سہیل لقمان تیمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہندوستان ایک آزاد ملک ہے، اس کی آزادی میں یہاں کے دیگر لوگوں کی طرح مسلمانوں نے بھی تن من دھن کی قربانیاں دی ہیں، بلکہ یہ کہا جائے کہ ان ہی کی مساعی جمیلہ کے طفیل ملک نے سفید فام انگیزیوں کے شکنجہ استبداد سے خلاصی حاصل کی ہے، تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا، لیکن افسوس کہ آج یہ ملک ان محسنین مسلمانوں کے لئے ہی اپنی تمام تر کشادگیوں کے باوجود بھی تنگ ہو چکا ہے، بالخصوص مرکز میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ گیا ہے، ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے، اور ان کے لئے ان کے ہی ملک میں چین وسکون کی سانسیں لینا ایک ادھورا خواب سا بن گیا ہے، آج وہ جگہ جگہ مآب لنچنگ کے شکار ہو رہے ہیں، کبھی لو جہاد کے نام پر، تو گؤرکشا کے نام پر،تو کبھی کسی نام پر، اور نا اہل حکومت ہے کہ مآب لنچرس کو گرفتار کر کے بطور سزا سلاخوں کے پیچھے ڈال رہی ہے اور نہ ہی مآب لنچنگ کے شکار مسلمانوں کے لواحقین کی کوئی دادرسی کر رہی ہے، بلکہ انتہا پسند حکومت بدبختانہ قدم اٹھاتے ہوئے الٹا مآب لنچرس کو آسمان پر چڑھا رہی ہے، ان کو بے قصور قرار دے رہی ہے اور انہیں ہی بحیثیت لیڈران اپنی پارٹی میں شامل کر رہی ہے،جو کہ قابل افسوس ہی نہیں بلکہ لائق مذمت بھی ہے.
واضح رہے کہ ہندوستان میں اب تک مآب لنچنگ کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں سینکڑوں معصوم افراد جاں بحق بھی ہوئے ہیں، تاہم میں ان سب کی تفصیلات کو بیان کرنے سے پہلے مآب لنچنگ کے مطلب اور عالم انسانیت پر اس کی قہرمانیوں کو واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں، تاکہ اس موضوع کی تفہیم میں قارئین کرام کو کوئی دقت نہ ہو.
مآب لنچنگ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو ہجوم کے ذریعے پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، یہ کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ قدیم اصطلاح ہے،دنیا کے تقریبا تمام اصحاب علم و عرفان اس سے آشنا ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تقریبا دنیا کے ہر ملک میں اپنا سر ابھار چکا ہے اور ہزاروں معصوموں اور بکسوں کو خاک و خون میں لت پت ہونے پر مجبور کر چکا ہے، دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں، جہاں تک اس نے رسائی حاصل نہ کی ہو، خواہ وہ امریکہ ہو یا جرمنی یا پھر ہمارا ملک ہندوستان، یا ان کے علاوہ کوئی اور ملک .
جہاں تک امریکہ میں رونما ہونے والے مآب لنچنگ کے واقعات کی بات ہے تو یہ واضح رہے کہ یہاں اس کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے، یہ آج بھی تاریخی کتب میں لنچنگ کے نام سے محفوظ ہیں ،اس کا لب لباب یہ ہے کہ یہاں جب گوروں اور کالوں کے درمیان چھڑی خانہ جنگی ایک لمبے عرصے کے بعد ختم ہو گئی، اور کالوں کو برابری کے حقوق مل گئے، تو گوروں نے کالوں کی لنچنگ شروع کر دی،ابتدا میں یہاں وہاں مآب لنچنگ کے ایک دو واقعات رونما ہوئے ، پھر اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک تسلسل کا روپ دھار اختیار کر لیا،جس کے بھینٹ ہزاروں معصومین کو چڑھنے پڑے، یہ الگ بات ہے کہ رفتار زمانہ کے ساتھ آج اس نے وہاں اپنی توانائی مفقود کر لی ہے، تاہم اس کی کچھ کڑیاں مرور ایام کے ساتھ آج بھی گاہے بگاہے دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں.
