ابن الحسن قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 17/نومبر 2018) تین روز سے چل رہا مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڈھ کا سہ روزہ سالانہ جلسہ اختتام پذیر ہوا، جلسہ ہر اعتبار سے کامیاب رہا، علماء کرام کی مختلف اوقات میں حالات حاضرہ، سیرت، تصوف، مقام صحابہ اور مختلف موضوعات پر عمدہ تقریریں ہوئیں۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب، حضرت مولانا مفتی معصوم ثاقب صاحب، حارث عبد الرحیم صاحب، حضرت مولانا سید محمود مدنی ابو طالب رحمانی، حضرت مولانا سفیان صاحب وقف دارالعلوم دیوبند دامت برکاتہم وغیرہ کی تقریریں بہت خوب رہیں.
مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی نے حالات حاضرہ پر عمدہ باتیں سامعین کو بتائیں، انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں پر اس وقت جو حالات ہیں یہ نئے نہیں ہیں بلکہ بہت پہلے سے یہ حالات کے شکار ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد کے لوگوں پر بھی اس سے سخت حالات طاری ہوئے مگر سب نے عزم وحوصلہ کے ساتھ،حالات کا مقابلہ کیا، ہم بھی عزم وصبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔
مولانا معصوم ثاقب کی تقریر بھی عقائد اسلام کے موضوع پر خوب رہی، انہوں نے کہا کہ ضرورت ہے اس موضوع کو نکھار کر دلچسپ انداز میں عوام کے رو برو پیش کیا جائے، مولانا نے جن جن باتوں کی طرف رہنمائی کی ہے قابل قدر ہیں۔
مولانا ابو طالب رحمانی کی تقریر جوش وولولہ سے بھر پور تھی، انہوں نے واقعی ہمارے پژمردہ چہروں پر ٹھوڑی دیر کے لئے رونق طاری کردیا، انہوں نے کہا مسلمانو! ہم بہت زمانہ سے ان حالات کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں، کبھی ہماری ذات پر ،کبھی ہماری شریعت پر، کبھی اسلام پر، حکومت کی طرف سے، رادران وطن کی طرف سے طرح طرح کے حالات پیدا کئے گئے، اب ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں، لیکن مسلمانو! اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے اخلاق وعادات سے، اپنے دان اور دچھناسے، کردار اور چرتر سے بتادو کہ مسلمانوں کے یہ اخلاق ہیں، اسلام اس طرح زندگی گزار نے کا حکم دیتا ہے، انہوں نے مزید کہا میں ماننیہ مودی جی اور یوگی جی کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایسے حالات بنائے جس سے ہماری آستینوں میں لمبی چپکی، اونچی نیچی ٹوپیوں والے چھپے ہوئے سانپ باہر آگئے ۔
حضرت مولانا سفیان صاحب دامت برکاتہم کی تقریر نے قاری طیب صاحب رحمہ اللہ علیہ کی یاد تازہ کردی، ان کی تقریر حکمت قاسمیہ سے بھر پور تھی، بس جی کررہا تھا کہ وہ کہتے جائیں اور میں سنتا جاؤں، حضرت کی تقریر کا موضوع "مقصد انسانیت" تھا، عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ مال ودولت، عزت و منصب، وغیرہ وغیرہ چیزیں ہیں ان کے لئے انسان انتھک محنت کرتا ہے اور جسے پانے کے لئے وہ ہر ناکردنی کر گزرتا ہے، لیکن یہ چیزیں انسان کا مقصد نہیں ہو سکتی ہیں کیوں کہ یہ سب اضافی اور ذہنی کیفیات ہیں، اصل مقصد اللہ کی بندگی ہے، اور بندگی میں اصل تقوی ہے جو چہرے مہرے، لباس و گفتار میں نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ دل میں ہوتا ہے، اور یہ توفیق الہی سے حاصل ہو تا ہے، اگر تقوی حاصل ہوگیا یعنی انسان کا دل عظمت الہی سے لبریز ہوگیا تو سمجھ لیں بندگی حاصل ہوگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا ۔
واضح رہے علماء کے یہ بیانات جمعرات عشاء کے بعد سے لے کر جمعہ عصر سے پہلے تک مختلف اوقات میں ہوئے ۔
پورے اجلاس کا نظم وضبط بڑا اچھا رہا، بڑے سکون واطمینان سے جلسہ اختتام تک پہونچا، اس کے لئے ارباب انتظام شکریہ کے مستحق ہیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 17/نومبر 2018) تین روز سے چل رہا مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڈھ کا سہ روزہ سالانہ جلسہ اختتام پذیر ہوا، جلسہ ہر اعتبار سے کامیاب رہا، علماء کرام کی مختلف اوقات میں حالات حاضرہ، سیرت، تصوف، مقام صحابہ اور مختلف موضوعات پر عمدہ تقریریں ہوئیں۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب، حضرت مولانا مفتی معصوم ثاقب صاحب، حارث عبد الرحیم صاحب، حضرت مولانا سید محمود مدنی ابو طالب رحمانی، حضرت مولانا سفیان صاحب وقف دارالعلوم دیوبند دامت برکاتہم وغیرہ کی تقریریں بہت خوب رہیں.
مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی نے حالات حاضرہ پر عمدہ باتیں سامعین کو بتائیں، انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں پر اس وقت جو حالات ہیں یہ نئے نہیں ہیں بلکہ بہت پہلے سے یہ حالات کے شکار ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد کے لوگوں پر بھی اس سے سخت حالات طاری ہوئے مگر سب نے عزم وحوصلہ کے ساتھ،حالات کا مقابلہ کیا، ہم بھی عزم وصبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔
مولانا معصوم ثاقب کی تقریر بھی عقائد اسلام کے موضوع پر خوب رہی، انہوں نے کہا کہ ضرورت ہے اس موضوع کو نکھار کر دلچسپ انداز میں عوام کے رو برو پیش کیا جائے، مولانا نے جن جن باتوں کی طرف رہنمائی کی ہے قابل قدر ہیں۔
مولانا ابو طالب رحمانی کی تقریر جوش وولولہ سے بھر پور تھی، انہوں نے واقعی ہمارے پژمردہ چہروں پر ٹھوڑی دیر کے لئے رونق طاری کردیا، انہوں نے کہا مسلمانو! ہم بہت زمانہ سے ان حالات کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں، کبھی ہماری ذات پر ،کبھی ہماری شریعت پر، کبھی اسلام پر، حکومت کی طرف سے، رادران وطن کی طرف سے طرح طرح کے حالات پیدا کئے گئے، اب ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں، لیکن مسلمانو! اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے اخلاق وعادات سے، اپنے دان اور دچھناسے، کردار اور چرتر سے بتادو کہ مسلمانوں کے یہ اخلاق ہیں، اسلام اس طرح زندگی گزار نے کا حکم دیتا ہے، انہوں نے مزید کہا میں ماننیہ مودی جی اور یوگی جی کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایسے حالات بنائے جس سے ہماری آستینوں میں لمبی چپکی، اونچی نیچی ٹوپیوں والے چھپے ہوئے سانپ باہر آگئے ۔
حضرت مولانا سفیان صاحب دامت برکاتہم کی تقریر نے قاری طیب صاحب رحمہ اللہ علیہ کی یاد تازہ کردی، ان کی تقریر حکمت قاسمیہ سے بھر پور تھی، بس جی کررہا تھا کہ وہ کہتے جائیں اور میں سنتا جاؤں، حضرت کی تقریر کا موضوع "مقصد انسانیت" تھا، عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ مال ودولت، عزت و منصب، وغیرہ وغیرہ چیزیں ہیں ان کے لئے انسان انتھک محنت کرتا ہے اور جسے پانے کے لئے وہ ہر ناکردنی کر گزرتا ہے، لیکن یہ چیزیں انسان کا مقصد نہیں ہو سکتی ہیں کیوں کہ یہ سب اضافی اور ذہنی کیفیات ہیں، اصل مقصد اللہ کی بندگی ہے، اور بندگی میں اصل تقوی ہے جو چہرے مہرے، لباس و گفتار میں نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ دل میں ہوتا ہے، اور یہ توفیق الہی سے حاصل ہو تا ہے، اگر تقوی حاصل ہوگیا یعنی انسان کا دل عظمت الہی سے لبریز ہوگیا تو سمجھ لیں بندگی حاصل ہوگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا ۔
واضح رہے علماء کے یہ بیانات جمعرات عشاء کے بعد سے لے کر جمعہ عصر سے پہلے تک مختلف اوقات میں ہوئے ۔
پورے اجلاس کا نظم وضبط بڑا اچھا رہا، بڑے سکون واطمینان سے جلسہ اختتام تک پہونچا، اس کے لئے ارباب انتظام شکریہ کے مستحق ہیں ۔