فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الہ آباد جو ایک تاریخی اور بہت ہی قدیم عالمی شہرت یافتہ شہر ہے، الہ آباد شہر ایسا ممتاز شہر ہے جسے مسلم دور حکومت میں بھی ایک خاص مقام حاصل رہا شاہ جہاں کے دور حکومت میں الہ آباد ایک مستقل صوبہ تھاجس کے تحت دس سرکاریں چلتی تھیں، اور آزادی کے بعد بھی اپنی خصوصیت کی وجہ سے دوسروں شہروں سے ممتاز اورایک خاص مقام حاصل ہے، اس شہر کی تاریخ اردو فارسی عربی اور ہندی کی بیشمارکتابوں میں تذکرہ ملتاہے،اچانک اس شہر کا نام تبدیل کردیاگیا مجھے اس پر لب کشائی نہی کرناہے کہ اس کے پیچھے کیا سیاست ہے، کس فائدہ کی غرض سے یہ فیصلہ لیاگیا، ان چیزوں سے مجھے کوئی سروکار نہیں، اہل سیاست اس پر تبصرہ اور رائے زنی کررہے ہیں، ہاں الہ آبادی کو اپنے الہ آباد پہ ناز بہت تھا،
فخریہ طور پر الہ آبادی کہتاتھا مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے نام میں اور میرے شہر میں میرے خدا کانام ہے، اور خدا کے نام سے بڑا نام کس کانام ہوسکتاہے، چنانچہ الہ آبادی کے مخاطب مسکت وخاموش ہوجایا کرتے تھے، اعظمی شبلی نعمانی رحمہ اللہ کے نام لے کر اپنی فضیلت بیان کرنے کی کوشش کرتا، توشیرازی امیرالمومنین فی الحدیث مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ کانام لے کر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا، توالہ آبادی لمبی خاموشی کے بعد صرف اتنا کہتا جسے اللہ سے محبت ہے تواسے اللہ کے نام سے محبت ہے،آپ شبلی نعمانی اور شیخ یونس رحمھااللہ پر فخر کرو، الہ آبادی اس سے بڑی فضیلت اپنی نہی سمجھتا کہ میرے اور میرے شہر کے نام میں اللہ کانام ہے،یہ تو صرف علمی لطیفہ ہے، جس طرح مشہور شاعر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا الہ آباد میں کہاں ہیں سامان فلاح بہبود کے سوائے اکبر اور امرود کے.
شہرالہ آباد فضائل کی روشنی میں:
شہر الہ آباد ہندوستان کا قدیم ترین شہر ہے، جو پوری دنیا میں کسی محتاج کاتعارف نہی، شہر الہ آباد ایسا حسین اور خوشنما شہر ہے جو اپنے آپ میں ممتاز وبے مثال ہے، بندہ ناچیز کاجہاں تک اپنا ذاتی مطالعہ ہے، میں پورے وثوق اور بھر پور اعتماد کے ساتھ کہتاہوں الہ آباد جیساہمہ گیر شہر جس نے دنیا کے ہرمیدان کے ماہرین کوجنم دیا، جس نے دین اور دنیا دونوں کے اندر عظیم سپوت پیداکیا، سپوت ہی نہیں بلکہ اس فن کے کاملین کو پیدا کیا، میری کوتاہ نظر نے ہندوستان کی کسی شہر کی ایسی عظیم تاریخ نہیں پڑی، تاریخ سے مجھے بچپن ہی سے شوق تھا، علماء دیوبند کی تاریخ ہو یا پھر شہر الہ آباد کی تاریخ ہو میں صرف سنی سنائی باتوں پر کبھی بھروسہ نہی کیا بلکہ تاریخ کوجاننے کے لئے خود کو تکلیف دیا، اور الحمدللہ اس میں کامیابی بھی ملی، دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں اردوہندی فارسی اور عربی میں اپنے شہر کی تاریخ پڑھنے کا موقع ملا اس سے بھرپور استفادہ کیا، کچھ اہم باتوں کا تذکرہ یہاں کر دیتا ہوں.
