حافظ شاداب محمدی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی ایک سَفر ہے، زادِ سَفر صِفر ہے، نہ اس پر ہماری نظر ہے، انسان اس سے بے خبر ہے، ناہی وھّاب و جبّار (اللہ کے صفاتی نام)کا ڈر ہے، کیا اس سے کوئی مفر ہے؟ تو پھر اے زندگی بتا تو کیوں اتنی بے اثر ہے.
سوال یہ نہیں کہ ہم نے دنیاوی زندگی عارضی سفر کیلئے کیا کیا ہے؟
یہ تو اظہر من الشمس ہے.
موسمِ بَہار آیا تو بہتر اور اچھی جگہ کا انتخاب کیا تاکہ فیملی ٹور کا مزا خراب نہ ہو، پیسہ اور ٹکٹ گھوم کر وصول لی جائے، پھر ہوٹل یا ٹور میں کوئی خرابی آئی تو اچھے طریقے سے غلام ونوکر کیطرح اللہ کے خلائق پر سبّ وشتم کا لسٹ کھول دیا جائے۔
گرمی آئی تو ہم نے بہتر پنکھے کا انتظام کیا، جنہیں اوقات ہے اس نے اے سی (AC) لگوا لی، کولر بھی لے آئے، فریج بھی خریدا اور جو قلاش ولاغر ہے اس نے ٹھنڈے پانی کنوے سے نکال کر پی لیا تاکہ گرمی سے نجات ملے اسلئے کہ گرمی کی شدت قابل تلافی نہیں ہے۔
اچھی بات ہے ہو بھی کیوں نا اصل تاجروہی کہلاتا ہے جو دائما اپنی تجارت کو اونچائی دے اور حالات و مواقع کے اعتبار سے اپنے کاروبار میں بدلاؤ کرے۔
اب دیکھئے نا ٹھنڈی آئی کہ سب اپنے آپ کو تیار کرلیا، تاکہ اس سردی کا مقابلہ کر سکے بات کتنی بَھلی معلوم ہو رہی ہے.
اے زندگی آخرت کا بھی ایک سفر ہے، جس کا پہلا مرحلہ قبر ہے، یہ بات ربِّ کریم نے کی نشر ہے، پھر کیوں ہم اتنے نڈر ہیں۔
”لوگوں کے حساب کا وقت قریب ہے پر لوگ بے خبر ہیں“(قرآن پارہ نمبر17/سورہ انبیاء 1)
اس سفر میں درد و غم ہے، مصیبت والم بھی، آفت وظلم اور ستم درستم کے ساتھ قلق، اضطراب، کرب، پریشانی، حزن وملال کا انبار اور بہتات ہے، اگر کچھ نہیں ہے تو اس کے بعد کوئی سفر نہیں.
”انسان کہے گا اے رب ہمیں لوٹائے دیں ہم نیک عمل کریں گے رب کہے گا کلّا ہرگز نہیں“ (قرآن پارہ نمبر18/سورہ مومنون100)
اسی سفر میں کچھ لوگ ناز و نعم، بلندئ و رفعت، عیش وآرام، سکون وقرار ساری آرزوؤں کے ساتھ شراب وکباب اور شباب میں ہونگے۔
دنیا عجیب بازار ہے کچھ جنس یاں ساتھ لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے
اس سفر میں توشئہ آخرت نہیں تو نہ اسکا بدلہ ہے نا ہی عوض اور نا کوئی تشبیہ ہے.
اس سفر کی بے غفلتی نے بہتوں کو عمیق گڑھے تک پہونچا دیا،بہیترے کو بدحال کیا،عیش وآرام کے پجاری کو آباد کیا، مرد کو آوارہ عورتوں کو سَرِبازار نیلام کیا، اہل دنیا کیلئے دنیا کو شاداب کیا اور آخرت کو برباد کیا، جس نے اس سفر کو دل میں جگہ دی قبر کی راحت نے سلام کیا،دنیا میں وہ محترم، لائق، ہنرمند، نیک، نامور ہر دل عزیز بنا اس کے ساتھ اس نے حشر میں رب کا دیدار کیا.
کہئے کچھ تیاری کرلیں!
سنواریں، سجائیں، بچیں، سنبھلیں، یہی وقت بونے اور گاہنے کا ہے پھر جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے، ورنہ اس زمیں اور آسمان نے بہتوں پر نہیں رویا ہے، دنیا اسے جانتی اور مانتی ہے جو احتساب کر اپنی تجارت میں کامیاب ہے، کہاں اور کب سفر میں تکلیف ملے اس سے ہم بہت ہوشیار ہیں یہ سفر دنیاوی اور عارضی ہے.
پر ہم نے اُخروی سفر کے لئےکیا کیا؟ اس پر نظرکریں،سوچ سمجھ کر فیصلہ لیں اس سےقبل کے کہ آپ کو کوئی موقع نہ ملے اور ایسی سفر در پیش ہو جس کی آخری منزل اور پراؤ کے بعد کُل کا کُل سامنے ہو اور اسکے بعد کچھ بھی نہیں.
دنیا میں جو جی چاہے تیرا کرلے کرالے
چاہے تو بدی مول لے یا نیکی کمالے.
