اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: یوگا نگری کا ایک یادگار سفر!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 2 November 2018

یوگا نگری کا ایک یادگار سفر!

عاصم طاہر اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
بس یوں ہی تذکرہ چھڑا کہ چلو کہیں گھومنے چلتے ہیں کسی نے کچھ مشورہ دیا تو کسی نے کچھ اخیر میں میں نے بھی ایک نام پیش کیا اور کہا کہ یہ بھی مشورہ ہے دوستوں نے علامہ گوگل پر اس نام کو سرچ کیا اور اس جگہ کی تصویریں دیکھیں کافی حد تک اس جگہ کو پسند کیا، اور واقعی وہ میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک تھی، بہت پہلے سے اس جگہ کے بارے میں سوچ رکھا کہ اگر خدا نے چاہا تو اس جگہ ضرور گھومنے جاؤں گا، میرے ایک غیر مسلم دوست نے اس جگہ کے بارے میں بہت کچھ بتایا کہ وہ جگہ ہماری مقدس جگہوں میں سے ایک ہےاور وہاں کی مختصر تاریخ بھی بتائی تھی، بالآخر دوستوں نے وہیں جانے کا فیصلہ بھی کیا، اور وہ جگہ ریاست اتراکھنڈ کی دارالحکومت دہرادون سے تھوڑی دور پر واقع *رشی کیش* نام کا ایک خوبصورت قصبہ تھا،
کچھ احباب کو جانے کی اتنی جلدی تھی کہ کھ رہے تھے کہ آج ہی نکل چلو پر شاید کہ وہ سفر کی مشکلات سے نا آشنا تھے بالآخر بسیارِ تلاش کے بعد بھی کسی ٹرین میں ٹکٹ نہیں ملا کافی کوششوں کے بعد نتیجہ سعی لاحاصل رہا، نتیجتاً بغیر ٹکٹ ہم لوگوں نے رختِ سفر باندھا،
واللہ جس مصائب و آلام کا سامنا کرتے ہوئے یہ سفر مکمل ہوا تھا وہ ناقابلِ بیان ہے، واضح رہے کہ میرا یہ اب تک کا سب سے مشکل ترین سفر رہا،  میرے ایک دوست  جو کہ سیاحت کے دلدادہ ہیں واٹس ایپ اسٹیٹس دیکھے فوراً رابطہ کیے اور کہا کہ کیا واقعی اسٹیٹس حقیقت پر مبنی ہے؟
جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی کچھ ایسا ہی ہے تو انھوں نے کہا کہ پہلے بتاتے میں بھی چلتا تو میں نے کہا کہ مایوس نہ ہوں ہماری ٹرین آپ کے شہر ہوتے ہوئے جائے گی، انھوں نے فوراً تیاری شروع کی اور ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہمارے ساتھ ہو لیے، اب اس طرح ہم لوگوں کا یہ کارواں اگیارہ افراد پر مشتمل اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں تھا،
بہت ہی مناسب لکھا ہے ماہرین سیاحت نے کہ منزل کی خوبصورتی سے کہیں زیادہ سفر کے ساتھی کا ہم مزاج ہونا بہت ضروری ہے کچھ اسی مزاج کا فقدان ہمارے اس سفر میں تھا، بہت کچھ سیکھنے کو ملا اس سفر سے اور ویسے بھی عقل بادام کھانے سے نہیں بلکہ دھوکہ کھانے سے بڑھتی ہے،
 *رشی کیش* قدیم زمانے سے ہندوؤں کی روحانی و مذہبی سرگرمیوں کا مرکز ہے دریائے گنگا کے دائیں کنارے پر واقع یہ جگہ خوبصورت پہاڑوں کی طرف سے تمام پہلوؤں سے گھری ہوئی ہے رشی کیش بدری ناتھ اور کیدر ناتھ کے لئے گیٹ وے ہے رشی کیش پوری دنیا میں  یوگا دارالحکومت کے طور پر جانا جاتا ہے رشی کیش میں یوگا کا کورس بھی کرایا جاتا ہے یہی وجہ تھی کہ جس سمت بھی ہم لوگ نگاہ کرتے صرف یوگا کا ہر چہار جانب پرچار دکھتا تھا، ہر طرف ہندو ہی ہندو دیکھتے تھے ایسا لگتا تھا کہ یہاں پر مسلم کمیونٹی کا آنا منع ہے
ہر کوئی وہاں پر ہمیں آنکھیں بھر کر دیکھتا تھا لباس بھی ہم لوگوں کا اپنے ہی اعتبار سے تھا اس کی واحد وجہ یہی تھی کہ وہاں مسلم  بہت کم جاتے ہیں اور جاتے بھی ہیں تو اس لباس میں نہ کے برابر جاتے ہیں،
اس مشہور یوگا نگری کے شہر میں اس روایتی اور ثقافتی کارکردگی، غیر ملکی کھانا اور بہت سارے دیگر  منفرد عوامل کے لئے بھی ذکر کی جاتی ہے جس میں سیاحوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ انہیں شاندار تجربہ فراہم کریں، رشی کیش ان لوگوں کے لئے ایک دلچسپ جگہ ہے جو حالیہ دنوں میں جذبہ کے طور پر ایڈونچر کرتے ہیں، یہ سیاحت کی جگہ کے طور پر ترقی پذیر ہے، دریائے گنگا میں یہاں کی رافٹنگ بہت مشہور ہے ہم لوگوں نے بھی ارادہ کیا لیکن یہ سوچ کر پیچھے ہٹ گئے کہ رافٹنگ کرنا سب کے بس کی بات نہیں رافٹنگ کبھی کبھی جان لیوا بھی ثابت ہوجاتی ہے، رشی کیش کی تاریخ رام جھولا اور لکشمن جھولا کے ذکر کیے بغیر ادھوری ہے دریائے گنگا پر بنے رام جھولا اور لکشمن جھولا پر کھڑے ہوکر دریائے گنگا کا نظارہ  دید کے قابل ہوتا ہے واضح رہے یہ جھولا جیٹ کی رسی سے بنا ہوا ہے اس جھولے کی تاریخی حیثیت کئی غیر مسلموں سے معلوم کیا لیکن کیا حقیقت ہے کیا افسانہ کسی کو صحیح معلوم نہیں، دریائے گنگا پر بنا یہ جھولا برج کا کام کرتا ہے ہر نیا جانے والا یہی سمجھتا ہے کہ یہ برج ہے پر اس سے گزرنے پر جب ہلتا ہے تو ہر نئے کا چہرہ اچانک کچھ دیر کے لیے گھبرا جاتا ہے، کچھ ایسا ہی ہمارے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہوا تھا، بہت شوق ہے آبشاروں میں نہانے کا تھوڑی ہی دور پر واقع ایک آبشار میں نہانے کے لیے ہمارا قافلہ روانہ ہوا اس جگہ سے جہاں پر گاڑی والے نے ہمیں چھوڑا پہلا آبشار قریب تھا پاس گئے ہم لوگوں نے سوچا چلو کودتے ہیں سامنے کھڑے ایک صاحب نے آواز دی کہ اوپر بالترتيب دو آبشار اور ہیں وہانے نہانے کا مزہ کچھ اور ہے پھر یہی ہوا کہ اوپر چلتے ہیں بالآخر وہاں سے تقریباً 600 فٹ کی اونچائی پر ہمارا کافلہ چلتا بنا، راستے کی دشوار گزار گھاٹی سے ہوتے ہوئے ہمارا کافلہ آخری آبشار پر پہنچا اور دوستوں نے جھٹ پٹ لباس بدلا اور نہانا شروع ہوگئے کافی دیر نہانے اور مستی کے بعد جو سکون اور جو تراوٹ محسوس ہوئی وہ آج تک کہیں نہانے میں نہیں ملی، وہاں پر نہانا زندگی کے حسین لمحات میں شامل ہوگیا،
حقیقت ہے کہ پہاڑ پر چھڑنا یا پہاڑ سے اترنا پہاڑ کا کام ہوتا ہے راستے میں ایک طرف لہلہاتے پہاڑ تھے تو دوسری طرف ڈراؤنی کھائی نگاہ کو راستے پر جماتے ہوئے خدا خدا کر کے نیچے پہنچے، کچھ ساتھیوں کے کہنے پر ہمارا یہ سفر یہیں پر مکمل ہوا، اور پھر راستے کی دشواریوں کو جھیلتے ہوئے اپنے انسٹی ٹیوٹ کی طرف روانہ ہوگئے.