اسی طرح قدیم جرمنی میں مشتعل عیسائیوں کی طرف سے یہودیوں کو بھی مآب لنچنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا، بتایا جاتا ہے کہ یہاں کے عیسائیوں نے گلی گلی کوچے کوچے میں یہ اعلان عام کر دیا تھا کہ یہود دنیا کی ایک فتین قوم ہے،انہوں نے ہی دنیائے انسانیت میں نفرتوں کی آگ لگا رکھی ہے اور انہوں نے ہی عیسائیت پر شب خونق مارا ہے، اس لئے انہیں جرمنی میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ، اگر بادل نخواستہ وہ یہاں رہنا ہی چاہتے ہیں، تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہودیت کی قبا چاک کر کے ہمیشہ کے لئے عیسائیت کو گلے لگا لیں، چنانچہ جرمن یہودیوں نے عیسائیوں کے اس رعونت آمیز اعلان کو سن کر اپنی عقل مندی کا ثبوت پیش کیا اور انہوں نے ویسا ہی کیا جیسا کہ ان سے مطالبہ کیا گیا تھا ، یہ علیحدہ بات ہے کہ انہوں نے علمبرداران حقوقِ انسانی کی کچھ ہمدردیاں حاصل کرنے کے بعد عیسائیت کو اپنے گلے سے اتار کر باہر پھینک دیا اور پھر سے اپنے قدیم مذہب یہودیت میں عود کر آئے، یہاں کے مآب لنچنگ پر بہت ساری ریسرچیز کی گئیں ہیں، جو کہ آج بھی تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں .
جہاں تک ہندوستان میں رونما ہونے والے مآب لنچنگ کے واقعات کی بات ہے، تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ یہاں کے لئے بھی یہ کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ اسے یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ سینکڑوں سالوں سے جانتے پہچانتے آئے ہیں، دیگر ممالک کی طرح اس نے یہاں بھی بہت سے معصوم لوگوں کو اپنا شکار بنایا ہے، تاہم اس نے گزشتہ چار سالوں میں جتنے افراد کو اپنا شکار بنایا ہے، اتنا شکار اپنے تمام سابقہ سالوں میں نہیں بنایا ہے، گزشتہ چار سالوں میں ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں مآب لنچنگ کے سوؤں واقعات برپا ہوئے ہیں ، جن میں سے چند بڑے خونچکاں واقعات پیش خدمت ہیں.
28 ستمبر 2015 ء کو اترپردیش کے دادری میں محمد اخلاق اس کا شکار ہوا، کچھ شرپسندوں نے اس کے متعلق یہ افواہ پھیلا دی کہ محمد اخلاق نے اپنے گھر میں نہ صرف گائے کا گوشت ذخیرہ کررکھا ہے، بلکہ اس کا خاندان گوشت کا استعمال بھی کررہا ہے، چنانچہ ایک خونی ہجوم نے گؤرکشا کے نام پر اس کے گھر میں حملہ کردیا اور تشدد کرکے خاندان کے سربراہ محمد اخلاق کو ہلاک، جب کہ اس کے بیٹے دانش کو شدید زخمی کردیا، اس کی فوری اطلاع مقامی پولیس کو دی گئی، تاہم انہوں نے مجرمین کو گرفتار کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کسی طرح کا کوئی ایکشن لیا، بلکہ الٹا مہلوک شخص اور اس کے لواحقین ہی پر یہ الزام عائد کر دیا گیا کہ انہوں نے ذبیحہ پر پابندی لگنے کے باوجود بھی گائے ذبح کیا تھا اور اس کے گوشت کا استعمال بھی کیا تھا جو کہ سراسر آئین کے خلاف تھا.
18 مارچ 2016 ء کو جھارکھنڈ کے لاتیہار میں امتیاز خان اس کا شکار ہوا ، وہ مذکورہ صوبہ کے لاتیہار ضلع کا ایک معمولی باشندہ تھا،جو جانوروں کی خرید و فروخت کر کے اپنی حیات مستعار گزارا کرتا تھا، ایک دن وہ اپنے ایک ساتھی مظلوم انصاری کے ساتھ جانوروں کو فروخت کرنے کے غرض سے اپنے علاقے کے کسی قریبی بازار میں جا رہا تھا کہ کچھ مآب لنچرس نے اچانک ان کا تعاقب کیا اور انہیں گرفتار کر لیا، انہوں نے انہیں جانوروں کی طرح مضبوط رسیوں سے باندھ کر ایک لمبے درخت پر لٹکا دیا اور سفاکانہ طریقے سے انہیں لاٹھی ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا.
