از قلم: عفان قاسمی بانسکوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رب کریم نے جو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے عطا فرمایا ہے وہ کامل اور مکمل دین ہے جس کی صراحت قرآن کریم فرماتا ہے، الیوم اکملت لکم دینکم الخ " لہذا کوئی بھی ایسا عمل جو حقیقت میں دین نہیں ہے، اور وہ عمل حضور کے زمانہ میں نہیں تھا، اور حضور صلعم نے اس کی تلقین بھی نہیں فرمائی اور قرآن کریم میں اس کا حکم نہیں آیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس کو اختیار نہیں کیا، ایسے نئے عمل کو ہم دین کا حصہ سمجھ کر شروع کردیں، اور اس عمل کو واجب یا سنت قرار دے دیں یا اس عمل کے چھوڑنے والے ملامت کریں، یہ طرز عمل اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کے مرادف ہے، اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو حضور کے زمانہ میں نہیں تھیں، نہ ان کا رواج تھا، لیکن زمانہ کے حالات کی تبدیلی کی وجہ سے وہ چیزیں وجود میں آئیں اور لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا.
مثلا : حضور کے زمانہ میں بجلی نہیں تھی آج ہمارا بجلی کے بغیر گزارا نہیں، اس زمانہ میں پنکھے نہیں تھے اس وقت گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر ہوتا تھا، آج بسوں، ریلوں، ہوائی جہازوں کی بھر مار ہے، ان کے بغیر گزارا نہیں، لیکن یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو کوئی دین کا حصہ نہیں سمجھتا، کوئی یہ نہیں کہتا کہ بجلی کا استعمال واجب ہے، ریل کا سفر کرنا سنت یا مستحب ہے، بلکہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نئے نئے طریقے وجود میں آتے رہتے ہیں، اس لئے شریعت نے بھی ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی ۔
لیکن کوئی نیا کام انسان اس خیال سے شروع کرے کہ یہ دین کا حصہ ہے، یا یہ سوچے کہ یہ کام واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب یا ثواب کا کام ہے، حالانکہ وہ کام نہ تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ آپ نے اس کا حکم دیا نہ آپ کے صحابہ نے وہ کام کیا، جس کا مطلب یہ ہیکہ ہم دین کے معاملہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں. استغفراللہ.
شریعت میں اسی کا نام بدعت ہے، بدعت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے "کل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة "
بدعت گمراہی کیوں ہے ؟
اس میں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بدعت کو اختیار کرنے والا ہے وہ در حقیقت یہ سمجھتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول نے جو دین ہم کو دیا تھا وہ ادھورا اور ناقص تھا، آج میں نے اس عمل کا اضافہ کرکے اس کو مکمل کردیا، گویاکہ آدمی عملی طور پر اللہ اور اللہ کے رسول سے آگے نکلنے کا دعوی کررہا ہے.
مثلا : جشن عید ملاد النبی ؛ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور نہ صحابہ نے کیا، حتی کہ صحابہ کے بعد کے زمانہ میں بھی اس کا وجود نہیں ہوا تھا، اگر اسی طریقہ سے عشق نبی یا محبت نبی کا اظہار ہوتا تو کیا صحابہ عاشق نہیں تھے ؟
قران مجید کی کسی آیت سے صراحتا و کنایة کوئ دلیل نہیں ملتی جس سے کسی کی سالگره یا میلاد منانے کی دلیل لی جا سکے،اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے ثابت هوتا ہے.
آپﷺ کی تین صاحبزادیاں (حضرت زینب، حضرت ام کلثوم، حضرت رقیہ رضی اللہ عنهم) کی وفات آپ کی زندگی میں ہوئی لیکن ان میں سے کسی کى سالگرہ آپﷺ نے نہیں منایى جبکہ نبی هونے کے بعد 23 سال آپﷺ زندہ رہے لیکن اس عرصے میں نہ آپﷺ نے کسی صحابہ کو اپنی تا ریخ ولادت پر سالگرہ منانے کا حکم دیا اورنہ ہی اصحاب کرام نے اس عرصہ میں اپکی تاریخ ولادت پر اپنے طرف سے میلاد منائے.
میلاد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں:
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد 5 اصحاب نے خلافت و حکومت چلائی مگر ان پانچوں میں سے نہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانے میں کبھی عید میلاد منائی گئی اور نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ اور نہ عثمان رضی اللہ عنہ اور نہ علی رضی اللہ عنہ اور نہ امیر معاویه رضی اللہ عنہ کے زمانے میں.
میلاد تابعین یا تبع تابعین کے دور میں:-
صحابہ کرام کے بعد سب سے افضل اور قابل اعتماد لوگ تابعین اور انکے تبع تابعین ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان افراد میں سے کسی فرد نے بہی آپﷺ کی تاریخ پیدائش سالگرہ یا عرش نہیں منایا.
