تحریر: شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
قال اللہ تبارک وتعالی "قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی، یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیئ فردوه الی الله والرسول ان کنم تؤمنون بالله والیوم الآخر"
محترم قارئین!
مندرجہ بالا دونوں آیت کریمہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع اور پیروی کی دعوت دے رہی ہے.
پہلی آیت کریمہ کا لب لباب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محبت کا دعوی کرتا ہے تو اس کے اوپر یہ لازم ہے کہ وه صرف اور صرف محمد صلی اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرے اور نبی کی سنت کو لازم پکڑے، دوسری آیت کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان میں جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو اور اگر کتاب وسنت کے کسی نصوص کو سمجهنے میں تمہارے مابین اختلاف رونما ہوجائے تو سیدهے کتاب وسنت کی طرف رجوع کرو،
معلوم ہوا کہ دین کی صحیح رہنمائی و رہبری کا اصل مرجع و مصدر صرف دو ہی ہے(کتاب وسنت) اس کے علاوه کی جانب اگر کوئی شخص دین کی رہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے رجوع کرتا ہے تو وه شخص اپنے ایمان کی خیر منائے.
اللہ کی اطاعت کا مفہوم:
قرآن مجید کو سمجهنا اور اس کو سمجھ کر پڑهنا اور اس پر عمل کرنا.
اطاعت رسول کا مفہوم:
آپ کی سیرت طیبہ اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں آپ کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنا، کتاب وسنت کی اطاعت وفرماں برداری کا یہی وه مفہوم ہے جو اسلاف کرام نے ہمیں سکهایا اور بتلایا ہے.
کتاب وسنت کے معنی ومفہوم میں کوئی اختلاف ہوجائے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے اس سلسلے میں ہمارے لئے وه کون سی شخصیت ہے جسے ہم اپنا آئیڈیل اور رہنما تسلیم کریں، اس سلسلے میں قرآن کریم نے ہماری رہنمائی فرمایا ہے ارشاد باری ہے"فان آمنو بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا وان تولوا فانما هم فی شقاق" اگر وه لوگ(بعد میں آنے والے) ویسے ہی ایمان لے آئیں جس طرح تم (صحابہ کرام) ایمان لائے ہو تو یقین جانو کہ وه لوگ کامیاب اور ہدایت یاب ہیں یعنی ایمان کے مقتضیات و لوازمات کو جس طرح تم نے سمجها ہے ویسے ہی اگر بعد میں آنے والے لوگ بهی سمجھ لیں گے تو وه کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوں گے، اگر کوئی شخص قرآن وسنت کے صحیح معنی ومفہوم کی تفہیم وتعیین کے باب میں کتاب وسنت کو چهوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے اور دوسرے لوگوں کو حجت بناتا ہے تو قرآن اس کے اس راستے کو ضلالت و گمراہی کا مصداق بتایا ہے، دوسری جگہ ارشاد فرمایا "ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین له الهدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نوله ما تولی ونصله جہنم وساءت مصیرا" کہ اگر کوئی شخص نبی کے طریقہ کو چهوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے تو ہم اسے اسی راستے پر لگا دیتے ہیں، جمہور مفسرین کے نزدیک "سبیل المومنین" سے مراد صحابہ کرام کا راستہ ہے.
قرآن وسنت کی تفہیم اور نصوص کی تعیین کے لئے ہمیں ادهر ادهر بهٹکنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسلاف کرام، تابعین اور تبع تابعین نے نصوص کے جو معانی و مفاہیم سمجهیں ہیں ہمیں اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے.