5 اپریل 2017 ء کو راجستھان کے الور میں پہلو خان اس کا شکار ہوا، وہ جانوروں کا تاجر تھا، اس کا تعلق صوبہ ہریانہ کے میوات ضلع سے تھا، وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک دو پڑوسیوں کے ساتھ جانوروں کی خریداری کے غرض سے راجستھان گیا ہوا تھا، جب وہ جانور لے کر راجستھان کے الور علاقہ میں پہنچا، تو دفعتا گؤرکشا کے نام پر کچھ ہندو گرگوں نے اس کا اور اس کے دونوں بیٹوں کا محاصرہ کر لیا، تمام قانونی کاغذات دکھانے کے باوجود بھی ان مآب لنچرس نے پہلو خان کو مار مار کر ہلاک اور اس کے بیٹوں کو زخمی کردیا.
13 ستمبر 2018 ء کو منی پور امفال میں احمد خان اس کا شکار ہوا، وہ ایم بی اے کا ایک طالب علم تھا، ایک دن وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ کار میں کہیں جا رہا تھا کہ اچانک کچھ مآب لنچرس نے موٹر سائیکل چوری کرنے کے شک میں ان کا تعاقب کیا، اس کے دونوں دوست تو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ اس کے پاس کار ہونے کی وجہ سے وہ ان سے فرار نہیں ہو سکا، چنانچہ انہوں نے اسے گرفتار کر لیا اور بے دردی سے مار مار کر ہلاک کر دیا، پولیس نے اب تک ملزمان کو گرفتار کیا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی طرح کا کوئی ایکشن ہی لیا ہے ، حالاں کہ اس دلدوز واقعہ کی وجہ سے امفال کے حالات کافی خراب ہو گئے ہیں، لوگوں میں افراتفری کا ماحول ہے اور وہ خوف و دہشت کے سائے تلے اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں.
ان کے علاوہ بھی ہمارے ملک میں اب تک مآب لنچنگ کے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں، لیکن اس مختصر سے مضمون میں ان سب کو بالترتيب بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، تاہم میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ گزشتہ چار سالوں میں 134 سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں، اس کی شہادت کے لئے آج تک کی یہ روح پرسا رپورٹ کافی ہے کہ ملک بھر میں گزشتہ چار سالوں میں مآب لنچنگ کے 134 واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 2015 سے لے کر سال رواں کے ماہ اگست تک 68 لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں، جو واقعات لو جہاد، بچہ چوری اور گؤ رکشا کے نام برپا ہوئے ہیں، لیکن اگر صرف گؤ رکشا کے نام پر رونما ہونے والے مآب لنچنگ کے واقعات کی بات کی جائے تو ان کے متعلق حکومتی اعداد و شمار ہوش ربا ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں.
سال 2014 میں اس کے نام پر 3 واقعات ہوئے تھے جن میں 11 لوگ زخمی ہوئے تھے ،سال 2015 میں اس کے نام 12 واقعات ہوئے تھے ، جن میں 10 لوگ ہلاک اور 48 لوگ شدید طور پر زخمی ہوئے تھے ، سال 2016 میں اس کے نام پر 24 واقعات ہوئے تھے ، جن میں 8 لوگوں کی جانیں گئیں اور 58 لوگ شدید طور پر زخمی ہوئے تھے ، سال 2017 میں اس کے نام پر 37 واقعات ہوئے تھے ، جن میں 11 لوگ جاں بحق اور 152 لوگ شدید طور پر زخمی ہوئے تھے ، سال 2018 میں اب تک 13 واقعات ہوچکے ہیں، جن میں تقریبا 10 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے ہیں،مجموعی طور پر اب تک گؤ رکشا کے نام پر مآب لنچنگ کے 85 واقعات ہوچکے ہیں، جن میں 34 لوگ جان بحق اور 289 لوگ نیم مردہ ہو چکے ہیں.
جب کہ امریکی میگزین ٹائم کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اب تک مآب لنچنگ کے 150 سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اسی طرح ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق سال رواں کے ماہ ستمبر تک یہاں مآب لنچنگ کے 149 واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثر کے شکار مسلمان ہی ہوئے ہیں.
