از قلم: عبداللہ المہیمن آسام
متعلم دارالعلوم وقف دیوبند
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے اور غلامی دنیا کی سب سے بڑی لعنت۔ آزادی کی زندگی کا ایک دن، غلامی کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ آزادی یوں ہی نہیں مل جاتی، آزادی بہت قیمت مانگتی ہے، اس عظیم نعمت کو حاصل کرنے کے لیے انسانوں کو بیش بہا قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں انسانوں نے اس کی قیمت ادا کی ہے، دنیا کے نقشے پر آزاد ممالک کا نام بے پایاں کٹھنائیوں، قربانیوں اور دکھوں کے بعد تحریر ہواہے، الجزائر کے لوگ اس وقت تک منزل آزادی سے ہمکنار نہیں ہوے، جب تک بن نیلا ک کے بدن پر زخموں کے نشانات ثبت نہیں ہوے، انڈونیشیا کی عوام کے لیے غلامی کی وہ رات اس وقت تک نہیں بدلی، جب تک انہوں نے اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے لہو کے چراغ نہیں جلائے،
اور ہمارا وطن عزیز ہندوستان اس وقت تک نقشۂ عالم پر نہیں ابھرا، جب تک شہروں، بستیوں، گلیوں اور بازاروں میں ہمارے اکابریں، علما، قائدین اور وطن کے عزیز سپوتوں سے خون کی ہولی نہیں کھیلی گئی، اس کے لیے ان گنت مائوں کے کلیجے کٹ کر نہیں گرے، لاکھوں بہادر عورتوں نے اپنے سہاگ اس کی نظر کردیے اور کروڑوں بچے ۹۷۸یتیم ہوگئے۔
آزادی اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، آزادی جنت، جب کہ غلامی دوزخ ہے، کھلی فضائوں میں سانس لینا انسانوں کی فطرت کا تقاضا ہے، آزادی سے قبل تقریباً دو سو سال تک وطن عزیز انگریزوں کا محکوم رہا، انگریزوں نے ان سے آزادی کی دولت چھین کر ان کو اپنی غلامیت کی زنجیروں میں جکڑ دیا تھا، انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوستانیوں پر جو مظالم ڈھائے، اور ان پر جو ظلم وستم کا پہاڑ توڑے، اور ان کو اپنے بے پناہ ظلم وتشدد کا جس طرح نشانہ بنایا، وہ کسی بھی تاریخی شعور رکھنے والے شخص سے پوشیدہ نہیں۔ بہرحال! وطن عزیز کو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء؍ کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی۔
اسی آزادی کا ایک پہلو یا دوسرا رخ آئین ہے، ہمارے ملک ہندوستان میں آئین کا نفاذ ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء؍ میں ہوا۔ جو کہ ہر سال کی طرح امسال بھی(۲۰۱۹ء) ہفتہ کے روز ہے، ملک بھر میں اس کی تیاریاں نہایت ہی اہتمام کے ساتھ کی جارہی ہیں، جس کی بنا پر عوام میں بھی خاصا جوش وخروش ہے؛ لیکن نہ جانے کیوں ایسے وقت میں بھی ہماری طبیعت غمگین ہے، اور ہمارے قلب وجگر پر ایک افسردگی چھائی ہوئی ہے، ہمارے سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ اس موقع پر ہم جمہوری قانون کے نفاذ کی خوشیاں منائیں، یا پھر اس قانون کی جو ہمارے ملک میں کچھ شرپسندوں اور تشدد پرست طاقتوں کے ذریعہ دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، اس پر ماتم کریں؟ آئین کی اہمیت سے ہمیں بالکل بھی انکار نہیں، وہ تو یقینا ملکی قانون کا منبع ومصدر ہے، ہمارے کرب کی وجہ تو یہ ہے کہ جس آئین کی رو سے مذہب وملت، ذات پات، علاقہ اور رنگ ونسل کی بنیاد پر کوئی تفریق کیے بغیر ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کیے جاتے ہیں۔ آج ہم اس آئین کی پاس داری کیوں نہیں کرتے؟ کیوں ہم اس آئین کے یوم نفاذ کی رسمی خوشیاں منانے کی تگ ودو میں تو لگے رہتے ہیں؛ لیکن ہر دم اور ہر گھڑی اس آئین کی اہانت یا استہزا اور تمسخر بنائے جانے کی فکر نہیں کرتے؟ ۲۶؍ جنوری کا دن ہمیں ہندوستانی آئین کے نفاذ کی کوششوں کی یاد دہانی کراتا ہے، آزادی کے تقریباً ڈھائی برس بعد ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء؍ کو وطن عزیز ہندوستان میں ہندوستانی آئین کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا، آج اس واقعہ کو تقریباً ۶۹؍ سال بیت گئے، اس کے باوجود پورے اہتمام سے اپنا قومی یوم جمہوریہ منانے والے اس جانب کوئی پیش رفت کیوں نہیں کرتے کہ یہ آئین اصحاب اقتدار کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر نہ رہ جائے؟ بس انہیں چند وجوہات سے ہمارے لیے یوم جمہوریہ خوشی اور غمی کا امتزاج ہے، اور ہمارے دل میں آئین کے نفاذ کی خوشی اور دماغ میں آئین کے عدم نفاذ کی فکر ہے، اور ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ آخر ہم یوم جمہوریہ منائیں تو کیسے منائیں؟ یوم جمہوریہ ہند ایک قومی تعطیل ہے، جسے ملک بھر میں منایا جاتا ہے، اس دن کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس دن سے دستور ہند کی عمل آوری ہوئی تھی، دستور ساز اسمبلی نے دستور ہند کو مکمل طور پر ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹ء؍ کو مرتب کیا اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء؍ کو اسے عمل آوری کے لیے پاس کردیا گیا، دستور ہند کی عمل آوری ہوئی اور آج ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بن کر ابھرا ہے؛ لیکن افسوس وندامت کے ساتھ اس بات کا اعتراف ہے کہ آج وطن عزیز جس دور سے گزر رہا ہے، وہ بڑا ہی خطرناک اور مایوس کن دور ہے، اس لیے کہ جمہوریت کا ستون کہے جانے والے ادارے آج شکوک وشبہات اور سوالات کے دائرے میں ہیں، چاہے وہ پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ، چاہے میڈیا ہو یا عوام الناس کا کردار سب کے سب آج جمہوریت کے ڈگر سے بھٹک گئے ہیں؛ اس لیے وطن عزیز کے تمام سپوتوں سے خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو، یا کسی بھی مرتبہ پر ہو، اس کو چاہیے کہ اس سال کے یوم جمہوریہ پر یہ عزم کریں کہ ہم جمہوریت کی حفاظت کریںگے اور اس کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دیں گے۔
ہندوستان زندہ باد، دستور ہند زندہ باد، جمہوریت زندہ باد.
متعلم دارالعلوم وقف دیوبند
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے اور غلامی دنیا کی سب سے بڑی لعنت۔ آزادی کی زندگی کا ایک دن، غلامی کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ آزادی یوں ہی نہیں مل جاتی، آزادی بہت قیمت مانگتی ہے، اس عظیم نعمت کو حاصل کرنے کے لیے انسانوں کو بیش بہا قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں انسانوں نے اس کی قیمت ادا کی ہے، دنیا کے نقشے پر آزاد ممالک کا نام بے پایاں کٹھنائیوں، قربانیوں اور دکھوں کے بعد تحریر ہواہے، الجزائر کے لوگ اس وقت تک منزل آزادی سے ہمکنار نہیں ہوے، جب تک بن نیلا ک کے بدن پر زخموں کے نشانات ثبت نہیں ہوے، انڈونیشیا کی عوام کے لیے غلامی کی وہ رات اس وقت تک نہیں بدلی، جب تک انہوں نے اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے لہو کے چراغ نہیں جلائے،
اور ہمارا وطن عزیز ہندوستان اس وقت تک نقشۂ عالم پر نہیں ابھرا، جب تک شہروں، بستیوں، گلیوں اور بازاروں میں ہمارے اکابریں، علما، قائدین اور وطن کے عزیز سپوتوں سے خون کی ہولی نہیں کھیلی گئی، اس کے لیے ان گنت مائوں کے کلیجے کٹ کر نہیں گرے، لاکھوں بہادر عورتوں نے اپنے سہاگ اس کی نظر کردیے اور کروڑوں بچے ۹۷۸یتیم ہوگئے۔
آزادی اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، آزادی جنت، جب کہ غلامی دوزخ ہے، کھلی فضائوں میں سانس لینا انسانوں کی فطرت کا تقاضا ہے، آزادی سے قبل تقریباً دو سو سال تک وطن عزیز انگریزوں کا محکوم رہا، انگریزوں نے ان سے آزادی کی دولت چھین کر ان کو اپنی غلامیت کی زنجیروں میں جکڑ دیا تھا، انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوستانیوں پر جو مظالم ڈھائے، اور ان پر جو ظلم وستم کا پہاڑ توڑے، اور ان کو اپنے بے پناہ ظلم وتشدد کا جس طرح نشانہ بنایا، وہ کسی بھی تاریخی شعور رکھنے والے شخص سے پوشیدہ نہیں۔ بہرحال! وطن عزیز کو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء؍ کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی۔