قارئین کرام! ماه ربیع الاول کا یہی وه مبارک مہینہ ہے جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، آپ کی تاریخ ولادت میں بہت زیاده اختلاف پایا جاتا ہے، شاید کہ آپ کی ولادت کی تاریخ کو مبہم اور مجہول رکهنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ کہیں آنے لوگ آپ کی ولادت کا جشن منانے میں اس قدر نہ محو ہوجائیں گویا معلوم ہو کہ شریعت کا سارا محور اور مرکز یہی ہے، صحیح مسلم کی حدیث کے اندر آپ کی ولادت کے دن کی صراحت موجود ہے جس میں آپ سے یوم الاثنین کے بارے میں پوچها گیا تو آپ نے فرمایا "هذا یوم ولدت فیه وهذا یوم بعثت فیه" یعنی یہی وه دن ہے جسمیں میری ولادت ہوئی اور جس میں ہمیں نبوت سے سرفراز کیا گیا، آپ کی ولادت کا دن سوموار کا دن ہے اور مہینہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، البتہ سیرت نگار اور فلکیات کے ماہرین نے علم فلکیات کو سامنے رکھ کر تاریخ کی تعیین کرنے کی کوشش کی ہے،8 ربیع الاول سے لیکر 12 ربیع الاول تک کی بات کہی گئی ہے، اس اختلافی کشمکش کے باوجود شیخ صفی الرحمن مبارک پوری اپنی مشہور زمانہ کتاب "الرحیق المختوم" اور سید سلیمان سلمان منصور پوری اپنی مایہ ناز کتاب "رحمة للعالمین" کے اندر اور مشہور تاریخ داں محمود پاشا فلکی نے آپ کی تاریخ ولادت 9 ربیع الاول بتایا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ولادت کے دن کا متعین نہ ہونا اس بات کی بین دلیل ہے کہ شریعت کے اندر اسے نہیں منانا چاہیے، اگر اس کے اندر اسلام کی عظمت کا اظہار اور کوئی کار خیر کار فرما ہوتا تو شریعت اسلامیہ اسے ضرور واضح کرتی، رب کو معلوم تها کہ اگر اسے واضح کر دیا جاتا تو لوگ اسے عبادت اور شریعت سمجھ کر اس کو انجام دینے لگتے جیسا کہ آج کل لوگ اسے بطور عبادت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں اسی لئے رب نے اسے مبہم رکها اور لوگوں کے دلوں ودماغ سے اس کو نکال دیا، شریعت کے اندر اس طرح کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں، وه بیعت رضوان جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر صحابہ کرام سے بیعت لی تهی، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ بیعت کے ٹهیک دو سال بعد ایسا ہو گیا کہ اس بیعت میں شامل حضرات جو اس وقت زنده تهے کہتے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے کس درخت کے نیچے نبی سے بیعت لی تهی، سعید کے والد مسیب جو بیعت رضوان کے اندر شریک تهے کا بیان ہے کہ دو سال کے بعد اس کے ارد گرد اتنے درخت ہوگئے کہ ہم لوگ نہیں پہچان سکے کہ ہم لوگوں نے کس درخت کے نیچے نبی سے بیعت لی تهی، مزید یہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کوئی بهی شخص اس درخت کی تعیین نہ کر سکے، بعد میں یہ بات معلوم ہوئی کہ کچھ لوگوں نے اس درخت کی تعیین کر لی ہے تو صحابی جلیل سیدنا عمر نے اسے کٹوا دیا، بدعات و خرافات کے ان تمام راستوں کو شریعت نے بند کر دیا ہے جو اس تک جانے کا سبب بن سکتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد 23 سال زنده رہے اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ 110 ہجری تک زنده رہے لیکن اس بڑے وقفے میں عید میلاد منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اسی طرح تابعین کا زمانہ جو 250 سال پر محیط ہے تبع تابعین کا زمانہ تقریبا 350 سال پر محیط ہے باوجود یہ کہ ان میں سے کسی سے بهی اس عید کے منانے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوتا ہے.
میلاد کا وجود:
چهٹی صدی عیسوی کے بعد 630 ہجری کے اندر سب سے پہلے میلاد کو شریعت کی حیثیت دی گئی، مشہور حنفی عالم دین مولانا رشید احمد گنگوہی اپنی مشہور کتاب "فتاوی رشیدیہ" کے اندر لکها ہے کہ اس بدعت کو سب سے پہلے موصل(شام) کا بادشاده مظفرالدین الملک المعظم نے پہلی بار نبی کی ولادت کی تاریخ متعین کرکے اپنی رعایا کو نبی کی ولادت کا جشن ویسے ہی منانے کا حکم دیا جیسے نصاری عیسی علیہ السلام کی ولادت کا جشن مناتے ہیں، افسوس تو اس وقت زیاده ہوتا ہے جب اس بدعت کی تائید وترویج میں ایک علماء پیش پیش نظر آتے ہیں ایسے علماء سوء ہر زمانے اور ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں جو جہلاء کی جہالت اور بدعتیوں کی بدعت کے لئے جواز فراہم کرتے رہے ہیں، ابوالخطاب اس کے متعلق امام ذهبی نے اپنی کتاب میں لکها ہے کہ یہ شخص کذاب اور جهوٹا تها یہ نہایت متبکر انسان تها اس نے ایک کتاب لکهی جس کا نام "المنیر فی مولد سراج منیر" رکها، اس کتاب کے اندر اس نے بہت ساری جهوٹی اور بے بنیاد باتیں لکهیں اور لکھ کر موصل کے بادشاه کی خدمت میں پیش کیا اور وه بادشاه اس کے اس عمل سے اتنا خوش ہوا کہ اسے بطور انعام ہزار اشرفیاں دیا؟ بدعتی حضرات اس بدعت کو مناتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اسے منانے میں حرج ہی کیا ہے؟ اس میں نبی پر درود وسلام بهیجا جاتا ہے، اسلام کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے، سننے میں باتیں تو بڑی اچهی لگتی ہیں لیکن اسلام کا ضابطہ اور قانون کہی اور سنی ہوئی باتوں پر موقوف نہیں ہے، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ اللہ کے نبی کی خدمت میں تین شخص حاضر ہوتا ہے ایک کہتا ہے میں ہمیشہ نماز ہی پڑهوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزه ہی رکهوں گا اور تیسرے نے کہا میں شادی ہی نہیں کروں گا، بظاہر یہ اعمال دیکهنے میں اچهے لگتے ہیں، نماز پڑهنا اس سے بڑا نیک کام اور کیا ہوسکتا ہے، روزه رکهنا اس سے اچهی عبادت اور کیا ہوسکتی ہے؟ بال بچوں سے الگ ہوکر اللہ کی عبادت میں مشغول رہنا اس سے مہتم بالشان عمل اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پهر بهی ان لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ سختی کے ساتھ انہیں منع کیا، بظاہر دیکهنے میں یہ اعمال اچهے اور صحیح معلوم پڑتے ہیں لیکن یہ نبی کی سنت کے خلاف ہے جس کی وجہ سے اسے انجام دینا صحیح نہیں ہے.
مبتدعین کی ایک اور دلیل وه مرسل روایت ہے کہ ایک شخص نے خواب میں ابو جہل کو دیکها تو اس نے پوچها کہ تمہارا کیا حال ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جہنم کی آگ میں جهلس رہا ہوں البتہ سوموار کے دن اس میں تهوڑا کمی کر دی جاتی ہے، وه شخص پوچها کیوں؟تو ابو جہل نے کہا میں اپنی لونڈی کو اپنے بهتیجے محمد کی پیدائش کے دن آزاد کر دیا تها، سند سے قطع نظر خوابوں کی بنیاد پر شریعت کا کوئی بهی مسئلہ طے نہیں پاتا، اگر کسی شخص کی موت کفر کی حالت میں ہوتی ہے تو اس کا کوئی بهی عمل قابل قبول نہیں چاہے وہ اچهے ہوں یا برے، مبتدعین کے دلائل کچھ اسی طرح کے ہیں، آج میلاد کے نام پر جو چیزیں انجام دی جاتی ہیں اس میں نبی کی سیرت سے زیاده دوسری چیزوں کو شامل کر دیا گیا ہے، جیسے چراغاں کرنا، گهروں پر قمقے لگانا، قبروں پر چراغاں کرنا، راستے کو سجانا وغیره.
قارئین کرام!
یہ ایک نہایت ہی قیمتی اصول اور ضابطہ ہے کہ اسلام کے اندر نبی کی ولادت اہم نہیں بلکہ یوم رسالت اہم چیز ہے محمد بن عبد اللہ کی وجہ سے ہمیں اسلامی احکام نہیں ملے بلکہ محمدالرسول ہونے کی وجہ سے ہمیں اسلامی احکام ملے، محمد بن عبداللہ کی اسلام کے اندر کوئی حیثیت نہیں بلکہ محمد الرسول للہ کی حیثیت ہے، آپ کی سیرت کا یہ مفہوم نہیں کہ صرف ایک دن آپ کی پیدائش پر خوشی منا لیا جائے، بلکہ آپ کی سیرت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی مکمل اتباع و پیروی کی جائے.