مآب لنچنگ کے مذکورہ دلدوز واقعات کا بغور جائزہ لینے سے ہماری نگاہوں کے سامنے یہ مترشح ہو جاتا ہے کہ ان کے پیچھے ایک ہی منہج کا ہاتھ ہے اور وہ منہج ہے ہمارے ملک میں پروان چڑھتی مشتعل ذہنیت کا، یہ ذہنیت کسی قانون کی پرواہ کرتی ہے اور نہ ہی کسی آئین کی، بلکہ وہ طاقت کے نشے میں مدہوش ہو کر ملک کو اپنے پراگندہ ہاتھوں میں لینے کی ناپاک جسارت کر رہی ہے، جو کہ اس ملک کی سالمیت کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں، کیوں کہ اگر اس کا ردعمل ہوا، تو ملک میں فرقہ واریت کا بھوت بیدار ہو جائے گا اور وہ پل بھر میں پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کر کے اسے شہر خموشاں میں تبدیل کر دے گا.
خیال رہے کہ وطن عزیز میں مآب لنچنگ کے بڑھتے واقعات اور ان کی ہلاکت خیزیوں کو دیکھ کر گزشتہ سال 31جولائی کو لوک سبھا میں ایک لمبی بحث بھی ہوئی تھی، جس میں بیشتر ممبران نے لنچنگ کے لئے ہندو انتہا پسند حکومت اس کے گرگوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ اگر حکومت نے مآب لنچنگ کے بڑھتے واقعات کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس قانون نہیں بنایا تو وہ دن دور نہیں جب ملک ہندوستان کے بجائے لنچستان کے نام سے جانا جائے گا، لیکن واضح رہے کہ باشندگان ہندوستان ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے، بلکہ وہ مآب لنچرس اور آقاؤں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں گے.
مآب لنچنگ کے مذکورہ واقعات اور ان کے شکار افراد کو دیکھ کر ہمارے پردہ اذہان میں یہ سوال نمودار ہوتا ہے کہ آخر یہ مآب لنچرس قانون کو اپنے ہاتھوں میں کیوں کر لے رہے ہے؟ اس کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ یہ قانون کو اپنے خونی ہاتھوں میں اس لئے لے رہے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ گالی گلوج کرنے والوں کو ملک کا وزیراعظم نریندر مودی فالو کرتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ مرکزی وزیر گری راج سنگھ مجرمین کے گھروں میں جاکر خون کے آنسو بہاتے ہیں , انہیں معلوم ہے کہ مرکزی وزیر جینت سنہا ضمانت پر رہا ہونے والے مجرموں کو مالا پہنا کر خیرمقدم کرتے ہیں، اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اخلاق کی موت میں شامل لوگوں کو آن بان شان کے ساتھ این ٹی پی سی میں نوکریاں بھی دلوائی جاتی ہیں، اسی طرح انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ بڑےرہنماؤں اور وزیروں کی نگاہ میں بسنے کا مآب لنچنگ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، اس کے ذریعے وہ اس کے طفیل شہرت بھی حاصل کر سکتے ہیں اور عزت بھی اور اسی کے ذریعے وہ دولت بھی حاصل کر سکتے ہیں اور سیاست بھی، یہی وجہ ہے کہ مآب لنچنگ کو اپنا محبوب ترین مشغلہ بنانے میں محو ہیں، جس کے شکار آئے بے قصور مسلمان بنتے جا رہے ہیں.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دنوں ہمارے ملک ہندوستان میں مآب لنچنگ کا بول بالا ہے، اس کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہیں،وہ کہیں گؤرکشا کے نام پر، تو کہیں ہندتو کی حفاظت کے نام پر،اور کہیں بچہ چوری کے نام پر تو کہیں لو جہاد کے نام پر اس کے شکار ہو رہے ہیں، تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اب تک سینکڑوں مسلمان اس کے شکار ہو چکے ہیں، ویسے ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی اس مآب لنچنگ کے شکار ہو رہے ہیں ، بلکہ ان کے علاوہ یہاں کے دیگر باشندگان بھی اس کے شکار ہو رہے ہیں، لیکن بس فرق اتنا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی شکار ہو رہی ہے، جیسا کہ 2017 میں آئی انڈیا اسپینڈ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلمان مآب لنچنگ کا سب سے آسان اور سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں.
