حافظ عقیل احمد خان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز 18/ دسمبر 2018) ماہنامہ نقوش حیات کے ایڈیٹر معروف عالم دین مولانا صادق علی قاسمی بستوی کے ارتحال پر آج تحصیل دھن گھٹا حلقہ کے تحت مدرسہ عربیہ مصباح العلوم روضہ مہولی سنت کبیر نگر میں میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا، جس کی سرپرستی مدرسہ کے مہتمم الحاج مولانا مقبول احمد جونپوری نے فرمائی.
مدرسہ ہذا کے مہتمم نے فرمایا کہ مرحوم حضرت مولانا صادق علی صاحب بستوی بہت سادہ اور فقیر منش انسان تھے، زیادہ تر علمی اور درسی باتوں میں ہی دلچسپی رکھتے تھے، انتظام و اقتدار کے معاملات سے وہ تا حیات الگ ہی رہے، اور براہ راست اس میں کوئی دلچسی نہیں لی، مرحوم عربی ادب کا بھی اچھا ذوق اور عمدہ صلاحیت رکھتے تھے، ان کے اندر بہت سے کمالات اور خوبیاں تھیں لیکن اہل نظر کے نزدیک ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ صاحب فضل و کمال ہونے کے باوجود متعلقین و متوسلین کے سامنے کبھی خود کو نمایا کر کے پیش کرنے کی کوشش یا خواہش نہیں کی، پس پشت رہ کر اپنی عزت کو ہی اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے ورنہ یہ حب جاہ ایسی بلا ہے کہ اس میں نہ آدمی کو کسی کا احسان یاد رہتا ہے، نہ رشتہ ناطہ کوئی اہمیت رکھتا ہے لیکن مولانا مرحوم نے اپنے عمل سے ثبوت پیش کر دیا کہ اللہ کی اس زمین پر وفاء اور حیا آج بھی زندہ ہے اور دنیا میں نمونے کے انسان اب بھی بستے ہیں.
مدرسہ کے ناظم تعلیمات مولانا محمد وسیم قاسمی ندوی نے کہا کہ مولانا مرحوم صاحب باکمال جامع معقولات و منقولات، فرشتہ صفت انسان تھے آپ کی ذات مجاہدہ، شب بے داری، تقو ی و تقدس، زہد و قناعت، غیرت و خود داری، کثرت مطالعہ، بہت سارے اخلاق عالیہ سے آراستہ پیراستہ اور افکار سلیمہ کا مخزن و منبع تھی اور آپ کے پاس آنے والوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے تھے اور آپ ان کے ظرف و مزاق اور طبیعت و مزاج کے لحاظ سے ضیافت فرماتے، آپ کی محبت سے سب کو روحانی و معنوی غذا وافر مقدار میں نصیب ہوتی تھی، اہل علم آتے تو ان کے مزاج و مزاق کی باتیں فرماتے کبھی عربی کا تو کبھی فارسی کا یا اردو کا شعر سناتے یا ان سے سننے کی فرمائش کرتے یا کبھی کسی کتاب کے مؤلف کا تذکرہ شروع ہوجاتا تو آپ اس کی تحقیق و تفصیل بیان فرماتے.
اس موقع پر مدرسہ کے پرنسپل مولانا عزیز اللہ، مولانا محمد، مولانا حبیب اللہ، قاری عبدالوہاب، قاری منعم، مولانا ندیم، حافظ عطاء اللہ، حافظ نسیم، حافظ ثناءاللہ، حافظ سلیم، مولانا نظام الدین، حافظ عبدالرشید، محمد فیصل ماسٹر طفیل، ماسٹر صلاح الدین، ماسٹر محمد اسجد، ماسٹر محمد ارشد خان موجود رہے، اخیر میں مولانا مرحوم کے لئے خصوصی دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز 18/ دسمبر 2018) ماہنامہ نقوش حیات کے ایڈیٹر معروف عالم دین مولانا صادق علی قاسمی بستوی کے ارتحال پر آج تحصیل دھن گھٹا حلقہ کے تحت مدرسہ عربیہ مصباح العلوم روضہ مہولی سنت کبیر نگر میں میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا، جس کی سرپرستی مدرسہ کے مہتمم الحاج مولانا مقبول احمد جونپوری نے فرمائی.
مدرسہ ہذا کے مہتمم نے فرمایا کہ مرحوم حضرت مولانا صادق علی صاحب بستوی بہت سادہ اور فقیر منش انسان تھے، زیادہ تر علمی اور درسی باتوں میں ہی دلچسپی رکھتے تھے، انتظام و اقتدار کے معاملات سے وہ تا حیات الگ ہی رہے، اور براہ راست اس میں کوئی دلچسی نہیں لی، مرحوم عربی ادب کا بھی اچھا ذوق اور عمدہ صلاحیت رکھتے تھے، ان کے اندر بہت سے کمالات اور خوبیاں تھیں لیکن اہل نظر کے نزدیک ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ صاحب فضل و کمال ہونے کے باوجود متعلقین و متوسلین کے سامنے کبھی خود کو نمایا کر کے پیش کرنے کی کوشش یا خواہش نہیں کی، پس پشت رہ کر اپنی عزت کو ہی اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے ورنہ یہ حب جاہ ایسی بلا ہے کہ اس میں نہ آدمی کو کسی کا احسان یاد رہتا ہے، نہ رشتہ ناطہ کوئی اہمیت رکھتا ہے لیکن مولانا مرحوم نے اپنے عمل سے ثبوت پیش کر دیا کہ اللہ کی اس زمین پر وفاء اور حیا آج بھی زندہ ہے اور دنیا میں نمونے کے انسان اب بھی بستے ہیں.
مدرسہ کے ناظم تعلیمات مولانا محمد وسیم قاسمی ندوی نے کہا کہ مولانا مرحوم صاحب باکمال جامع معقولات و منقولات، فرشتہ صفت انسان تھے آپ کی ذات مجاہدہ، شب بے داری، تقو ی و تقدس، زہد و قناعت، غیرت و خود داری، کثرت مطالعہ، بہت سارے اخلاق عالیہ سے آراستہ پیراستہ اور افکار سلیمہ کا مخزن و منبع تھی اور آپ کے پاس آنے والوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے تھے اور آپ ان کے ظرف و مزاق اور طبیعت و مزاج کے لحاظ سے ضیافت فرماتے، آپ کی محبت سے سب کو روحانی و معنوی غذا وافر مقدار میں نصیب ہوتی تھی، اہل علم آتے تو ان کے مزاج و مزاق کی باتیں فرماتے کبھی عربی کا تو کبھی فارسی کا یا اردو کا شعر سناتے یا ان سے سننے کی فرمائش کرتے یا کبھی کسی کتاب کے مؤلف کا تذکرہ شروع ہوجاتا تو آپ اس کی تحقیق و تفصیل بیان فرماتے.
اس موقع پر مدرسہ کے پرنسپل مولانا عزیز اللہ، مولانا محمد، مولانا حبیب اللہ، قاری عبدالوہاب، قاری منعم، مولانا ندیم، حافظ عطاء اللہ، حافظ نسیم، حافظ ثناءاللہ، حافظ سلیم، مولانا نظام الدین، حافظ عبدالرشید، محمد فیصل ماسٹر طفیل، ماسٹر صلاح الدین، ماسٹر محمد اسجد، ماسٹر محمد ارشد خان موجود رہے، اخیر میں مولانا مرحوم کے لئے خصوصی دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا.