ابرارنعمانی
ـــــــــــــــــــ
سیتامڑھی(آئی این اے نیوز 8/ستمبر 2018) موجودہ دور میں اگر سب سے زیادہ کوئی خطرناک ہتھیار ہے تو وہ قلم ہے اور اسی قلم کی بنیاد پر آج دنیا بھر میں مختلف قسم کی کئی تحریکیں جاری ہیں ۔
مسلمان اس ہتھیار سے نمٹنے کیلئے تیاری کرنے کے بجائے پیٹھ دکھا کر کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے جھمیلے سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کا خمیازہ خود اپنی آنکھوں سے ہم سب دیکھ رہے ہیں، چند سال قبل تک مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ غربت کا شکار تھا، لیکن آج حالات بدل چکے ہیں اور مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ مالداروں کی فہرست میں شمار کیا جانےلگا ہے، لیکن ایسے تمام لوگ اپنے آپ کو محدود دائرے میں رکھ کر اپنی زندگیاں گذار رہے ہیں، اگر یہ لوگ چاہیں تو ہندوستان میں فسطائی طاقتوں کا جواب دینے کیلئے الگ سے سیکولر میڈیا کے نظام کو قائم کرسکتے ہیں، مگر ہمارے یہاں دن بھر دیکھی جانے والی بیشتر جھوٹی خبروں کو دیکھنے کے بعد یہ جملہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ آج کل تو میڈیا بکا ہوا ہے، لیکن کیا کسی امیر مسلمان نے یا پھر کسی ادارے یا تنظیم نے اس جانب توجہ دی ہے کہ بکے ہوئے میڈیا کو دوبارہ خریدا جا سکے یا پھر اس کے مقابل میں ایک اور میڈیا کو عمل میں لایا جائے، اگر محلے میں موجود ایک مسجد میں کسی کی بے عزتی کی جاتی ہے یا پھر ان کی بات نہیں مانی جاتی ہے تو اسی ہفتے اُسی محلے میں اور ایک مسجد تعمیر کرنے کیلئے فیصلہ کرنے والی قوم میڈیا کے ذریعے سے مسلسل بدنام ہونے کے باوجود آج تک اپنا میڈیا ہاﺅس قائم کرنے کے تعلق سے کبھی نہیں سوچ سکی، اگر مسلمان چاہیں تو ایک نہیں بلکہ ہر تین سو چینل کے جواب میں کم ازکم سو چینل تو عمل میں لا سکتے ہیں، مگر بات ان کی توجہ کا سبب اس وجہ سے نہیں بن پارہی ہے کیونکہ میڈیا میں سرمایہ لگانے سے راتوں رات امیر نہیں بن سکتے اور نہ ہی سیکولر میڈیا کے قیام سے ان کیلئے تشیہر کا ذریعہ بن سکتا ہے، وہیں اگر یہ لوگ اپنی دولت کو لیکر کسی گلی کے نکڑ میں چند لوگوں کو اناج تقسیم کرتے تو ان کی امیری کے خوب چرچے ہونگے ۔آج قوم مسلم اُن باتوں پر توجہ نہیں دے رہی ہیں جن کی آج ملت کو ضرورت ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس تعلق سے اپنی فکر تیز کریں ورنہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کیلئے تلوار یا بندوق کی ضرورت نہیں پڑیگی بلکہ میڈیا کے جملوں سے ہی یہ بے موت مارے جائیں گے، اگر ہم 100 چینل قائم نہیں کرسکتے تو کم سے کم ایک چینل ہی اپنا قائم کرلیں اسی ایک چینل سے کتنے لوگوں میں خوف تو پیدا کرسکتے ہیں.
ـــــــــــــــــــ
سیتامڑھی(آئی این اے نیوز 8/ستمبر 2018) موجودہ دور میں اگر سب سے زیادہ کوئی خطرناک ہتھیار ہے تو وہ قلم ہے اور اسی قلم کی بنیاد پر آج دنیا بھر میں مختلف قسم کی کئی تحریکیں جاری ہیں ۔
مسلمان اس ہتھیار سے نمٹنے کیلئے تیاری کرنے کے بجائے پیٹھ دکھا کر کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے جھمیلے سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کا خمیازہ خود اپنی آنکھوں سے ہم سب دیکھ رہے ہیں، چند سال قبل تک مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ غربت کا شکار تھا، لیکن آج حالات بدل چکے ہیں اور مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ مالداروں کی فہرست میں شمار کیا جانےلگا ہے، لیکن ایسے تمام لوگ اپنے آپ کو محدود دائرے میں رکھ کر اپنی زندگیاں گذار رہے ہیں، اگر یہ لوگ چاہیں تو ہندوستان میں فسطائی طاقتوں کا جواب دینے کیلئے الگ سے سیکولر میڈیا کے نظام کو قائم کرسکتے ہیں، مگر ہمارے یہاں دن بھر دیکھی جانے والی بیشتر جھوٹی خبروں کو دیکھنے کے بعد یہ جملہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ آج کل تو میڈیا بکا ہوا ہے، لیکن کیا کسی امیر مسلمان نے یا پھر کسی ادارے یا تنظیم نے اس جانب توجہ دی ہے کہ بکے ہوئے میڈیا کو دوبارہ خریدا جا سکے یا پھر اس کے مقابل میں ایک اور میڈیا کو عمل میں لایا جائے، اگر محلے میں موجود ایک مسجد میں کسی کی بے عزتی کی جاتی ہے یا پھر ان کی بات نہیں مانی جاتی ہے تو اسی ہفتے اُسی محلے میں اور ایک مسجد تعمیر کرنے کیلئے فیصلہ کرنے والی قوم میڈیا کے ذریعے سے مسلسل بدنام ہونے کے باوجود آج تک اپنا میڈیا ہاﺅس قائم کرنے کے تعلق سے کبھی نہیں سوچ سکی، اگر مسلمان چاہیں تو ایک نہیں بلکہ ہر تین سو چینل کے جواب میں کم ازکم سو چینل تو عمل میں لا سکتے ہیں، مگر بات ان کی توجہ کا سبب اس وجہ سے نہیں بن پارہی ہے کیونکہ میڈیا میں سرمایہ لگانے سے راتوں رات امیر نہیں بن سکتے اور نہ ہی سیکولر میڈیا کے قیام سے ان کیلئے تشیہر کا ذریعہ بن سکتا ہے، وہیں اگر یہ لوگ اپنی دولت کو لیکر کسی گلی کے نکڑ میں چند لوگوں کو اناج تقسیم کرتے تو ان کی امیری کے خوب چرچے ہونگے ۔آج قوم مسلم اُن باتوں پر توجہ نہیں دے رہی ہیں جن کی آج ملت کو ضرورت ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس تعلق سے اپنی فکر تیز کریں ورنہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کیلئے تلوار یا بندوق کی ضرورت نہیں پڑیگی بلکہ میڈیا کے جملوں سے ہی یہ بے موت مارے جائیں گے، اگر ہم 100 چینل قائم نہیں کرسکتے تو کم سے کم ایک چینل ہی اپنا قائم کرلیں اسی ایک چینل سے کتنے لوگوں میں خوف تو پیدا کرسکتے ہیں.