محمد جنید حسین
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اس روے زمین میں ہزاروں لاکھوں ایسے نمایاں اشخاص نے آنکھیں کھولی ہیں جنہوں نے آنے والوں کے لئے اپنی اپنی زندگیاں نمونہ کے طور پر پیش کی ہیں، چنانچہ شاہان عالم کے دربار سپہ سالاروں کے جنگی بیڑے حکماء و فلاسفرز کا متین گروہ فاتحین عالم کی پر جلال صفیں، شعراء کی بزم رنگین، اور اصحاب مال و دولت کی نرم گدیاں اور کھنکھناتی تجوریاں اقوام عالم کو اپنی طرف کھینچی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، لیکن اگر ہم دنیا کی تاریخ پر چمکنے والے ان مختلف اصناف انسانی کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کسی کی زندگی نوع انسانی کی سعادت، فلاح اور ہدایت کی مکمل طور سے ضامن، کفیل اور قابل تقلید نمونہ نہیں بن سکتی.
چنانچہ دنیا کے اسٹیج پر بڑے بڑے فاتحین و سپہ سالار رونما ہوئے جنہوں نے اپنی تلواروں کی نوک سے دنیا کے طبقے الٹ دیے، دنیا میں بڑے بڑے شعراء بھی پیدا ہوئے جو خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے رہے لیکن خیالی دنیا کے یہ شہنشاہ عملی دنیا میں بے کار ثابت ہوئے، وہ حکماء اور فلاسفر جنہوں نے بارہا اپنی عقل رسا سے عجائبات عالم کی طلسم کشائی کے حیرت انگیز نظریے پیش کئے لیکن فرائض انسانی کی طلسم کشائی میں کوئی عملی امداد دینے سے وہ بھی قاصر رہے، یوں تو بڑے بڑے حکمران اس دنیا میں آئے جنہوں نے کرہ ارض کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی لیکن دلوں کی حکومت سے وہ بھی محروم رہے، الغرض صنف انسانی کے بلند پایہ طبقوں میں جن سے انسانوں کی بھلائی کی توقعات ہو سکتی تھیں ان میں سے کسی کی بھی زندگی قابل تقلید نمونہ نہیں ہو سکتی، لیکن تاریخ انسانی میں ایک ایسی بلند پایہ اور عالی مرتبہ شخصیت آج سے چودہ سو سال قبل مکہ مکرمہ میں ظہور پذیر ہوئی، جس کی اخلاقی تلوار نے میدان جنگ سے آگے بڑھ کر انسانی اوہام و خیالات فاسدہ کی بیڑیوں کو کاٹ کر انسانوں کے باہمی برادرانہ تعلقات کی گھتی بھی سلجھائی، جس نے انسانی معاشرت کے لئے اخلاق و اعمال کے ایسے اصول بیان فرمائیں، جن سے تنہائیوں اور روپوش مجرمین بھی اثر لیے بغیر نہ رہ سکیں یوں تو دنیا کے حکمران نے بازاروں اور راستوں میں امن قائم کیا لیکن اس عظیم ہستی نے دلوں کی بستی میں امن و امان کے چراغ جلائے. اگرچہ وہ سپہ سالاروں کی طرح تیغ بکف نہیں تھا تاہم وہ گناہوں کے پرے اور آلودگیوں کی صفیں دم کے دم الٹ دیتا تھا گو وہ کوئی خیالی شاعر نہیں تھا لیکن اس کی شیریں بیانوں کے ذائقہ سے اب تک انسانوں کے کان دہن لطف اندوز ہو رہے ہیں، غرض ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالات انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو وہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے چنانچہ اگر آپ کے اخلاقی پہلو کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ کی ذات مبارکہ تمام اخلاقی صفات کو جامع تھی چنانچہ صدق حیا و عفت احسان، احصان، امانت داری و دیانت داری، وفاے عہد، صبر و شکر، عفو و درگزر، عدل و انصاف، تواضع و انکساری حلم و بردباری رحم و مہربانی جود و سخا رحم و کرم، شجاعت و بہادری، ایثار و بے نفسی، حق گوئی و صاف گوئی، اعتدال و توازن، رفق و نرمی، ان سب صفات کو آپ علیہ السلام نے خلق عظیم کی صورت میں پروان چڑھایا اور ان سب کو پر عظمت اور انسانوں کے لئے باعث عزت بنایا اور ان سب اخلاقی اقدار کو عظیم زعیم، وجہ تکریم اور باعث تنعیم بنایا، جب ہر خلق آپ کے وجود اقدس میں خلق عظیم بنتا چلا گیا اور ہر خلق آپ کی زات اقدس میں مکارم اخلاق کی منزل پر پہنچتا چلا گیا تو باری تعالٰی نے ہر ہر خلق حسن کی آپ کی زات اقدس میں تکمیل و کمال کی بشارت ان الفاظ میں دی فرمایا "انك لعلیٰ خلق عظیم" (القلم، 68 '4) آپ نے صرف اخلاق حسنہ کو اپنے عروج پر ہی نہیں پہنچایا بلکہ اخلاق سییہ و شنیعہ کی قباحتوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی جڑیں کاٹ ڈالیں دنیا بھر میں پھیلا ہوا کذب آپ کے دور میں ماند پڑ گیا، وعدہ خلافی کا آپ نے سد باب کیا خیانت پر کاری ضرب لگائی، کبر و تکبر کے بتوں کو زمین بوس کیا غیبت کا قلع قمع کیا، تمسخر واستہزا کا خاتمہ کیا، بدظنی و بدگمانی پر پہرے بٹھائے، بخل بہتان اور تہمت کو معاشرتی اخوت و محبت کے خلاف تصور کیا، چغل خوری کو انسانی نفرت کی اساس قرار دیا، ظلم کو انسانی عظمت کے خلاف گردانا، منافقت کو انسانی زلت قرار دیا، بے جا خوشامد کو انسانی رفعت کے خلاف جانا، فحش گوئی کو حسن تکلم کے آداب کے منافی سمجھا، ریا کو اعمال کے ضیاع کا سبب مانا حرص و طمع کو انسانیت کی تذلیل اور توہین جانا، غیظ و غضب کو انسانی وقار کے خلاف تسلیم کیا، عیب جوئی کو اپنی ذات سے بے وفائی اور بد عہدی جانا، غرضیکہ آپ کے اخلاق خلق حسنہ کے اثباتی پہلو کے اعتبار سے اور خلق سییہ کے انسدادی پہلو کے لحاظ سے عظیم تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کے متبعین کا ایک گروہ ایسا وجود میں آیا کہ اخلاقی قدروں میں ان سے زیادہ بلند و بالا تاریخ انسانی میں نے چشم فلک نے نہیں دیکھچنانچہ آپ کے پیروکاروں کی منظر کشی کرتے ہوئے شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا.
ــــــــــــعـــــــــــ
خود نہ تھے جو رہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی کہ مردوں کو مسیحا کر دیا
الغرض! آج بھی صنف انسانی کا جو بھی طائفہ نور ایمانی کا متلاشی ہو امیر غریب، بادشاہ و فقیر، آزاد و قید، حاکم و محکوم، فاتح و مفتوح، استاذ و شاگرد، واعظ و ناصح، منصف و قاضی، والد و ولد، منصب و قاضی الغرض جس شعبہ سے بھی اس کا تعلق ہو وہ آپ کی زات کو قابل تقلید بنالے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہنمائی کا نور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت کبری کے خزانہ میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے.
ــــــــــعـــــــــ
اے رسول امین، خاتم المرسلین
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں،
ہے عقیدہ یہ اپنا بصدق و یقیں.
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا.
اس زمین میں ہوا، آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم سب ہیں زیر نگیں
تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اس روے زمین میں ہزاروں لاکھوں ایسے نمایاں اشخاص نے آنکھیں کھولی ہیں جنہوں نے آنے والوں کے لئے اپنی اپنی زندگیاں نمونہ کے طور پر پیش کی ہیں، چنانچہ شاہان عالم کے دربار سپہ سالاروں کے جنگی بیڑے حکماء و فلاسفرز کا متین گروہ فاتحین عالم کی پر جلال صفیں، شعراء کی بزم رنگین، اور اصحاب مال و دولت کی نرم گدیاں اور کھنکھناتی تجوریاں اقوام عالم کو اپنی طرف کھینچی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، لیکن اگر ہم دنیا کی تاریخ پر چمکنے والے ان مختلف اصناف انسانی کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کسی کی زندگی نوع انسانی کی سعادت، فلاح اور ہدایت کی مکمل طور سے ضامن، کفیل اور قابل تقلید نمونہ نہیں بن سکتی.
چنانچہ دنیا کے اسٹیج پر بڑے بڑے فاتحین و سپہ سالار رونما ہوئے جنہوں نے اپنی تلواروں کی نوک سے دنیا کے طبقے الٹ دیے، دنیا میں بڑے بڑے شعراء بھی پیدا ہوئے جو خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے رہے لیکن خیالی دنیا کے یہ شہنشاہ عملی دنیا میں بے کار ثابت ہوئے، وہ حکماء اور فلاسفر جنہوں نے بارہا اپنی عقل رسا سے عجائبات عالم کی طلسم کشائی کے حیرت انگیز نظریے پیش کئے لیکن فرائض انسانی کی طلسم کشائی میں کوئی عملی امداد دینے سے وہ بھی قاصر رہے، یوں تو بڑے بڑے حکمران اس دنیا میں آئے جنہوں نے کرہ ارض کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی لیکن دلوں کی حکومت سے وہ بھی محروم رہے، الغرض صنف انسانی کے بلند پایہ طبقوں میں جن سے انسانوں کی بھلائی کی توقعات ہو سکتی تھیں ان میں سے کسی کی بھی زندگی قابل تقلید نمونہ نہیں ہو سکتی، لیکن تاریخ انسانی میں ایک ایسی بلند پایہ اور عالی مرتبہ شخصیت آج سے چودہ سو سال قبل مکہ مکرمہ میں ظہور پذیر ہوئی، جس کی اخلاقی تلوار نے میدان جنگ سے آگے بڑھ کر انسانی اوہام و خیالات فاسدہ کی بیڑیوں کو کاٹ کر انسانوں کے باہمی برادرانہ تعلقات کی گھتی بھی سلجھائی، جس نے انسانی معاشرت کے لئے اخلاق و اعمال کے ایسے اصول بیان فرمائیں، جن سے تنہائیوں اور روپوش مجرمین بھی اثر لیے بغیر نہ رہ سکیں یوں تو دنیا کے حکمران نے بازاروں اور راستوں میں امن قائم کیا لیکن اس عظیم ہستی نے دلوں کی بستی میں امن و امان کے چراغ جلائے. اگرچہ وہ سپہ سالاروں کی طرح تیغ بکف نہیں تھا تاہم وہ گناہوں کے پرے اور آلودگیوں کی صفیں دم کے دم الٹ دیتا تھا گو وہ کوئی خیالی شاعر نہیں تھا لیکن اس کی شیریں بیانوں کے ذائقہ سے اب تک انسانوں کے کان دہن لطف اندوز ہو رہے ہیں، غرض ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالات انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو وہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے چنانچہ اگر آپ کے اخلاقی پہلو کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ کی ذات مبارکہ تمام اخلاقی صفات کو جامع تھی چنانچہ صدق حیا و عفت احسان، احصان، امانت داری و دیانت داری، وفاے عہد، صبر و شکر، عفو و درگزر، عدل و انصاف، تواضع