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہندوستان ایک آزاد ملک ہے، اس کی آزادی میں یہاں کے دیگر لوگوں کی طرح مسلمانوں نے بھی تن من دھن کی قربانیاں دی ہیں، بلکہ یہ کہا جائے کہ ان ہی کی مساعی جمیلہ کے طفیل ملک نے سفید فام انگیزیوں کے شکنجہ استبداد سے خلاصی حاصل کی ہے، تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا، لیکن افسوس کہ آج یہ ملک ان محسنین مسلمانوں کے لئے ہی اپنی تمام تر کشادگیوں کے باوجود بھی تنگ ہو چکا ہے، بالخصوص مرکز میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ گیا ہے، ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے، اور ان کے لئے ان کے ہی ملک میں چین وسکون کی سانسیں لینا ایک ادھورا خواب سا بن گیا ہے، آج وہ جگہ جگہ مآب لنچنگ کے شکار ہو رہے ہیں، کبھی لو جہاد کے نام پر، تو گؤرکشا کے نام پر،تو کبھی کسی نام پر، اور نا اہل حکومت ہے کہ مآب لنچرس کو گرفتار کر کے بطور سزا سلاخوں کے پیچھے ڈال رہی ہے اور نہ ہی مآب لنچنگ کے شکار مسلمانوں کے لواحقین کی کوئی دادرسی کر رہی ہے، بلکہ انتہا پسند حکومت بدبختانہ قدم اٹھاتے ہوئے الٹا مآب لنچرس کو آسمان پر چڑھا رہی ہے، ان کو بے قصور قرار دے رہی ہے اور انہیں ہی بحیثیت لیڈران اپنی پارٹی میں شامل کر رہی ہے،جو کہ قابل افسوس ہی نہیں بلکہ لائق مذمت بھی ہے.
واضح رہے کہ ہندوستان میں اب تک مآب لنچنگ کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں سینکڑوں معصوم افراد جاں بحق بھی ہوئے ہیں، تاہم میں ان سب کی تفصیلات کو بیان کرنے سے پہلے مآب لنچنگ کے مطلب اور عالم انسانیت پر اس کی قہرمانیوں کو واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں، تاکہ اس موضوع کی تفہیم میں قارئین کرام کو کوئی دقت نہ ہو.
مآب لنچنگ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو ہجوم کے ذریعے پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، یہ کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ قدیم اصطلاح ہے،دنیا کے تقریبا تمام اصحاب علم و عرفان اس سے آشنا ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تقریبا دنیا کے ہر ملک میں اپنا سر ابھار چکا ہے اور ہزاروں معصوموں اور بکسوں کو خاک و خون میں لت پت ہونے پر مجبور کر چکا ہے، دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں، جہاں تک اس نے رسائی حاصل نہ کی ہو، خواہ وہ امریکہ ہو یا جرمنی یا پھر ہمارا ملک ہندوستان، یا ان کے علاوہ کوئی اور ملک .
جہاں تک امریکہ میں رونما ہونے والے مآب لنچنگ کے واقعات کی بات ہے تو یہ واضح رہے کہ یہاں اس کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے، یہ آج بھی تاریخی کتب میں لنچنگ کے نام سے محفوظ ہیں ،اس کا لب لباب یہ ہے کہ یہاں جب گوروں اور کالوں کے درمیان چھڑی خانہ جنگی ایک لمبے عرصے کے بعد ختم ہو گئی، اور کالوں کو برابری کے حقوق مل گئے، تو گوروں نے کالوں کی لنچنگ شروع کر دی،ابتدا میں یہاں وہاں مآب لنچنگ کے ایک دو واقعات رونما ہوئے ، پھر اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک تسلسل کا روپ دھار اختیار کر لیا،جس کے بھینٹ ہزاروں معصومین کو چڑھنے پڑے، یہ الگ بات ہے کہ رفتار زمانہ کے ساتھ آج اس نے وہاں اپنی توانائی مفقود کر لی ہے، تاہم اس کی کچھ کڑیاں مرور ایام کے ساتھ آج بھی گاہے بگاہے دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں.
اسی طرح قدیم جرمنی میں مشتعل عیسائیوں کی طرف سے یہودیوں کو بھی مآب لنچنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا، بتایا جاتا ہے کہ یہاں کے عیسائیوں نے گلی گلی کوچے کوچے میں یہ اعلان عام کر دیا تھا کہ یہود دنیا کی ایک فتین قوم ہے،انہوں نے ہی دنیائے انسانیت میں نفرتوں کی آگ لگا رکھی ہے اور انہوں نے ہی عیسائیت پر شب خونق مارا ہے، اس لئے انہیں جرمنی میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ، اگر بادل نخواستہ وہ یہاں رہنا ہی چاہتے ہیں، تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہودیت کی قبا چاک کر کے ہمیشہ کے لئے عیسائیت کو گلے لگا لیں، چنانچہ جرمن یہودیوں نے عیسائیوں کے اس رعونت آمیز اعلان کو سن کر اپنی عقل مندی کا ثبوت پیش کیا اور انہوں نے ویسا ہی کیا جیسا کہ ان سے مطالبہ کیا گیا تھا ، یہ علیحدہ بات ہے کہ انہوں نے علمبرداران حقوقِ انسانی کی کچھ ہمدردیاں حاصل کرنے کے بعد عیسائیت کو اپنے گلے سے اتار کر باہر پھینک دیا اور پھر سے اپنے قدیم مذہب یہودیت میں عود کر آئے، یہاں کے مآب لنچنگ پر بہت ساری ریسرچیز کی گئیں ہیں، جو کہ آج بھی تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں .
جہاں تک ہندوستان میں رونما ہونے والے مآب لنچنگ کے واقعات کی بات ہے، تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ یہاں کے لئے بھی یہ کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ اسے یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ سینکڑوں سالوں سے جانتے پہچانتے آئے ہیں، دیگر ممالک کی طرح اس نے یہاں بھی بہت سے معصوم لوگوں کو اپنا شکار بنایا ہے، تاہم اس نے گزشتہ چار سالوں میں جتنے افراد کو اپنا شکار بنایا ہے، اتنا شکار اپنے تمام سابقہ سالوں میں نہیں بنایا ہے، گزشتہ چار سالوں میں ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں مآب لنچنگ کے سوؤں واقعات برپا ہوئے ہیں ، جن میں سے چند بڑے خونچکاں واقعات پیش خدمت ہیں.
28 ستمبر 2015 ء کو اترپردیش کے دادری میں محمد اخلاق اس کا شکار ہوا، کچھ شرپسندوں نے اس کے متعلق یہ افواہ پھیلا دی کہ محمد اخلاق نے اپنے گھر میں نہ صرف گائے کا گوشت ذخیرہ کررکھا ہے، بلکہ اس کا خاندان گوشت کا استعمال بھی کررہا ہے، چنانچہ ایک خونی ہجوم نے گؤرکشا کے نام پر اس کے گھر میں حملہ کردیا اور تشدد کرکے خاندان کے سربراہ محمد اخلاق کو ہلاک، جب کہ اس کے بیٹے دانش کو شدید زخمی کردیا، اس کی فوری اطلاع مقامی پولیس کو دی گئی، تاہم انہوں نے مجرمین کو گرفتار کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کسی طرح کا کوئی ایکشن لیا، بلکہ الٹا مہلوک شخص اور اس کے لواحقین ہی پر یہ الزام عائد کر دیا گیا کہ انہوں نے ذبیحہ پر پابندی لگنے کے باوجود بھی گائے ذبح کیا تھا اور اس کے گوشت کا استعمال بھی کیا تھا جو کہ سراسر آئین کے خلاف تھا.
18 مارچ 2016 ء کو جھارکھنڈ کے لاتیہار میں امتیاز خان اس کا شکار ہوا ، وہ مذکورہ صوبہ کے لاتیہار ضلع کا ایک معمولی باشندہ تھا،جو جانوروں کی خرید و فروخت کر کے اپنی حیات مستعار گزارا کرتا تھا، ایک دن وہ اپنے ایک ساتھی مظلوم انصاری کے ساتھ جانوروں کو فروخت کرنے کے غرض سے اپنے علاقے کے کسی قریبی بازار میں جا رہا تھا کہ کچھ مآب لنچرس نے اچانک ان کا تعاقب کیا اور انہیں گرفتار کر لیا، انہوں نے انہیں جانوروں کی طرح مضبوط رسیوں سے باندھ کر ایک لمبے درخت پر لٹکا دیا اور سفاکانہ طریقے سے انہیں لاٹھی ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا.
5 اپریل 2017 ء کو راجستھان کے الور میں پہلو خان اس کا شکار ہوا، وہ جانوروں کا تاجر تھا، اس کا تعلق صوبہ ہریانہ کے میوات ضلع سے تھا، وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک دو پڑوسیوں کے ساتھ جانوروں کی خریداری کے غرض سے راجستھان گیا ہوا تھا، جب وہ جانور لے کر راجستھان کے الور علاقہ میں پہنچا، تو دفعتا گؤرکشا کے نام پر کچھ ہندو گرگوں نے اس کا اور اس کے دونوں بیٹوں کا محاصرہ کر لیا، تمام قانونی کاغذات دکھانے کے باوجود بھی ان مآب لنچرس نے پہلو خان کو مار مار کر ہلاک اور اس کے بیٹوں کو زخمی کردیا.
13 ستمبر 2018 ء کو منی پور امفال میں احمد خان اس کا شکار ہوا، وہ ایم بی اے کا ایک طالب علم تھا، ایک دن وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ کار میں کہیں جا رہا تھا کہ اچانک کچھ مآب لنچرس نے موٹر سائیکل چوری کرنے کے شک میں ان کا تعاقب کیا، اس کے دونوں دوست تو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ اس کے پاس کار ہونے کی وجہ سے وہ ان سے فرار نہیں ہو سکا، چنانچہ انہوں نے اسے گرفتار کر لیا اور بے دردی سے مار مار کر ہلاک کر دیا، پولیس نے اب تک ملزمان کو گرفتار کیا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی طرح کا کوئی ایکشن ہی لیا ہے ، حالاں کہ اس دلدوز واقعہ کی وجہ سے امفال کے حالات کافی خراب ہو گئے ہیں، لوگوں میں افراتفری کا ماحول ہے اور وہ خوف و دہشت کے سائے تلے اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں.
ان کے علاوہ بھی ہمارے ملک میں اب تک مآب لنچنگ کے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں، لیکن اس مختصر سے مضمون میں ان سب کو بالترتيب بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، تاہم میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ گزشتہ چار سالوں میں 134 سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں، اس کی شہادت کے لئے آج تک کی یہ روح پرسا رپورٹ کافی ہے کہ ملک بھر میں گزشتہ چار سالوں میں مآب لنچنگ کے 134 واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 2015 سے لے کر سال رواں کے ماہ اگست تک 68 لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں، جو واقعات لو جہاد، بچہ چوری اور گؤ رکشا کے نام برپا ہوئے ہیں، لیکن اگر صرف گؤ رکشا کے نام پر رونما ہونے والے مآب لنچنگ کے واقعات کی بات کی جائے تو ان کے متعلق حکومتی اعداد و شمار ہوش ربا ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں.
سال 2014 میں اس کے نام پر 3 واقعات ہوئے تھے جن میں 11 لوگ زخمی ہوئے تھے ،سال 2015 میں اس کے نام 12 واقعات ہوئے تھے ، جن میں 10 لوگ ہلاک اور 48 لوگ شدید طور پر زخمی ہوئے تھے ، سال 2016 میں اس کے نام پر 24 واقعات ہوئے تھے ، جن میں 8 لوگوں کی جانیں گئیں اور 58 لوگ شدید طور پر زخمی ہوئے تھے ، سال 2017 میں اس کے نام پر 37 واقعات ہوئے تھے ، جن میں 11 لوگ جاں بحق اور 152 لوگ شدید طور پر زخمی ہوئے تھے ، سال 2018 میں اب تک 13 واقعات ہوچکے ہیں، جن میں تقریبا 10 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے ہیں،مجموعی طور پر اب تک گؤ رکشا کے نام پر مآب لنچنگ کے 85 واقعات ہوچکے ہیں، جن میں 34 لوگ جان بحق اور 289 لوگ نیم مردہ ہو چکے ہیں.
جب کہ امریکی میگزین ٹائم کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اب تک مآب لنچنگ کے 150 سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اسی طرح ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق سال رواں کے ماہ ستمبر تک یہاں مآب لنچنگ کے 149 واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثر کے شکار مسلمان ہی ہوئے ہیں.
