اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کچھ دیر شیراز ہند جون پور میں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 1 January 2019

کچھ دیر شیراز ہند جون پور میں!

محمد سالم سریانوی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
 21/ ربیع الثانی 1440ء مطابق 29/ دسمبر 2018ء شنبہ کو ہمیں شیراز ہند جون پورکا ایک یادگار سفر کا موقع ملا، سفر تو بہت مختصر تھا لیکن میرے لیے بہت اہم تھا، اس سے پہلے کئی بار جون پور سے گزرنے کا موقع ملا تھا، لیکن باقاعدہ کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، اب چوں کہ باقاعدہ ایک جگہ جانا تھا، اس لیے بہت اہم ہوگیا، یہ سفر درحقیقت ایک تعزیتی سفر تھا، جو فخر شیراز ہند حضرت مولانا توفیق احمد دامت برکاتہم ناظم اعلی مدرسہ حسینیہ جون پور کی تعزیت کے لیے ہوا تھا، ابھی پچھلے ہفتہ حضرت مولانا کو ایک بڑا سانحہ پیش آیا کہ ان کی شریک حیات دنیائے فانی کو چھوڑ کر دنیائے باقی کی طرف روزانہ ہوگئیں۔ (إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون)
 جون پور مشرقی یوپی کا ایک عظیم الشان، دیدہ زیب اور تاریخی ضلع ہے ، جو کہ دریائے گومتی کے دونوں طرف آباد ہے، یہ شہر اپنے علمی، تاریخی اور اسلامی آثار سے معمور ہے، اسی شہر کے بارے میں شاہ جہاں نے ’’دیار پورب شیراز ما است‘‘ کا تاریخی جملہ کہا تھا، جو کہ تاریخ میں نہایت تابناکی کے ساتھ درج ہے، یہاں پر ایک زمانے تک مسلمانوں کی حکومت مغلیہ اور سلطنت شرقیہ بڑی شان وشوکت اور عدل وانصاف کے ساتھ رہی ہے، جس نے اس شہر کو ایک یادگار اور تاریخی شہر بنادیا، جس کی تابناکی اب بھی اس کے شاہی آثار اور در ودیوار سے ظاہر ہے، اس کے علاوہ اس شہر میں بڑے بڑے جبال علم پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے صرف ہندوستان میں ہی نہیں بل کہ پوری دنیا میں علم وآگہی کی دنیا نام روشن کیا اور واقعی میں ’’شیراز ہند‘‘ کو اسم با مسمی کردیا، جس میں ملک العلماء قاضی القضاۃ شہاب الدین دولت آبادیؒ (م840ء)، مولانا عبد الاول جون پوریؒ (م968ء)، ملا محمود جون پوریؒ (1062ء)  اور مولانا شاہ دیوان عبد الرشید جون پوریؒ صاحبِ مناظرہ رشیدیہ (م1083ء) کا نام تاریخ میں شان وشوکت کے ساتھ ثبت ہے اور اپنی تابناکی کو بیان کرتا ہے۔
 ہمارا یہ سفر ہمارے بزرگ اساتذہ واحباب کی معیت میں ہوا تھا، جس میں مخدوم گرامی حضرت مولانا مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی دامت برکاتہم ناظم اعلی جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور، استاذ گرامی حضرت مولانا مفتی احمد الراشد صاحب قاسمی استاذ حدیث احیاء العلوم، اسی طرح حضرت مولانا وحافظ محمد جبرئیل صاحب نعمانی وجناب حافظ عبید الرحمن صاحب ابراہیم پوری اساتذۂ حفظ احیاء العلوم تھے، ہمارا مختصر سا قافلہ تقریبا 10/ بجے صبح جامعہ آباد مبارک پور سے روانہ ہوا، قریب پونے تین گھنٹہ کے سفر کے بعد پونے ایک بجے ہم لوگ مدرسہ حسینیہ جون پور پہنچے، جو جون پور کا ایک مشہور ومعروف اور بافیض ادارہ ہے، اور ہماری منزل یہی تھی، ہم لوگ مدرسہ میں داخل ہوئے، اندر صحن میں حضرت مولانا صاحب چارپائی پر دھوپ میں تشریف فرما تھے، سلام مصافحہ ہوا، خیر خیریت معلوم ہوئی اورحضرت ناظم صاحب نے اصالۃ تعزیت پیش کی۔
 مدرسہ حسینہ صرف جون پور ہی کا نہیں بل کہ مشرقی یوپی کا ایک اہم علمی ادارہ ہے، جو اپنے بانیوں کے اخلاص وللہیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس مدرسہ کی بنیاد 1973ء میں اس وقت کے اکابر اہم علم وفضل کے ہاتھوں پڑی، یہ مدرسہ جون پور کی مشہور شاہی مسجد ’’لال دروازہ‘‘ میں واقع ہے، مسجد نویں صدی ہجری میں تعمیر ہوئی تھی، لیکن حالات زمانہ اور مرور ایام کی وجہ سے ویران ہوگئی تھی، اسی مسجد میں مدرسہ حسینیہ کی شروعات ہوئی جو کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ’’مدرسہ حسینیہ‘‘ ہے، اس وقت مدرسہ کی باگ ڈور حضرت مولانا توفیق احمد صاحب کے ہاتھوں میں ہے،جو کہ ذی علم وجاہ، متواضع وبا اخلاق، جود وسخا کے نمونہ، رعب ودبدبہ کے مالک اور بہت سے مدارس ومکاتب کے بانی ہیں، بل کہ ہمارے ناظم صاحب مد ظلہ کے بقول ’’بابائے مدارس‘‘ ہیں، اس وقت مدرسہ میں حفظ وفارسی نیز قرأت کی تعلیم کے ساتھ عربی پنجم تک تعلیم ہوتی ہے۔
 جیسا کہ ذکر ہوا کہ ہمارا قافلہ ایک بجے کے پہلے پہنچ گیا تھا، چناں چہ کچھ دیر وہیں صحن میں مولانا سے گفتگو ہوئی، اس کے بعد دستر خوان لگا اور ہم نے مولانا کے ساتھ کھانے کا شرف حاصل کیا، اس کے بعد نماز ظہر اسی جامع مسجد ’’لال دروازہ‘‘ میں ادا کی گئی، یہ مسجد سلطنت شرقیہ کی یادگار ہے، جس کی تعمیر 860ھ میں ہوئی، اس مسجد میں تین باہری داروازے ہیں، جن میں بڑا دروازہ مشرقی ہے، یہ دروازہ باہر روڈ پر کھلتا ہے، لیکن غالبا یہ دروازہ مستقلا بند رہتا ہے، اس کے علاوہ دونوں دوروازے مدرسہ ہی کے احاطہ میں کھلتے ہیں، بیچ والے دروازے کے بعد ایک کشادہ صحن ہے، اس میں ایک حوض ہے، اس کے بعد مسجد کا اندرونی حصہ ہے، جس کے درمیان میں ایک بلند دروازہ ہے، جس میں نقاشی کی گئی ہے، اس دروازے کے دائیں وبائیں طرف مختلف چھوٹے چھوٹے در ہیں، دروازے کے بعد محراب سے متصل ایک گنبد بھی ہے، یہ مسجد اپنی قدیم تعمیر کے ساتھ قائم ہے، جس میں حالات کے تحت اصلاح ومرمت کا کام بھی ہوا ہے۔
 نماز ظہر سے فراغت کے بعد مسجد ہی میں دوسرے کئی اساتذہ سے ملاقات ہوئی، جس میں حضرت مولانا عبد الستار صاحب معروفی بطور خاص ہیں، انھوں نے چائے پینے کی فرمائش بھی کی، چناں چہ ان کی فرمائش پر ان کی قیام گاہ پر گئے اور چائے نوشی کی، اسی کے ساتھ کچھ دیر تک جدید وقدیم باتوں میں مشغولیت رہی، وہیں پر حضرت مولانا عظیم الرحمن صاحب غازی پوری مد ظلہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اس کے بعد چوں کہ تعلیم کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے وہاں سے اٹھ گئے اور دوبارہ صحن میں آئے جہاں پر مولانا تشریف فرما تھے، ملاقات ہوئی کچھ باتیں ہوئی اور سلام مصافحہ کرکے مدرسہ حسینیہ سے اپنی منزل کی طرف نکل گئے، راستہ میں جون پور کی ایک عظیم اسلامی یادگار ’’جامع الشرق‘‘ بھی پڑی تھی، اس لیے واپسی میں کچھ دیر کے لیے وہاں بھی حاضری ہوئی۔
جامع الشرق میں: جون پور کے سفر کے تعلق سے ہم نے سابق میں لکھا تھا کہ یہ سفر 21/ ربیع الثانی 1440ء مطابق 29/ دسمبر 2011ء کو ہوا تھا، جس میں بطور خاص مدرسہ حسینیہ لال دروازہ ہی جانا تھا، لیکن واپسی میں ’’جامع الشرق‘‘ راستہ میں پڑ رہی تھی، اس لیے دل کا میلان ہوا کہ اس کی بھی زیارت کرتے چلیں، اور مولانا توفیق صاحب نے بھی ارشاد فرمایا تھا کہ دیکھ لیں، چناں چہ مدرسہ حسینیہ میں ملاقات وتعزیت سے فراغت کے بعد ہم لوگ ’’جامع الشرق‘‘ پہنچے، یہ مسجد ’’شرقی حکومت‘‘ کی نہایت ہی شاندار وعظیم الشان یادگار ہے، مسجد بہت زیادہ بلندی پر بنائی گئی ہے، مسجد کافی وسیع وعریض ہے، اس کی لمبائی چوڑائی کو دیکھ کر دہلی کی ’’جامع مسجد‘‘ ذہن میں ابھرنے لگتی ہے، اس مسجد کے تین دروازے ہیں جن میں سب سے بڑا دروازہ جنوبی سمت میں واقع ہے، اس مسجد کی
تعمیر پندرہوں صدی عیسوی میں ہوئی ہے، یہ مسجد اپنی خصوصیات کے ساتھ جون پور کی ایک تاریخی دیدہ زیب مسجد ہے، اس کو ’’جامع مسجد‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا کہ قاضی اطہر صاحب مبارک پوریؒ کے سفر جون پور کا ایک اقتباس نقل کردیا جائے جو انھوں نے اس مسجد کے تعلق سے لکھا ہے، تاکہ اس کی حیثیت سے ہمارے قارئین کو ایک گونہ واقفیت حاصل ہوجائے، چوں کہ ہمارا وقفہ مسجد میں بہت مختصر رہا اس لیے زیادہ کچھ دیکھا اور جانا نہیں جاسکا، قاضی صاحبؒ لکھتے ہیں:
 ’’اس مسجد کو یہاں کے ہر دلعزیز اور کامیاب حکمراں سلطان ابراہیم شرقی نے شہر کے شمالی حصہ میں بنوایا ہے، جامع الشرق بلندی اور شان وشوکت میں دہلی کی جامع مسجد کی ہم پلہ معلوم ہوتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مٹی کے پہاڑ پر پتھر کا قلعہ بنا ہوا ہے، جامع الشرق اپنے عظیم بانی کے ایمانی جذبات واحساسات کی آج بھی ترجمانی کرتی ہے، بڑا دروازہ بیسیوں سیڑھیوں کے بعد بلندی پر دکھن کی طرف بنا ہوا ہے، سڑک سے اس دروازہ اور اس کے تینوں طرف وسیع وعریض سیڑھیوں کو دیکھ کر اس کی عظمت واہمیت کا سکہ دل میں بیٹھ جاتا ہے، لمبا چوڑا صحن، کنارے حجرے اور پتھر کی اکھم اور بلند عمارت بڑی پر شکوہ اور پر عظمت معلوم ہوتی ہے، مسجد کے بام ودر، نقش ونگار، احادیث وآیات، اشعار وعبارات یہ سب کہنگی کا باوجود ایمان میں تازگی بخشتے ہیں‘‘۔ (قاضی اطہر مبارک پوری کے سفر نامے ص:148-147)
