اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جلتا سیتامڑھی، اور خاموش قائدین!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 18 November 2018

جلتا سیتامڑھی، اور خاموش قائدین!

عبدالخالق القاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
سیتامڑھی(آئی این اے نیوز 18/نومبر 2018) سیتامڑھی گزشتہ 19/20 اکتوبر 2018 کو درگا پوجا کے موقع پر ایک خاص فرقہ کے ذریعہ فرقہ وارانہ فساد برپا کیا گیا، جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اس عظیم حادثہ نے نہ صرف مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا بلکہ اس ملک میں رہنے والے بعض قومی بھائی کو بھی آبدیدہ کردیا ہے,اس فرقہ واریت کی چنگاری اتنی بھیانک ثابت ہوئی کہ یہ شعلہ جوالہ بن کر ایک بزرگ صفت انسان جس کے چہرے پر خوبصورت سفید داڑھی جو پکے سچے مسلمان ہونے کی گواہی دے رہی تھی آ گری،
شرپسند عناصر کا ہجومی تشدد اتنا خطرناک، وحشتناک تھا کہ اسے دیکھ کر مسلمان گھبرا گئے تھے، ان کی آواز کی گونج اتنی سخت تھی کہ مسلم طبقہ کے لوگ خوف و ہراس محسوس کرنے لگے تھے اور ان کی زبان سے بے ساختہ کلمہ لاالہ کے الفاظ نکل رہے تھے، کچھ ہی دیر میں بھگوائی اشتعال انگیز نعرے کے ساتھ مسلم آبادی میں گھسکر تباہی مچانا شروع کردیا اور مسلمانوں کے دکانوں میں آگ لگادی، ان کے جذبات اتنے مشتعل تھے کہ اس نے ایک معمر شخص زین الانصاری کی جان لینے پر مجبور کردیا حد تو یہ کہ ان بلوائیوں نے نہ صرف انہیں لاٹھی ڈنڈے سے مارا بلکہ انہیں چھری سے ذبح کرکے آگ کے حوالہ کردیا جو انتہائی گہرے دکھ اور گری ہوئی انسایت کی بات ہے، اس حادثہ کی خبر چنڈ منٹوں میں پورے سیتامڑھی میں آگ کی طرح پھیل گئی، جبکہ یہ واقعہ سیتامڑھی شہر کے مرغیا چک کا ہے جہاں انتظامی افسران اور حفاظتی دستے پولیس چوکی پر موجود تھے ان کی تھوڑی سی حرکت سے یہ اندوہناک حادثہ ٹل سکتا تھا مگر ان کی سستی کاہلی یا ملی بھگت نے اس فساد میں پٹرول کا کام کیا، وائرل ویڈیو میں فسادی پتھر بازی کر رہے ہیں مگر ان فسادیوں کی پتھر بازی سے یہ سریع الحرکت کہے جانے والے پولیس دستے خوف کھاکر خود ہی پیچھے بھاگ رہے ہیں، اپنی خاص قسم کی گاڑی جس کے اوپر خاص قسم کا ہارن تنصیب ہوتا ہے جس کا بے جا استعمال کرکے اس ملک کے غریب طبقہ کے لوگوں کو خوف دلاکر اپنی جیب اور اپنی توند بھرنے والے قانون کی دھجیاں اڑاکر اس گاڑی کو آگے بڑھانے کے بجائے بیک کرتے نظر آرہے ہیں، جو ملی بھگت کی بین دلیل ہے، آخر قانون کا لبادہ اوڑھ کر حکومت کو بیوقوف بنانے والے یہ خاکی وردی والے بھیریہ نما انسان کی انسانیت اس دن فرقہ واریت میں کیوں تبدیل ہوگئی تھی؟فساد کے دن یہ لوگ غفلت کی چادر تان کر کیوں سوگئے تھے؟ زین الانصاری کے قتل کے بعد ان کی لاش کو گھر والوں کو بتائے بغیر ڈرامائی انداز میں مظفرپور اسپتال کیوں بھیجا گیا؟ جبکہ اس معمر شخص کی موت جائے وقوع پر ہی ہو چکی تھی، مرنے کے بعد گھر والوں کو اس کی خبر کیوں نہیں پہونچی؟جبکہ گھر والوں نے وائرل ویڈیو کے سہارے مقتول زین الانصاری کی شناخت کی، کیا ریاستی حکومت نے اس پر کوئی اقدام کیا؟ فرقہ واریت کو ہوا دینے والا موجودہ ایس پی سیتامڑھی وکاس برمن جس نے گذشتہ سال رام نومی کے موقع سے وہاں کی فضاء کو مکدر کیا اور مسلمانوں سے خون کی ہولی کھیلنے کی پلاننگ بنائی، کتنی باحیا عورتوں اور دوشیزاوں کی عصمت و عفت لوٹی گئی، بے اجازت گھر میں گھس کر سامان کو لوٹا گیا، کیا وزیر اعلی ایس پی برمن کے زیر اہتمام ہونے والے اس حادثہ سے بے خبر تھے؟آخر ان پر قانونی کاروائی کیوں نہیں ہوئی؟اگر ہوئی تو پہر ایک سال کے اندر ہی ان کا تبادلہ سیتامڑھی کیسے ہوا؟الیکشن کے وقت ووٹ کی بھیک مانگنے والے مسلمانوں کے مسیحا,زین الانصاری کی قیمت 500000 پانچ لاکھ روپے لگا کر اپنے داغدار دامن سے خون کے چھینٹ کو دھونا چاہتے ہیں.
یاد رکھیے نیتا جی یہ جنتا آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی، یہ چند چبھتے اور دل چیر دینے والے سوالات ضرور ہیں مگر حق ہے، ایسے پر آشوب موقع پر سیاسی، سماجی ملی قائدین کی خاموشی بھی افسوسناک ہے، اتنے بڑے حادثہ پر نہ کسی تنظیم نے اور نہ کسی ادارے نے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا سوائے ایک دو کے، جن میں بیداری کارواں کے صدر نظر عالم نے چند روز کے بعد صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے متاثرہ علاقہ کا دورہ کیا، جائزہ لینے کے بعد بیداری کارواں نے اس فرقہ وارانہ فساد کی نہایت دردناک تصویر پیش کی، بیداری کارواں کے وفد کا احساس تھا کہ یہ حملہ پہلے سے طے شدہ تھا اور مقامی حکام پہلے سے اس ہونے والے سانحہ سے پوری طرح باخبر تھے  بیداری کارواں کے صدر نے ان غریب مفلوک الحال مسلمانوں کو انصاف کی ہر ممکن یقین دھانی کرائی، اور  متاثرین کو انصاف دلانے اور زین انصاری کے قتل کے خلاف ریاستی سطح  پر احتجاجی مظاہرے کی بھی جنگ چھیڑ دی ہے جو خوش آئند اقدام ہے، مزید انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ پہلا احتجاج 17 نومبر کو دربھنگہ کمشنری کے دھرنا استھل سے دن کے گیارہ بجے احتجاجی جلوس نکالا جائے گا،  دوسرا احتجاج 26 نومبر کو سیتامڑھی سے جبکہ تیسرا احتجاج 4 دسمبر کو مدھوبنی سے نکالا جائے گا اور ضلع کلیکٹر کو میمورنڈم بھی پیش کیا جائے گا.
اس احتجاجی جلوس کو تاریخ ساز بنانے کے لئے میر کارواں کارکنان کے ساتھ متحرک و فعال نظر آرہے ہیں  ,وہیں تازہ ترین ریڈیو نیوز سروس کے ایڈیٹر شہنواز بدر قاسمی نے بھی فسادہ زدہ علاقہ کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لیا، اور صورت حال سے بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو لائیو کے ذریعہ آگاہ کیا، سوشل میڈیا میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے ملت ٹائمز نے بھی اس موقع پر کلیدی رول ادا کیا اور وائرل ویڈیو کو بر وقت شائع کرکے فساد بند کرانے کے لئے ایک فارمولہ حکومت کے سامنے پیش کیا اور مجرموں کو گرفتار کرنے اور حساس علاقوں میں پولس چوکی قائم کرنے اور مضبوط حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کیا، وہیں امارت شرعیہ سے بھی ایک وفد مفتی ثناء الہدی القاسمی کی سرپرستی میں متاثرہ علاقہ کا دورہ کیا اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد تشویش کا اظہار کیا، یہ ایک دو تنظیم کا دورہ کرنا اور افسوس کا اظہار کرنا، کیا  اونٹ کے منھ میں زیرا کے مترادف نہیں ہے؟ جبکہ وقت کی نزاکت کا تقاضا یہ تھا اس فرقہ وارانہ فساد کے خلاف مرکزی سطح پر احتجاجی مظاہرے ہونا چاہیے، اور ساتھ ہی سیاسی، سماجی اور ملی رہنماؤں کا اخبارات میں مذمتی بیان بھی آنا چاہیے، مگر سیاسی، سماجی و مذہبی رہنماؤں نے اس بڑے سانحہ پر نہ تو افسوس کا اظہار کیا اور نہ مذمت کا.
 یاد رکھیے اگر یہی صورت حال رہی تو ملک کے طول عرض میں پھیلے ہوئے مسلم آبادی میں بھی وہی معاملہ ہوگا جو 19 /20 اکتوبر کو سیتامڑھی میں ہوا، لہذا خاموش قائدین اب اپنی چپی توڑے اور وزیر اعلی اور انتظامی امور پر نظر رکھنے والے افسران سے مطالبہ کرے کہ حادثہ کا سبب بننے والی لاپرواہ خاطی پولس افسران کو قرطاس ابیض کی شکل میں سامنے لائے اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اس سے پوچھ گچھ کرے اور مناسب سزا دے تاکہ پہر دوبارہ اس طرح کا اندوہناک واقعہ رونما نہ ہو سکے، نیز اس طرح کے حساس جگہوں پر تہوار کے موقع پر سخت انتظامات کرے، اس جیسے جلوس نکالنے والے منتظم حضرات پر بھی گہری نگاہ رکھے، جلوس حفاظتی دستہ کی نگرانی میں ہو، سرکاری افسران ان حساس جگہوں کا بار بار جائزہ لیں تاکہ اس طرح کے دلدوز واقعہ سے بچا جاسکے.