شہر الہ آباد کے سپوتوں کا کمال دینی میدان میں:
شہر الہ آباد کاجب نام آتا ہے تو تصوف وسلوک اورتجوید وقراءت کی طرف ذہن خود بخود منتقل ہوجاتا ہے، الہ آباد کے ۱۲ بارہ دائرہ کسی زمانے میں مشہور تھے، شہر الہ آباد کومرکز تصوف وسلوک وتجوید قراءت کے نام سے مشہور ہے،شہر الہ آباد ہی وہ مقدس سرزمین ہیں جس نے فن تصوف کے امام کوجنم دیا، فن تصوف میں شاہ محب اللہ صاحب الہ آبادی رحمہ اللہ کا مقام وہی ہے جو فقہ حنفی میں حافظ ابن الھمام رحمہ اللہ کاہے، فن تصوف میں حضرت شاہ محب اللہ صاحب الہ آبادی مرتبہ اجتہاد کوپہنچے ہوئے تھے،حضرت نے فارسی زبان میں ایک رسالہ لکھا جس کانام رسالہ تسویہ تھا، فلسفہ کے ذریعہ حضرت نے شریعت کے احکام کو ثابت کیا، علماء ظاہر اس رسالہ کو سمجھ ہی نہی سکے، اور عالمگیر رحمہ اللہ سے اس کی شکایت کردیا کہ شیخ نے اس رسالہ میں شریعت کے خلاف باتیں لکھی ہیں، چنانچہ اس رسالہ کوجلانے کا حکم دیاگیا تھا.
فن ریاضی کاامام مولانا برکت اللہ الہ آبادی:
فن ریاضی جومشکل ترین علم ماناجاتا ہے، اس میدان میں شہر الہ آباد نے امام پیداکیا، مولانا برکت اللہ الہ آبادی اس فن کے امام ہیں، علم ریاضی کی جتنی بڑی کتابیں ہیں اس پر حضرت ہی کا حاشیہ ہے اور علم ریاضی کی اہم کتاب المقالہ الاولی حضرت ہی کی ہے جس میں علم ریاضی کی اہم باتوں کوبیان کیا ہے.
شہر الہ آباد اور علم قراءت:
ہندوستان میں علم تجوید وقراءت کا تذکرہ کیاجائے اور الہ آبادی سپوتوں کا تذکرہ نہ کیاجائے ایساناممکن ہی نہی بلکہ محال ہے، شہر الہ آباد تو علم تجوید وقراءت کامرکز ہے، شہرالہ آباد کاہندوستانی مسلمانوں پر عظیم احسان ہے کہ قرآن کریم کو صحیح طریقہ پر پڑھنے کاسلیقہ سکھایا،فن تجوید وقراءت کے امام پورے ہندوستان کے قاریوں کی سند جہاں جاکر ملتی ہے، وہ ہستی بھی اس شہر الہ آباد کی طرف منسوب ہے، قاری عبدالرحمان مکی الہ آبادی رحمہ اللہ جن کو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حکم دیا: عبدالرحمان تم ہندوستان جاو، چنانچہ قاری عبدالرحمان مکی الہ آبادی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ مکہ المکرمہ چھوڑکر ہندوستان آئے، اور ہندوستان میں سب سے پہلے کانپور گئے لیکن وہاں کے لوگوں نے ان کاساتھ نہی دیا، چنانچہ کانپور سے الہ آباد تشریف لائے الہ آبادیوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، اور پوری محنت اور لگن سے علم تجوید کوسیکھا، اور پورے ہندوستان میں عام کیا.
حکیم الاسلام مولانا قاری طیب صاحب کا استاذ الہ آبادی:
حجہ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے فرزندارجمند مولانا احمد نانوتوی رحمہ اللہ مہتمم خامس دارالعلوم دیوبند کی ذہین فطین صاحب زادے دنیا جسے حکیم الاسلام کے نام سے جانتی ہے، جب حضرت کی عمر بڑی ہوئی اور اس قابل ہوئے کہ ان کو قرآن کی تعلیم دی جائے، اس وقت دارالعلوم دیوبند میں تجوید قراءت کاشعبہ نہی تھا، چنانچہ حجہ الاسلام بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی فرزند مولانا احمد نانوتوی رحمہ اللہ جواس وقت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم تھے، اپنے بچے طیب کو پڑھانے کے لئے استاذ کاانتخاب کیا تو حضرت کی نظر اسی شہر الہ آباد کے ایک عظیم سپوت قاری عبدالوحید صاحب الہ آبادی پر پڑی، اور قاری عبدالوحید الہ آبادی نے اس طرح حضرت کو تجوید قراءت پڑھایا کہ دنیا آج بھی قاری طیب رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے.