اسی آزادی کا ایک پہلو یا دوسرا رخ آئین ہے، ہمارے ملک ہندوستان میں آئین کا نفاذ ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء؍ میں ہوا۔ جو کہ ہر سال کی طرح امسال بھی(۲۰۱۹ء) ہفتہ کے روز ہے، ملک بھر میں اس کی تیاریاں نہایت ہی اہتمام کے ساتھ کی جارہی ہیں، جس کی بنا پر عوام میں بھی خاصا جوش وخروش ہے؛ لیکن نہ جانے کیوں ایسے وقت میں بھی ہماری طبیعت غمگین ہے، اور ہمارے قلب وجگر پر ایک افسردگی چھائی ہوئی ہے، ہمارے سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ اس موقع پر ہم جمہوری قانون کے نفاذ کی خوشیاں منائیں، یا پھر اس قانون کی جو ہمارے ملک میں کچھ شرپسندوں اور تشدد پرست طاقتوں کے ذریعہ دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، اس پر ماتم کریں؟ آئین کی اہمیت سے ہمیں بالکل بھی انکار نہیں، وہ تو یقینا ملکی قانون کا منبع ومصدر ہے، ہمارے کرب کی وجہ تو یہ ہے کہ جس آئین کی رو سے مذہب وملت، ذات پات، علاقہ اور رنگ ونسل کی بنیاد پر کوئی تفریق کیے بغیر ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کیے جاتے ہیں۔ آج ہم اس آئین کی پاس داری کیوں نہیں کرتے؟ کیوں ہم اس آئین کے یوم نفاذ کی رسمی خوشیاں منانے کی تگ ودو میں تو لگے رہتے ہیں؛ لیکن ہر دم اور ہر گھڑی اس آئین کی اہانت یا استہزا اور تمسخر بنائے جانے کی فکر نہیں کرتے؟ ۲۶؍ جنوری کا دن ہمیں ہندوستانی آئین کے نفاذ کی کوششوں کی یاد دہانی کراتا ہے، آزادی کے تقریباً ڈھائی برس بعد ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء؍ کو وطن عزیز ہندوستان میں ہندوستانی آئین کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا، آج اس واقعہ کو تقریباً ۶۹؍ سال بیت گئے، اس کے باوجود پورے اہتمام سے اپنا قومی یوم جمہوریہ منانے والے اس جانب کوئی پیش رفت کیوں نہیں کرتے کہ یہ آئین اصحاب اقتدار کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر نہ رہ جائے؟ بس انہیں چند وجوہات سے ہمارے لیے یوم جمہوریہ خوشی اور غمی کا امتزاج ہے، اور ہمارے دل میں آئین کے نفاذ کی خوشی اور دماغ میں آئین کے عدم نفاذ کی فکر ہے، اور ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ آخر ہم یوم جمہوریہ منائیں تو کیسے منائیں؟ یوم جمہوریہ ہند ایک قومی تعطیل ہے، جسے ملک بھر میں منایا جاتا ہے، اس دن کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس دن سے دستور ہند کی عمل آوری ہوئی تھی، دستور ساز اسمبلی نے دستور ہند کو مکمل طور پر ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹ء؍ کو مرتب کیا اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء؍ کو اسے عمل آوری کے لیے پاس کردیا گیا، دستور ہند کی عمل آوری ہوئی اور آج ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بن کر ابھرا ہے؛ لیکن افسوس وندامت کے ساتھ اس بات کا اعتراف ہے کہ آج وطن عزیز جس دور سے گزر رہا ہے، وہ بڑا ہی خطرناک اور مایوس کن دور ہے، اس لیے کہ جمہوریت کا ستون کہے جانے والے ادارے آج شکوک وشبہات اور سوالات کے دائرے میں ہیں، چاہے وہ پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ، چاہے میڈیا ہو یا عوام الناس کا کردار سب کے سب آج جمہوریت کے ڈگر سے بھٹک گئے ہیں؛ اس لیے وطن عزیز کے تمام سپوتوں سے خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو، یا کسی بھی مرتبہ پر ہو، اس کو چاہیے کہ اس سال کے یوم جمہوریہ پر یہ عزم کریں کہ ہم جمہوریت کی حفاظت کریںگے اور اس کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دیں گے۔
ہندوستان زندہ باد، دستور ہند زندہ باد، جمہوریت زندہ باد.