و انکساری حلم و بردباری رحم و مہربانی جود و سخا رحم و کرم، شجاعت و بہادری، ایثار و بے نفسی، حق گوئی و صاف گوئی، اعتدال و توازن، رفق و نرمی، ان سب صفات کو آپ علیہ السلام نے خلق عظیم کی صورت میں پروان چڑھایا اور ان سب کو پر عظمت اور انسانوں کے لئے باعث عزت بنایا اور ان سب اخلاقی اقدار کو عظیم زعیم، وجہ تکریم اور باعث تنعیم بنایا، جب ہر خلق آپ کے وجود اقدس میں خلق عظیم بنتا چلا گیا اور ہر خلق آپ کی زات اقدس میں مکارم اخلاق کی منزل پر پہنچتا چلا گیا تو باری تعالٰی نے ہر ہر خلق حسن کی آپ کی زات اقدس میں تکمیل و کمال کی بشارت ان الفاظ میں دی فرمایا "انك لعلیٰ خلق عظیم" (القلم، 68 '4) آپ نے صرف اخلاق حسنہ کو اپنے عروج پر ہی نہیں پہنچایا بلکہ اخلاق سییہ و شنیعہ کی قباحتوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی جڑیں کاٹ ڈالیں دنیا بھر میں پھیلا ہوا کذب آپ کے دور میں ماند پڑ گیا، وعدہ خلافی کا آپ نے سد باب کیا خیانت پر کاری ضرب لگائی، کبر و تکبر کے بتوں کو زمین بوس کیا غیبت کا قلع قمع کیا، تمسخر واستہزا کا خاتمہ کیا، بدظنی و بدگمانی پر پہرے بٹھائے، بخل بہتان اور تہمت کو معاشرتی اخوت و محبت کے خلاف تصور کیا، چغل خوری کو انسانی نفرت کی اساس قرار دیا، ظلم کو انسانی عظمت کے خلاف گردانا، منافقت کو انسانی زلت قرار دیا، بے جا خوشامد کو انسانی رفعت کے خلاف جانا، فحش گوئی کو حسن تکلم کے آداب کے منافی سمجھا، ریا کو اعمال کے ضیاع کا سبب مانا حرص و طمع کو انسانیت کی تذلیل اور توہین جانا، غیظ و غضب کو انسانی وقار کے خلاف تسلیم کیا، عیب جوئی کو اپنی ذات سے بے وفائی اور بد عہدی جانا، غرضیکہ آپ کے اخلاق خلق حسنہ کے اثباتی پہلو کے اعتبار سے اور خلق سییہ کے انسدادی پہلو کے لحاظ سے عظیم تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کے متبعین کا ایک گروہ ایسا وجود میں آیا کہ اخلاقی قدروں میں ان سے زیادہ بلند و بالا تاریخ انسانی میں نے چشم فلک نے نہیں دیکھچنانچہ آپ کے پیروکاروں کی منظر کشی کرتے ہوئے شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا.
ــــــــــــعـــــــــــ
خود نہ تھے جو رہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی کہ مردوں کو مسیحا کر دیا
الغرض! آج بھی صنف انسانی کا جو بھی طائفہ نور ایمانی کا متلاشی ہو امیر غریب، بادشاہ و فقیر، آزاد و قید، حاکم و محکوم، فاتح و مفتوح، استاذ و شاگرد، واعظ و ناصح، منصف و قاضی، والد و ولد، منصب و قاضی الغرض جس شعبہ سے بھی اس کا تعلق ہو وہ آپ کی زات کو قابل تقلید بنالے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہنمائی کا نور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت کبری کے خزانہ میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے.
ــــــــــعـــــــــ
اے رسول امین، خاتم المرسلین
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں،
ہے عقیدہ یہ اپنا بصدق و یقیں.
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا.
اس زمین میں ہوا، آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم سب ہیں زیر نگیں
تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں