اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: محمدی انقلاب: دنیائے انسانیت کا ہمہ گیر و پائیدار انقلاب!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 3 November 2018

محمدی انقلاب: دنیائے انسانیت کا ہمہ گیر و پائیدار انقلاب!

سہیل لقمان تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے ہی اس وسیع وعریض زمین کو بنایا ہے، اور اسی نے اس میں انسان سمیت متعدد مخلوقات کوبسایا ہے، جس کی زندگی اپنے آغاز سے آج تک ایک مسلسل کڑی کی طرح ہے، بس فرق اتنا ہے کہ اس کڑی میں رنگت اور لونت کا امتیاز نظر آتا ہے، اور کہیں کہیں ظاہری بناوٹ میں بھی نمایاں تفریق دکھائی دیتی ہے، تاہم داخلی طور پر اس کڑی کے ہر حلقے کی زندگی دوسرے حلقے سے وابستگی ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ کچھ ظاہری حالات کے چکر میں کھو کر ایک حلقہ دوسرے حلقے کے وجود کو یکسر نظرانداز کر دیتا ہے،جس سے انسان میں بے چینی کا آغاز ہو جاتا ہے، جو آگے چل کر ایک ہلاکت خیز جنگ کی روپ دھار اختیار کر لیتی ہے اور آخر کار کسی نہ کسی قسم کے انقلاب اور تبدیلی پر ختم ہو جاتی ہے.
انسانی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ متعدد قسم کے انقلابات سے بھری پڑی ہے، اس دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات میں سے کچھ ایسے ہیں،جو بالکل ہی ناکام رہے ہیں،جب کہ ان میں سے کچھ انقلابات ایسے بھی ہیں، جو کچھ حد تک ہی سہی کامیاب رہے ہیں، ان میں سے کچھ انقلابات ایسے بھی ہیں،جو فرد کی سطح پر برپا ہو ئے ہیں،جب کہ کچھ اجتماعی سطح پر،ان میں سے کچھ کی علاقائی حیثیت رہی ہے جب کہ کچھ کی قومی وبین الاقوامی،الغرض یہ کہ اب تک دنیا بھر میں جتنے بھی انقلابات آئے ہیں،ان میں سے ہر ایک کی نوعیت،اور مقصدیت علیحدہ علیحدہ رہی ہے،اور ان کے اثرات ونتائج بھی الگ الگ رہے ہیں،تاہم ان میں سے ساتویں صدی کے اوائل میں عرب کے مکہ شہر میں رونما ہونے والا انقلاب ہر ناحئے سے دیگر تمام تر انقلابات سے جدا رہا ہے اور یہی وجہ بھی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی وہ اپنی تمام تر ضوفشانیوں کے ساتھ نہ صرف باقی ہے بلکہ مرور ایام کے ساتھ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا بھی جا رہا ہے،لیکن میں اس پر مزید خامہ فرسائی کرنے سے قبل انقلاب کے معنی ومفہوم،دنیا کے کچھ بڑے انقلابات اور ان کی نوعیت کو واضح کردینا مناسب سمجھتا ہوں،تاکہ موضوع میں کسی طرح کی کوئی تشنگی نہ رہے.
انقلاب کا معنی ومفہوم:
 انقلاب کا لغوی معنی تغیر وتبدل کے ہے جب کہ اصطلاح میں انقلاب حکومت کی فوری تبدیلی جو طاقت کے زور پر عمل میں لائی گئی ہو کو کہا جاتا ہے انقلاب کے لئے انگریزی زبان میں رویولیوشن اور کودے تا آتا ہے تاہم ان دونوں میں نمایاں فرق ہے، عام لوگوں کے ذریعے برپا کئے گئے انقلاب کو رویولیشن کہا جاتا ہے،جب کہ حکومت کے ارکان یا فوج کے ذریعے رونما کئے گئے انقلاب کو کودیے تا کہا جاتا ہے.
انقلاب کی تقسیم ونوعیت:
اس دنیا میں برپا ہونے والے انقلابات کی تعداد سیکڑوں میں ہے،جن میںسے کچھ روحانی، کچھ صنعتی،کچھ سائنسی کچھ زراعتی،کچھ تجارتی،کچھ تعلیمی اور کچھ سیاسی ہیں،قابل ذکر ہے کہ یہ سب انقلابات مختلف اوقات میں برپا ہوئے ہیں،جیسا کہ روحانی انقلابات میں سے اولین انقلاب 3338ق.م کو برپا ہوا،جب کہ اس کا آخری انقلاب 610ءکو پوری آب وتاب کے ساتھ رونما ہوا ہے.
دنیا کے کچھ قابل ذکر انقلابات:
بلاشبہ اس دنیائے انسانیت میں اب تک سیکڑوں انقلابات برپا ہو چکے ہیں،اور مستقبل میں کتنے انقلابات رونما ہوں گے،اس سلسلے میںپہلے ہی کچھ کہنا قطعا درست نہیں ہے، تاہم اتنی بات طے ہے کہ انقالابات کی تاریخ کا آغاز تقریبا 4860 ق.م مقتول ہابیل اور قاتل قابل کی باہمی رقابت سے ہوا ہے، جس کی تصدیق قرآن کریم سمیت دنیا کی دیگر مقدس الہامی کتابوں نے بھی کی ہے، پھر رفتار زمانہ کے ساتھ جب قابلیت نے پوری انسانیت کو اپنے شکنجے میں لے لینے کی سعی نامسعود کی تو ہابلیت کا پاکیزہ خون سر چڑھ کر بولنے لگا اور 3338 ق.م کو قابلیت کے خلاف ایک ہلاکت خیز طوفان بن کر ہر سو پھیل گیا، جس طوفان کو دنیا طوفان نوح کے نام سے جانتی ہے، پھر رفتہ رفتہ انقلابات نے تسلسل کی چادریں تان لیں اور انسانیت کی ایک بڑی آبادی کو اپنا تر نوالہ سمجھ کر ہمیشہ کے لئے نگل لیا،دنیا بھر میں برپا ہونے والے انقلابات میں سے 1900ق.م کا براہیمی انقلاب، 1275ق.م کا موسوی انقلاب، 600ق.م کا زرتشی انقلاب، 399ق.م سقراطی انقلاب،26ءکا مسیحی انقلاب،610ءکا محمدی انقلاب،750ءکا عباسی انقلاب،1571ءکا یورپی انقلاب، 1649ءکا برطانوی انقلاب، 1789ء کا فرانسیسی انقلاب، 1825ءکا لاطینی امریکی انقلاب،1911ءچینی انقلاب،1917ءکا روسی انقلاب، 1959ءکا کیوبایی انقلاب،1967ءکا یونانی انقلاب،1989ءکا ایرانی انقلاب،1998ءکا انڈونیشیائی انقلاب،2001ءکا ایڈیسیائی انقلاب، 2004ءکا یوکرائنی انقلاب اور 2010ءکا عرب انقلاب قابل ذکر ہیں.
ان کے علاوہ بھی اس دنیا میں کچھ انقلابات مخصوص نام سے برپا ہوئے ہیں،جو تاریخی صفحات میں آج بھی موجود ہیںان انقلابات میں سے ایک علمی انقلاب ہے، یہ 1500-1600ءکے زمانے میں یورپ میں رونما ہوا تھا، اس کے ذریعے بڑی بڑی ایجادات لوگوں کے سامنے آئیں اور نوع بنوع کی مشینیں اور حمل ونقل کے لئے مضبوط گاڑیاں تیار کر لی گئیں، اس کی وجہ سے سارے یورپ کی کایا پلٹ گئی، وہاں ہر ہر گوشہ علم کی روشنی سے منور ہو گیا ،اسی لئے اس زمانے کو یورپ کی تاریخ میں احیاءعلوم وفنون کا زمانہ کہا جاتا ہے، اسی طرح ایک دوسرا انقلاب صنعتی انقلاب ہے یہ1750ء-1800ءکے زمانے میں برطانیہ میں برپا ہوا تھا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے امریکہ،یورپ اور ایشیائی ممالک کو اپنے وسیع اور پرکشش دامن میں سمو لیا،اس انقلاب کی وجہ سے حمل ونقل کے ذرائع میں بہتری آئی اور کیپٹلزم کو زبردست طریقے سے فروغ ملا،یہی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے بیسویں صدی کے اوائل تک ساری دنیا کے بازار یورپ کے شکنجے میں آگئے،اسی طرح ایک تیسرا انقلاب زرعی انقلاب ہے،اس کا آغاز 1800ءمیں ہوا،اس کے ذریعے سے سماجی ترقی حاصل ہوئی، کارخانوں کے لئے زرعی آلات کا انتظام ہو گیا،اور نہایت ارزاں سامان سے تیار ہونے والے نلوں کی بدولت بے کار دلدلی زمینیں زرخیز کھیتوں میں تبدیل ہوگئیں ،اسی طرح مکھن الگ کرنے کی مفید مشین تیار ہوئی ،جس نے ڈیری فارم کی دنیا میں انقلاب لا دیا،ریل کی پٹریوں اور بحری جہازوں سے زرعی پیداوار تیزی سے منڈیوں میں پہنچنے لگی، اسی طرح مختلف زرعی یا سبزی اور فروٹوں کو ڈبوں میں بند کرنے یا درجہ انجماد پر رکھنے کا انتظام ہوا ،جو بہت سی زرعی اجناس کو تقریباً لامحدود مدت تک رکھنا ممکن ہوگیا ،جب کہ 1900ءمیں زراعت نے ایسی ترقی کی،کہ پہلے کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال تک نہیں ملتی ہے، اسی طرح ایک چوتھا انقلاب تجارتی انقلاب بھی ہے، اس کا آغاز یوں تو 1600ءکو ہو گیا تھا، لیکن 1715ء میں یہ باضابطہ لوگوں سے متعارف ہوا ،پھر 1800ءمیں تجارت نے رفتہ رفتہ ترقی کے منازل کو طے کیا تو تجارتی انقلاب کی رفتار اور بھی تیز ہوگئی،کاروبار اور وسائل حمل ونقل کو پہلے سے جو اعانت فراہم ہو رہی تھی،اس طریقے میں بھی اصلاح ہو گئی اور دائرہ بھی وسیع ہوگیا جس میں پوری دنیا ہی سما گئی.
محمدی انقلاب کا پس منظر:
محمدی انقلاب کے 610ءمیں برپا ہونے سے پہلے پوری دنیائے انسانیت کا الٰہی نظام مخدوش ہو چکا تھا،انبیاءکرام کا لایا ہوا وہ پیغام جو الفت ومحبت کا آئینہ دار تھا، ابلیس کے ناپاک ہاتھوں تار تار ہو چکا تھا ،ظلم وعدوان کا عفریت بند بوتل سے باہر نکل کر اودھم مچانے میں سرگرداں ہو گیا تھا، نفرت وعداوت نے پوری انسانیت سے نم حیات تقریبا چوس لیا تھا،یہ دنیا غریبوں اور بے کسوں کے لئے جہنم سی بن گئی تھی،ایران میں مجوسیت کا نقارہ بج رہا تھا ،فراعنہ مصر نے فلک شگاف آواز سے خدا ہونے کا دعویٰ باطل کر دیا تھا، الغرض یہ کہ اس کائنات آب وگل سے تمام طرح کی اچھائیاں عنقا تھیں،ایسے میں پوری دنیائے انسانیت ایک انقلاب کی شدید منتظر تھی،جس کا اس نے 610 ءکو عینی مشاہدہ بھی کیا.