اخیر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب العالمین ہمیں نبی کا سچا محب اور متبع بنائے آمیـن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
قال اللہ تبارک وتعالی "قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی، یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیئ فردوه الی الله والرسول ان کنم تؤمنون بالله والیوم الآخر"
محترم قارئین!
مندرجہ بالا دونوں آیت کریمہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع اور پیروی کی دعوت دے رہی ہے.
پہلی آیت کریمہ کا لب لباب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محبت کا دعوی کرتا ہے تو اس کے اوپر یہ لازم ہے کہ وه صرف اور صرف محمد صلی اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرے اور نبی کی سنت کو لازم پکڑے، دوسری آیت کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان میں جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو اور اگر کتاب وسنت کے کسی نصوص کو سمجهنے میں تمہارے مابین اختلاف رونما ہوجائے تو سیدهے کتاب وسنت کی طرف رجوع کرو،
معلوم ہوا کہ دین کی صحیح رہنمائی و رہبری کا اصل مرجع و مصدر صرف دو ہی ہے(کتاب وسنت) اس کے علاوه کی جانب اگر کوئی شخص دین کی رہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے رجوع کرتا ہے تو وه شخص اپنے ایمان کی خیر منائے.
اللہ کی اطاعت کا مفہوم:
قرآن مجید کو سمجهنا اور اس کو سمجھ کر پڑهنا اور اس پر عمل کرنا.
اطاعت رسول کا مفہوم:
آپ کی سیرت طیبہ اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں آپ کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنا، کتاب وسنت کی اطاعت وفرماں برداری کا یہی وه مفہوم ہے جو اسلاف کرام نے ہمیں سکهایا اور بتلایا ہے.
کتاب وسنت کے معنی ومفہوم میں کوئی اختلاف ہوجائے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے اس سلسلے میں ہمارے لئے وه کون سی شخصیت ہے جسے ہم اپنا آئیڈیل اور رہنما تسلیم کریں، اس سلسلے میں قرآن کریم نے ہماری رہنمائی فرمایا ہے ارشاد باری ہے"فان آمنو بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا وان تولوا فانما هم فی شقاق" اگر وه لوگ(بعد میں آنے والے) ویسے ہی ایمان لے آئیں جس طرح تم (صحابہ کرام) ایمان لائے ہو تو یقین جانو کہ وه لوگ کامیاب اور ہدایت یاب ہیں یعنی ایمان کے مقتضیات و لوازمات کو جس طرح تم نے سمجها ہے ویسے ہی اگر بعد میں آنے والے لوگ بهی سمجھ لیں گے تو وه کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوں گے، اگر کوئی شخص قرآن وسنت کے صحیح معنی ومفہوم کی تفہیم وتعیین کے باب میں کتاب وسنت کو چهوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے اور دوسرے لوگوں کو حجت بناتا ہے تو قرآن اس کے اس راستے کو ضلالت و گمراہی کا مصداق بتایا ہے، دوسری جگہ ارشاد فرمایا "ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین له الهدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نوله ما تولی ونصله جہنم وساءت مصیرا" کہ اگر کوئی شخص نبی کے طریقہ کو چهوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے تو ہم اسے اسی راستے پر لگا دیتے ہیں، جمہور مفسرین کے نزدیک "سبیل المومنین" سے مراد صحابہ کرام کا راستہ ہے.
قرآن وسنت کی تفہیم اور نصوص کی تعیین کے لئے ہمیں ادهر ادهر بهٹکنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسلاف کرام، تابعین اور تبع تابعین نے نصوص کے جو معانی و مفاہیم سمجهیں ہیں ہمیں اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے.
قارئین کرام! ماه ربیع الاول کا یہی وه مبارک مہینہ ہے جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، آپ کی تاریخ ولادت میں بہت زیاده اختلاف پایا جاتا ہے، شاید کہ آپ کی ولادت کی تاریخ کو مبہم اور مجہول رکهنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ کہیں آنے لوگ آپ کی ولادت کا جشن منانے میں اس قدر نہ محو ہوجائیں گویا معلوم ہو کہ شریعت کا سارا محور اور مرکز یہی ہے، صحیح مسلم کی حدیث کے اندر آپ کی ولادت کے دن کی صراحت موجود ہے جس میں آپ سے یوم الاثنین کے بارے میں پوچها گیا تو آپ نے فرمایا "هذا یوم ولدت فیه وهذا یوم بعثت فیه" یعنی یہی وه دن ہے جسمیں میری ولادت ہوئی اور جس میں ہمیں نبوت سے سرفراز کیا گیا، آپ کی ولادت کا دن سوموار کا دن ہے اور مہینہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، البتہ سیرت نگار اور فلکیات کے ماہرین نے علم فلکیات کو سامنے رکھ کر تاریخ کی تعیین کرنے کی کوشش کی ہے،8 ربیع الاول سے لیکر 12 ربیع الاول تک کی بات کہی گئی ہے، اس اختلافی کشمکش کے باوجود شیخ صفی الرحمن مبارک پوری اپنی مشہور زمانہ کتاب "الرحیق المختوم" اور سید سلیمان سلمان منصور پوری اپنی مایہ ناز کتاب "رحمة للعالمین" کے اندر اور مشہور تاریخ داں محمود پاشا فلکی نے آپ کی تاریخ ولادت 9 ربیع الاول بتایا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ولادت کے دن کا متعین نہ ہونا اس بات کی بین دلیل ہے کہ شریعت کے اندر اسے نہیں منانا چاہیے، اگر اس کے اندر اسلام کی عظمت کا اظہار اور کوئی کار خیر کار فرما ہوتا تو شریعت اسلامیہ اسے ضرور واضح کرتی، رب کو معلوم تها کہ اگر اسے واضح کر دیا جاتا تو لوگ اسے عبادت اور شریعت سمجھ کر اس کو انجام دینے لگتے جیسا کہ آج کل لوگ اسے بطور عبادت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں اسی لئے رب نے اسے مبہم رکها اور لوگوں کے دلوں ودماغ سے اس کو نکال دیا، شریعت کے اندر اس طرح کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں، وه بیعت رضوان جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر صحابہ کرام سے بیعت لی تهی، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ بیعت کے ٹهیک دو سال بعد ایسا ہو گیا کہ اس بیعت میں شامل حضرات جو اس وقت زنده تهے کہتے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے کس درخت کے نیچے نبی سے بیعت لی تهی، سعید کے والد مسیب جو بیعت رضوان کے اندر شریک تهے کا بیان ہے کہ دو سال کے بعد اس کے ارد گرد اتنے درخت ہوگئے کہ ہم لوگ نہیں پہچان سکے کہ ہم لوگوں نے کس درخت کے نیچے نبی سے بیعت لی تهی، مزید یہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کوئی بهی شخص اس درخت کی تعیین نہ کر سکے، بعد میں یہ بات معلوم ہوئی کہ کچھ لوگوں نے اس درخت کی تعیین کر لی ہے تو صحابی جلیل سیدنا عمر نے اسے کٹوا دیا، بدعات و خرافات کے ان تمام راستوں کو شریعت نے بند کر دیا ہے جو اس تک جانے کا سبب بن سکتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد 23 سال زنده رہے اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ 110 ہجری تک زنده رہے لیکن اس بڑے وقفے میں عید میلاد منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اسی طرح تابعین کا زمانہ جو 250 سال پر محیط ہے تبع تابعین کا زمانہ تقریبا 350 سال پر محیط ہے باوجود یہ کہ ان میں سے کسی سے بهی اس عید کے منانے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوتا ہے.
میلاد کا وجود:
چهٹی صدی عیسوی کے بعد 630 ہجری کے اندر سب سے پہلے میلاد کو شریعت کی حیثیت دی گئی، مشہور حنفی عالم دین مولانا رشید احمد گنگوہی اپنی مشہور کتاب "فتاوی رشیدیہ" کے اندر لکها ہے کہ اس بدعت کو سب سے پہلے موصل(شام) کا بادشاده مظفرالدین الملک المعظم نے پہلی بار نبی کی ولادت کی تاریخ متعین کرکے اپنی رعایا کو نبی کی ولادت کا جشن ویسے ہی منانے کا حکم دیا جیسے نصاری عیسی علیہ السلام کی ولادت کا جشن مناتے ہیں، افسوس تو اس وقت زیاده ہوتا ہے جب اس بدعت کی تائید وترویج میں ایک علماء پیش پیش نظر آتے ہیں ایسے علماء سوء ہر زمانے اور ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں جو جہلاء کی جہالت اور بدعتیوں کی بدعت کے لئے جواز فراہم کرتے رہے ہیں، ابوالخطاب اس کے متعلق امام ذهبی نے اپنی کتاب میں لکها ہے کہ یہ شخص کذاب اور جهوٹا تها یہ نہایت متبکر انسان تها اس نے ایک کتاب لکهی جس کا نام "المنیر فی مولد سراج منیر" رکها، اس کتاب کے اندر اس نے بہت ساری جهوٹی اور بے بنیاد باتیں لکهیں اور لکھ کر موصل کے بادشاه کی خدمت میں پیش کیا اور وه بادشاه اس کے اس عمل سے اتنا خوش ہوا کہ اسے بطور انعام ہزار اشرفیاں دیا؟ بدعتی حضرات اس بدعت کو مناتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اسے منانے میں حرج ہی کیا ہے؟ اس میں نبی پر درود وسلام بهیجا جاتا ہے، اسلام کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے، سننے میں باتیں تو بڑی اچهی لگتی ہیں لیکن اسلام کا ضابطہ اور قانون کہی اور سنی ہوئی باتوں پر موقوف نہیں ہے، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ اللہ کے نبی کی خدمت میں تین شخص حاضر ہوتا ہے ایک کہتا ہے میں ہمیشہ نماز ہی پڑهوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزه ہی رکهوں گا اور تیسرے نے کہا میں شادی ہی نہیں کروں گا، بظاہر یہ اعمال دیکهنے میں اچهے لگتے ہیں، نماز پڑهنا اس سے بڑا نیک کام اور کیا ہوسکتا ہے، روزه رکهنا اس سے اچهی عبادت اور کیا ہوسکتی ہے؟ بال بچوں سے الگ ہوکر اللہ کی عبادت میں مشغول رہنا اس سے مہتم بالشان عمل اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پهر بهی ان لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ سختی کے ساتھ انہیں منع کیا، بظاہر دیکهنے میں یہ اعمال اچهے اور صحیح معلوم پڑتے ہیں لیکن یہ نبی کی سنت کے خلاف ہے جس کی وجہ سے اسے انجام دینا صحیح نہیں ہے.
مبتدعین کی ایک اور دلیل وه مرسل روایت ہے کہ ایک شخص نے خواب میں ابو جہل کو دیکها تو اس نے پوچها کہ تمہارا کیا حال ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جہنم کی آگ میں جهلس رہا ہوں البتہ سوموار کے دن اس میں تهوڑا کمی کر دی جاتی ہے، وه شخص پوچها کیوں؟تو ابو جہل نے کہا میں اپنی لونڈی کو اپنے بهتیجے محمد کی پیدائش کے دن آزاد کر دیا تها، سند سے قطع نظر خوابوں کی بنیاد پر شریعت کا کوئی بهی مسئلہ طے نہیں پاتا، اگر کسی شخص کی موت کفر کی حالت میں ہوتی ہے تو اس کا کوئی بهی عمل قابل قبول نہیں چاہے وہ اچهے ہوں یا برے، مبتدعین کے دلائل کچھ اسی طرح کے ہیں، آج میلاد کے نام پر جو چیزیں انجام دی جاتی ہیں اس میں نبی کی سیرت سے زیاده دوسری چیزوں کو شامل کر دیا گیا ہے، جیسے چراغاں کرنا، گهروں پر قمقے لگانا، قبروں پر چراغاں کرنا، راستے کو سجانا وغیره.
قارئین کرام!
یہ ایک نہایت ہی قیمتی اصول اور ضابطہ ہے کہ اسلام کے اندر نبی کی ولادت اہم نہیں بلکہ یوم رسالت اہم چیز ہے محمد بن عبد اللہ کی وجہ سے ہمیں اسلامی احکام نہیں ملے بلکہ محمدالرسول ہونے کی وجہ سے ہمیں اسلامی احکام ملے، محمد بن عبداللہ کی اسلام کے اندر کوئی حیثیت نہیں بلکہ محمد الرسول للہ کی حیثیت ہے، آپ کی سیرت کا یہ مفہوم نہیں کہ صرف ایک دن آپ کی پیدائش پر خوشی منا لیا جائے، بلکہ آپ کی سیرت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی مکمل اتباع و پیروی کی جائے.
اخیر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب العالمین ہمیں نبی کا سچا محب اور متبع بنائے آمیـن