عزیز اصلاحی اعظمی
اسرولی سرائے میر
ــــــــــــــــــــــــــــ
جس دن گھر جانے کے لئے چھٹی کی درخواست دی اسی دن سے دن گننے لگا اور اسی شدت و چاہت سے گننے لگا جس طرح شباب اپنے زفاف کے دن گنتا ہے فرق اتنا کہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے لئے دن گنتا ہے اور پردیسی اپنی شروع ہوچکی زندگی سے وفا کرنے کے لئے ، وہ گھر جانے کے لئے جتنا خوش ہوتا گھر جانے کی تیاری میں اتنا ہی پریشان ، بیوی بچے ، ماں باپ ، بھائی بہن ، دوست احباب کا خیال رکھتے ہوئے اسکی خواہش اور فرمائش کے مطابق اتنےشوق سے تحفے تحائف خریدتا ہے کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کتنا وزن بڑھا لیا ، آیئر لائنز محدود وزن سے آگے ہماری سنتی نہیں اور بچے اپنی فرمائش کے آگے کچھ سنتے نہیں ، بچوں کی فرمائش اور سامان کی گنجائش کو لیکر وہ اس کشمکش میں رہتا ہے کہ اگر بچوں کے سارے کھلونے لیتا ہے تو بہن کا شیمپو اور کریم چھوٹ جاتا ہے ، بیوی کے لئے فیس واش لیتا ہے تو بھائی کا پرفیوم رہ جاتا ہے ، اماں کی ابو فاس کی شیشی اور ٹائیگر بام لیتا ہے تو ابا کا زیتون چھوٹ جاتا ہے اسی کشمکش میں وہ بیگ سے سامان نکالتا ہے اور پھر رکھتا ہے کہ اس میں سے کیا نکالوں اور کیا رکھوں اور بالآخر وہ سب کی خواہشوں کی تکمیل کے لئے اپنے سارے کپڑے نکال دیتا ہے اور اسکی جگہ گھر کی خواہشوں کو رکھ کر بیگ بند کردیتا ہے.
ایئر پورٹ پہونچتا ہے ، لگیج کرواتا ہے ، چند سلفیاں بناکر اسٹیٹس اپڈیٹ کر دیتا ہے کہ '' ہے فرینڈ آئی ایم کمنگ انڈیا '' پھر ویڈیو کال پر بچوں کے ساتھ بچہ بن کر ویڈیو کال کے ذریعہ بچوں کو ایئر پورٹ پرکھڑے جہاز دکھا کرخوش کرتا ہے ، بورڈنگ کراتا ہے پلین کے گیٹ پر کھڑی ائیر ہاسٹس کو بورڈنگ کارڈ دکھا کر اپنی سیٹ پو چھتے ہوئے جب اس پر بیٹھتا تو ایسا لگتا ہے کی دو سال قید با ماشقت کے بعد آج آزاد ہوا ہو-
میں فلائٹ میں یا تو سب پہلے بیٹھنے کی کوشش کرتا ہوں یا پھر سب سے آخیر میں کیونکہ جب سے دل کے عارضے میں مبتلا ہوا ہینڈ بیگ اٹھائے بورڈنگ کے لئے لائن میں کھڑا ہونا میرے لئے مشکل بھی ہے اور منع بھی اس لئے میں آخیر میں فلائٹ میں داخل ہوا ، میری سیٹ تو ونڈو کے پاس والی تھی لیکن دیکھا تو ایک صاحب کالا چشمہ ، اسپورٹ شوز ، جینس پہنے پہلے سے اس سیٹ پر براجمان تھے گھر جانے کی خوشی انکے چہرے سے زیادہ ان کے سوٹ بوٹ سے جھلک رہی تھی ، میں نے انکو اپنا بورڈنگ کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ بھائی یہ سیٹ ۔۔۔۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ سمجھ گئے لیکن انکے چہرے کے تاثر سے ایسا لگا کہ کہ وہ ونڈو کے پاس بیٹھ کر فضا میں اڑتے ہوئے بادل اور آسمان کے نیلے پن سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں میں انکی خواہش کا لحاظ کرتے ہوئے انکی سیٹ پر بیٹھ گیا چار گھنٹے کی پرواز کے بعد دہلی ایئر پورٹ پہونچا باہر نکلا تو دیکھا دوستی باہیں پیھلائے مجھے لینے کے لئے کھڑی تھی ، دوستوں کے اس خلوص و محبت نے آنکھوں کو خوشی سے نم کر دیا اور دل سے یہ دعاء نکلی کہ یا رب العالمین دوستوں کو ہمیشہ خوش رکھنا جو میرے لئے ایک نعمت بھی ہیں اور میری زندگی کا ایک بیش قیمتی تحفہ بھی ۔
دوپہر کا کھانا دوستوں کے ساتھ کھایا اور پھر شام کو کیفیات ایکسپریس سے اعظم گڑھ کے لئے روانہ ہوگیا ، دوسرے دن گھر پہونچا تو بچے برسوں بعد دیکھ کر پہلو میں ایسے لپٹ گئے جیسے بھوک سے ماں کے سینے سے لپٹ جاتے ہیں باپ کی شفقت و محبت میں وہ تازگی ہے کہ اسکے ایک لمس سے برسوں کے مرجھائے چہرے کھل گئے ۔ یہ بات سچ ہے کہ دل کی زندگی محبت سے ہے ، بچوں کی محبت سے ایسا لگا میرے دل کی بند شریانیں کھل گئیں ہوں میرے کمزور دل کوتقویت مل گئی ہو پردیس کی دو سالہ زندگی میں میری بکھری ہوئی شخصیت کو ان بچوں نے جیسے پل بھر میں سمیٹ دیا ہو آج میں سعودی عرب کی صحرائی زندگی کی طرح بکھرا ہوا نہیں کہ بدن یہاں تو دماغ کہیں اور ، روح یہاں تو دل کہیں اور، فکر یہاں تو سوچ کہیں اور بلکہ آج میں ان معصوموں کے بیچ مکمل تھا ، انسان مکمل ہی تب ہوتا جب روح اور بدن ایک ہوں بچوں کے بشاش چہرے ، ماں کی ممتا ، باب کی شفقت ، بہن کا پیار ، بھائی کی خوشی ، بیوی کا کھلکھلاتا چہرا دیکھ کر پردیس کے سارے غم دھل گئے ۔
گھر سے باہر نکلا گاؤں کی کھلی فضاء میں گیا تو خوشگوار موسم ، ٹھنڈی ہوائیں ، دلکش نظارے ، سرسوں کے رقص کرتے ، جھومتے پھولوں نے جیسے روح کو معطر کر دیا ، وطن عزیز میں گاؤں کی یہی وہ خوبصورتی ہے جو پردیس میں اکثر یاد آتی ہے دوسرے دن صبح ابھی چائے پر بیٹھا ہی تھا کہ باہر سے شاہد کی آواز آئی کی عزیز کہاں ہوں چلو ناشتہ تیار ہے تمھیں لینے آیا ہوں اس دن اسکے چھوٹے بھائی ناصر کا ولیمہ تھا ، شاہد گاؤں کے چند کالج کے دوستوں میں سے ایک ہے ، دوستی ، تعلقات کا اس کا یہ خوبصورت انداز دل کو خوش کر گیا کہ شادی کی مصروفیت سے وقت نکال کر مجھے لینےآیا، چائے چھوڑ کر اس کے ساتھ چلا گیا جہاں گاؤں کے بیشتر لوگوں سے ملاقات ہوئی ڈاکٹر خورشید گاؤں کے معزز شخصیات میں سے ایک ہیں اور مجھ سے بے تکلف بھی ہیں ان سے میری صحت اور طبی حوالے سے تھوڑی دیر بات ہوئی انکی یہ بات اچھی لگی کہ تمہارے یہ چند غنیمت کے ایام ہیں جس کا اپنے علاج و معالجے اور فیمیلی کے لئے بہترین استعمال میں لانا یوں ضائع کرکے واپس نہیں جانا میں نے اس خوبصورت مشورے پرعمل کرنے کی کوشش تو کی لیکن کہیں نہ کہیں ناکام رہا جس کا احساس وہاں کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں تونہیں ہوا لیکن یہاں سعودی عرب میں آکر ہوا ۔ اور اسکا احساس جب تک یہاں ہوں رہے گا ۔
مختصر وقت کا بہترین استعمال ، صحیح اورغلط کا فیصلہ اپنی جگہ لیکن کئی لحاظ سے یہ سفر بہت ہی دلکش اور دلچشپ تھا محبت کے اس سفر میں بہت کچھ نیا تھا بہت سارے دیرینہ ان احباب سے ملاقات ہوئی جو ہونٹوں پر تو تھے لیکن نگاہوں سے دور تھے بالمشافہ ملاقات سے ماضی کے بند وہ سارے اوراق کھل گئے جس پر ہلکی سی گرد جم گئی تھی بہت سارے نئے ان مخلص احباب سے بھی ملنے کا موقع ملا جو میری تحریریں نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ بڑے ہی خلوص و محبت سے حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ، بہت سارے قابل قدر علمی و ادبی شخصیات سے بھی ملنے کا موقع ملا جنھوں نے اپنی بے پناہ دعاءوں اور محبتوں سے نوازا ، بعض احباب نے عشائیہ پر مدعو کیا میں ان تمام احباب کی محبتوں کی قدر کرتا ہوں اور انکے اس خلوص کو اپنی پلکو پر رکھتا ہوں اس مختصر تحریر میں اگراحباب کی طویل فہرست تمام ناموں کے لکھنے اجازت دیتی تو آج ان تمام دوستوں ، عالموں ، مخلصوں ، ادب نوازوں کا نام لیکر انکی محبتوں اور چاہتوں کا ذکرکرتا مضمون کی طوالت کی وجہ سے معذرت چاہتے ہوئے میں ان تمام احباب اور شخصیات کا تہہ دل شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ہاں ایک نام ڈاکٹر شمیم اصلاحی خداداد پورکا لینا چاہونگا جنکی ادب نوازی نے مجھے بہت متاثر کیا میں انکی اس ادب نوازی کو جھک کر سلام کرتا کہ عشائیہ میں میری حاضری پر انھوں نے مشتاق یوسفی مرحوم کی ایک کتاب بطور ہدیہ پیش کی اللہ انکو سلامت رکھے ۔
مادر علمی گیا اساتذہ کرام سے ملاقات ہوئی انکی شفقت و محبت نے اس بات کا احساس دلادیا کہ میں پھر سے وہیں آکھڑا ہوا جہاں سے چھوڑ کر گیا تھا مدرسے کی چہار دیواری میں پہونچ کر جس اپنائیت اورجاذبیت کا احساس ہوتا ہے ، روح کو جو تازگی اور دل کو جو فرحت ملتی ہے وہ کسی اور چہار دیواری کے اندر نہیں کیونکہ میرا تعلیمی خمیر جو اسی مٹی سے ہے اس لئے اس چمن سے محبت فطری ہے ۔
گھرکے یہ چند خوشگوار ایام گزارنے کے بعد دہلی جانے کی خواہش بھی تھی اور طبی ضرورت بھی ، دہلی کے تعلیمی سفر کے بعد جب اگست ۲۰۰۷ کو دہلی چھوڑ کر سعودی عرب کے معاشی سفر پر نکلا تو حالات اور ذمے داریوں نے دوبارہ دہلی ائیر پورٹ سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا جہاں زندگی کے خوبصورت ایام اور بے پناہ محبت و اپنائیت کو چھوڑ کر چلا گیا تھا لیکن جب کبھی دہلی کسی دوست سے بات کرتا اور وہ یہ کہ دیتا کہ میں جامعۃ میں ہوں تو زمانۂ طالب علمی کے سارے نظارے سامنے رقص کرنے لگتے اور یہی دل کرتا کہ ذمہ داریوں کی ساری چادریں اتار کر پھیک دوں اور پھر سے خیابان اجمل جا پہونچوں اور تعلیم کے ادھورے جام کو پی آوں جس کو پیمانے میں چھوڑ آیا تھا ۔۔ لیکن ہائے افسوس ۔۔۔۔۔ یہ نہ تھی ہماری قسمت ۔۔۔۔ میری ذمہ داریوں اور فرائض کے بیچ جذبات کی کوئی جگہ نہیں تھی اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ کر ذمہ داریاں نبھانا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس بار جب چھٹی پر گاؤں آیا اور میری بیماری کے بارے میں دہلی رہنے والے احباب کو پتہ چلا تو ان لوگوں نے دہلی آکر طبی معائنہ کروانے پر زور دیا مخلص احباب کے اصرار پر گیارہ سال بعد ایک بار پھر دہلی آنے کا موقع ملا ، راشد نے ٹکٹ بُک کیا اور ایک ہفتے کے لئے مع اہل و عیال دہلی آیا سردی کا موسم لیکن احباب کے پر جوش استقبال اور انکی گرم جوشی نے اخوت و محبت کی ایسی حرارت پیدا کی کہ سردی کا احساس تک نہیں ہوا دوستوں کے خلوص اور دِلّی کی خوش دلی و فراخ دلی کی طرف گیا تو ایک طویل تحریر ہوگی بس اتنا کہتے ہوئے آگے بڑھونگا کہ دہلی صرف جگہ کا نہیں بلکہ ایک محبت کا نام ہے اور وہاں کے رہنے والے دوست زندگی کے خوبصورت اور بیش قیمتی تحفہ ہیں جو دل کے ایک گوشے میں اسی طرح محفوظ ہیں جیسے وہ زمانۂ طالب علمی میں ملے تھے ۔
دہلی سے نکلا تو سوچا سر سید کی نگری دیار شوق کو سلام کرتا چلوں علم و فن کے اس سرچشمے سے گزرنے کے لئے ایک دن کافی تو نہیں لیکن یہاں پہونچ کر روح کو تازگی اور ذہن کو جو علمی سرور ملتا ہے وہ بلا مبالغہ دیار شوق کہنے پر مجبور کرتا ہے ، علی گڑھ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ہماری تہذیب ہے ، وہاں کی درسگاہیں ، تجربہ گاہیں ، وسیع و عریض رقبے پر محیط عمارتیں ، شاہراہیں ، وہاں کی سوچ اور فکر اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہی کہ یہ ادارہ تعلیمی تحریک کا وہ نقطہ آغاز ہے جو آخیر تک اس قوم کے نونہالوں کو سنوارتا رہے گا آنے والی نسلیں اس چشمہ فیض سے سیراب ہوتی رہیں گیں ، یہ قوم کی وہ میراث ہے جس کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے ، جسکی بقاء ہماری تعلیمی بقاء ہے اس ادارے کے لئے یہ جذبات صرف میرے نہیں بلکہ پوری قوم کے ہیں اللہ اس کو اسی طرح قائم و دائم رکھے ۔