مآب لنچنگ کے مذکورہ دلدوز واقعات کا بغور جائزہ لینے سے ہماری نگاہوں کے سامنے یہ مترشح ہو جاتا ہے کہ ان کے پیچھے ایک ہی منہج کا ہاتھ ہے اور وہ منہج ہے ہمارے ملک میں پروان چڑھتی مشتعل ذہنیت کا، یہ ذہنیت کسی قانون کی پرواہ کرتی ہے اور نہ ہی کسی آئین کی، بلکہ وہ طاقت کے نشے میں مدہوش ہو کر ملک کو اپنے پراگندہ ہاتھوں میں لینے کی ناپاک جسارت کر رہی ہے، جو کہ اس ملک کی سالمیت کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں، کیوں کہ اگر اس کا ردعمل ہوا، تو ملک میں فرقہ واریت کا بھوت بیدار ہو جائے گا اور وہ پل بھر میں پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کر کے اسے شہر خموشاں میں تبدیل کر دے گا.
خیال رہے کہ وطن عزیز میں مآب لنچنگ کے بڑھتے واقعات اور ان کی ہلاکت خیزیوں کو دیکھ کر گزشتہ سال 31جولائی کو لوک سبھا میں ایک لمبی بحث بھی ہوئی تھی، جس میں بیشتر ممبران نے لنچنگ کے لئے ہندو انتہا پسند حکومت اس کے گرگوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ اگر حکومت نے مآب لنچنگ کے بڑھتے واقعات کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس قانون نہیں بنایا تو وہ دن دور نہیں جب ملک ہندوستان کے بجائے لنچستان کے نام سے جانا جائے گا، لیکن واضح رہے کہ باشندگان ہندوستان ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے، بلکہ وہ مآب لنچرس اور آقاؤں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں گے.
مآب لنچنگ کے مذکورہ واقعات اور ان کے شکار افراد کو دیکھ کر ہمارے پردہ اذہان میں یہ سوال نمودار ہوتا ہے کہ آخر یہ مآب لنچرس قانون کو اپنے ہاتھوں میں کیوں کر لے رہے ہے؟ اس کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ یہ قانون کو اپنے خونی ہاتھوں میں اس لئے لے رہے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ گالی گلوج کرنے والوں کو ملک کا وزیراعظم نریندر مودی فالو کرتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ مرکزی وزیر گری راج سنگھ مجرمین کے گھروں میں جاکر خون کے آنسو بہاتے ہیں , انہیں معلوم ہے کہ مرکزی وزیر جینت سنہا ضمانت پر رہا ہونے والے مجرموں کو مالا پہنا کر خیرمقدم کرتے ہیں، اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اخلاق کی موت میں شامل لوگوں کو آن بان شان کے ساتھ این ٹی پی سی میں نوکریاں بھی دلوائی جاتی ہیں، اسی طرح انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ بڑےرہنماؤں اور وزیروں کی نگاہ میں بسنے کا مآب لنچنگ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، اس کے ذریعے وہ اس کے طفیل شہرت بھی حاصل کر سکتے ہیں اور عزت بھی اور اسی کے ذریعے وہ دولت بھی حاصل کر سکتے ہیں اور سیاست بھی، یہی وجہ ہے کہ مآب لنچنگ کو اپنا محبوب ترین مشغلہ بنانے میں محو ہیں، جس کے شکار آئے بے قصور مسلمان بنتے جا رہے ہیں.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دنوں ہمارے ملک ہندوستان میں مآب لنچنگ کا بول بالا ہے، اس کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہیں،وہ کہیں گؤرکشا کے نام پر، تو کہیں ہندتو کی حفاظت کے نام پر،اور کہیں بچہ چوری کے نام پر تو کہیں لو جہاد کے نام پر اس کے شکار ہو رہے ہیں، تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اب تک سینکڑوں مسلمان اس کے شکار ہو چکے ہیں، ویسے ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی اس مآب لنچنگ کے شکار ہو رہے ہیں ، بلکہ ان کے علاوہ یہاں کے دیگر باشندگان بھی اس کے شکار ہو رہے ہیں، لیکن بس فرق اتنا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی شکار ہو رہی ہے، جیسا کہ 2017 میں آئی انڈیا اسپینڈ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلمان مآب لنچنگ کا سب سے آسان اور سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں.