حافظ دانش فلاحی(شانتی سندیش سینٹر بلریاگنج)
ــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد للہ، آج بہت دنوں بعد رب نے اپنے دین کی خدمت کی توفیق دی، اور واقعی میں یہ کام صرف توفیق الہی ہی سے ممکن ہے۔ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اللہ انہیں ہی چنتا ہے جو اس لائق ہیں یا جنہیں اس لائق بنانا چاہتا ہے، ایسے لوگوں کے لئے وہ دل و دماغ کے دریچے کھولتا ہے، ڈر اور خوف کی نفسیات سے آزادی دیتا ہے، مواقع اور آسانیاں پیدا کرتا ہے، مدعو کے اندر داعی کو سننے کے لئے آمادگی پیدا کرتا ہے۔
ویسے تو دعوت کے کئی طریقے ہیں، حالات، مواقع اور مدعو کی نفسیات کی وجہ سے مختلف طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں، لیکن سب سے کارگر اور مفید طریقہ براہ راست ملاقات کا ہے، اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ مدعو کے اندر انسیت پیدا ہوتی ہے اور یہی دعوت کا سب سے پہلا طریقہ ہے، انسیت پیدا کئے بغیر ہم کبھی بھی غیر مسلموں کے اندر اسلام کی دعوت کے لئے جگہ نہیں بنا سکتے، ملاقاتیں ہوں، ربط ضبط رہے اور اسلام کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں، کیونکہ لاعلمی غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں اور یہی غلط فہمیاں دھیرے دھیرے نفرت اور تعصب میں بدل جاتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ رسول اکرم کو چالیس سال کی عمر میں نبی بنائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ آپ لوگوں کے لئے مانوس ہوجائیں اور اس انسیت کو دعوت الی اللہ کی راہ میں استعمال کرلیا جائے۔
اس وقت ہمارے ملک میں جو حالات ہیں وہ اس بات کا تقاضہ کر رہے ہیں کہ ہم سب سے پہلے لوگوں کے اندر انسیت پیدا کریں، ان کے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیں، غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کریں اور سچائی کو ان کے سامنے واضح کردیں.
جان لیجئے ! ہمارا مشن صرف پہنچانا ہے اللہ نے ہمیں داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے۔
اعظم گڑھ میں ایسے بہت سارے غیر مسلم اکثریتی علاقے ہیں جہاں 7 سے 8 کلومیٹر کے اندر دس بیس گھر مسلمانوں کے پائے جاتے ہیں، انہیں میں سے ایک مشہور علاقہ رانی کی سرائے ہے۔
رانی کی سرائے بازار سے 4کلو میٹر پورب 25 گھروں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی آبادی خیراں نامی ایک گاوں میں رہتی ہے، اس طرح کی چھوٹی مسلم آبادیاں اللہ کی طرف سے اندھیرے میں چراغ ہیں، ہم لوگ ایسی ہی بستیوں کو دعوتی کام کے لئے چنتے ہیں، اسی ضمن میں خیراں کے غیر مسلم بھائیوں سے ملاقات کا پروگرام بنا۔
منصوبہ کے مطابق وہاں کے چند مسلمانوں کو بھی ساتھ لیکر جانا تھا لیکن ایک ساتھ رہنے، کھیلنے کودنے اور دیگر امور ایک ساتھ مل کر انجام دینے کے باوجود بھی مسلمانوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ مجبوراً ہم اور ہمارے ساتھی اکیلے ہی گئے، ٹھاکر، یادو، پنڈت، کھٹک اور دیگر برادریوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ان کے اشکالات کا جواب دینے کی بھر پور کوشش کی گئی ۔
افسوس اور حیرت اس وقت ہوئی جب ہم نے یہ پوچھا کہ کیا اس سے پہلے کسی نے آپ لوگوں کو اسلام کے بارے میں کچھ بتایا ؟تو انہوں نے کہا کہ نہیں، کبھی نہیں، آپ لوگ پہلے شخص ہیں.
بلکہ 70 سالہ ایک بزرگ خاتون نے یہ کہا کہ "بابو یہ لوگ تو ٹھکر ہی میں رہ گئے، کبھی ہم کو اپنے قریب سٹنے نہیں دیا، کبھی پریم سے بات نہیں کی، بھگوان قسم جو بات آپ لوگ بتا رہے ہیں اگر ان لوگوں نے پہلے بتائی ہوتی تو ہم سب ( میاں) مسلمان ہوجاتے۔ اللہ اکبر۔
میری اس پوسٹ کا مقصد صرف یہی یے کہ میں آپ لوگوں کو بتاؤں کہ اسلام پر اعتراضات نے سوال و جواب کا جو راستہ کھولا ہے اس کا فائدہ اٹھا نا چاہیے، یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لئے آسانی ہے، اگر ہم نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا تو کفران نعمت کا وبال بھی سہنا پڑے گا۔ کھیتیاں نرم ہیں، بس اس سے گھاس پھوس نکال کر کچھ پانی دینا ہے۔
ان شاء اللہ لہلہاتی فصل ہم نہیں تو ہماری نسلیں ضرور کاٹیں گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد للہ، آج بہت دنوں بعد رب نے اپنے دین کی خدمت کی توفیق دی، اور واقعی میں یہ کام صرف توفیق الہی ہی سے ممکن ہے۔ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اللہ انہیں ہی چنتا ہے جو اس لائق ہیں یا جنہیں اس لائق بنانا چاہتا ہے، ایسے لوگوں کے لئے وہ دل و دماغ کے دریچے کھولتا ہے، ڈر اور خوف کی نفسیات سے آزادی دیتا ہے، مواقع اور آسانیاں پیدا کرتا ہے، مدعو کے اندر داعی کو سننے کے لئے آمادگی پیدا کرتا ہے۔
ویسے تو دعوت کے کئی طریقے ہیں، حالات، مواقع اور مدعو کی نفسیات کی وجہ سے مختلف طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں، لیکن سب سے کارگر اور مفید طریقہ براہ راست ملاقات کا ہے، اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ مدعو کے اندر انسیت پیدا ہوتی ہے اور یہی دعوت کا سب سے پہلا طریقہ ہے، انسیت پیدا کئے بغیر ہم کبھی بھی غیر مسلموں کے اندر اسلام کی دعوت کے لئے جگہ نہیں بنا سکتے، ملاقاتیں ہوں، ربط ضبط رہے اور اسلام کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں، کیونکہ لاعلمی غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں اور یہی غلط فہمیاں دھیرے دھیرے نفرت اور تعصب میں بدل جاتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ رسول اکرم کو چالیس سال کی عمر میں نبی بنائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ آپ لوگوں کے لئے مانوس ہوجائیں اور اس انسیت کو دعوت الی اللہ کی راہ میں استعمال کرلیا جائے۔
اس وقت ہمارے ملک میں جو حالات ہیں وہ اس بات کا تقاضہ کر رہے ہیں کہ ہم سب سے پہلے لوگوں کے اندر انسیت پیدا کریں، ان کے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیں، غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کریں اور سچائی کو ان کے سامنے واضح کردیں.
جان لیجئے ! ہمارا مشن صرف پہنچانا ہے اللہ نے ہمیں داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے۔
اعظم گڑھ میں ایسے بہت سارے غیر مسلم اکثریتی علاقے ہیں جہاں 7 سے 8 کلومیٹر کے اندر دس بیس گھر مسلمانوں کے پائے جاتے ہیں، انہیں میں سے ایک مشہور علاقہ رانی کی سرائے ہے۔
رانی کی سرائے بازار سے 4کلو میٹر پورب 25 گھروں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی آبادی خیراں نامی ایک گاوں میں رہتی ہے، اس طرح کی چھوٹی مسلم آبادیاں اللہ کی طرف سے اندھیرے میں چراغ ہیں، ہم لوگ ایسی ہی بستیوں کو دعوتی کام کے لئے چنتے ہیں، اسی ضمن میں خیراں کے غیر مسلم بھائیوں سے ملاقات کا پروگرام بنا۔
منصوبہ کے مطابق وہاں کے چند مسلمانوں کو بھی ساتھ لیکر جانا تھا لیکن ایک ساتھ رہنے، کھیلنے کودنے اور دیگر امور ایک ساتھ مل کر انجام دینے کے باوجود بھی مسلمانوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ مجبوراً ہم اور ہمارے ساتھی اکیلے ہی گئے، ٹھاکر، یادو، پنڈت، کھٹک اور دیگر برادریوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ان کے اشکالات کا جواب دینے کی بھر پور کوشش کی گئی ۔
افسوس اور حیرت اس وقت ہوئی جب ہم نے یہ پوچھا کہ کیا اس سے پہلے کسی نے آپ لوگوں کو اسلام کے بارے میں کچھ بتایا ؟تو انہوں نے کہا کہ نہیں، کبھی نہیں، آپ لوگ پہلے شخص ہیں.
بلکہ 70 سالہ ایک بزرگ خاتون نے یہ کہا کہ "بابو یہ لوگ تو ٹھکر ہی میں رہ گئے، کبھی ہم کو اپنے قریب سٹنے نہیں دیا، کبھی پریم سے بات نہیں کی، بھگوان قسم جو بات آپ لوگ بتا رہے ہیں اگر ان لوگوں نے پہلے بتائی ہوتی تو ہم سب ( میاں) مسلمان ہوجاتے۔ اللہ اکبر۔
میری اس پوسٹ کا مقصد صرف یہی یے کہ میں آپ لوگوں کو بتاؤں کہ اسلام پر اعتراضات نے سوال و جواب کا جو راستہ کھولا ہے اس کا فائدہ اٹھا نا چاہیے، یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لئے آسانی ہے، اگر ہم نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا تو کفران نعمت کا وبال بھی سہنا پڑے گا۔ کھیتیاں نرم ہیں، بس اس سے گھاس پھوس نکال کر کچھ پانی دینا ہے۔
ان شاء اللہ لہلہاتی فصل ہم نہیں تو ہماری نسلیں ضرور کاٹیں گی۔