میلاد ائمہ ومحدثین اورفکہائے عظام کے دور میں:-
أئمہ ومحدثین اور فقہائے عظام مثلا ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ سفیان عناویہ رحمہ اللہ امام اوزاعی رحمہ اللہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ اور تمام علماءحدیث وفقہ میں سے کسی نے میلاد نہیں منائی اور نہ ہی ان کے زمانے میں منائی گئی اور نہ ان میں سے کسی نے اجازت دی اسلئے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت منقول ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا " من احدث فی امرنا هذا ما لیس منه فھو رد" (رواہ البخاری) اور اسلئے کہ قرآن اور حدیث میں میلاد یا عرش منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا لہذا یہ قران و حدیث کی نگاہ میں ایک مذموم و من گهڑت بدعات کے سوا کچھ نہیں.
جشن عید میلاد کا موجد:
جشن عید میلاد النبی کی ابتداء ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن محمد الملکب الملک المظم مظفر الدین اربل (موصل) متوفی 18 رمضان 630ھ نے کی یہ بادشاہ ان محفلوں میں بے دریا پیسہ خرچ کرتا اور الات لهو لعب کے ساتھ راگ ورنگ کی محفلیں منعقد کرتا تها، مولانا رشید احمد گنگوہی لکهتے ہیں اہل تاریخ نے صراحت کی ہے کہ یہ بادشاہ بهانڈؤں گانے والوں کو جمع کرتا گانے آلات سے گانا سنتا اور خود ناچتا
(حوالہ فتوی رشیدیه صفحہ 123) یہ تو تها اسکا موجد جہاں تک اسکے جواز کا فتوی دینے والے شخص کا نام ہے ابوالخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن دحیا کلبی متوفی 633ھ، حافظ حجر اپنی کتاب لسان المیزان جلد 2 صفحہ 295 میں لکهتے ہیں کہ میں نے تمام لوگوں کو دحیا کلبی کے جهوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا ہے.
امام احمد بصری لکهتے ہیں چاروں مذاہب کے علماء عید میلاد منانے اور اس میں شامل ہو نے کی برائی پر اتفاق کر لیا ہے (حوالہ تاریخ میلاد صفحہ 115)ج.
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکهتے کسی پیغمبر کی وفات یا تولد کے دن کو عید کی طرح منانا جائز نہیں ہے (حوالہ تحفہ اثنا عشر یه)وغیرہ وغیرہ.
اللہ ہمیں شریعت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور بدعات و خرافات سے ہماری حفاظت فرمائے آمین. والحمدللہ علی ذلک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رب کریم نے جو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے عطا فرمایا ہے وہ کامل اور مکمل دین ہے جس کی صراحت قرآن کریم فرماتا ہے، الیوم اکملت لکم دینکم الخ " لہذا کوئی بھی ایسا عمل جو حقیقت میں دین نہیں ہے، اور وہ عمل حضور کے زمانہ میں نہیں تھا، اور حضور صلعم نے اس کی تلقین بھی نہیں فرمائی اور قرآن کریم میں اس کا حکم نہیں آیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس کو اختیار نہیں کیا، ایسے نئے عمل کو ہم دین کا حصہ سمجھ کر شروع کردیں، اور اس عمل کو واجب یا سنت قرار دے دیں یا اس عمل کے چھوڑنے والے ملامت کریں، یہ طرز عمل اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کے مرادف ہے، اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو حضور کے زمانہ میں نہیں تھیں، نہ ان کا رواج تھا، لیکن زمانہ کے حالات کی تبدیلی کی وجہ سے وہ چیزیں وجود میں آئیں اور لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا.
مثلا : حضور کے زمانہ میں بجلی نہیں تھی آج ہمارا بجلی کے بغیر گزارا نہیں، اس زمانہ میں پنکھے نہیں تھے اس وقت گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر ہوتا تھا، آج بسوں، ریلوں، ہوائی جہازوں کی بھر مار ہے، ان کے بغیر گزارا نہیں، لیکن یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو کوئی دین کا حصہ نہیں سمجھتا، کوئی یہ نہیں کہتا کہ بجلی کا استعمال واجب ہے، ریل کا سفر کرنا سنت یا مستحب ہے، بلکہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نئے نئے طریقے وجود میں آتے رہتے ہیں، اس لئے شریعت نے بھی ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی ۔
لیکن کوئی نیا کام انسان اس خیال سے شروع کرے کہ یہ دین کا حصہ ہے، یا یہ سوچے کہ یہ کام واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب یا ثواب کا کام ہے، حالانکہ وہ کام نہ تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ آپ نے اس کا حکم دیا نہ آپ کے صحابہ نے وہ کام کیا، جس کا مطلب یہ ہیکہ ہم دین کے معاملہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں. استغفراللہ.
شریعت میں اسی کا نام بدعت ہے، بدعت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے "کل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة "
بدعت گمراہی کیوں ہے ؟
اس میں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بدعت کو اختیار کرنے والا ہے وہ در حقیقت یہ سمجھتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول نے جو دین ہم کو دیا تھا وہ ادھورا اور ناقص تھا، آج میں نے اس عمل کا اضافہ کرکے اس کو مکمل کردیا، گویاکہ آدمی عملی طور پر اللہ اور اللہ کے رسول سے آگے نکلنے کا دعوی کررہا ہے.
مثلا : جشن عید ملاد النبی ؛ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور نہ صحابہ نے کیا، حتی کہ صحابہ کے بعد کے زمانہ میں بھی اس کا وجود نہیں ہوا تھا، اگر اسی طریقہ سے عشق نبی یا محبت نبی کا اظہار ہوتا تو کیا صحابہ عاشق نہیں تھے ؟
قران مجید کی کسی آیت سے صراحتا و کنایة کوئ دلیل نہیں ملتی جس سے کسی کی سالگره یا میلاد منانے کی دلیل لی جا سکے،اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے ثابت هوتا ہے.
آپﷺ کی تین صاحبزادیاں (حضرت زینب، حضرت ام کلثوم، حضرت رقیہ رضی اللہ عنهم) کی وفات آپ کی زندگی میں ہوئی لیکن ان میں سے کسی کى سالگرہ آپﷺ نے نہیں منایى جبکہ نبی هونے کے بعد 23 سال آپﷺ زندہ رہے لیکن اس عرصے میں نہ آپﷺ نے کسی صحابہ کو اپنی تا ریخ ولادت پر سالگرہ منانے کا حکم دیا اورنہ ہی اصحاب کرام نے اس عرصہ میں اپکی تاریخ ولادت پر اپنے طرف سے میلاد منائے.
میلاد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں:
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد 5 اصحاب نے خلافت و حکومت چلائی مگر ان پانچوں میں سے نہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانے میں کبھی عید میلاد منائی گئی اور نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ اور نہ عثمان رضی اللہ عنہ اور نہ علی رضی اللہ عنہ اور نہ امیر معاویه رضی اللہ عنہ کے زمانے میں.
میلاد تابعین یا تبع تابعین کے دور میں:-
صحابہ کرام کے بعد سب سے افضل اور قابل اعتماد لوگ تابعین اور انکے تبع تابعین ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان افراد میں سے کسی فرد نے بہی آپﷺ کی تاریخ پیدائش سالگرہ یا عرش نہیں منایا.
میلاد ائمہ ومحدثین اورفکہائے عظام کے دور میں:-
أئمہ ومحدثین اور فقہائے عظام مثلا ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ سفیان عناویہ رحمہ اللہ امام اوزاعی رحمہ اللہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ اور تمام علماءحدیث وفقہ میں سے کسی نے میلاد نہیں منائی اور نہ ہی ان کے زمانے میں منائی گئی اور نہ ان میں سے کسی نے اجازت دی اسلئے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت منقول ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا " من احدث فی امرنا هذا ما لیس منه فھو رد" (رواہ البخاری) اور اسلئے کہ قرآن اور حدیث میں میلاد یا عرش منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا لہذا یہ قران و حدیث کی نگاہ میں ایک مذموم و من گهڑت بدعات کے سوا کچھ نہیں.
جشن عید میلاد کا موجد:
جشن عید میلاد النبی کی ابتداء ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن محمد الملکب الملک المظم مظفر الدین اربل (موصل) متوفی 18 رمضان 630ھ نے کی یہ بادشاہ ان محفلوں میں بے دریا پیسہ خرچ کرتا اور الات لهو لعب کے ساتھ راگ ورنگ کی محفلیں منعقد کرتا تها، مولانا رشید احمد گنگوہی لکهتے ہیں اہل تاریخ نے صراحت کی ہے کہ یہ بادشاہ بهانڈؤں گانے والوں کو جمع کرتا گانے آلات سے گانا سنتا اور خود ناچتا
(حوالہ فتوی رشیدیه صفحہ 123) یہ تو تها اسکا موجد جہاں تک اسکے جواز کا فتوی دینے والے شخص کا نام ہے ابوالخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن دحیا کلبی متوفی 633ھ، حافظ حجر اپنی کتاب لسان المیزان جلد 2 صفحہ 295 میں لکهتے ہیں کہ میں نے تمام لوگوں کو دحیا کلبی کے جهوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا ہے.
امام احمد بصری لکهتے ہیں چاروں مذاہب کے علماء عید میلاد منانے اور اس میں شامل ہو نے کی برائی پر اتفاق کر لیا ہے (حوالہ تاریخ میلاد صفحہ 115)ج.
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکهتے کسی پیغمبر کی وفات یا تولد کے دن کو عید کی طرح منانا جائز نہیں ہے (حوالہ تحفہ اثنا عشر یه)وغیرہ وغیرہ.
اللہ ہمیں شریعت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور بدعات و خرافات سے ہماری حفاظت فرمائے آمین. والحمدللہ علی ذلک