دارالعلوم دیوبند کا پہلا قاری الہ آبادی:
میں بحیثیت الہ آبادی ہونے کے اپنی خوش نصیبی وخوش بدبختی سمجھتاہوں کہ ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کا تجوید وقراءت کی سند میرے شہر کے ہی ایک سپوت سے ملتی ہے، قاری عبدالوحید صاحب الہ آبادی جو حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے استاذ محترم ہیں، بعد میں قاری عبدالوحید صاحب الہ آبادی کو قراءت کاپہلا استاذ مقرر کیاگیا، اور چالیس سال تک دارالعلوم دیوبند میں علم قراءت کی تعلیم دی،اس قدر دارالعلوم سے ان کوعقیدت تھی کہ مدنی مسجد کے قریب اپنے مکان کو بھی دارالعلوم دیوبند کے لئے وقف کردیا، دارالعلوم دیوبند کے تمام قاریوں کی سند اسی الہ آبادی قاری سے جاکر ملتی ہے، حضرت قاری عبدالوحید صاحب قاری عبدالرحمان مکی الہ آبادی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے پہلے علم حدیث حاصل کرنے والا الہ آبادی:
عام طور سے یہی سمجھاجاتا ہے علم حدیث کو ہندوستان میں سب سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حاصل کیا، حالانکہ یہ بات درست نہی، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ سے پہلے بھی لوگوں نے علم حدیث کیا ہے، الہ آبادی سپوت فاخر عباس الہ آبادی نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ سے پہلے علم حدیث حاصل کیا، لیکن افسوس کہ ان کے شاگردوں کا تسلسل برقرار نہی رہا، جس کی وجہ سے کم لوگ ہی ان کانام جانتے ہیں، حالانکہ ہندوستان میں علم حدیث کاتذکرہ ہوتا ہے توان کا بھی مورخین ذکرکرتے ہیں.
فن تفسیر کاامام شیخ الدلائل مولاناعبدالحق الہ آبادی:
شیخ الدلائل مولانا عبدالحق الہ آبادی ہندوستان کے ممتاز علماء میں سے ہیں، ان کے علم کااندازہ ان کی عربی تفسیر الاکلیل علی مدارک التنزیل سے لگا سکتے ہیں، بیروت لبنان سے سات جلدوں میں شائع ہوئی ہے، علامہ نسفی رحمہ اللہ کی مشہور تفسیر مدارک التنزیل کا دراصل وہ حاشیہ ہے، اس تفسیر نے شیخ الدلائل رحمہ اللہ نے سیر حاصل بحث کیا ہے، یقینا وہ کتاب مطالعہ کے قابل ہے، علم تفسیر کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کے مسائل اور دلائل پر کھل کر بحث کیا، حضرت شیخ الدلائل رحمہ اللہ عرصہ دراز تک مکہ المکرمہ میں علم حدیث کی خدمت انجام دیا، تقریبا چالیس سال تک حجاز میں علم حدیث پڑھاتے رہے اوروہیں مدفون ہوئے، علماء عرب بھی ان سے استفادہ کرتے تھے.
یہ توتذکرہ ہوا الہ آباد کے ان سپوتوں کا جو کسی فن کے امام تھے جن کاشمار اس فن کے صفحہ اولی میں کیاجاتاہے، الہ آباد کے سپوتوں کے دینی کارناموں کی کچھ جھلک آپنے دیکھی، اب دنیاوی کارناموں کابھی تذکرہ سن لیں.
الہ آبادی سپوت دنیاوی میدان میں.
آزاد ہندوستان کا تذکرہ کیاجائے اور الہ آباد کاتذکرہ نہ کیاجائے ایسا ممکن ہی نہیں، ہندوستان کو سب سے پہلا وزیر اعظم اسی شہر الہ آباد نے دیا، اور ہندوستان کو سب سے زیادہ وزیر اعظم دینے کا شرف بھی اسی شہر الہ آباد کو حاصل ہے.
میں دیار مقدس کے کس کس فضائل کاتذکرہ کروں دین ودنیا ہر میدان کے ماہرین کو اس شہر نے جنم دیا، میری کوتاہ نظر نے اتنی حسین تاریخ ہندوستان کے دوسرے شہروں کی نہی پڑھی، ہاں میں اس بات کااعتراف کرتاہوں سہارنپور کی تاریخ میرے شہر سے زیادہ سنہری ہے، وہ محدثین کی سرزمین ہے، مولانا احمد علی سہارنپوری، مولانا خلیل احمد سہارنپوری مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، رحمھم اللہ ان محدثین کی قربانیوں کودل سے تسلیم کرتاہوں، ان کے عظیم کارنامے کامیں قائل ہوں.
جس الہ آباد کے یہ عظیم کارنامے تھے، الہ آبادی کوجس الہ آباد پر ناز تھا، افسوس کہ اب وہ الہ آباد نہ رہا، اب پریاگ راج ہوگیا، تکلیف تو ضرور ہوئی لیکن یہ بھی سچ ہے نام بدلنے سے تاریخ نہی بدل سکتی، وہ الہ آباد دین و دنیا کے عظیم سپوتوں کا سنگم کل بھی تھا اور آج بھی ہے، ان شاءاللہ آئندہ بھی رہے گا.
نوٹ: اس مضمون کی ہر بات معتبر کتابوں کے حوالہ سے لکھی گئی ہے، بے سند اور فرضی بات ایک بھی نہیں، دوران طالب علم میں تقریبا ۳۰ سے ۳۵ کتابوں کے مطالعہ کے بعد یہ مضمون لکھا گیا ہے.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الہ آباد جو ایک تاریخی اور بہت ہی قدیم عالمی شہرت یافتہ شہر ہے، الہ آباد شہر ایسا ممتاز شہر ہے جسے مسلم دور حکومت میں بھی ایک خاص مقام حاصل رہا شاہ جہاں کے دور حکومت میں الہ آباد ایک مستقل صوبہ تھاجس کے تحت دس سرکاریں چلتی تھیں، اور آزادی کے بعد بھی اپنی خصوصیت کی وجہ سے دوسروں شہروں سے ممتاز اورایک خاص مقام حاصل ہے، اس شہر کی تاریخ اردو فارسی عربی اور ہندی کی بیشمارکتابوں میں تذکرہ ملتاہے،اچانک اس شہر کا نام تبدیل کردیاگیا مجھے اس پر لب کشائی نہی کرناہے کہ اس کے پیچھے کیا سیاست ہے، کس فائدہ کی غرض سے یہ فیصلہ لیاگیا، ان چیزوں سے مجھے کوئی سروکار نہیں، اہل سیاست اس پر تبصرہ اور رائے زنی کررہے ہیں، ہاں الہ آبادی کو اپنے الہ آباد پہ ناز بہت تھا،
فخریہ طور پر الہ آبادی کہتاتھا مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے نام میں اور میرے شہر میں میرے خدا کانام ہے، اور خدا کے نام سے بڑا نام کس کانام ہوسکتاہے، چنانچہ الہ آبادی کے مخاطب مسکت وخاموش ہوجایا کرتے تھے، اعظمی شبلی نعمانی رحمہ اللہ کے نام لے کر اپنی فضیلت بیان کرنے کی کوشش کرتا، توشیرازی امیرالمومنین فی الحدیث مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ کانام لے کر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا، توالہ آبادی لمبی خاموشی کے بعد صرف اتنا کہتا جسے اللہ سے محبت ہے تواسے اللہ کے نام سے محبت ہے،آپ شبلی نعمانی اور شیخ یونس رحمھااللہ پر فخر کرو، الہ آبادی اس سے بڑی فضیلت اپنی نہی سمجھتا کہ میرے اور میرے شہر کے نام میں اللہ کانام ہے،یہ تو صرف علمی لطیفہ ہے، جس طرح مشہور شاعر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا الہ آباد میں کہاں ہیں سامان فلاح بہبود کے سوائے اکبر اور امرود کے.
شہرالہ آباد فضائل کی روشنی میں:
شہر الہ آباد ہندوستان کا قدیم ترین شہر ہے، جو پوری دنیا میں کسی محتاج کاتعارف نہی، شہر الہ آباد ایسا حسین اور خوشنما شہر ہے جو اپنے آپ میں ممتاز وبے مثال ہے، بندہ ناچیز کاجہاں تک اپنا ذاتی مطالعہ ہے، میں پورے وثوق اور بھر پور اعتماد کے ساتھ کہتاہوں الہ آباد جیساہمہ گیر شہر جس نے دنیا کے ہرمیدان کے ماہرین کوجنم دیا، جس نے دین اور دنیا دونوں کے اندر عظیم سپوت پیداکیا، سپوت ہی نہیں بلکہ اس فن کے کاملین کو پیدا کیا، میری کوتاہ نظر نے ہندوستان کی کسی شہر کی ایسی عظیم تاریخ نہیں پڑی، تاریخ سے مجھے بچپن ہی سے شوق تھا، علماء دیوبند کی تاریخ ہو یا پھر شہر الہ آباد کی تاریخ ہو میں صرف سنی سنائی باتوں پر کبھی بھروسہ نہی کیا بلکہ تاریخ کوجاننے کے لئے خود کو تکلیف دیا، اور الحمدللہ اس میں کامیابی بھی ملی، دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں اردوہندی فارسی اور عربی میں اپنے شہر کی تاریخ پڑھنے کا موقع ملا اس سے بھرپور استفادہ کیا، کچھ اہم باتوں کا تذکرہ یہاں کر دیتا ہوں.
شہر الہ آباد کے سپوتوں کا کمال دینی میدان میں:
شہر الہ آباد کاجب نام آتا ہے تو تصوف وسلوک اورتجوید وقراءت کی طرف ذہن خود بخود منتقل ہوجاتا ہے، الہ آباد کے ۱۲ بارہ دائرہ کسی زمانے میں مشہور تھے، شہر الہ آباد کومرکز تصوف وسلوک وتجوید قراءت کے نام سے مشہور ہے،شہر الہ آباد ہی وہ مقدس سرزمین ہیں جس نے فن تصوف کے امام کوجنم دیا، فن تصوف میں شاہ محب اللہ صاحب الہ آبادی رحمہ اللہ کا مقام وہی ہے جو فقہ حنفی میں حافظ ابن الھمام رحمہ اللہ کاہے، فن تصوف میں حضرت شاہ محب اللہ صاحب الہ آبادی مرتبہ اجتہاد کوپہنچے ہوئے تھے،حضرت نے فارسی زبان میں ایک رسالہ لکھا جس کانام رسالہ تسویہ تھا، فلسفہ کے ذریعہ حضرت نے شریعت کے احکام کو ثابت کیا، علماء ظاہر اس رسالہ کو سمجھ ہی نہی سکے، اور عالمگیر رحمہ اللہ سے اس کی شکایت کردیا کہ شیخ نے اس رسالہ میں شریعت کے خلاف باتیں لکھی ہیں، چنانچہ اس رسالہ کوجلانے کا حکم دیاگیا تھا.
فن ریاضی کاامام مولانا برکت اللہ الہ آبادی:
فن ریاضی جومشکل ترین علم ماناجاتا ہے، اس میدان میں شہر الہ آباد نے امام پیداکیا، مولانا برکت اللہ الہ آبادی اس فن کے امام ہیں، علم ریاضی کی جتنی بڑی کتابیں ہیں اس پر حضرت ہی کا حاشیہ ہے اور علم ریاضی کی اہم کتاب المقالہ الاولی حضرت ہی کی ہے جس میں علم ریاضی کی اہم باتوں کوبیان کیا ہے.
شہر الہ آباد اور علم قراءت:
ہندوستان میں علم تجوید وقراءت کا تذکرہ کیاجائے اور الہ آبادی سپوتوں کا تذکرہ نہ کیاجائے ایساناممکن ہی نہی بلکہ محال ہے، شہر الہ آباد تو علم تجوید وقراءت کامرکز ہے، شہرالہ آباد کاہندوستانی مسلمانوں پر عظیم احسان ہے کہ قرآن کریم کو صحیح طریقہ پر پڑھنے کاسلیقہ سکھایا،فن تجوید وقراءت کے امام پورے ہندوستان کے قاریوں کی سند جہاں جاکر ملتی ہے، وہ ہستی بھی اس شہر الہ آباد کی طرف منسوب ہے، قاری عبدالرحمان مکی الہ آبادی رحمہ اللہ جن کو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حکم دیا: عبدالرحمان تم ہندوستان جاو، چنانچہ قاری عبدالرحمان مکی الہ آبادی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ مکہ المکرمہ چھوڑکر ہندوستان آئے، اور ہندوستان میں سب سے پہلے کانپور گئے لیکن وہاں کے لوگوں نے ان کاساتھ نہی دیا، چنانچہ کانپور سے الہ آباد تشریف لائے الہ آبادیوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، اور پوری محنت اور لگن سے علم تجوید کوسیکھا، اور پورے ہندوستان میں عام کیا.
حکیم الاسلام مولانا قاری طیب صاحب کا استاذ الہ آبادی:
حجہ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے فرزندارجمند مولانا احمد نانوتوی رحمہ اللہ مہتمم خامس دارالعلوم دیوبند کی ذہین فطین صاحب زادے دنیا جسے حکیم الاسلام کے نام سے جانتی ہے، جب حضرت کی عمر بڑی ہوئی اور اس قابل ہوئے کہ ان کو قرآن کی تعلیم دی جائے، اس وقت دارالعلوم دیوبند میں تجوید قراءت کاشعبہ نہی تھا، چنانچہ حجہ الاسلام بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی فرزند مولانا احمد نانوتوی رحمہ اللہ جواس وقت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم تھے، اپنے بچے طیب کو پڑھانے کے لئے استاذ کاانتخاب کیا تو حضرت کی نظر اسی شہر الہ آباد کے ایک عظیم سپوت قاری عبدالوحید صاحب الہ آبادی پر پڑی، اور قاری عبدالوحید الہ آبادی نے اس طرح حضرت کو تجوید قراءت پڑھایا کہ دنیا آج بھی قاری طیب رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے.
دارالعلوم دیوبند کا پہلا قاری الہ آبادی:
میں بحیثیت الہ آبادی ہونے کے اپنی خوش نصیبی وخوش بدبختی سمجھتاہوں کہ ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کا تجوید وقراءت کی سند میرے شہر کے ہی ایک سپوت سے ملتی ہے، قاری عبدالوحید صاحب الہ آبادی جو حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے استاذ محترم ہیں، بعد میں قاری عبدالوحید صاحب الہ آبادی کو قراءت کاپہلا استاذ مقرر کیاگیا، اور چالیس سال تک دارالعلوم دیوبند میں علم قراءت کی تعلیم دی،اس قدر دارالعلوم سے ان کوعقیدت تھی کہ مدنی مسجد کے قریب اپنے مکان کو بھی دارالعلوم دیوبند کے لئے وقف کردیا، دارالعلوم دیوبند کے تمام قاریوں کی سند اسی الہ آبادی قاری سے جاکر ملتی ہے، حضرت قاری عبدالوحید صاحب قاری عبدالرحمان مکی الہ آبادی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے پہلے علم حدیث حاصل کرنے والا الہ آبادی:
عام طور سے یہی سمجھاجاتا ہے علم حدیث کو ہندوستان میں سب سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حاصل کیا، حالانکہ یہ بات درست نہی، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ سے پہلے بھی لوگوں نے علم حدیث کیا ہے، الہ آبادی سپوت فاخر عباس الہ آبادی نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ سے پہلے علم حدیث حاصل کیا، لیکن افسوس کہ ان کے شاگردوں کا تسلسل برقرار نہی رہا، جس کی وجہ سے کم لوگ ہی ان کانام جانتے ہیں، حالانکہ ہندوستان میں علم حدیث کاتذکرہ ہوتا ہے توان کا بھی مورخین ذکرکرتے ہیں.
فن تفسیر کاامام شیخ الدلائل مولاناعبدالحق الہ آبادی:
شیخ الدلائل مولانا عبدالحق الہ آبادی ہندوستان کے ممتاز علماء میں سے ہیں، ان کے علم کااندازہ ان کی عربی تفسیر الاکلیل علی مدارک التنزیل سے لگا سکتے ہیں، بیروت لبنان سے سات جلدوں میں شائع ہوئی ہے، علامہ نسفی رحمہ اللہ کی مشہور تفسیر مدارک التنزیل کا دراصل وہ حاشیہ ہے، اس تفسیر نے شیخ الدلائل رحمہ اللہ نے سیر حاصل بحث کیا ہے، یقینا وہ کتاب مطالعہ کے قابل ہے، علم تفسیر کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کے مسائل اور دلائل پر کھل کر بحث کیا، حضرت شیخ الدلائل رحمہ اللہ عرصہ دراز تک مکہ المکرمہ میں علم حدیث کی خدمت انجام دیا، تقریبا چالیس سال تک حجاز میں علم حدیث پڑھاتے رہے اوروہیں مدفون ہوئے، علماء عرب بھی ان سے استفادہ کرتے تھے.
یہ توتذکرہ ہوا الہ آباد کے ان سپوتوں کا جو کسی فن کے امام تھے جن کاشمار اس فن کے صفحہ اولی میں کیاجاتاہے، الہ آباد کے سپوتوں کے دینی کارناموں کی کچھ جھلک آپنے دیکھی، اب دنیاوی کارناموں کابھی تذکرہ سن لیں.
الہ آبادی سپوت دنیاوی میدان میں.
آزاد ہندوستان کا تذکرہ کیاجائے اور الہ آباد کاتذکرہ نہ کیاجائے ایسا ممکن ہی نہیں، ہندوستان کو سب سے پہلا وزیر اعظم اسی شہر الہ آباد نے دیا، اور ہندوستان کو سب سے زیادہ وزیر اعظم دینے کا شرف بھی اسی شہر الہ آباد کو حاصل ہے.
میں دیار مقدس کے کس کس فضائل کاتذکرہ کروں دین ودنیا ہر میدان کے ماہرین کو اس شہر نے جنم دیا، میری کوتاہ نظر نے اتنی حسین تاریخ ہندوستان کے دوسرے شہروں کی نہی پڑھی، ہاں میں اس بات کااعتراف کرتاہوں سہارنپور کی تاریخ میرے شہر سے زیادہ سنہری ہے، وہ محدثین کی سرزمین ہے، مولانا احمد علی سہارنپوری، مولانا خلیل احمد سہارنپوری مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، رحمھم اللہ ان محدثین کی قربانیوں کودل سے تسلیم کرتاہوں، ان کے عظیم کارنامے کامیں قائل ہوں.
جس الہ آباد کے یہ عظیم کارنامے تھے، الہ آبادی کوجس الہ آباد پر ناز تھا، افسوس کہ اب وہ الہ آباد نہ رہا، اب پریاگ راج ہوگیا، تکلیف تو ضرور ہوئی لیکن یہ بھی سچ ہے نام بدلنے سے تاریخ نہی بدل سکتی، وہ الہ آباد دین و دنیا کے عظیم سپوتوں کا سنگم کل بھی تھا اور آج بھی ہے، ان شاءاللہ آئندہ بھی رہے گا.
نوٹ: اس مضمون کی ہر بات معتبر کتابوں کے حوالہ سے لکھی گئی ہے، بے سند اور فرضی بات ایک بھی نہیں، دوران طالب علم میں تقریبا ۳۰ سے ۳۵ کتابوں کے مطالعہ کے بعد یہ مضمون لکھا گیا ہے.