شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
اس جہانِ رنگ و بو میں ہر شخص اپنے من میں کوئی نہ کوئی مراد لے کر اپنے مقصد کے حصول کیلیے کوشاں ہے، کامیابی وہ شے ہے جس کی تمنا ہر شخص کرتا ہے، مگر کامیابی کیونکر حاصل کی جائے؟ یہ اِس دنیا کا بہت بڑا معمہ ہے۔
کامیابی حاصل کرنے کے اِس معمے کو مختلف نظریات اور فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں حل کرنے کی کوشش کی، اطالوی مفکر میکاولی نے ’’نتیجہ ہی ذریعے کا جواز دیتا ہے‘‘ کا فارمولا دیا، یعنی اگر آپ کسی بھی مقصد کا حصول چاہتے ہیں تو جائز و ناجائز کی تمیز کیے بغیر، تمام میسر ذرائع استعمال کیجیے، اگر آپ اپنا نصب العین حاصل کر لیتے ہیں تو آپ کے استعمال کردہ ذرائع چاہے اخلاقی تھے یا غیر اخلاقی، درست اور جائز قرار پاتے ہیں۔
برطانوی ادیب فرانسس بیکن نے ’’اعلیٰ مقام تک جانے کا ہر راستہ گھومتی ہوئی سیڑھیوں سے ہو کر جاتا ہے‘‘ کے فلسفے کا پرچار کیا جس کا مطلب واضح ہے کہ کوئی بھی شخص غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے بغیر اعلیٰ مقام نہیں پاسکتا، لیکن اُن کے یہ تمام فلسفے اخلاقیات کی حدود و قیود کو پامال کرنے کے باعث ناقابلِ عمل ٹھہرے۔
کِسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے میں دو عوامل کا کردار کلیدی ہوتا ہے: اوّل اِنسان کی اپنی محنت؛ اور دوم قسمت (یعنی fate)۔ اِن دونوں عوامل کے تناسب کے بارے میں مختلف آراء ہیں، کچھ لوگ صرف قسمت کو کامیابی کے حصول کےلیے ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ افراد قسمت کے فیکٹر کو یکسر نظر انداز کرکے صرف محنت کی عظمت کے حامی ہیں، مگر اکثریت کی رائے یہ ہے کہ قسمت اور محنت کا کردار 50-50 ہوتا ہے، یعنی کامیابی کے حصول کے لیے نصف کردار محنت ادا کرتی ہے جبکہ باقی ماندہ نصف قسمت ادا کرتی ہے۔(ماخوذ)
کہاجاتا ہے جب کوئی انسان بلندی کی چوٹی کو سر کرنے کی ٹھان لیتا ہے اور پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ اس کو پانے کے لئے عمل پیہم کے سلسلہ کو جاری وساری رکھتا ہے تو ایک نہ دن بلندی اور کامیابی اس کا مقدر بن کر رہ جاتی ہے. کچھ ایسی ہی کہانی محفوظ عالم مناظر حسین تیمی کی ہے جنہوں نے علمی میدان میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہونے کے لئے ہمہ وقت کوشاں نظر آتے تھے. کاتب سطور نے َزمانہ طالب علمی میں موصوف کی سرگرمیوں کو بڑے قریب سے دیکھا ہے. موصوف جامعہ امام ابن تیمیہ مشرقی چمپارن بہار کے اندر زمانہ طالب علمی کے آٹھ سال گزارے اور ان آٹھ سالوں میں مشاہدہ بتلاتا ہے کہ موصوف نے ندوۃ الطلبہ کے بینر تلے منعقد تمام پروگراموں میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہوئے اکثر وبیشتر پروگراموں میں امتیازی نمبر کے ساتھ ناجحین کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب بھی ہوتے رہے. اسی محنت، قسمت،لگن، دھن، جہد مسلسل اور عمل پیہم کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ دنوں یعنی 8 اگست 2018 کو بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ نے اردو عالِم آنرس کے رزلٹ کا اعلان کیا جس میں ہمارے ممدوح پورے بہار میں ٹاپ کر اپنے والدین، خویش وأقارب کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ تیمی برادران اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب مایہ ناز ادارہ جامعہ امام ابن تیمیہ کا بھی نام روشن کیا، موصوف کی بلندی اور کامیابی کی نذر یہ شعر کرتا چلوں کہ:
ــــــــــعــــــــ
نہ تھک کر بیٹھ کے تیری اڑان باقی ہے
زمیں ختم ہوئی آسمان بھی ہے
اور دلی مبارکباد کے ساتھ ساتھ خلوص دل کے ساتھ یہ دعا بھی کہ:
ـــــــــعـــــــ
تجھے نصیب ہو ایسا عروج دنیا میں
کہ آسماں بھی تیری رفعتوں پر ناز کرے
