از قلم: عبدالرشید مظاہری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک مسلمان کے لئے دینی تعلیم ازحد ضروری ہے اس لئے کہ اس پر آخرت کا مدار ہے کامیابی کی شاہ کلید ہے اخروی سرخ روئی کا زینہ ہے
الحمد للہ ہم مدارس اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو دین کے قلعے ہیں اور ہم ان مدارس میں قال اللہ وقال الرسول اللہﷺ کا ورد کرنے والے ہیں لیکن عصری تعلیم بھی وقت کی ضرورت ہے ہمیں دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم میں بھی پیش پیش رہنا چاہئے خاص طور پر وقت کی زبان پر عبور حاصل ہونا چاہئے یہ ہمارے آقا تاجدار مدینہﷺ سے ثابت کہ آپ ﷺنے حضرت زیدرضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سریانی زبان سیکھو اور حضرت زید رضی اللہ عنہ ۱۷ دن میں سیکھ گئے
اور اللہ کے رسولﷺنے علم کی اہمیت وفضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا علم حاصل کرو چاہے تمکو چین کا سفر کرنا پڑے.
امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے احیاءالعلوم میں اس حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا اس سے مراد دنیوی تعلیم ہے کیوں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ملک چین کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس وقت چین ایسا دیش تھا جہاں کچھ ٹیکنالوجی تھی اور اللہ تعالی نے بنی آدم کو ملائکہ پر فضیلت عطا کر کے مسجود ملائکہ بنایا وہ اسی علم کی بنا پر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا "علم آدم الاسماء کلہا ثم عرضھم علی الملائکۃ فقال انبئونی باسماء ھؤلاء ان کنتم صادقین"
اور جب ماضی پر نظر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے عصری تعلیم سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ ہمارے مدارس کی قدیم تاریخ یہ ہے اس میں دینی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور عصری اور سائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے یہی وجہ ہے تاریخ میں جو مسلم سائنس داں اطباء جغرافیہ کے ماہر اور ایجادات کے ماہرین کا تذکرہ ملتا ہے وہ سب ان ہی مدارس کے تعلیم یافتہ تھے امام غزالی ہوں یا ابن رشد یا بوعلی سینا یا فارابی یا ابن ہثیم سب انہی مدارس کے فارغ تھے، پہلے عصری اور دینی علوم کے لئے الگ الگ ادارے نہیں ہوا کرتے اور ہندوستان میں بھی انگریزوں کی آمد سے قبل یہی صورت حال تھی اور انہی مدارس سے فارغ طلبہ نوکریوں پر فائز ہوا کرتے تھے، لیکن انگریزوں کے ہندوستان آمد کے بعد صورت حال میں تبدیلی پیدا ہوئی.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک مسلمان کے لئے دینی تعلیم ازحد ضروری ہے اس لئے کہ اس پر آخرت کا مدار ہے کامیابی کی شاہ کلید ہے اخروی سرخ روئی کا زینہ ہے
الحمد للہ ہم مدارس اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو دین کے قلعے ہیں اور ہم ان مدارس میں قال اللہ وقال الرسول اللہﷺ کا ورد کرنے والے ہیں لیکن عصری تعلیم بھی وقت کی ضرورت ہے ہمیں دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم میں بھی پیش پیش رہنا چاہئے خاص طور پر وقت کی زبان پر عبور حاصل ہونا چاہئے یہ ہمارے آقا تاجدار مدینہﷺ سے ثابت کہ آپ ﷺنے حضرت زیدرضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سریانی زبان سیکھو اور حضرت زید رضی اللہ عنہ ۱۷ دن میں سیکھ گئے
اور اللہ کے رسولﷺنے علم کی اہمیت وفضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا علم حاصل کرو چاہے تمکو چین کا سفر کرنا پڑے.
امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے احیاءالعلوم میں اس حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا اس سے مراد دنیوی تعلیم ہے کیوں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ملک چین کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس وقت چین ایسا دیش تھا جہاں کچھ ٹیکنالوجی تھی اور اللہ تعالی نے بنی آدم کو ملائکہ پر فضیلت عطا کر کے مسجود ملائکہ بنایا وہ اسی علم کی بنا پر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا "علم آدم الاسماء کلہا ثم عرضھم علی الملائکۃ فقال انبئونی باسماء ھؤلاء ان کنتم صادقین"
اور جب ماضی پر نظر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے عصری تعلیم سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ ہمارے مدارس کی قدیم تاریخ یہ ہے اس میں دینی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور عصری اور سائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے یہی وجہ ہے تاریخ میں جو مسلم سائنس داں اطباء جغرافیہ کے ماہر اور ایجادات کے ماہرین کا تذکرہ ملتا ہے وہ سب ان ہی مدارس کے تعلیم یافتہ تھے امام غزالی ہوں یا ابن رشد یا بوعلی سینا یا فارابی یا ابن ہثیم سب انہی مدارس کے فارغ تھے، پہلے عصری اور دینی علوم کے لئے الگ الگ ادارے نہیں ہوا کرتے اور ہندوستان میں بھی انگریزوں کی آمد سے قبل یہی صورت حال تھی اور انہی مدارس سے فارغ طلبہ نوکریوں پر فائز ہوا کرتے تھے، لیکن انگریزوں کے ہندوستان آمد کے بعد صورت حال میں تبدیلی پیدا ہوئی.