ذیشان الہی منیر تیمی
مولانا آزاد ٹیچر کالج اورنگ آباد
رابطہ:8826127531
ـــــــــــــــــــــــــــــ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مؤثر و منظم کمرہ جماعت کی اہمیت ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے کہ جسم کے لئے روح، مچھلی کے لئے پانی اور پھول کے لئے خوشبوں کی اہمیت ہوتی ہے۔کیونکہ ایک مؤثر و منظم کمرہ جماعت اساتذہ و طلبہ کی جفاکشی، جانفشانی، منصوبہ بندی، غایت غور و خوض اور مسلسل جھد و عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔کمرہ جماعت کی اسی اہمیت و ضرورت کے مد نظر اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
کمرہ جماعت دو لفظوں سے مرکب ہے ایک کمرہ جس کے معانی ہجرہ اور کوٹھری کے آتا ہے دوسرا جماعت یہ عربی لفظ ہے جس کے معانی پارٹی، گروہ، تنظیم، فرقہ اور کلاس کے آتے ہیں جبکہ اصطلاح میں جس جگہ انسانوں کو علم و ہنر، اچھے برے کی تمیز، اخلاق و اطوار، کھوٹے کھرے کی پہچان سے مزین کیا جاتا ہے اس مقام کو ہم کمرہ جماعت کہتے ہیں ۔
جب ہم کمرہ جماعت کی تاریخ کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کمرہ جماعت جس میں تعلیم و تعلم اور درس و تدریس ہوا کرتا ہے کا تعلق خود اللہ رب العالمین سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ جب اللہ رب العالمین فرشتوں کے ساتھ میٹنگ کرتے تو شیطان ایک دوسرے کے کاندھے پر بیٹھ کر آسمان تک پہنچ جاتا اور چپکے سے اللہ کی باتوں کو سننے کی کوشش کرتا اور خدانخواستہ کبھی کچھ سن لیتا تو پھر آکر وہ دنیا میں کاہن کو بتا دیتا اور یہ کاہن ایک سچ میں سو جھوٹ ملا کر عوام کو گمراہ کرتا لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ و سلم نبی بناکر بھیجے گئے تو شیطان کے اس عمل پر پابندی لگ گئی جیسا کہ قرآن کا کہنا ہے "فمن یستمع الآن یجد لہ شھابا رشدا"اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ رب العالمین کا فرشتوں کی جماعت کی طرف بھیجنا اور آدم علیہ السلام کا فرشتوں سے "فانبئونی باسماء ھؤلاء "کے ذریعے سوال کرنا ۔کبھی موسی علیہ السلام کا فرعن کے جادو گروں کو سکشت دینا تو کبھی یوسف علیہ السلام کا جیل کے اندر قیدیوں کو وحدت کی تعلیم دینا ۔اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹوں سے "ماتعبدون من بعدی"کے تحت سوال کرنا اور ان کے بیٹوں کا "نعبد الھک و الہ آباءک "کے ذریعے جواب دینا اور حضرت عیسی علیہ السلام کا اپنے حواریوں کو صحیح مسلک و منہج پر ابھارنے کے ساتھ ساتھ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دار ارقم اور صفہ نامی جگہ کو تعلیم و تعلم بلفظ دیگر کمرہ جماعت قرار دینا کے ساتھ ہی بغدار کی دارالحکمۃ اور مصر، ایران، روم، شام، کوفہ، بصرہ اور اندلس کی جامع مسجدوں میں تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دینا اسی طرح وطن عزیز میں کچھ طالب علم کا اپنے وقت کے گیانی بابا یا گورو کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرنا یا پھر نالندہ یونیورسیٹی کے اندر مختلف ملکوں کے بچے کو بلاکر اسے نفقہ و سکنہ کے ساتھ ساتھ تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنا دراصل کمرہ جماعت کی تاریخی اہمیت کو چار چاند لگاتا ہے اور اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ کوئی مذہب، قوم، ملک، ماحول یا پھر انفرادی شخصیت بغیر کمرہ جماعت سے استفادہ کئے مستحکم و پائیدار نہیں ہوتے اس لئے ہر فھم و شعور اور حساس دل رکھنے والے انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کمرہ جماعت کو مستحکم ۔مثالی اور خوشبودار بنانے کے لئے اپنے تن من اور دھن کی قربانی پیش کرے تاکہ ان کا مسلک و منہج، ملک، قوم یا پھر سوچ ایک مثالی خوشبوں بن کر دنیا کو معطر کرے۔ذیل میں ہم کچھ نکات ذکر کر رہے ہیں جس کو اپناکر ہم اپنے کمرہ جماعت کو مثالی اور مؤثر بنا سکتے ہیں ۔
یوں تو کمرہ جماعت کو مثالی، مؤثر اور منظم بنانے کے لئے استاد اور شاگرد دونوں کا رشتہ چولی اور دامن کے رشتے کی طرح ہے اور دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا ایمانداری کے ساتھ انجام دینا نہایت ہی ضروری ہوتا ہے ۔
کمرہ جماعت کو بہتر بنانے کے لئے استاد کی ذمہ داری!!!
(1)استاد نشستوں کی ترتیب اس طرح دے کہ جماعت کا ہر طالب علم استاد کی نگاہ سے نہ بچ سکے اور ہر طالب علم کو احساس رہے کہ اس پر استاد کی نظر ہے اور استاد اس کی ہر سرگرمی سے باخبر ہے ۔استاد بچوں کی تربیت کرکے اسے ایک ایسا بیج بنا دے جس میں سایہ دار اور ثمر آور درخت بننے کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہو کیونکہ اس کی وجہ سے باغ انسانیت مہک اٹھتا ہے اور دنیا میں انسان سکون، چین اور آرام پاتے ہیں
(2)استاد پڑھانے کے لئے پوری تیاری سے کلاس میں آئے اگر کوئی بچہ سوال کر بیٹھے تو اس کا تشفی بخش جواب دیں اگر جواب معلوم نہ ہو تو سائل کی ہمت افزائی کریں اور کہے کہ ان شاء اللہ ہم کل آپ کو اس کا جواب بتاینگے۔
(3)استاد پڑھاتے وقت تمام بچوں کا خیال کرے اور ایسا جملہ استعمال کریں کہ تمام بچوں کو بآسانی سمجھ میں آجائے اور اگر کوئی مشکل الفاظ ہو تو استاد اسے بلیک بورڈ پر لکھ کر بچوں کو سمجھائے ۔
(4)استاد کو مثبت فکر کا حامل ہونا چاہئے ایسا نہ ہو کہ کوئی بچہ اگر ان کے سوچ و فکر کے خلاف کوئی بات کہہ دے تو اس کی پیٹائی، ڈٹائی یا کان کھینچائی کرنے لگے بلکہ اسے نظر انداز کردے اور بہتر طریقے سے اس کے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کریں اگر کوئی بچہ کلاس میں زیادہ شرارت کرتا ہے تو استاد کو چاہئے کہ وہ اس کے ماحول، مزاج اور صحبت کو جاننے کی کوشش کریں نیز اس بچے کو مشغول رکھنے کے لئے کوئی کام دیں ان کی خرابیوں کو نظر انداز کرکے ان کی اچھائیوں کی تعریف کریں اور اس طرح مثبت طریقے سے اس کے اندر دھیرے دھیرے تبدیلی لانے کی کوشش کریں ۔
(5)استاد اور شاگرد کے درمیان دوستانہ و مشفقانہ تعلق ہوتاکہ شاگرد جب چاہے اپنے استاد سے استفادہ کرسکے ۔استاد کو چاہئے کہ وہ بچوں کے اندر مثبت سوچ پیدا کریں ان کے اندر سوال کرنے، مسابقہ اور ڈیویٹ وغیرہ میں حصہ لینے کے شوق و جذبہ کو مہمیز دیں ۔
(6)استاد کمرہ جماعت پر مکمل کنٹرول رکھے ورنہ کمرہ جماعت کا مجموعی نظم و ضبط تباہ و برباد ہو جاتا ہے نیز استاد کو چاہئے کہ جو بچے کمزور سماعت و بصارت، پس قد اور جسمانی طور پر معذور ہو کو سامنے کی نشستیں فراہم کریں اونچے اور بھاری جسامت کے بچے کو پیچھے بیٹھائے تاکہ ہر طالب علم کو تختہ سیاہ اور معلم کی تدریسی سرگرمیوں اور تاثرات کے مشاہدے کا بھرپور موقع ملے ۔
(7)طلبہ کے سینوں میں عزائم کو بیدار کرنے کے لئے ہر کمرہ جماعت کا نام کسی عبقری شخصیت کے نام پر رکھا جائے جیسے مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، سر سید وغیرہ۔۔
(8)کمرہ جماعت میں ایل سی ڈی، پروجیکٹر یا پھر کمپیوٹر نصب کرنے سے کمرہ جماعت کی افادیت کو پروان چڑھانے کے علاوہ اکتسابی فضا کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔
کمرہ جماعت کو بہتر بنانے میں شاگرد کی ذمہ داری:
(1)درس و تدریس کے دوران شاگرد استاد کی بات کو باغور سنے اور دوران درس و تدریس کوئی ایسی حرکات و سکنات نہ کرے جس کی وجہ سے کسی دوسرے کو پریشانی ہوتی ہو۔
(2)طلبہ کو چاہئے کہ وہ پاکیزگی اور طہارت کا بھرپور خیال رکھے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان خوش و خرم رہتا ہے ورنہ گندے قسم کے طلبہ ذہنی طور پر پریشان رہتے ہیں ۔
(3)طلبہ کو چاہئے کہ وہ کلاس کے وقت سے پانچ منٹ پہلے کلاس میں پہنچے ورنہ اکثر ایسابھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض طلبہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جب کلاس کا وقت ہوتا ہے تو اپنے کمرہ سے دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور کلاس میں بیٹھ کر ہانپتے رہتے ہیں ۔
(4)طلبہ کو چاہئے کہ وہ گھنٹی خالی رہنے پر شور و غل اور ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے بچے اور کوئی مطالعہ کی کتاب جو وہ ساتھ لایا ہے کو پڑھے
(5)جماعت کے طلبہ کا ایک دوسرے سے مثبت و محبت آمیز رویہ و سلوک ہونے کے ساتھ با اخلاق اور باکردار سلوک بھی ہو۔
مذکورہ بالا ہدایات پر عمل پیرا ہوکر استاد اور شاگرد کمرہ جماعت کے ماحول کو مؤثر، درس و تدریس اور اکتساب کو پر کیف اور دلچسپ بنا سکتے ہیں ۔
مولانا آزاد ٹیچر کالج اورنگ آباد
رابطہ:8826127531
ـــــــــــــــــــــــــــــ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مؤثر و منظم کمرہ جماعت کی اہمیت ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے کہ جسم کے لئے روح، مچھلی کے لئے پانی اور پھول کے لئے خوشبوں کی اہمیت ہوتی ہے۔کیونکہ ایک مؤثر و منظم کمرہ جماعت اساتذہ و طلبہ کی جفاکشی، جانفشانی، منصوبہ بندی، غایت غور و خوض اور مسلسل جھد و عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔کمرہ جماعت کی اسی اہمیت و ضرورت کے مد نظر اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
کمرہ جماعت دو لفظوں سے مرکب ہے ایک کمرہ جس کے معانی ہجرہ اور کوٹھری کے آتا ہے دوسرا جماعت یہ عربی لفظ ہے جس کے معانی پارٹی، گروہ، تنظیم، فرقہ اور کلاس کے آتے ہیں جبکہ اصطلاح میں جس جگہ انسانوں کو علم و ہنر، اچھے برے کی تمیز، اخلاق و اطوار، کھوٹے کھرے کی پہچان سے مزین کیا جاتا ہے اس مقام کو ہم کمرہ جماعت کہتے ہیں ۔
جب ہم کمرہ جماعت کی تاریخ کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کمرہ جماعت جس میں تعلیم و تعلم اور درس و تدریس ہوا کرتا ہے کا تعلق خود اللہ رب العالمین سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ جب اللہ رب العالمین فرشتوں کے ساتھ میٹنگ کرتے تو شیطان ایک دوسرے کے کاندھے پر بیٹھ کر آسمان تک پہنچ جاتا اور چپکے سے اللہ کی باتوں کو سننے کی کوشش کرتا اور خدانخواستہ کبھی کچھ سن لیتا تو پھر آکر وہ دنیا میں کاہن کو بتا دیتا اور یہ کاہن ایک سچ میں سو جھوٹ ملا کر عوام کو گمراہ کرتا لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ و سلم نبی بناکر بھیجے گئے تو شیطان کے اس عمل پر پابندی لگ گئی جیسا کہ قرآن کا کہنا ہے "فمن یستمع الآن یجد لہ شھابا رشدا"اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ رب العالمین کا فرشتوں کی جماعت کی طرف بھیجنا اور آدم علیہ السلام کا فرشتوں سے "فانبئونی باسماء ھؤلاء "کے ذریعے سوال کرنا ۔کبھی موسی علیہ السلام کا فرعن کے جادو گروں کو سکشت دینا تو کبھی یوسف علیہ السلام کا جیل کے اندر قیدیوں کو وحدت کی تعلیم دینا ۔اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹوں سے "ماتعبدون من بعدی"کے تحت سوال کرنا اور ان کے بیٹوں کا "نعبد الھک و الہ آباءک "کے ذریعے جواب دینا اور حضرت عیسی علیہ السلام کا اپنے حواریوں کو صحیح مسلک و منہج پر ابھارنے کے ساتھ ساتھ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دار ارقم اور صفہ نامی جگہ کو تعلیم و تعلم بلفظ دیگر کمرہ جماعت قرار دینا کے ساتھ ہی بغدار کی دارالحکمۃ اور مصر، ایران، روم، شام، کوفہ، بصرہ اور اندلس کی جامع مسجدوں میں تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دینا اسی طرح وطن عزیز میں کچھ طالب علم کا اپنے وقت کے گیانی بابا یا گورو کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرنا یا پھر نالندہ یونیورسیٹی کے اندر مختلف ملکوں کے بچے کو بلاکر اسے نفقہ و سکنہ کے ساتھ ساتھ تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنا دراصل کمرہ جماعت کی تاریخی اہمیت کو چار چاند لگاتا ہے اور اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ کوئی مذہب، قوم، ملک، ماحول یا پھر انفرادی شخصیت بغیر کمرہ جماعت سے استفادہ کئے مستحکم و پائیدار نہیں ہوتے اس لئے ہر فھم و شعور اور حساس دل رکھنے والے انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کمرہ جماعت کو مستحکم ۔مثالی اور خوشبودار بنانے کے لئے اپنے تن من اور دھن کی قربانی پیش کرے تاکہ ان کا مسلک و منہج، ملک، قوم یا پھر سوچ ایک مثالی خوشبوں بن کر دنیا کو معطر کرے۔ذیل میں ہم کچھ نکات ذکر کر رہے ہیں جس کو اپناکر ہم اپنے کمرہ جماعت کو مثالی اور مؤثر بنا سکتے ہیں ۔
یوں تو کمرہ جماعت کو مثالی، مؤثر اور منظم بنانے کے لئے استاد اور شاگرد دونوں کا رشتہ چولی اور دامن کے رشتے کی طرح ہے اور دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا ایمانداری کے ساتھ انجام دینا نہایت ہی ضروری ہوتا ہے ۔
کمرہ جماعت کو بہتر بنانے کے لئے استاد کی ذمہ داری!!!
(1)استاد نشستوں کی ترتیب اس طرح دے کہ جماعت کا ہر طالب علم استاد کی نگاہ سے نہ بچ سکے اور ہر طالب علم کو احساس رہے کہ اس پر استاد کی نظر ہے اور استاد اس کی ہر سرگرمی سے باخبر ہے ۔استاد بچوں کی تربیت کرکے اسے ایک ایسا بیج بنا دے جس میں سایہ دار اور ثمر آور درخت بننے کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہو کیونکہ اس کی وجہ سے باغ انسانیت مہک اٹھتا ہے اور دنیا میں انسان سکون، چین اور آرام پاتے ہیں
(2)استاد پڑھانے کے لئے پوری تیاری سے کلاس میں آئے اگر کوئی بچہ سوال کر بیٹھے تو اس کا تشفی بخش جواب دیں اگر جواب معلوم نہ ہو تو سائل کی ہمت افزائی کریں اور کہے کہ ان شاء اللہ ہم کل آپ کو اس کا جواب بتاینگے۔
(3)استاد پڑھاتے وقت تمام بچوں کا خیال کرے اور ایسا جملہ استعمال کریں کہ تمام بچوں کو بآسانی سمجھ میں آجائے اور اگر کوئی مشکل الفاظ ہو تو استاد اسے بلیک بورڈ پر لکھ کر بچوں کو سمجھائے ۔
(4)استاد کو مثبت فکر کا حامل ہونا چاہئے ایسا نہ ہو کہ کوئی بچہ اگر ان کے سوچ و فکر کے خلاف کوئی بات کہہ دے تو اس کی پیٹائی، ڈٹائی یا کان کھینچائی کرنے لگے بلکہ اسے نظر انداز کردے اور بہتر طریقے سے اس کے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کریں اگر کوئی بچہ کلاس میں زیادہ شرارت کرتا ہے تو استاد کو چاہئے کہ وہ اس کے ماحول، مزاج اور صحبت کو جاننے کی کوشش کریں نیز اس بچے کو مشغول رکھنے کے لئے کوئی کام دیں ان کی خرابیوں کو نظر انداز کرکے ان کی اچھائیوں کی تعریف کریں اور اس طرح مثبت طریقے سے اس کے اندر دھیرے دھیرے تبدیلی لانے کی کوشش کریں ۔
(5)استاد اور شاگرد کے درمیان دوستانہ و مشفقانہ تعلق ہوتاکہ شاگرد جب چاہے اپنے استاد سے استفادہ کرسکے ۔استاد کو چاہئے کہ وہ بچوں کے اندر مثبت سوچ پیدا کریں ان کے اندر سوال کرنے، مسابقہ اور ڈیویٹ وغیرہ میں حصہ لینے کے شوق و جذبہ کو مہمیز دیں ۔
(6)استاد کمرہ جماعت پر مکمل کنٹرول رکھے ورنہ کمرہ جماعت کا مجموعی نظم و ضبط تباہ و برباد ہو جاتا ہے نیز استاد کو چاہئے کہ جو بچے کمزور سماعت و بصارت، پس قد اور جسمانی طور پر معذور ہو کو سامنے کی نشستیں فراہم کریں اونچے اور بھاری جسامت کے بچے کو پیچھے بیٹھائے تاکہ ہر طالب علم کو تختہ سیاہ اور معلم کی تدریسی سرگرمیوں اور تاثرات کے مشاہدے کا بھرپور موقع ملے ۔
(7)طلبہ کے سینوں میں عزائم کو بیدار کرنے کے لئے ہر کمرہ جماعت کا نام کسی عبقری شخصیت کے نام پر رکھا جائے جیسے مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، سر سید وغیرہ۔۔
(8)کمرہ جماعت میں ایل سی ڈی، پروجیکٹر یا پھر کمپیوٹر نصب کرنے سے کمرہ جماعت کی افادیت کو پروان چڑھانے کے علاوہ اکتسابی فضا کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔
کمرہ جماعت کو بہتر بنانے میں شاگرد کی ذمہ داری:
(1)درس و تدریس کے دوران شاگرد استاد کی بات کو باغور سنے اور دوران درس و تدریس کوئی ایسی حرکات و سکنات نہ کرے جس کی وجہ سے کسی دوسرے کو پریشانی ہوتی ہو۔
(2)طلبہ کو چاہئے کہ وہ پاکیزگی اور طہارت کا بھرپور خیال رکھے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان خوش و خرم رہتا ہے ورنہ گندے قسم کے طلبہ ذہنی طور پر پریشان رہتے ہیں ۔
(3)طلبہ کو چاہئے کہ وہ کلاس کے وقت سے پانچ منٹ پہلے کلاس میں پہنچے ورنہ اکثر ایسابھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض طلبہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جب کلاس کا وقت ہوتا ہے تو اپنے کمرہ سے دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور کلاس میں بیٹھ کر ہانپتے رہتے ہیں ۔
(4)طلبہ کو چاہئے کہ وہ گھنٹی خالی رہنے پر شور و غل اور ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے بچے اور کوئی مطالعہ کی کتاب جو وہ ساتھ لایا ہے کو پڑھے
(5)جماعت کے طلبہ کا ایک دوسرے سے مثبت و محبت آمیز رویہ و سلوک ہونے کے ساتھ با اخلاق اور باکردار سلوک بھی ہو۔
مذکورہ بالا ہدایات پر عمل پیرا ہوکر استاد اور شاگرد کمرہ جماعت کے ماحول کو مؤثر، درس و تدریس اور اکتساب کو پر کیف اور دلچسپ بنا سکتے ہیں ۔