی کلیم الدین اسلامی کی جہد مسلسل اور عمل پیہم نے انہیں دینی علوم کو حاصل کرنے اور اس کی  طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا. ابتدائی تعلیم تا حفظ قرآن کریم گاؤں کے مکتب مدرسہ نعمانیہ سے مکمل کیا، بعد ازاں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے بہار کی معروف علمی وادبی دانشگاہ جامعہ امام ابن تیمیہ تشریف لے گیے جہاں دس سالہ تعلیمی سفر کو مکمل کر 17-2016 میں سند فراغت حاصل کی.
قارئین کرام!
ایسا بے باک اور نوخیز صحافی جس نے اپنی کم عمری کے باوجود جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے اس کی مثال ہمیں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، موصوف کو زمانہ طالب علمی ہی سے نثر نگاری میں بڑی دلچسپی تھی جس کی جھلک روزنامہ قومی تنظيم،انقلاب اور لازوال ادب جموں کشمیر کے علاوہ دیگر نیوز پورٹلوں پر دیکھنے کو ملتی تھی. فراغت کے بعد بھی موصوف نے اپنے اس مشن کو جاری وساری رکھا اور بڑی جرات اور بے باکی کے ساتھ قوم وملت کے دکھ درد کی ترجمانی کبھی نثر تو کبھی نظم کی شکل میں کرتے رہے، ایک دن ایسا بھی جب بہار کے مایہ ناز صحافی اشرف استھانوی کی مرتب کردہ کتاب"حق پسند صحافی عبدالرافع" نامی کتاب کے اجرا کے مناسبت سے موصوف مدعو کئے گئے جہاں کارگزار چیئرمین بہار قانون ساز کونسل جناب ہارون رشید کے ہاتھوں کئ قدآور شخصیتوں کے بیچ "فروغ اردو" ایوارڈ سے نوازا گیا. موصوف کی زندگی کا یہ لمحہ نہایت ہی خوشگوار اور یادگار تھا جب بڑے بڑے جیالوں کے بیچ ایک نوخیز اور نو عمر صحافی کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا. موصوف کو جہاں نثر نگاری سے قلبی لگاؤ ہے وہیں شعر وشاعری سے بھی گہرا ربط ہے، زمانہ طالب علمی میں موصوف کو شعر و شاعری میں اتنی دلچسپی نہیں تھی لیکن بعد فراغت اس کی طرف میلان ہوا اور صرف صرف چھ مہینہ کی قلیل مدت میں عالمی پلیٹ فارم"فیس بک ٹائمز انٹر نیشنل" سے شعری سفر کا آغاز کیا جس میں ہمارے ممدوح بھی اب تک 70 سے زاید غزلوں کے علاوہ 30 سے زائد قطعات لکھ چکے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کو یہ بلندی یونہی نہیں ملی ہے بلکہ اسے حاصل کرنے کے لئے نرم وگداز بستر سے کٹ کر، آنکھوں کی پیاری نیند کو تج کر، جہد مسلسل اور عمل پیہم کو اپنی زندگی کا وظیفہ حیات بنایا تب جا کر اتنی کم عمری میں اتنا بڑا مقام اور مرتبہ ملا.
قارئین کرام!
موصوف کے اب تک دو سو سے زاید مضامین روزنامے اور نیوز پورٹلوں کی زینت بن چکا ہے اس کے علاوہ فراغت کے معا بعد ایک بڑا ہی حساس موضوع "چاپلوسی ایک اخلاقی ناسور" پر قلم اٹھاتے ہوئے ستر صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ مرتب کر ڈالا جس میں موصوف کے دس مضامین شامل ہیں جو عنقریب چھپ کر منظر عام پر آنے والا ہے. موصوف کے چند چنندہ مضامین اور غزلوں میں سے چند اقتباس، اور چند منتخب اشعار آپ کی نذر کرتا ہوں جس سے موصوف کی گہرائی اور گیرائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے. موصوف ماں کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں "ماں یہ لفظ اپنے اندر بہت وسیع معنی سموئے ہوا ہے۔ ممتا، ایثار، قربانی، پیار، محبت،عزم،حوصلہ، دوست، ہمدرد، راہنما، استاد، خلوص، معصومیت، دعا، وفا، بے غرضی، لگن، سچائی، پاکیزگی، سکون، خدمت، محنت، عظمت، عبادت، ایمان، دیانت، جذبہ، جنت، یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے،ورنہ اس کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ الفاظ ختم ہوجائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہو".سیریا کے مظلوم مسلمانوں کی داستان کو بیان کرتے ہوئے مسلم حکمرانوں کو ان الفاظ میں للکارا" ملک شام میں معصوم شہریوں پر جاری بشارالاسد کی ظلم وبربریت پر عالم اسلام کے علماء،مسلم ممالک کے صدر اور یو این او کی خاموشی افسوسناک(بشار الاسد تجه پر لعنت ہے)یہ قوم مسلم اندهی ہوچکی ہیں،کیا نہتے معصوم شہریوں پر جاری ظلم وستم پرخاموشی گناه عظیم نہیں ہے؟کیا مسلمانوں کی سماعت سے حدیث پاک کا یہ ٹکڑا نہیں ٹکڑایا"انصر اخاک ظالما او مظلوما"(قوم مسلم افسوس ہے تجه پر)...... "اسی طرح چاپلوسی کی مذمت اور چاپلوس صفت انسان کو متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں" چاپلوسی کرنے والو...اپنی غیرت کو چاپلوسی کے حوالے کرنے والو...اپنی لیاقت اور صلاحیت کو وسیلہ نہ بنا کر چاپلوسی کو ترقی کا زینہ تصور کرنے والو...بلندی کو حاصل کرنے کے لئے اپنے وقار تک کو داؤ پر لگانے والو...منصب اور عہدے کے حصول کے لئے ایک دوسرے کو نیچا دکهانے والو...دینی اور اسلامی درسگاہوں میں چاپلوسی جیسی قبیح فعل کو فروغ دینے والو...کیا لوگوں کی تحریریں اور تقریریں تم تک نہیں پہونچی...کیا لوگوں کی چیخیں تمہاری سماعتوں کو نہیں جهنجهوڑتی...قوم کے معمار کا ڈوبتا ہوا مستقبل تمہیں نظر نہیں آتا... اتحاد واتفاق جیسی طاقت پاره پاره ہوتی تمہیں دکهائی نہیں دیتی...........". یہ تو منتخب مضامین سے چند چنندہ اور چیدہ اقتباس تھے غزل کے چند چنندہ اشعار بھی پیش خدمت ہے:
اخلاص کے  جزبے  کو  سمجھتا نہیں کوئی
اس واسطے دنیا میں  سخاوت  نہیں کرتے

ساری   مشکل   کو    آسان   کردے   خدا
دشمنوں  کو    بھی  ایسی   دعا   دیجیے

اس کی تکریم زمانے میں بھلا کیسے ہو
جس کو اخلاق کی دولت نہیں ملنے والی

تشنگی   بجھ    نہ   پائ    کسی   اور   سے
اپنی ہونٹوں سے ساحل مجھ کو پلا دیجیے

اہلِ  قلم  کی  نوک  پہ  اب   لگ گئی  لگام
پہلے کے جیسی اب وہ صحافت نہیں رہی

ساحل لگا جو بولنے حق بات سب کے ساتھ
دوری  ہوئ   سبھوں  سے قرابت  نہیں رہی

آن  اردو   ہے   شان    اردو    ہے
ہندو  مسلم  کی  جان  اردو   ہے
کہتے جس کو ہیں پیار کی بولی
وہ  تو   پیاری    زبان    اردو  ہے

موصوف کی بلندی اور روشن مستقبل کی نذر یہ شعر کرتا چلوں کہ
تجھے نصیب  ہو  ایسا  عروج  دنیا میں
کہ آسماں بھی تیری رفعتوں پر ناز کرے