اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: تعمیر اور تخریب!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 2 November 2018

تعمیر اور تخریب!

محمد سالم سریانوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
 ’’تعمیر‘‘ اور ’’تخریب‘‘ دونوں عربی زبان کا لفظ ہے، جو کہ باب تفعیل سے مصدر ہے، یہ لفظ عربی واردو دونوں میں مشترک مستعمل ہے، اور معنی وتشریح کے اعتبار سے بھی قریب قریب ہی ہے، اسی طرح یہ دونوں لفظ آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہے، جہاں ’’تعمیر‘‘ ہوگی وہاں ’’تخریب‘‘ کا وجود نہیں ہوگا، اور جہاں ’’تخریب‘‘ کی موجودگی ہوگی وہاں ’’تعمیر‘‘ کا گزر نہیں ہوگا۔
 آج جب کہ مادیت پرستی اور دنیا کی محبت کا راج ہے وہاں پر ضروری ہے کہ ہم ’’تعمیر وتخریب‘‘ کو سمجھیں اور جو ہمارے لیے نفع بخش ہے اس پر عمل درآمد کریں اور جو زہر بن سکتا ہے اس سے احتراز کریں۔
  ’’تعمیر‘‘ کے معنی آباد کرنا، بسانا، سنوارنا اور درست کرنا ہے، یہ لفظ مختلف الفاظ کے ساتھ ملا کر بولا جاتا ہے،اور انھیں الفاظ کے اعتبار سے معنی ومقصد بھی ہوتا ہے، البتہ مشترک معنی وہی ہوتا ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے، جس میں ظاہر کی تعمیر کے ساتھ باطن کی تعمیر کا بھی معنی موجود ہے،اس کے بالمقابل ’’تخریب‘‘ کا لفظ ہے، جو اس کی ضد کے طور پر مستعمل ہے، جس میں خراب کرنا، اجاڑنا، برباد کرنا وغیرہ داخل ہے۔
 آج ہم میں سے تقریبا ہر فرد اپنے ظاہر کی تعمیر کا زیادہ فکر مند ہے، جب کہ باطن کی تعمیر وترقی سے اسے بحث نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج فرد سے لے کر معاشرہ اور معاشرہ سے لے کر پوراملک؛ بل کہ پورا عالم تعمیری راہ پر چلنے کے بجائے تخریب کی راہ پر گامزن ہے، ہر فرد کو اپنی زندگی میں مختلف حوادثات وواقعات سے سابقہ پڑتا ہے، لیکن انسانی دنیا کا ایک معتد بہ حصہ ان چیزوں سے تعمیروترقی کا سبق سیکھنے کے بجائے ان اشیاء کو تخریب کا ذریعہ بنا لیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ذات میں غلط اور منفی سوچ وفکر درانداز ہوتی ہے اور اس کو متاثر کرتی ہے، نتیجۃ اس کی وجہ سے وہ خود مسائل ومصائب سے دوچار ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے معاشرہ بھی برائیوں اور خرابیوں کے دل دل میں پھنستا جاتا ہے۔
 آج ملت جن مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک مسئلہ ’’تعمیری سوچ وفکر‘‘ کے بجائے ’’تخریبی سوچ وفکر‘‘ کا ہونا ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے تقریبا ہر فرد بشر کو کسی نہ کسی درجہ میں واسطہ پڑتا ہے، لیکن اگر آدمی اسی وقت محاسبہ کرلے اور مستقبل کے بارے میں غور وفکر کرلے تو وہ ایسی تخریبی فکر اور اس کے عمل سے بچ کر تعمیری سوچ وعمل پر گامزن ہوسکتا ہے، اور اپنی ذات سے ملت کو بڑا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
 لیکن آج ہوتا یہ ہے کہ بیشتر مواقع پر ؛ بالخصوص جہاں ’’انا‘‘ کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے آدمی ’’تعمیری فکر‘‘ سے اپنے کو آزاد کرکے ’’تخریبی فکر‘‘ کی راہ پر ڈال دیتا ہے، اور اپنے اس اقدام اور عمل کے بارے میں غور وفکر بھی نہیں کرتا، بس نفس کی تسکین اور دلی آرزو کو پورا کرنے کے لیے ہر وہ کام کر بیٹھتا ہے جس کا تصور ایک ’’مہذب انسان‘‘ سے ممکن نہیں ہوسکتا۔
 ابھی حال ہی میں بندہ نے ایک جلسہ کے تعلق سے سرسری تاثراتی مزاحیہ تحریر لکھی تھی، جس کا منفی اثر کچھ لوگوں کو ہوا اور ان کو اس کی وجہ سے تکلیف بھی ہوئی، جس کا رد عمل یہ سامنے آیا کہ ہمارے بعض بڑے اور مقتدر حضرات کی طرف سے ’’اصلاحی وتنقیدی تحریریں‘‘ سامنے آئیں، جس میں ان حضرات نے ’’تخریبی سوچ‘‘ کو کچلنے کی حتی المقدور کوشش بھی کی اور مجھ کو ’’تعمیری سوچ‘‘ پر لانے کی فکر کی، میں ان سب حضرات کا ممنونِ کرم ہوں، اور ان حضرات سے معذرت خواہ ہوں جن کو میری تحریر سے تکلیف ہوئی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے حاشیۂ خیال بھی میں تخریب کا کوئی ’’شوشہ‘‘ نہیں تھا، چہ جائے کہ کوئی ’’تخریبی ارادہ‘‘، اب جب کہ میرے ظن کے بالکل برعکس رد عمل سامنے آیا تو میرا ضمیر بھی مجھے اس پر آمادہ کررہا تھا کہ ان تنقیدی تحریروں کو زیر بحث لاؤں اور حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کروں، لیکن میں نے اس موقع پر اسی ’’تخریبی سوچ‘‘ کو ختم کرتے ہوئے ’’تعمیری سوچ‘‘ کا دامن تھاما، تاکہ ہمارے درمیان شیطانی تدبیر کام نہ کرجائے اور بلا وجہ ہم غضب خداوندی کے مستحق ہوجائیں، حقیقت یہ ہے کہ میں ان تنقیدوں سے کلی طور پر متفق نہیں ہوں، لیکن ’’تعمیروترقی‘‘ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس کو ختم کرنا چاہتا ہوں، تاکہ ہم میں سے ہر ایک مطمئن ہوکر کام کرسکے، کسی سے بد ظنی نہ ہو، اور کسی کام میں شیطانی عمل کا دخل نہ ہو۔(یہ مثبت تاثر اپنی ا’’انا‘‘ کی تسکین اور تکبر کے طور پر نہیں، بل کہ شکریہ واظہارِ نعمت کے طور پر ہے)
 خدا وند تعالی سے دعا ہے کہ ہم کو ’’تعمیری فکر‘‘ عطا فرمائے اور کچھ دین کا کام اخلاص کے ساتھ کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)