امیر سندھی
ـــــــــــــــــــــ
میں نے گاڑی جوں ہی عام شاہ راہ پر ڈالی، پیچھے سے آوازآئی "بھائی ساتھ لیتے جائیں گے? "میں روزے سے تھا، پہلی بھی ہمیشہ کے وقت سے دو گھنٹے لیٹ ہونے کی وجہ سے جلدی میں تھا، دھوپ بڑھتی جارہی تھی، یہ گر عام سی آواز ہوتی تو نظر انداز کرنا سہل اور ممکن تھا۔ مگر یہ تو پوری ایک داستان لیے ہوئے تھی۔ بیچارگی، غربت، مسکنت، ارتعاش، محتاجی، غصہ اور جھنجھلاہٹ سے ملی جھلی آواز میں غضب کی تاثیر تھی۔
دیکھتا کیاہو کہ ایک نوعمر مشرک جس کا، چہرہ زرد، بال بکھرے بکھرے، پراگندہ لباس اور بدحال کھڑاہے، لڑ کھڑائی زبان سے گویا ہوا بھائی جہاں تک جارہے مجھے لیتے جائیں، یہ جملہ کہتے ہیں موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، حواس بحال ہونے پر پوچھا جاؤں گے کہاں تک! آ کہاں سے رہے ہوں؟ ۔ "ٹرین سے اتر کر پیدل چلنے ارادے سے چل پڑا تھا کہ اوپر والے کی مہربانی سے آپ مل گئے، ورنہ چالیس کلومیٹر کا سفر کاٹے نہیں کٹتا" اتنا کہ کر وہ رب الواحد کے شکر میں ڈوب گیا۔
میری زبان سے بےساختہ نکلا: آسمان کو رفعت، زمین کو وسعت، پہاڑوں کو بلندی، سمندر کوگہرائی، رات کو چاندنی اور دن کو اجالا عطاکرنے والی ذات! میری مددفرما۔ مجھے میرے گھر تک بعافیت پہنچادے، نہ ٹی ٹی سے سابقہ پڑے، نہ کوئی کرائے کا سؤال کرے۔ اے چاند، سورج اور ستاروں کے مالک میری سن لے، میری سن لے۔میری زبان پر بس مالک کا ذکر جاری ہوگیا، میں اس کے حمد وشکر میں رطب اللسان رہنےلگا، آہستہ آہستہ مجھ پر غنودگی چھاتی چلی گئی۔ کچھ ہی دیر میں دل مطمئن، سینہ ہلکا اور دماغ روشن ہوگیا۔ عجب طرح کی طمانیت نے گھیرلیا، میں بلاخوف وجھجھک ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔پھر بلاخوف وخطر یہاں تک پہنچ گیا۔
ان کی باتیں واقعی عجیب تھی، میں صبح سویرے نکل جایا کرتاتھا مگر اس دن خلاف معمول ایسے اسباب بنے، جب جب بھی سوچتاہوں تو اللہ حکمت ومصلحت پر دل پکار اٹھتاہے الحمدللہ الحمدللہ۔ جب وہ رحمن اپنے منکرین پر اتنا مہربان ہیں اس کی صفت رحمن کا یہ عموم ہے، تو اس کی خاص عنایات کا کیا عالم ہوگا، ان کی صفت رحیم کے جلووں کیا عالم ہوگا، اے الہی ہمیں اپنا حقیقی تعلق، عشق اور محبت نصیب فرما۔ آمین
ـــــــــــــــــــــ
میں نے گاڑی جوں ہی عام شاہ راہ پر ڈالی، پیچھے سے آوازآئی "بھائی ساتھ لیتے جائیں گے? "میں روزے سے تھا، پہلی بھی ہمیشہ کے وقت سے دو گھنٹے لیٹ ہونے کی وجہ سے جلدی میں تھا، دھوپ بڑھتی جارہی تھی، یہ گر عام سی آواز ہوتی تو نظر انداز کرنا سہل اور ممکن تھا۔ مگر یہ تو پوری ایک داستان لیے ہوئے تھی۔ بیچارگی، غربت، مسکنت، ارتعاش، محتاجی، غصہ اور جھنجھلاہٹ سے ملی جھلی آواز میں غضب کی تاثیر تھی۔
دیکھتا کیاہو کہ ایک نوعمر مشرک جس کا، چہرہ زرد، بال بکھرے بکھرے، پراگندہ لباس اور بدحال کھڑاہے، لڑ کھڑائی زبان سے گویا ہوا بھائی جہاں تک جارہے مجھے لیتے جائیں، یہ جملہ کہتے ہیں موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، حواس بحال ہونے پر پوچھا جاؤں گے کہاں تک! آ کہاں سے رہے ہوں؟ ۔ "ٹرین سے اتر کر پیدل چلنے ارادے سے چل پڑا تھا کہ اوپر والے کی مہربانی سے آپ مل گئے، ورنہ چالیس کلومیٹر کا سفر کاٹے نہیں کٹتا" اتنا کہ کر وہ رب الواحد کے شکر میں ڈوب گیا۔
پھر وہ کہنے لگا کہ دو روز قبل کالج جیپور میں پڑھ رہے بھائی کو پیسے پہچانا جارہاتھا۔ ٹرین میں رش تھا، تل دھرنے کی جگہ تک نہ تھی، کندھے سے کندھا چھل رہاتھا، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، میں رات بھر موبائل اور امانت کی حفاظت کے لیے بیدار رہا، بھگوان کی مہربانی بھائی تک امانت سلامت رہی، میں نے جلد ہی واپسی کی ٹرین پکڑی، آتے وقت بھی ٹرین کی وہی حالت تھی، جیب خرچ اور موبائل کی حفاظت سب سے بڑا مسئلہ تھا، رات بھر بیدار رہنے کاعزم تو کرلیا تھا مگر پلکیں بھاری، سر بوجھل اور دماغ ماؤف تھا۔ صبح جودھپور اسٹیشن پر اس حال بیدار ہوا جیب فٹی ہوئی پیسے اور سیل فون غائب، تھا۔
زندگی میں پہلی بار اتنے بڑے سفر پر نکلاتھا، سفر کی صعوبت، پردیس کی دہشت کے ساتھ بھوک سے برا حال ہورہا تھا۔ جیب میں فوٹی کوڑی تک نہ بچی تھی، آگے کا ٹیکٹ سب سے بڑاچیلنج تھا۔ خوف، ڈر، محتاجی، بے بسی اور بے کسی کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔اس مشکل گھڑی میں دیوتاؤں کو پکارنے لگا، شیوجی، گھنیش، پاروتی، رام جی، بھوانی، کرشن، بھیم اور لکھشمی کے نام کا جاپ کرتارہا، باری باری سب کی مالا پے مالاپڑھتارہا، مگر دل کی دھڑکنی تیز ہوتی گئی، بے چینی میں اضافہ ہوتارہا اور خوف ووحشت ڈیرے ڈالتے رہے۔ نہ دل کو قرار ملا نہ قلب وجگر کو سکون، ایسے بےوفا بتوں کو میں نے گندی سی گالی دیکر اس ذات اقدس کو پکارا جس نے آسمان وزمین کو وجود بخشا، چاند اور سورج کوپیدا کیا اور رام وکرشن کو زندگی وموت دی۔میری زبان سے بےساختہ نکلا: آسمان کو رفعت، زمین کو وسعت، پہاڑوں کو بلندی، سمندر کوگہرائی، رات کو چاندنی اور دن کو اجالا عطاکرنے والی ذات! میری مددفرما۔ مجھے میرے گھر تک بعافیت پہنچادے، نہ ٹی ٹی سے سابقہ پڑے، نہ کوئی کرائے کا سؤال کرے۔ اے چاند، سورج اور ستاروں کے مالک میری سن لے، میری سن لے۔میری زبان پر بس مالک کا ذکر جاری ہوگیا، میں اس کے حمد وشکر میں رطب اللسان رہنےلگا، آہستہ آہستہ مجھ پر غنودگی چھاتی چلی گئی۔ کچھ ہی دیر میں دل مطمئن، سینہ ہلکا اور دماغ روشن ہوگیا۔ عجب طرح کی طمانیت نے گھیرلیا، میں بلاخوف وجھجھک ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔پھر بلاخوف وخطر یہاں تک پہنچ گیا۔
ان کی باتیں واقعی عجیب تھی، میں صبح سویرے نکل جایا کرتاتھا مگر اس دن خلاف معمول ایسے اسباب بنے، جب جب بھی سوچتاہوں تو اللہ حکمت ومصلحت پر دل پکار اٹھتاہے الحمدللہ الحمدللہ۔ جب وہ رحمن اپنے منکرین پر اتنا مہربان ہیں اس کی صفت رحمن کا یہ عموم ہے، تو اس کی خاص عنایات کا کیا عالم ہوگا، ان کی صفت رحیم کے جلووں کیا عالم ہوگا، اے الہی ہمیں اپنا حقیقی تعلق، عشق اور محبت نصیب فرما۔ آمین