ــــــــــــــــــــــــــــــ
اس جہانِ رنگ و بو میں ہر شخص اپنے من میں کوئی نہ کوئی مراد لے کر اپنے مقصد کے حصول کیلیے کوشاں ہے، کامیابی وہ شے ہے جس کی تمنا ہر شخص کرتا ہے، مگر کامیابی کیونکر حاصل کی جائے؟ یہ اِس دنیا کا بہت بڑا معمہ ہے۔
کامیابی حاصل کرنے کے اِس معمے کو مختلف نظریات اور فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں حل کرنے کی کوشش کی، اطالوی مفکر میکاولی نے ’’نتیجہ ہی ذریعے کا جواز دیتا ہے‘‘ کا فارمولا دیا، یعنی اگر آپ کسی بھی مقصد کا حصول چاہتے ہیں تو جائز و ناجائز کی تمیز کیے بغیر، تمام میسر ذرائع استعمال کیجیے، اگر آپ اپنا نصب العین حاصل کر لیتے ہیں تو آپ کے استعمال کردہ ذرائع چاہے اخلاقی تھے یا غیر اخلاقی، درست اور جائز قرار پاتے ہیں۔
برطانوی ادیب فرانسس بیکن نے ’’اعلیٰ مقام تک جانے کا ہر راستہ گھومتی ہوئی سیڑھیوں سے ہو کر جاتا ہے‘‘ کے فلسفے کا پرچار کیا جس کا مطلب واضح ہے کہ کوئی بھی شخص غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے بغیر اعلیٰ مقام نہیں پاسکتا، لیکن اُن کے یہ تمام فلسفے اخلاقیات کی حدود و قیود کو پامال کرنے کے باعث ناقابلِ عمل ٹھہرے۔
کِسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے میں دو عوامل کا کردار کلیدی ہوتا ہے: اوّل اِنسان کی اپنی محنت؛ اور دوم قسمت (یعنی fate)۔ اِن دونوں عوامل کے تناسب کے بارے میں مختلف آراء ہیں، کچھ لوگ صرف قسمت کو کامیابی کے حصول کےلیے ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ افراد قسمت کے فیکٹر کو یکسر نظر انداز کرکے صرف محنت کی عظمت کے حامی ہیں، مگر اکثریت کی رائے یہ ہے کہ قسمت اور محنت کا کردار 50-50 ہوتا ہے، یعنی کامیابی کے حصول کے لیے نصف کردار محنت ادا کرتی ہے جبکہ باقی ماندہ نصف قسمت ادا کرتی ہے۔(ماخوذ)
کہاجاتا ہے جب کوئی انسان بلندی کی چوٹی کو سر کرنے کی ٹھان لیتا ہے اور پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ اس کو پانے کے لئے عمل پیہم کے سلسلہ کو جاری وساری رکھتا ہے تو ایک نہ دن بلندی اور کامیابی اس کا مقدر بن کر رہ جاتی ہے. کچھ ایسی ہی کہانی محفوظ عالم مناظر حسین تیمی کی ہے جنہوں نے علمی میدان میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہونے کے لئے ہمہ وقت کوشاں نظر آتے تھے. کاتب سطور نے َزمانہ طالب علمی میں موصوف کی سرگرمیوں کو بڑے قریب سے دیکھا ہے. موصوف جامعہ امام ابن تیمیہ مشرقی چمپارن بہار کے اندر زمانہ طالب علمی کے آٹھ سال گزارے اور ان آٹھ سالوں میں مشاہدہ بتلاتا ہے کہ موصوف نے ندوۃ الطلبہ کے بینر تلے منعقد تمام پروگراموں میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہوئے اکثر وبیشتر پروگراموں میں امتیازی نمبر کے ساتھ ناجحین کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب بھی ہوتے رہے. اسی محنت، قسمت،لگن، دھن، جہد مسلسل اور عمل پیہم کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ دنوں یعنی 8 اگست 2018 کو بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ نے اردو عالِم آنرس کے رزلٹ کا اعلان کیا جس میں ہمارے ممدوح پورے بہار میں ٹاپ کر اپنے والدین، خویش وأقارب کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ تیمی برادران اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب مایہ ناز ادارہ جامعہ امام ابن تیمیہ کا بھی نام روشن کیا، موصوف کی بلندی اور کامیابی کی نذر یہ شعر کرتا چلوں کہ:
ــــــــــعــــــــ
نہ تھک کر بیٹھ کے تیری اڑان باقی ہے
زمیں ختم ہوئی آسمان بھی ہے
اور دلی مبارکباد کے ساتھ ساتھ خلوص دل کے ساتھ یہ دعا بھی کہ:
ـــــــــعـــــــ
تجھے نصیب ہو ایسا عروج دنیا میں
کہ آسماں بھی تیری رفعتوں پر ناز کرے