محمدی انقلاب کا آغاز ومقام:
 اس میں کوئی تشکیک نہیں کہ ہر انقلاب کا آغاز اور مقام آغاز رہا ہے،چاہے وہ قابیلی انقلاب ہو یا موسوی انقلاب، بعینہ محمدی انقلاب کا بھی آغاز اور مقام آغاز ہے،اسلامی تاریخ کے مطالعے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اس کا آغاز 610ءکو ہوا تھا،جیسا کہ سطور بالا میں بھی گزرا ہے،جہاں تک اس کے مقام آغاز کی بات ہے،تو اس سلسلے میں تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اس کا مقام آغاز مکہ شریف رہا ہے،یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمدی انقلاب برپا کیا،لیکن جب مشرکین مکہ نے اس کی پرزور مخالفت کی تو آپ نے اس کو الوداع کہ دیا اور مدینہ منورہ جاکر پوری توانائی کے ساتھ اس میں سرگرداں ہو گئے،اس کے لئے یہاں بھی آپ کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا اور دشمنان اسلام نے اس انقلاب کو نابود کر دینے کی ہر ممکنہ کوشش بھی صرف کی،تاہم انہیں کوئی کامیابی ہاتھ نہ لگی، بلکہ انہیں بھی آخر کار اس انقلاب کے رنگ میں رنگنا پڑا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ انقلاب ہمہ گیر وعالمگیر بن گیا.
محمدی انقلاب کی خصوصیات:
سطور بالا میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں بہت سے انقلابات برپا ہوے ہیں جن میں سے ایک محمدی انقلاب بھی ہے ،جب ہم اس کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری برہنہ نگاہوں کے سامنے یہ طشت ازبام ہو جاتا ہے کہ اس ہمہ گیر انقلاب کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں سے کچھ نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
*اس انقلاب کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگ ایمان جیسی بیش بہا دولت سے مالا مال ہوے ،اور انہیں یہ دولت داعی انقلاب کی وجہ ہی سے ملی ،کیونکہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ ایمان ہی سے زندگی کو تہذیب اور تابندگی ملتی ہے، اسی سے خیر ،ترقی اور عدل وانصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل پاتا ہے، فرد وجماعت اسی سے فیض یاب ہو کر خوشگوار زندگی گزارتے ہیں،اسی سے استبداد ملوکانہ کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے اور اسی سے اللہ کی زمین کو کفر وشرک اور فتنہ و فساد کی آلائشوں سے پاک کیا جاتا ہے ۔
 اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے اپنے اس انقلاب کے طفیل انسانی سماج کے مزدوروں کو بڑی عزت بخشی ،آپ نے مزدوروں سے کام لینے والوں سے مو¿کدانہ انداز میں کہا کہ وہ انہیں ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی اجرت دے دیں تاکہ وہ اپنے روزانہ کی ضروریات کی تکمیل کر سکیں ۔
اس کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ نے انسانی سماج کے جاہلوں کے درمیان علم کا چراغ روشن کیا اور انہیں شب و روز کی جانفشانی سے انسانی سماج کا صرف تعلیم یافتہ ہی نہیں بنایا بلکہ وہ جس سماج میں سکونت پذیر ہوئے اس سماج ہی کو مکمل طور پر تعلیم یافتہ بنا دیا ،کیونکہ آپ اس سے بخوبی آشنا تھے کہ روحانی ،اخلاقی اور اعتقادی تربیت کے لئے تعلیمی زیورات سے مزین ہونا اشد ضروری ہے۔
