اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: منہدم جمہوریت کی تعمیر کے لئے جمع ہوئے محمود مدنی، پرکاش راج سمیت متعدد رہنما!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 8 December 2018

منہدم جمہوریت کی تعمیر کے لئے جمع ہوئے محمود مدنی، پرکاش راج سمیت متعدد رہنما!

مہدی حسن عینی قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دہلی(آئی این اے نیوز 8/دسمبر 2018) منہدم جمہوریت کی تعمیر کے عنوان سے پانچ دسمبر کو دارالحکومت دہلی کے تاریخی مقام کانسٹی ٹیوشن کلب میں مخلتف الخیال مفکرین اور قائدین کا ایک عظیم مذاکراتی اجتماع ہوا، جس کی پہلی نشست کا آغاز دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف مؤرخ  اپروانند جھا کے اس انقلابی جملہ کے ساتھ ہوا، بابری مسجد کے ڈھانچہ کے پاس ایک بورڈ نصب کرکے یہ لکھ دینا چاہئے کہ یہاں کبھی ایک مسجد ہوا کرتی تھی جسے ہندوتووادی دہشت گردوں نے شہید کردیا تھا.
دوسرے مقرر کے طور پر معروف آریہ سماجی رہنما سوامی اگنویش اور فادر اجئے کا خطاب ہوا.
دوسری نشست کا آغاز معروف دانشور ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کی تقریر سے ہوا، جنہوں نے تفصیل سے بابری مسجد کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے ملک کی شکستہ جمہوریت کی تعمیر اور اس کے تحفظ کے لئے کئی اہم نکات اٹھائے
اس کے بعد فادر اجئے دیال نے ملک کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے توڑو اور راج کرو کی سیاست کے خلاف باشندگان وطن کو متحد ہوکر لڑنے کی دعوت دی.
اس کے بعد جمعیۃ علماء ھند کے جنرل سکریٹری  مولانا محمود اسعد مدنی نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "میرے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ مختلف الخیال لوگوں اور سول سوسائٹی کے افراد کے مابین مجھے اپنی بات رکھنے کا موقع ملا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ مجھے تجربہ کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ ملک کے سوا سو کروڑ باشندوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے
01.وہ جو ہم سے نفرت کرتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں مسلمان چاہے سونا بن جائے یا ہیرا وہ نفرت ہی کرینگے
02.وہ جو ہم سے محبت کرتے ہیں ہمارے دوست ہیں
03.وہ جو نا دوست ہیں نا دشمن،یہ طبقہ مسلمانوں کے معاملات پر خاموش رہتا ہے ہماری اچھائی پر وہ تعریف کرتے ہیں اور برائی پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں
دقت یہ ھیکہ ہم دشمنوں کو ہمیشہ خطاب کرتے ہیں لیکن اس  خاموش طبقہ کو نظر انداز کردیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ طبقہ پروپیگنڈے کا شکار ہوکر مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوجاتا ہے، ہماری ذمہ داری ھیکہ ہم اس طبقہ تک اپنا پیغام پہنچائیں اور نفرت کا جواب نفرت سے دے کر  نفرت پھیلانے والوں کو کامیاب بنانے کے بجائے  صبر و تحمل سے کام لیا جائے.
مولانا مدنی نے کہا کہ مولانا کو جب مدعو کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے آپ صرف بابری مسجد پر بولیں اور مسلمانوں کے مسائل پر بولیں ایسا کیوں؟
ہم پٹرول، مہنگائی اور مسلمانوں کو پریشان کئے جانے پر کیوں نا بولیں.انہوں نے ہر بات کا جواب دینے کے بجائے حکمت عملی اپنانے اور خاموش لوگوں تک اپنی بات پہونچانے پر زور دیا.
مولانا مدنی کے بعد معروف فلمی اداکار اور سیکورلزم کے علمبردار پرکاش راج کا جامع خطاب ہوا،
پرکاش نے کہا کہ جمہوریت خطرے میں ہے اور اسے بچانے کے لئے ہم یا آپ اکیلے کافی نہیں ہے بلکہ سب کو مل کر بولنا ہوگا، لکھنا ہوگا، آواز اٹھانی ہوگی، اور اس طرح کے مذاکرات کو گلیوں محلوں میں بھی منعقد کرنا ہوگا.
تیسری اور آخری نشست میں روہت ویمولا کی ماں رادھیکا ویمولا نے کہا کہ میرا ایک بیٹا روہت تو مرگیا لیکن اس نے مجھے کئی اور بیٹے دے دئیے اور مجھے ایک لیڈر بنادیا، میں جمہوریت کی حفاظت کے لئے آپ لوگوں کے ساتھ آخری دم تک لڑوں گی، اس کے بعد ڈاکٹر سشیل گوتم، نوجوان لیڈر عمر خالد اور معروف لیڈر کنہیا کمار کا خطاب ہوا.
ہماری بات
بلا تفریق مذھب و نظریہ جمہوریت کو بچانے کے لئے دارالحکومت دہلی میں یہ کوشش یقیناً ایک آغاز ہے، اس کے لئے سب سے زیادہ  شکریہ کے مستحق ہمارے سبھی مہمانان بالخصوص مولانا محمود مدنی ہیں جن کے پاس طویل المدت پلاننگ ہے، کروڑوں ممبر اور ہزاروں ورکرز ہیں، جو گزشتہ دو دہوں سے جمہوریت کی تعمیر اور تحفظ کے لئے مستقل کوشاں ہیں، پرکاش راج ہیں جن کے سینہ  میں جمہوریت کی حفاظت کے لئے ایک جذبہ ہے، جن کے پاس لاکھوں پرستار ہیں، اپروانند جھا اور قاسم رسول الیاس ہیں، جن کے پاس اعلی دماغ اور تاریخ کا بہترین علم ہے، اجئے دیال ہیں جو ایک کتابی مذھب کے رہنما ہیں، عمر خالد، کنہیا کمار اور جگنیش میوانی ہیں جو ہندوستان کا کل ہیں، ان سبھی  کے اجتماع سے ہمیں امید کی ایک کرن دکھائی پڑی ہے اور ہم نے اسی مذاکرہ سے یہ عہد کیا ھیکہ ملک کی جمہوریت کو بچانے، آئین اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور نفرت کے خاتمہ کے لئے یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ اور تنظیم ابنائے مدارس سمیت متعدد بینر سے ملک کے طول و عرض میں اس طرح کے مذاکرات کا انعقاد کریں گے اور لانگ ٹرم پالیسی کے ساتھ الگ الگ نظریوں کے لوگوں کو ساتھ ملاکر کاندھے سے کاندھا ملاکر اپنے بزرگوں کی اس میراث کی حفاظت کریں گے. ان شاءاللہ