الحافظ شاداب المحمدی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مر کے جو زندہ ہے آج اصل میں وہی انسان ہے، فکر سے اوپر ہوکر سوچنے والا مفکر ہے، ادب کے دائرے کو فلانگنے والا ماہر ادیب ہے، رذالت وتوہین کا پیکر بلندئ اخلاق کا ناظم ہے، جو حیات سے ہے وہ مردہ دل ہے اور جو مرگیا اس کا اللہ مالک ہے۔
آج بولنے والوں کی کمی نہیں، جب جو جس کو چاہے سر بازار اپنی زبان وبیان سے چھلنی کردے، آنسو، خون، دل، محبت، لگاؤ، چاہت والفت اور اخوت وبھائی چارگی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ایک سرے پر ایک ایسا رذیل آدمی ہے، جسے تنقید کا موقع ملے تو اس کی زبان پچاس ہاتھ لمبی ہوجاتی ہے اور اگر اسی زبان کو تعریف کا حق دے دیا جائے تو گونگی ہوجاتی ہے کیا المیہ ہے، عقلمند بیوقوف ہے،چور رہبر ہے،بھیڑ فسادی ہے،نیکی برائ ہے اور پولیس وانتظامیہ حاشئے پر ہے ہر چار سو قوانین بے بس ولاچار ہے اور غنڈئی و وحشت کا راج ہے، آنکھ پہ پردہ ہے، کان بہرہ، دل بصیرت سے خالی تو زبان لگام سے عاری ہے شر وفساد ایک خواص بھیڑ کی آن وبان اور شان ہے، ہوا ایسی چل رہی کہ کون سی بھیڑ کسکو پیغام موت دے پتا نہیں، ٹرین، بس، ہوائی جہاز جانے دیں، آج ساتھ چلتا ہوا آدمی بھی اپنے ساتھی اور ہم سفر سے خطرے میں ہے، کب کیا ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا، کون بچہ یتیم ہوجائے گا پتہ نہیں، بیوہ ہونا اور چند سکے اسے عطا کردینا سرکار وصاحب اقتدار کا رول اور نظام بن گیا، کون اپنے سہاگ کو کھو دے اور اپنی چوڑیاں توڑ دیں یہ آپکو بھگوائی رنگ بتائیں گے، اس گردش ایام میں ایک سبودھ(بلند شہر حادثہ) کیا ہزاروں سبودھ بھیڑ کی ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔
”راحت اندوری یاد آگئے بڑا پیارا شعر ہے اور میرے دل کے قریب بھی“
ـــــــــــــعــــــــ
لگے گی آگ تو آئینگے گھر کئ زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
اخلاق، نجیب مسلم نوجوان، بہن بیٹیاں کچھ یاد آیا تو کہیں صاحب کچھ کہنا ہے، ان تمام پہ جو زبان کھل نہ سکی آج سبودھ پہ بلبلا اٹھے. اوہو!!!
سیدھے لفظ میں کہیں تو جو ناظم کائنات ہے، متصرف عالم اور لافانی ذات ہے اس سے کچھ چھپا نہیں ہے یہ ہمارا عقیدہ ہے آپ انصاف کرو یا نہ کرو، یہ عارضی ہے پر احکم حاکمین کا عدل لازمی ہے۔
”انتظروا فانی معکم من المنتظرین“
سچ بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں.
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مر کے جو زندہ ہے آج اصل میں وہی انسان ہے، فکر سے اوپر ہوکر سوچنے والا مفکر ہے، ادب کے دائرے کو فلانگنے والا ماہر ادیب ہے، رذالت وتوہین کا پیکر بلندئ اخلاق کا ناظم ہے، جو حیات سے ہے وہ مردہ دل ہے اور جو مرگیا اس کا اللہ مالک ہے۔
آج بولنے والوں کی کمی نہیں، جب جو جس کو چاہے سر بازار اپنی زبان وبیان سے چھلنی کردے، آنسو، خون، دل، محبت، لگاؤ، چاہت والفت اور اخوت وبھائی چارگی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ایک سرے پر ایک ایسا رذیل آدمی ہے، جسے تنقید کا موقع ملے تو اس کی زبان پچاس ہاتھ لمبی ہوجاتی ہے اور اگر اسی زبان کو تعریف کا حق دے دیا جائے تو گونگی ہوجاتی ہے کیا المیہ ہے، عقلمند بیوقوف ہے،چور رہبر ہے،بھیڑ فسادی ہے،نیکی برائ ہے اور پولیس وانتظامیہ حاشئے پر ہے ہر چار سو قوانین بے بس ولاچار ہے اور غنڈئی و وحشت کا راج ہے، آنکھ پہ پردہ ہے، کان بہرہ، دل بصیرت سے خالی تو زبان لگام سے عاری ہے شر وفساد ایک خواص بھیڑ کی آن وبان اور شان ہے، ہوا ایسی چل رہی کہ کون سی بھیڑ کسکو پیغام موت دے پتا نہیں، ٹرین، بس، ہوائی جہاز جانے دیں، آج ساتھ چلتا ہوا آدمی بھی اپنے ساتھی اور ہم سفر سے خطرے میں ہے، کب کیا ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا، کون بچہ یتیم ہوجائے گا پتہ نہیں، بیوہ ہونا اور چند سکے اسے عطا کردینا سرکار وصاحب اقتدار کا رول اور نظام بن گیا، کون اپنے سہاگ کو کھو دے اور اپنی چوڑیاں توڑ دیں یہ آپکو بھگوائی رنگ بتائیں گے، اس گردش ایام میں ایک سبودھ(بلند شہر حادثہ) کیا ہزاروں سبودھ بھیڑ کی ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔
”راحت اندوری یاد آگئے بڑا پیارا شعر ہے اور میرے دل کے قریب بھی“
ـــــــــــــعــــــــ
لگے گی آگ تو آئینگے گھر کئ زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
اخلاق، نجیب مسلم نوجوان، بہن بیٹیاں کچھ یاد آیا تو کہیں صاحب کچھ کہنا ہے، ان تمام پہ جو زبان کھل نہ سکی آج سبودھ پہ بلبلا اٹھے. اوہو!!!
سیدھے لفظ میں کہیں تو جو ناظم کائنات ہے، متصرف عالم اور لافانی ذات ہے اس سے کچھ چھپا نہیں ہے یہ ہمارا عقیدہ ہے آپ انصاف کرو یا نہ کرو، یہ عارضی ہے پر احکم حاکمین کا عدل لازمی ہے۔
”انتظروا فانی معکم من المنتظرین“
سچ بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں.