مولانا طاھر مدنی
ــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 17/ نومبر 2018) آج دو سادہ تقریب نکاح میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، بہت خوشی ہوئی، پہلی تقریب ہمارے پڑوسی جناب نور عالم شیخ صاحب کے بیٹے عبداللہ صالح کے نکاح کی تھی، جمعہ سے قبل صبح نو بجے چار پانچ افراد لڑکی کے ننیہال علاؤ الدین پٹی گئے، ماسٹر بدرالدین صاحب بچی کے نانا اور جناب عبد القوی صاحب اس کے والد محترم ہیں، ایک صحن میں چند چارپائیاں بچھی تھیں، وہاں بیٹھ گئے، گھر سے چائے پانی آیا، اس کے بعد نکاح ہوا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر ہی بلرياگنج واپسی ہوگئی.
دوسرا نکاح ہمارے بھانجے محمد حارث بن مولانا جاوید قاسمی صاحب کا گلوا غوری میں ہوا، عصر کے وقت ہم لوگ وہاں پہونچے اور سیدھے مسجد گئے، نماز کے بعد مسجد میں عقد مسنون انجام پایا، اس موقع پر میں نے نکاح کے سنتی طریقے پر روشنی ڈالی اور عہد نبوی کے واقعات کی روشنی میں سادہ نکاح کو رواج دینے کی ترغیب دی.
ایسے دور میں جبکہ شادی بیاہ کی تقریبات میں اسراف اور فضول خرچی بڑھتی جا رہی ہے اور نام و نمود میں دولت بے دریغ خرچ کی جارہی ہے، سادہ نکاح کو رواج دینے کی سخت ضرورت ہے، آج منگنی، بارات، جہیز اور طعام پر بے جا خرچ نے نکاح کو بہت مشکل بنا دیا ہے، اب لوگ لڑکی کی شادی کے موقع پر قرض اور اعانت مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، شادی خانہ آبادی کے بجائے گھر کی بربادی کا سبب بن رہی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہم اہل وطن کیلئے نمونہ بنتے اور ان کو رشک ہوتا کہ مسلم سماج میں شادی کتنی آسان ہے، مگر آج کل ہماری تقریبات تو ان کو بھی مات دے رہی ہیں، لاکھوں روپیہ سجاوٹ پر خرچ کیا جارہا ہے، ہزاروں روپیہ شادی کارڈ پر برباد کیا جارہا ہے، اتنے انواع و اقسام کے سامان ضیافت کہ میز پر رکھنے کی جگہ نہیں، چار چار قسم کے میٹھے، متعدد اقسام کے سالن، روٹیوں کی کئی انواع وغیرہ وغیرہ، پانی کی طرح پیسہ بہایا جارہا ہے، جہیز میں فہرست بڑھتی جارہی ہے، آخر ہم اپنے طرز عمل سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟؟ کیا دولت کا حساب نہیں دینا ہے؟؟؟ کیا غریب بچیوں کی شادیاں ہم نہیں ہونے دینا چاہتے؟؟ ہم سماج کو کس گڈھے میں ڈھکیل رہے ہیں؟؟
یاد رکھیے! جس سماج میں نکاح دشوار ہوگا، وہاں بدکاری عام ہوگی، آئیے عہد کریں کہ ہم سادہ نکاح کریں گے اور فضول خرچی پر قدغن لگائیں گے. ان شاء اللہ
ــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 17/ نومبر 2018) آج دو سادہ تقریب نکاح میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، بہت خوشی ہوئی، پہلی تقریب ہمارے پڑوسی جناب نور عالم شیخ صاحب کے بیٹے عبداللہ صالح کے نکاح کی تھی، جمعہ سے قبل صبح نو بجے چار پانچ افراد لڑکی کے ننیہال علاؤ الدین پٹی گئے، ماسٹر بدرالدین صاحب بچی کے نانا اور جناب عبد القوی صاحب اس کے والد محترم ہیں، ایک صحن میں چند چارپائیاں بچھی تھیں، وہاں بیٹھ گئے، گھر سے چائے پانی آیا، اس کے بعد نکاح ہوا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر ہی بلرياگنج واپسی ہوگئی.
دوسرا نکاح ہمارے بھانجے محمد حارث بن مولانا جاوید قاسمی صاحب کا گلوا غوری میں ہوا، عصر کے وقت ہم لوگ وہاں پہونچے اور سیدھے مسجد گئے، نماز کے بعد مسجد میں عقد مسنون انجام پایا، اس موقع پر میں نے نکاح کے سنتی طریقے پر روشنی ڈالی اور عہد نبوی کے واقعات کی روشنی میں سادہ نکاح کو رواج دینے کی ترغیب دی.
ایسے دور میں جبکہ شادی بیاہ کی تقریبات میں اسراف اور فضول خرچی بڑھتی جا رہی ہے اور نام و نمود میں دولت بے دریغ خرچ کی جارہی ہے، سادہ نکاح کو رواج دینے کی سخت ضرورت ہے، آج منگنی، بارات، جہیز اور طعام پر بے جا خرچ نے نکاح کو بہت مشکل بنا دیا ہے، اب لوگ لڑکی کی شادی کے موقع پر قرض اور اعانت مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، شادی خانہ آبادی کے بجائے گھر کی بربادی کا سبب بن رہی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہم اہل وطن کیلئے نمونہ بنتے اور ان کو رشک ہوتا کہ مسلم سماج میں شادی کتنی آسان ہے، مگر آج کل ہماری تقریبات تو ان کو بھی مات دے رہی ہیں، لاکھوں روپیہ سجاوٹ پر خرچ کیا جارہا ہے، ہزاروں روپیہ شادی کارڈ پر برباد کیا جارہا ہے، اتنے انواع و اقسام کے سامان ضیافت کہ میز پر رکھنے کی جگہ نہیں، چار چار قسم کے میٹھے، متعدد اقسام کے سالن، روٹیوں کی کئی انواع وغیرہ وغیرہ، پانی کی طرح پیسہ بہایا جارہا ہے، جہیز میں فہرست بڑھتی جارہی ہے، آخر ہم اپنے طرز عمل سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟؟ کیا دولت کا حساب نہیں دینا ہے؟؟؟ کیا غریب بچیوں کی شادیاں ہم نہیں ہونے دینا چاہتے؟؟ ہم سماج کو کس گڈھے میں ڈھکیل رہے ہیں؟؟
یاد رکھیے! جس سماج میں نکاح دشوار ہوگا، وہاں بدکاری عام ہوگی، آئیے عہد کریں کہ ہم سادہ نکاح کریں گے اور فضول خرچی پر قدغن لگائیں گے. ان شاء اللہ