6/دسمبر 1992 ہندوستانی تاریخ کا ایک سیاہ دن.
اشرف اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 7/دسمبر 2018) بابری مسجد کی 26ویں برسی کے موقع پر راشٹریہ علماء کونسل کے مرکزی دفتر پر ایک اہم میٹنگ ہوئی، جس میں کئی مسلم تنظیموں کے سرکردہ افراد شریک ہوئے اور بابری مسجد کی ازنوسر تعمیر تک لڑائی جاری رکھنے کا عہد لیا ۔
اس موقع پرمتحدہ تحریک برائے بازیابی و تعمیر نو بابری مسجد کے کنوینر او ر راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی نے کہا کہ 6دسمبر 1992 کا دن ہمارے ملک کا ایک سیاہ ترین دن تھا، جب تاریخی بابری مسجد کو دن دہاڑے دستور ہند اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نام نہاد سیکولر لیڈران کی منافقت ،حکومت، انتظامیہ ،عدلیہ اور سنگھ پریوار کے لیڈروں کی شہ پر شرپسند عناصر نے شہید کردیا۔بابری مسجد کی شہادت کی۲۶؍سال گذر جانے کے بعد بھی متاثرین کو انصاف نہ مل سکا، جبکہ اس حادثہ کی انکوائری کرنے والے لبراہن کمیشن نے اپنے رپورٹ میں واضح کردیا کہ مسجد کو منصوبہ بند طریقہ سے منہدم کیا گیا اور اس کے لیے ذمہ دار افراد کی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی بھی کردی ہے، اب یہ مرکزی سرکار کا کام تھا کہ اس سلسلے میں بلا تاخیر کاروائی کرتی اور متاثرین کو انصاف دلاتی، اس موقع پر انھوں نے مرکزی حکومت سے سوال کیا کہ مسجد کی اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کا جو وعدہ اس وقت کے وزیر اعظم نے کیا تھا اس پرکیاآج بھی موجودہ حکومت قائم ہے؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں ایک طرف نام نہاد سیکولر جماعتوں کے رہنما اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ہمدردی اور ان کے حقوق کے تحفظ کی باتیں بڑے طمطراق سے کرتے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسکی مرکز کی حکومت بھی سب کا ساتھ اور سبکے وکاس کی باتیں کرتی ہے لیکن جب بابری مسجد کی تعمیر نو اور بٹلہ ہاؤس ا نکاؤنٹر کی تحقیقات جیسے معاملات سامنے آتے ہیں تو تمام لیڈران کی زبانیں بند ہوجاتی ہیں انھیں پولیس والو ں کی حوصلہ شکنی(Moral) کی پرواہ تو ہے لیکن ۳۰؍کروڑ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی (Moral)کی پرواہ کبھی نہیں رہی۔
بابری مسجد کی شہادت کے لیے سزایافتہ اس وقت کے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سے ہاتھ ملاکر سماج وادی پارٹی کے مکھیا ملائم سنگھ نے مسلمانوں کو جو زخم دیا تھا اور دے رہے ہیں وہ ناسور بن کر مسلمانوں کو ہمیشہ ڈستا رہے گا، موقع پرستی پر مبنی سیاست اورمنافقت کی اس سے واضح مثال اورکیا ہوسکتی ہے؟ جہاں بابری مسجد کی شہادت کے لئے کانگریس اور سنگھ پریوار کے لوگ پوری طرح سے ذمے دار ہیں وہیں بابری مسجد کے معاملے میں سماجوادی پارٹی اور اسکے مکھیا ملائم سنگھ یادو کی بھی نیت کبھی صاف نہیں رہی ہے ملائم سنگھ یادو کی ہی ملی بھگت سے ۳۱ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو ایودھیا میں ۸سے۹؍ لاکھ کی تعداد میں کارسیوک پہنچے تھے بطور وزیر اعلی کارسیوکوں پر گولی چلانے کا حکم انھوں نے نھیں دیا تھا اس بات کو اسی وقت میڈیاکے سامنے انھوں نے کہی تھی ،اور۲۰ نومبر ۱۹۹۰ ء کو اترپردیش کے اسمبلی کے اندر بھی انھوں نے یہ بات کہی تھی کہ گولی ہم نے نہیں چلوائی ہے کچھ شر پسند لوگوں نے گولی چلوائی ہے جس میں کچھ لوگ مارے گئے ہیں ،سوقت بھی ملائم سنگھ یادو اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں میں تال میل چل رہا تھاملائم سنگھ یادو چاہتے تھے کہ بابری مسجد شہید ہو جائے۱۹۹۰ء میں انھوں نے ایک رہرسل کرائی تھی جسے ۱۹۹۲ء میں کلیان سنگھ اور نرسنہاراؤ کے ذریعہ عملی جامہ پہنایا گیا۔
مولانا نے مزید کہا کہ ۶؍دسمبر۲۰۱۸ء کو بابری مسجد کی یوم شہادت کے موقع پر ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مسلمان اور انصاف پسند برادران وطن اس سیاہ دن کو کبھی نہیں بھولیں گے ہم بابری مسجد کی بازیابی سے کم کسی چیز پر ہرگز راضی نہیں ہوسکتے، اللہ کے گھر کو ڈھانے والوں کو کبھی معاف نہیں کرسکتے، یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ غصب شدہ زمین پر مسجد کی تعمیر ہوہی نہیں سکتی ۔ بابرجس کی بادشاہت و حکمرانی پورے ملک پر تھی کیا اسے اور کوئی زمین نہیں ملی تھی؟ اسے ناجائز کام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آستھا کے نام پربابری مسجد ملکیت کا فیصلہ ایک مذاق بن کر رہ گیا، جہاں ثبوت و قانون کو بالائے طاق رکھ کر ایک فریق کو حق دار اور دوسرے کو نظر انداز کردیا گیا اور ملکیت کا بندر بانٹ
کردیا گیا۔اجودھیا میں 161 ایکڑ مسلمانوں کی قبرستان کی زمین کاغذوں میں درج ہے، نیز ۲۶ مسجدیں آج بھی موجود ہیں۔ انہوں نے مسلمان اور تمام انصاف پسند برادران وطن سے اپیل کی کہ وہ اپنی لڑائی آئینی و جمہوری طریقوں سے جاری رکھیں، اور ۶ دسمبر کو کبھی نہ بھولیں اوراس بات کا عزم کریں کہ انصاف کے لیے لڑائی جاری رہے گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اس تاریخی مسجد کی بازیابی کی تحریک کامیاب ہو اور دوبارہ اسے سجدوں سے آباد کی جا سکے۔ اس موقع پرآفاق احمد،ڈاکٹر آفتاب احمد،حاجی محمد فہیم،مولانا علی حسین قمی،محمد اکبر ظفرکے علاوہ سیکڑوں کارکنان موجود تھے۔
اس کے علاوہ بابری مسجد کی ۲۶ ویں برسی پرراشٹریہ علماء کونسل نے ملک کے مختلف صوبوں و اترپردیش کے سبھی ضلع اکائی کے ذریعہ دھرنا و مظاہرہ کر ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم دیا اور ۶ دسمبر کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔
اشرف اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 7/دسمبر 2018) بابری مسجد کی 26ویں برسی کے موقع پر راشٹریہ علماء کونسل کے مرکزی دفتر پر ایک اہم میٹنگ ہوئی، جس میں کئی مسلم تنظیموں کے سرکردہ افراد شریک ہوئے اور بابری مسجد کی ازنوسر تعمیر تک لڑائی جاری رکھنے کا عہد لیا ۔
اس موقع پرمتحدہ تحریک برائے بازیابی و تعمیر نو بابری مسجد کے کنوینر او ر راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی نے کہا کہ 6دسمبر 1992 کا دن ہمارے ملک کا ایک سیاہ ترین دن تھا، جب تاریخی بابری مسجد کو دن دہاڑے دستور ہند اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نام نہاد سیکولر لیڈران کی منافقت ،حکومت، انتظامیہ ،عدلیہ اور سنگھ پریوار کے لیڈروں کی شہ پر شرپسند عناصر نے شہید کردیا۔بابری مسجد کی شہادت کی۲۶؍سال گذر جانے کے بعد بھی متاثرین کو انصاف نہ مل سکا، جبکہ اس حادثہ کی انکوائری کرنے والے لبراہن کمیشن نے اپنے رپورٹ میں واضح کردیا کہ مسجد کو منصوبہ بند طریقہ سے منہدم کیا گیا اور اس کے لیے ذمہ دار افراد کی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی بھی کردی ہے، اب یہ مرکزی سرکار کا کام تھا کہ اس سلسلے میں بلا تاخیر کاروائی کرتی اور متاثرین کو انصاف دلاتی، اس موقع پر انھوں نے مرکزی حکومت سے سوال کیا کہ مسجد کی اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کا جو وعدہ اس وقت کے وزیر اعظم نے کیا تھا اس پرکیاآج بھی موجودہ حکومت قائم ہے؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں ایک طرف نام نہاد سیکولر جماعتوں کے رہنما اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ہمدردی اور ان کے حقوق کے تحفظ کی باتیں بڑے طمطراق سے کرتے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسکی مرکز کی حکومت بھی سب کا ساتھ اور سبکے وکاس کی باتیں کرتی ہے لیکن جب بابری مسجد کی تعمیر نو اور بٹلہ ہاؤس ا نکاؤنٹر کی تحقیقات جیسے معاملات سامنے آتے ہیں تو تمام لیڈران کی زبانیں بند ہوجاتی ہیں انھیں پولیس والو ں کی حوصلہ شکنی(Moral) کی پرواہ تو ہے لیکن ۳۰؍کروڑ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی (Moral)کی پرواہ کبھی نہیں رہی۔
بابری مسجد کی شہادت کے لیے سزایافتہ اس وقت کے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سے ہاتھ ملاکر سماج وادی پارٹی کے مکھیا ملائم سنگھ نے مسلمانوں کو جو زخم دیا تھا اور دے رہے ہیں وہ ناسور بن کر مسلمانوں کو ہمیشہ ڈستا رہے گا، موقع پرستی پر مبنی سیاست اورمنافقت کی اس سے واضح مثال اورکیا ہوسکتی ہے؟ جہاں بابری مسجد کی شہادت کے لئے کانگریس اور سنگھ پریوار کے لوگ پوری طرح سے ذمے دار ہیں وہیں بابری مسجد کے معاملے میں سماجوادی پارٹی اور اسکے مکھیا ملائم سنگھ یادو کی بھی نیت کبھی صاف نہیں رہی ہے ملائم سنگھ یادو کی ہی ملی بھگت سے ۳۱ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو ایودھیا میں ۸سے۹؍ لاکھ کی تعداد میں کارسیوک پہنچے تھے بطور وزیر اعلی کارسیوکوں پر گولی چلانے کا حکم انھوں نے نھیں دیا تھا اس بات کو اسی وقت میڈیاکے سامنے انھوں نے کہی تھی ،اور۲۰ نومبر ۱۹۹۰ ء کو اترپردیش کے اسمبلی کے اندر بھی انھوں نے یہ بات کہی تھی کہ گولی ہم نے نہیں چلوائی ہے کچھ شر پسند لوگوں نے گولی چلوائی ہے جس میں کچھ لوگ مارے گئے ہیں ،سوقت بھی ملائم سنگھ یادو اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں میں تال میل چل رہا تھاملائم سنگھ یادو چاہتے تھے کہ بابری مسجد شہید ہو جائے۱۹۹۰ء میں انھوں نے ایک رہرسل کرائی تھی جسے ۱۹۹۲ء میں کلیان سنگھ اور نرسنہاراؤ کے ذریعہ عملی جامہ پہنایا گیا۔
مولانا نے مزید کہا کہ ۶؍دسمبر۲۰۱۸ء کو بابری مسجد کی یوم شہادت کے موقع پر ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مسلمان اور انصاف پسند برادران وطن اس سیاہ دن کو کبھی نہیں بھولیں گے ہم بابری مسجد کی بازیابی سے کم کسی چیز پر ہرگز راضی نہیں ہوسکتے، اللہ کے گھر کو ڈھانے والوں کو کبھی معاف نہیں کرسکتے، یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ غصب شدہ زمین پر مسجد کی تعمیر ہوہی نہیں سکتی ۔ بابرجس کی بادشاہت و حکمرانی پورے ملک پر تھی کیا اسے اور کوئی زمین نہیں ملی تھی؟ اسے ناجائز کام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آستھا کے نام پربابری مسجد ملکیت کا فیصلہ ایک مذاق بن کر رہ گیا، جہاں ثبوت و قانون کو بالائے طاق رکھ کر ایک فریق کو حق دار اور دوسرے کو نظر انداز کردیا گیا اور ملکیت کا بندر بانٹ
کردیا گیا۔اجودھیا میں 161 ایکڑ مسلمانوں کی قبرستان کی زمین کاغذوں میں درج ہے، نیز ۲۶ مسجدیں آج بھی موجود ہیں۔ انہوں نے مسلمان اور تمام انصاف پسند برادران وطن سے اپیل کی کہ وہ اپنی لڑائی آئینی و جمہوری طریقوں سے جاری رکھیں، اور ۶ دسمبر کو کبھی نہ بھولیں اوراس بات کا عزم کریں کہ انصاف کے لیے لڑائی جاری رہے گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اس تاریخی مسجد کی بازیابی کی تحریک کامیاب ہو اور دوبارہ اسے سجدوں سے آباد کی جا سکے۔ اس موقع پرآفاق احمد،ڈاکٹر آفتاب احمد،حاجی محمد فہیم،مولانا علی حسین قمی،محمد اکبر ظفرکے علاوہ سیکڑوں کارکنان موجود تھے۔
اس کے علاوہ بابری مسجد کی ۲۶ ویں برسی پرراشٹریہ علماء کونسل نے ملک کے مختلف صوبوں و اترپردیش کے سبھی ضلع اکائی کے ذریعہ دھرنا و مظاہرہ کر ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم دیا اور ۶ دسمبر کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