اس کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے اس کے ذریعے انسانی سماج کے منتشر اجزاءکو مرتب اور مربوط کر دیا اور اسے طاغوتی طاقتوں سے ٹکرا دیا آپ نے جوانوں کو بوڑھوں سے ،مزدوروں کو صنعت کاروں سے اور کسانوں کو زمین داروں سے ٹکرایا اور نہ ہی آپ نے معاشرے کے مختلف طبقات کو آپس میں گتھم گتھا کریا ،جیسا کہ کارل مارکس اور لینن نے کیا تھا،بلکہ آپ نے جوانوں سے بوڑھوں کے سفید بالوں کا خیال کرنے کو کہا ،مالداروں سے غرباء و مساکین کی مدد کرنے کو کہا اور صنعت کاروں سے مزدوروں کو فوری طور پر اجرت دینے کو کہا اور اس طرح سے آپ نے انسانی سماج کے منتشر اجزاءکو مرتب کر دیا جس کا عینی مشاہدہ کر کے دنیا عش عش کر اٹھی ۔
اس کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ داعی انقلاب نے اس انقلاب کو ہمہ گیر بنانے کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیا ،تاریخ گواہ ہے کہ آپ حجاز کی ایک ممتاز خاتون خدیجہ کے مال سے تجارت کرتے تھے،لیکن جب آپ نے اس انقلاب کو پوری توانائی کے ساتھ برپا کیا اوراس کے کام میں ہمہ تن مصروف ہو گئے تو آپ کو تجارت کا کام بند کر دینا پڑا آپ اور آپ کی رفیق حیات کے پاس جو بھی اندوختہ تھا اس انقلاب کو کامیاب بنانے کی خاطر خرچ کر ڈالا اور تمام اثاثے اس کے راستے میں لٹا دیا، نوبت یہاں تک آگئی کہ جب آپ طائف تشریف لے گئے تو ان کے پاس سواری کے لئے کوئی جانور تک بھی نہ تھا۔
محمدی انقلاب کے اثرات ونتائج :
 اہل جہاں پر یوں تو ہر انقلاب کے کچھ نہ کچھ اثرات مرتب ہوئے ہیں،چاہے کچھ ایام ہی کے لئے سہی کیوں نہ ہوں، لیکن ان انقلابات میں سے صرف محمدی انقلاب ہی ایک ایسا انقلاب ہے،جس کے اثرات سارے عالم پر مرتب ہوئے ہیں اور بحمد للہ وہ تاہنوز پوری تابانی کے ساتھ صرف باقی نہیں ہیں، بلکہ وہ مرور زمان کے ساتھ مزید ضوءفشاں ہوتے جارہے ہیں ،اس محمدی انقلاب نے انسانی فکر وعمل میں جو نیا رنگ پیدا کیا ہے اس کا اجمالی خاکہ پیش خدمت ہیں۔
اس انقلاب کی وجہ سے لوگوں میں عقیدہ توحید کی مقبولیت عام ہوئی،انسانی زبیں نیاز کے بیسوں جھوٹے خداو¿ں کے آستانے بنے ہوئے تھے،وہ سب تقریبا ختم ہوگئے، مظاہر فطرت کو خدا گرداننا اور ہر چیز میں دیوتاؤں کو مجسم دیکھنا ختم ہوا اور اس کے ساتھ ذہنی غلامی اور دماغی مرعوبیت کا دور بھی ہمیشہ کے لئے نابود ہو گیا۔
اس انقلاب کی وجہ سے خدا شناسی اور خدا رسی کسی خاص طبقے کا استثنائی حق نہیں رہا ،خدا اور بندے کے درمیان جو حجابات حائل تھے وہ سب ختم ہو گئے اور ہر شخص کو علم سیکھنے کے یکساں مواقع اور حق حاصل ہوا۔
اس انقلاب کی وجہ دین اور دنیا دو متضاد چیزیں نہیں رہیں بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی معاون بن گئیں، رہبانیت اور ترک دنیا کے نام پر قوائے عمل کو مفلوج کر دینا، تسلیم و رضا کے نام پر ذلت و مظلومیت پر قناعت کرنا اور اخلاق اور انکساری کے نام پر غلامی پر فخر کرنا ختم ہو گیا ۔
