بقلم محمد فہیم قاسمی گورکھپوری
استاذ جامعہ شیخ الہند انجانشہید اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کرہ ارضی پر بہت سے خلفاء اور بادشاہوں نے اپنی زندگی کی بہاریں گزار کر راہی ملک عدم ہوئے، ان میں بعض اڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کر اپنی حکومت کی وسعت کا اندازہ کرتے اور کہتے، "تو کہیں بھی برسے تیرے پانی سے اگنے والی فصل میرے ہی خزانے کی ملکیت ہوگی'، ایسے بھی جنہوں نے حاکمیت اور شہنشاہیت کے نشے میں "انا و لا غیری" کا اعلان کیا، ایسے بھی جن کو یہ زعم اور خیال تھا کہ ان کے حکومت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا، ایسے بھی شہنشاہ اور حاکم ہوئے جن کے ایک انگلی کے اشارے سے ہزاروں کا لشکر میدان کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر پہنچتا تھا اور جب تاریخ کے صفحات پر نظر پڑتی ہے، سینکڑوں بادشاہ ایسے ملتے ہیں کہ تاریخ ان کے ظلم و زیادتی کے سیاہ کارناموں سے اٹی پڑی ہے؛ لیکن اسی کرہ ارضی پر ایک ایسا عظیم خلیفہ بھی ہوا کہ جس نے بادلوں کو دیکھ کر اس کے اگنے والی فصل پر اپنا استحقاق نہیں جتایا؛ لیکن 22 لاکھ مربع میل میں اگنے والی فصل اس کے بیت المال میں پہنچتی رہیں، جس نے اناولا غیری کی صدا نہیں لگائی؛
لیکن اس کے رعب اور دبدبے سے سینکڑوں میل دور قیصر و کسریٰ کو اپنی زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی، جسے آفتاب کے غروب ہونے کا زعم تو نہ تھا؛ لیکن اس کے انصاف پروری اور کرم گستری سے اس کے تمام ممالک محروسہ آفتاب سے کہیں زیادہ روشن تھے؛ اس کے انگلی کی ایک حرکت نے بہادر سپاہیوں کے اندر ہی نہیں؛بلکہ دریائے نیل میں حرکت پیدا کر دی۔
جب تاریخ پر نظر کرتے ہیں تو اس کے زریں اوراق یہ بتلاتے ہیں کہ زمین کی پشت پر پھر ایسا عظیم خلیفہ ظاہر نہ ہوا، جو بیواؤں اور بے سہاروں کی خبر گیری کرتا ہوں، جو راتوں کو بیدار رہ کررعایا کے حالات کی نگرانی کرتا ہو، غلام کو مخاطب کرکے کہتا ہوبوری میری پشت پر اٹھا، غلام کے اصرار پر گویا ہوا ہو قیامت کے دن میرا بوجھ نہیں اٹھاؤ گے، قحط سالی کے زمانے میں لذیذ کھانوں سے اس لئے ہاتھ کھینچ لیا ہو کہ اگر فرات کے کنارے کوئی جاندار جسے سوکھی روٹی اور گوشت سے آزاد ہڈی بھی میسر نہ ہو تو قیامت کے دن رب کے حضور کیا جواب دوں گا، جس سے بر سر منبر استفسار کیا جاتا ہو امیر المومنین!آپ کے دیئے ہو کپڑے میں میرے لئے صرف کرتا بن سکا اور آپنے ازار بھی باندھ رکھی ہے، جو ایک بوڑھے یہودی کا ہاتھ پکڑے ہوئے بیت المال کے خازن کے پاس آتا ہو اور کہتا ہو یہ سراسر ناانصافی ہے کہ جوانی کے ایام میں ہم ان کی کمائی ہوئی دولت سے فائدہ اٹھائیں اور بوڑھاپے ہم انہیں بے سرو سامانی کی حالت میں چھوڑ دیں، اور پھر ایسے تمام بوڑھوں کے وظیفے جاری کرنے کا حکم دیتا ہو، جواینٹ کو تکیہ بنا کر فرش پر سوتا ہو، جو عمدہ لباس یہ کہہ کر اتار پھینکا ہو کہ اس سے کبر پیدا ہوتا ہے اور وہی پیوند لگا ہوا کپڑا پہنے ہوئے غلام کو سوار اور اس کی سواری کی نکیل پکڑے ہوئے بیت المقدس پہنچتا ہو، اور یہ اعلان کرتا ہو کہ اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشی ہے؛ اگر ہم کسی اور ذریعے سے عزت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالی ہمیں ذلیل کر دے گا، ایسے عظیم خلیفہ کو ہم عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔
استاذ جامعہ شیخ الہند انجانشہید اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کرہ ارضی پر بہت سے خلفاء اور بادشاہوں نے اپنی زندگی کی بہاریں گزار کر راہی ملک عدم ہوئے، ان میں بعض اڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کر اپنی حکومت کی وسعت کا اندازہ کرتے اور کہتے، "تو کہیں بھی برسے تیرے پانی سے اگنے والی فصل میرے ہی خزانے کی ملکیت ہوگی'، ایسے بھی جنہوں نے حاکمیت اور شہنشاہیت کے نشے میں "انا و لا غیری" کا اعلان کیا، ایسے بھی جن کو یہ زعم اور خیال تھا کہ ان کے حکومت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا، ایسے بھی شہنشاہ اور حاکم ہوئے جن کے ایک انگلی کے اشارے سے ہزاروں کا لشکر میدان کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر پہنچتا تھا اور جب تاریخ کے صفحات پر نظر پڑتی ہے، سینکڑوں بادشاہ ایسے ملتے ہیں کہ تاریخ ان کے ظلم و زیادتی کے سیاہ کارناموں سے اٹی پڑی ہے؛ لیکن اسی کرہ ارضی پر ایک ایسا عظیم خلیفہ بھی ہوا کہ جس نے بادلوں کو دیکھ کر اس کے اگنے والی فصل پر اپنا استحقاق نہیں جتایا؛ لیکن 22 لاکھ مربع میل میں اگنے والی فصل اس کے بیت المال میں پہنچتی رہیں، جس نے اناولا غیری کی صدا نہیں لگائی؛
لیکن اس کے رعب اور دبدبے سے سینکڑوں میل دور قیصر و کسریٰ کو اپنی زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی، جسے آفتاب کے غروب ہونے کا زعم تو نہ تھا؛ لیکن اس کے انصاف پروری اور کرم گستری سے اس کے تمام ممالک محروسہ آفتاب سے کہیں زیادہ روشن تھے؛ اس کے انگلی کی ایک حرکت نے بہادر سپاہیوں کے اندر ہی نہیں؛بلکہ دریائے نیل میں حرکت پیدا کر دی۔
جب تاریخ پر نظر کرتے ہیں تو اس کے زریں اوراق یہ بتلاتے ہیں کہ زمین کی پشت پر پھر ایسا عظیم خلیفہ ظاہر نہ ہوا، جو بیواؤں اور بے سہاروں کی خبر گیری کرتا ہوں، جو راتوں کو بیدار رہ کررعایا کے حالات کی نگرانی کرتا ہو، غلام کو مخاطب کرکے کہتا ہوبوری میری پشت پر اٹھا، غلام کے اصرار پر گویا ہوا ہو قیامت کے دن میرا بوجھ نہیں اٹھاؤ گے، قحط سالی کے زمانے میں لذیذ کھانوں سے اس لئے ہاتھ کھینچ لیا ہو کہ اگر فرات کے کنارے کوئی جاندار جسے سوکھی روٹی اور گوشت سے آزاد ہڈی بھی میسر نہ ہو تو قیامت کے دن رب کے حضور کیا جواب دوں گا، جس سے بر سر منبر استفسار کیا جاتا ہو امیر المومنین!آپ کے دیئے ہو کپڑے میں میرے لئے صرف کرتا بن سکا اور آپنے ازار بھی باندھ رکھی ہے، جو ایک بوڑھے یہودی کا ہاتھ پکڑے ہوئے بیت المال کے خازن کے پاس آتا ہو اور کہتا ہو یہ سراسر ناانصافی ہے کہ جوانی کے ایام میں ہم ان کی کمائی ہوئی دولت سے فائدہ اٹھائیں اور بوڑھاپے ہم انہیں بے سرو سامانی کی حالت میں چھوڑ دیں، اور پھر ایسے تمام بوڑھوں کے وظیفے جاری کرنے کا حکم دیتا ہو، جواینٹ کو تکیہ بنا کر فرش پر سوتا ہو، جو عمدہ لباس یہ کہہ کر اتار پھینکا ہو کہ اس سے کبر پیدا ہوتا ہے اور وہی پیوند لگا ہوا کپڑا پہنے ہوئے غلام کو سوار اور اس کی سواری کی نکیل پکڑے ہوئے بیت المقدس پہنچتا ہو، اور یہ اعلان کرتا ہو کہ اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشی ہے؛ اگر ہم کسی اور ذریعے سے عزت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالی ہمیں ذلیل کر دے گا، ایسے عظیم خلیفہ کو ہم عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