 اس اقتباس سے مسجد کی اہمیت بخوبی معلوم ہوتی ہے، ساتھ ہی قاضی صاحب نے کچھ اور بھی خصوصیات نقل کی ہیں، جو ان کے سفر نامے میں پڑھی جاسکتی ہیں، لیکن چوں کہ ہمارے پاس وقت بہت تنگ تھا اس لیے زیادہ دیر تک نہ رک سکے، اس جامع مسجد میں صحن کے بعد جو محرابی گیٹ ہے وہ اپنے اندر خصوصی شان رکھتا ہے، یہ اس مسجد کو دیگر شاہی مساجد سے ممتاز کرتا ہے، یہ کافی بلند ہے، اور بڑے پتھروں کو تراش خراش کر کے بنایا گیا ہے، اس میں مختلف قسم کی باریک وعمدہ نقاشی کی گئی ہے، جو دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتی ہے، ہم نے دیکھا کہ اس دروازے کے اوپر ایک بڑا سا سبز جھنڈا لہرا رہا ہے، لیکن نہیں معلوم کہ وہ جھنڈا کیوں لگایا گیا ہے، شاید ہمارے بریلوی حضرات کی طرف سے لگایا گیا ہے۔
 ہم نے مسجد کے اندرونی حصہ کو دیکھا، چھوٹے چھوٹے بام ودر بنائے گئے ہیں، ان میں پتھروں پر نقاشی کی گئی ہے، اندرونی حصہ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ابھی حال ہی میں مسجد کے اندر مرمت کا کام ہوا ہے، بہر حال یہ مسجد اپنے اندر بہت کچھ خصوصیات رکھتی ہے، اس مسجد میں سہ طرفہ کمرے بنے ہوئے ہیں، اور نیچے بھی کمرے ہیں جس میں دینی واسلامی تعلیم کا نظم ہے، غالبا اس میں دو مدرسہ چل رہے ہیں، اس میں بچیوں کی بھی تعلیم کا نظم ہے۔
 وقت کی تنگی کی وجہ سے جلد ہی مسجد سے فارغ ہوگئے، جب کہ ابھی تشنگی باقی تھی، واقعی یہ مسجد ایسی ہے کہ خوب اطمینان کے ساتھ اس کا دیدار کیا جائے، اپنی جبینوں کو اس میں سجدہ سے سجایا جائے اور اسلامی شان وشوکت کا ظاہری وباطنی آنکھوں سے دیدار کیا جائے۔ یہاں سے فراغت کے بعد ہم جون پور کو حیرت واستعجاب اور قلق وافسوس کے ساتھ الوداع کہتے ہوئے اپنے شہر روانہ ہوئے، دو گھنٹے کے بعد مدرسہ اشاعت العلوم کوٹلہ اعظم گڑھ پہنچے، وہیں پر نماز عصر اور پھر نماز مغرب پڑھی، اس کے بعد سٹھیاؤں پہنچے، جہاں پر حضرت ناظم صاحب وحضرت مفتی محمد امین صاحب دامت برکاتہما کا حفظ قرآن کی مناسبت سے ایک جلسے کا پروگرام تھا، ٹھنڈک میں اضافہ تو ہوہی گیا تھا، لیکن ان حضرات کی کرم فرمائی پر ہم بھی جلسے میں شریک ہوئے، قبیل عشاء کھانے وغیرہ سے فراغت ہوگئی، بعد نماز عشاء فورا جلسہ تھا، الحمد للہ جلسہ عمدہ رہا، موسم اور علاقہ کی مناسبت سے کافی لوگ موجود تھے، ہمارے دونوں بزرگ حضرات کا بڑا ہی اہم، عمدہ اور پر مغز خطاب ہوا، اور قریب دس بجے جلسہ ختم ہوگیا، اس کے بعد وہاں سے ہم جامعہ کے لیے روانہ ہوئے اور اپنی اپنی قیام گاہوں پر بخیر وعافیت پہنچ گئے۔ ہمارا یہ سفر مختصر ہونے کے باوجود بڑا قیمتی رہا، جہاں مختلف اکابر سے ملاقاتیں رہیں، وہیں پر ’’شیراز ہند‘‘جون پور کے کچھ اسلامی آثار کی زیارت بھی نصیب ہوئی، پھر اگر قسمت نے یاری کی تو ان شاء اللہ ایک بار ضرور جون پور کا تفصیلی سفر کیا جائے گا۔ واللہ الموفق