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی ایک سَفر ہے، زادِ سَفر صِفر ہے، نہ اس پر ہماری نظر ہے، انسان اس سے بے خبر ہے، ناہی وھّاب و جبّار (اللہ کے صفاتی نام)کا ڈر ہے، کیا اس سے کوئی مفر ہے؟ تو پھر اے زندگی بتا تو کیوں اتنی بے اثر ہے.
سوال یہ نہیں کہ ہم نے دنیاوی زندگی عارضی سفر کیلئے کیا کیا ہے؟
یہ تو اظہر من الشمس ہے.
موسمِ بَہار آیا تو بہتر اور اچھی جگہ کا انتخاب کیا تاکہ فیملی ٹور کا مزا خراب نہ ہو، پیسہ اور ٹکٹ گھوم کر وصول لی جائے، پھر ہوٹل یا ٹور میں کوئی خرابی آئی تو اچھے طریقے سے غلام ونوکر کیطرح اللہ کے خلائق پر سبّ وشتم کا لسٹ کھول دیا جائے۔
گرمی آئی تو ہم نے بہتر پنکھے کا انتظام کیا، جنہیں اوقات ہے اس نے اے سی (AC) لگوا لی، کولر بھی لے آئے، فریج بھی خریدا اور جو قلاش ولاغر ہے اس نے ٹھنڈے پانی کنوے سے نکال کر پی لیا تاکہ گرمی سے نجات ملے اسلئے کہ گرمی کی شدت قابل تلافی نہیں ہے۔
اچھی بات ہے ہو بھی کیوں نا اصل تاجروہی کہلاتا ہے جو دائما اپنی تجارت کو اونچائی دے اور حالات و مواقع کے اعتبار سے اپنے کاروبار میں بدلاؤ کرے۔
اب دیکھئے نا ٹھنڈی آئی کہ سب اپنے آپ کو تیار کرلیا، تاکہ اس سردی کا مقابلہ کر سکے بات کتنی بَھلی معلوم ہو رہی ہے.
اے زندگی آخرت کا بھی ایک سفر ہے، جس کا پہلا مرحلہ قبر ہے، یہ بات ربِّ کریم نے کی نشر ہے، پھر کیوں ہم اتنے نڈر ہیں۔
”لوگوں کے حساب کا وقت قریب ہے پر لوگ بے خبر ہیں“(قرآن پارہ نمبر17/سورہ انبیاء 1)
اس سفر میں درد و غم ہے، مصیبت والم بھی، آفت وظلم اور ستم درستم کے ساتھ قلق، اضطراب، کرب، پریشانی، حزن وملال کا انبار اور بہتات ہے، اگر کچھ نہیں ہے تو اس کے بعد کوئی سفر نہیں.
”انسان کہے گا اے رب ہمیں لوٹائے دیں ہم نیک عمل کریں گے رب کہے گا کلّا ہرگز نہیں“ (قرآن پارہ نمبر18/سورہ مومنون100)
اسی سفر میں کچھ لوگ ناز و نعم، بلندئ و رفعت، عیش وآرام، سکون وقرار ساری آرزوؤں کے ساتھ شراب وکباب اور شباب میں ہونگے۔
دنیا عجیب بازار ہے کچھ جنس یاں ساتھ لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے
اس سفر میں توشئہ آخرت نہیں تو نہ اسکا بدلہ ہے نا ہی عوض اور نا کوئی تشبیہ ہے.
اس سفر کی بے غفلتی نے بہتوں کو عمیق گڑھے تک پہونچا دیا،بہیترے کو بدحال کیا،عیش وآرام کے پجاری کو آباد کیا، مرد کو آوارہ عورتوں کو سَرِبازار نیلام کیا، اہل دنیا کیلئے دنیا کو شاداب کیا اور آخرت کو برباد کیا، جس نے اس سفر کو دل میں جگہ دی قبر کی راحت نے سلام کیا،دنیا میں وہ محترم، لائق، ہنرمند، نیک، نامور ہر دل عزیز بنا اس کے ساتھ اس نے حشر میں رب کا دیدار کیا.
کہئے کچھ تیاری کرلیں!
سنواریں، سجائیں، بچیں، سنبھلیں، یہی وقت بونے اور گاہنے کا ہے پھر جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے، ورنہ اس زمیں اور آسمان نے بہتوں پر نہیں رویا ہے، دنیا اسے جانتی اور مانتی ہے جو احتساب کر اپنی تجارت میں کامیاب ہے، کہاں اور کب سفر میں تکلیف ملے اس سے ہم بہت ہوشیار ہیں یہ سفر دنیاوی اور عارضی ہے.
پر ہم نے اُخروی سفر کے لئےکیا کیا؟ اس پر نظرکریں،سوچ سمجھ کر فیصلہ لیں اس سےقبل کے کہ آپ کو کوئی موقع نہ ملے اور ایسی سفر در پیش ہو جس کی آخری منزل اور پراؤ کے بعد کُل کا کُل سامنے ہو اور اسکے بعد کچھ بھی نہیں.
دنیا میں جو جی چاہے تیرا کرلے کرالے
چاہے تو بدی مول لے یا نیکی کمالے.