اس انقلاب کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے ساتھ صرف ظاہر داری یا مجبوری کی بنا پر نہیں بلکہ اصلی اور گہری رواداری کا دور شروع ہوا ،دنیا کے ہر ہادی اور مصلح کو برحق قرار دیا گیا،دوسرے مذاہب سے عناد رکھنے اور کنارہ کشی اختیار کرنے کی بجائے الہامی کتاب رکھنے والی ملت کے ساتھ مل جل کررہنے اور ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی ہمت افزائی کی گئی ۔
اس کی وجہ سے انسانوں میں کوئی اونچ نیچ اور کوئی چھوت چھات نہیں رہا اور نہ ہی دولت وثروت یا نسل ونسب کو معیار شرافت گردانا گیا بلکہ ہر جگہ مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا گیا اور ان کی افضلیت صرف تقوی کو بتایا گیا۔
اس کی وجہ سے بادشاہ بالکل خدائے مطلق نہ رہا بلکہ احکام الٰہی کی اطاعت کا ثبوت دینا اس کے لئے لازم قرار دیا گیا اور اسے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اس نے رعایا کو معصیت الٰہی کا حکم دیا تو انہیں اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا پورا پورا حق ہے ۔
اس کی وجہ سے عورتیں مردوںکی جائداد نہ رہیں انہیں بہت سے معاملات میں مردوں کے برابر حقوق دیئے گئے اور انہیں گھروں کی زینت اور سکون قلوب واذہان کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا اور ان کے ساتھ بلا وجہ کسی طرح کی بھی زیادتی کرنے والے کو دنیا وآخرت میں شدید قہرمانی سامنا کرنے کی بشارت سنائی گئی ۔
محمدی انقلاب اور دیگر انقلابات کا موازنہ:مذکورہ تمام انقلابات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے سے یہ منکشف ہو جاتا ہے کہ ان میں بعض محض سیاسی تھے، بعض اقتصادی تھے اور بعض ثقافتی تھے،جب کہ وہ انقلاب جو آپ نے برپا کیا تھا، وہ اخلاقی بھی تھا، روحانی بھی تھا، ثقافتی بھی تھا، سیاسی بھی تھا، اقتصادی بھی تھا اور طبعیاتی بھی تھا۔ یعنی وہ جامعیت و کاملیت کے قیمتی لباس زیب تن کئے ہوئے تھا،جب کہ اس کے علاوہ دیگر انقلابات ان سے خالی تھے اور ناقصیت کے خول میں گھسے ہوئے تھے۔
 اس سلسلے میں سچائی یہ ہے کہ مذکورہ تمام انقلابات میں سے عظیم انقلاب انقلاب محمدی ہی تھا، اس سے زیادہ جامع ہمہ گیر اور بھر پور انقلاب آج تک اس روئے زمین پررونما ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔کیوںکہ یہ ناقابل فراموش انقلاب اپنے وسیع اور پاکیزہ دامن میں وہ امتیازات و خصوصیات سموئے ہوا ہے، جو دیگر انقلابات میں نہیں ہیں۔
 خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس دنیا میں بہت سے انقلابات برپا ہوے ہیں لیکن ان میں کا ہمہ گیر اور کامیاب انقلاب محمدی انقلاب ہی رہا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو امن و سلامتی ،آسودگی اور خوشحالی کا ضامن ہے، دیگر انقلابات میں یہ سب عنقا ہیں، افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان سب کے باجود بھی ہم اس کی کوئی اہمیت دے رہے ہیں اور نہ ہی کوئی وقعت، جس کی وجہ دشمنان ناموس رسالت اس کو مکدر بنانے میں کوشاں ہیں، ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم تمام تر عواقب و نتائج سے بے پروا ہو کر پوری دنیا میں اس انقلاب کو برپا کرنے کے لئے تن من دھن کو قربان کر دیں،کامیابی وسرفرازی ضرور ہماری قدم بوسی کرے گی۔ ان شاءاللہ