یہاں پہونچ کر محترم وقار صاحب کے یہاں قیام ہوا جو طلبہ یونین کے ایک متحرک رکن ہیں اور اہلیہ کی بھانجی کے شوہر نامدار بھی اعظمی روایت کے مطابق چائے اور وائے کے بعد جناب وقار صاحب سے یونیورسٹی جانے کی خواہش ظاہر کی قبل اس کے کہ وہ تیار ہوتے میں نے ڈاکٹر صہیب اصلاحی کو فون کیا ان کا خلوص کہ وہ اسی وقت آئے اور انھیں کے ساتھ ڈاکٹر ساجد کے دوا خانے گیا ، طبیہ کالج گیا ، عربک ڈپارٹمینٹ گیا جہاں ڈاکٹر ابوذر سمیت بہت سارےاحباب سے بھی ملاقات ہوئی میں ڈاکٹر صہیب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنا قیمتی وقت مجھے دیا پورے دن بلکہ نصف شب تک میرے ساتھ رہے ، ایک طویل عرصے بعد آصف کارونی سے ملاقات ہوئی اسکا بے تکلفانہ انداز آج بھی اسی طرح تھا جیسے برسوں پہلے مجبت و خلوص کہ اپنے شاپنگ سینٹر سے کہیں ہلنےنہیں دیا کہ بغیر کھانا کھائے جانا نہیں شاپنگ سینٹر بند کیا ساتھ میں رات کا کھانا کھایا اجازت لیکر گھر پہونچا اور دوسرے دن علی گڑھ سے اعظم گڑھ کے لئے نکلا تو یہاں کی روایت کے مطابق جب احباب اسٹیشن تک چھوڑنے آئے تو وہ زمانہ نگاہوں کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہوگیا کہ جب یہاں کے طلبہ کسی کو چھوڑنے آتے تو سیافٹی لئے بغیر بیگ نہیں چھوڑتے یہ سارے وہ حسین لمحے تھے جس کو وقت کی رفتار نے روند ڈالا اب یاد کے سوا کچھ باقی نہیں رہا واقعی خوبصورت لمحوں کو پر نکل آتے ہیں جو اپنی رفتار سے تیز گزر جاتے ہیں، دوسرے دن گھر پہونچا اور ایک ہفتے بعد پھر سعودی عرب کے اسی اداس سفر پر نکل پڑا جس احساست کو میں نے دو مہینے پہلے ہی لکھ دیا تھا ۔
فی امان اللہ
اسرولی سرائے میر
ــــــــــــــــــــــــــــ
جس دن گھر جانے کے لئے چھٹی کی درخواست دی اسی دن سے دن گننے لگا اور اسی شدت و چاہت سے گننے لگا جس طرح شباب اپنے زفاف کے دن گنتا ہے فرق اتنا کہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے لئے دن گنتا ہے اور پردیسی اپنی شروع ہوچکی زندگی سے وفا کرنے کے لئے ، وہ گھر جانے کے لئے جتنا خوش ہوتا گھر جانے کی تیاری میں اتنا ہی پریشان ، بیوی بچے ، ماں باپ ، بھائی بہن ، دوست احباب کا خیال رکھتے ہوئے اسکی خواہش اور فرمائش کے مطابق اتنےشوق سے تحفے تحائف خریدتا ہے کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کتنا وزن بڑھا لیا ، آیئر لائنز محدود وزن سے آگے ہماری سنتی نہیں اور بچے اپنی فرمائش کے آگے کچھ سنتے نہیں ، بچوں کی فرمائش اور سامان کی گنجائش کو لیکر وہ اس کشمکش میں رہتا ہے کہ اگر بچوں کے سارے کھلونے لیتا ہے تو بہن کا شیمپو اور کریم چھوٹ جاتا ہے ، بیوی کے لئے فیس واش لیتا ہے تو بھائی کا پرفیوم رہ جاتا ہے ، اماں کی ابو فاس کی شیشی اور ٹائیگر بام لیتا ہے تو ابا کا زیتون چھوٹ جاتا ہے اسی کشمکش میں وہ بیگ سے سامان نکالتا ہے اور پھر رکھتا ہے کہ اس میں سے کیا نکالوں اور کیا رکھوں اور بالآخر وہ سب کی خواہشوں کی تکمیل کے لئے اپنے سارے کپڑے نکال دیتا ہے اور اسکی جگہ گھر کی خواہشوں کو رکھ کر بیگ بند کردیتا ہے.
ایئر پورٹ پہونچتا ہے ، لگیج کرواتا ہے ، چند سلفیاں بناکر اسٹیٹس اپڈیٹ کر دیتا ہے کہ '' ہے فرینڈ آئی ایم کمنگ انڈیا '' پھر ویڈیو کال پر بچوں کے ساتھ بچہ بن کر ویڈیو کال کے ذریعہ بچوں کو ایئر پورٹ پرکھڑے جہاز دکھا کرخوش کرتا ہے ، بورڈنگ کراتا ہے پلین کے گیٹ پر کھڑی ائیر ہاسٹس کو بورڈنگ کارڈ دکھا کر اپنی سیٹ پو چھتے ہوئے جب اس پر بیٹھتا تو ایسا لگتا ہے کی دو سال قید با ماشقت کے بعد آج آزاد ہوا ہو-
میں فلائٹ میں یا تو سب پہلے بیٹھنے کی کوشش کرتا ہوں یا پھر سب سے آخیر میں کیونکہ جب سے دل کے عارضے میں مبتلا ہوا ہینڈ بیگ اٹھائے بورڈنگ کے لئے لائن میں کھڑا ہونا میرے لئے مشکل بھی ہے اور منع بھی اس لئے میں آخیر میں فلائٹ میں داخل ہوا ، میری سیٹ تو ونڈو کے پاس والی تھی لیکن دیکھا تو ایک صاحب کالا چشمہ ، اسپورٹ شوز ، جینس پہنے پہلے سے اس سیٹ پر براجمان تھے گھر جانے کی خوشی انکے چہرے سے زیادہ ان کے سوٹ بوٹ سے جھلک رہی تھی ، میں نے انکو اپنا بورڈنگ کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ بھائی یہ سیٹ ۔۔۔۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ سمجھ گئے لیکن انکے چہرے کے تاثر سے ایسا لگا کہ کہ وہ ونڈو کے پاس بیٹھ کر فضا میں اڑتے ہوئے بادل اور آسمان کے نیلے پن سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں میں انکی خواہش کا لحاظ کرتے ہوئے انکی سیٹ پر بیٹھ گیا چار گھنٹے کی پرواز کے بعد دہلی ایئر پورٹ پہونچا باہر نکلا تو دیکھا دوستی باہیں پیھلائے مجھے لینے کے لئے کھڑی تھی ، دوستوں کے اس خلوص و محبت نے آنکھوں کو خوشی سے نم کر دیا اور دل سے یہ دعاء نکلی کہ یا رب العالمین دوستوں کو ہمیشہ خوش رکھنا جو میرے لئے ایک نعمت بھی ہیں اور میری زندگی کا ایک بیش قیمتی تحفہ بھی ۔
دوپہر کا کھانا دوستوں کے ساتھ کھایا اور پھر شام کو کیفیات ایکسپریس سے اعظم گڑھ کے لئے روانہ ہوگیا ، دوسرے دن گھر پہونچا تو بچے برسوں بعد دیکھ کر پہلو میں ایسے لپٹ گئے جیسے بھوک سے ماں کے سینے سے لپٹ جاتے ہیں باپ کی شفقت و محبت میں وہ تازگی ہے کہ اسکے ایک لمس سے برسوں کے مرجھائے چہرے کھل گئے ۔ یہ بات سچ ہے کہ دل کی زندگی محبت سے ہے ، بچوں کی محبت سے ایسا لگا میرے دل کی بند شریانیں کھل گئیں ہوں میرے کمزور دل کوتقویت مل گئی ہو پردیس کی دو سالہ زندگی میں میری بکھری ہوئی شخصیت کو ان بچوں نے جیسے پل بھر میں سمیٹ دیا ہو آج میں سعودی عرب کی صحرائی زندگی کی طرح بکھرا ہوا نہیں کہ بدن یہاں تو دماغ کہیں اور ، روح یہاں تو دل کہیں اور، فکر یہاں تو سوچ کہیں اور بلکہ آج میں ان معصوموں کے بیچ مکمل تھا ، انسان مکمل ہی تب ہوتا جب روح اور بدن ایک ہوں بچوں کے بشاش چہرے ، ماں کی ممتا ، باب کی شفقت ، بہن کا پیار ، بھائی کی خوشی ، بیوی کا کھلکھلاتا چہرا دیکھ کر پردیس کے سارے غم دھل گئے ۔
گھر سے باہر نکلا گاؤں کی کھلی فضاء میں گیا تو خوشگوار موسم ، ٹھنڈی ہوائیں ، دلکش نظارے ، سرسوں کے رقص کرتے ، جھومتے پھولوں نے جیسے روح کو معطر کر دیا ، وطن عزیز میں گاؤں کی یہی وہ خوبصورتی ہے جو پردیس میں اکثر یاد آتی ہے دوسرے دن صبح ابھی چائے پر بیٹھا ہی تھا کہ باہر سے شاہد کی آواز آئی کی عزیز کہاں ہوں چلو ناشتہ تیار ہے تمھیں لینے آیا ہوں اس دن اسکے چھوٹے بھائی ناصر کا ولیمہ تھا ، شاہد گاؤں کے چند کالج کے دوستوں میں سے ایک ہے ، دوستی ، تعلقات کا اس کا یہ خوبصورت انداز دل کو خوش کر گیا کہ شادی کی مصروفیت سے وقت نکال کر مجھے لینےآیا، چائے چھوڑ کر اس کے ساتھ چلا گیا جہاں گاؤں کے بیشتر لوگوں سے ملاقات ہوئی ڈاکٹر خورشید گاؤں کے معزز شخصیات میں سے ایک ہیں اور مجھ سے بے تکلف بھی ہیں ان سے میری صحت اور طبی حوالے سے تھوڑی دیر بات ہوئی انکی یہ بات اچھی لگی کہ تمہارے یہ چند غنیمت کے ایام ہیں جس کا اپنے علاج و معالجے اور فیمیلی کے لئے بہترین استعمال میں لانا یوں ضائع کرکے واپس نہیں جانا میں نے اس خوبصورت مشورے پرعمل کرنے کی کوشش تو کی لیکن کہیں نہ کہیں ناکام رہا جس کا احساس وہاں کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں تونہیں ہوا لیکن یہاں سعودی عرب میں آکر ہوا ۔ اور اسکا احساس جب تک یہاں ہوں رہے گا ۔
مختصر وقت کا بہترین استعمال ، صحیح اورغلط کا فیصلہ اپنی جگہ لیکن کئی لحاظ سے یہ سفر بہت ہی دلکش اور دلچشپ تھا محبت کے اس سفر میں بہت کچھ نیا تھا بہت سارے دیرینہ ان احباب سے ملاقات ہوئی جو ہونٹوں پر تو تھے لیکن نگاہوں سے دور تھے بالمشافہ ملاقات سے ماضی کے بند وہ سارے اوراق کھل گئے جس پر ہلکی سی گرد جم گئی تھی بہت سارے نئے ان مخلص احباب سے بھی ملنے کا موقع ملا جو میری تحریریں نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ بڑے ہی خلوص و محبت سے حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ، بہت سارے قابل قدر علمی و ادبی شخصیات سے بھی ملنے کا موقع ملا جنھوں نے اپنی بے پناہ دعاءوں اور محبتوں سے نوازا ، بعض احباب نے عشائیہ پر مدعو کیا میں ان تمام احباب کی محبتوں کی قدر کرتا ہوں اور انکے اس خلوص کو اپنی پلکو پر رکھتا ہوں اس مختصر تحریر میں اگراحباب کی طویل فہرست تمام ناموں کے لکھنے اجازت دیتی تو آج ان تمام دوستوں ، عالموں ، مخلصوں ، ادب نوازوں کا نام لیکر انکی محبتوں اور چاہتوں کا ذکرکرتا مضمون کی طوالت کی وجہ سے معذرت چاہتے ہوئے میں ان تمام احباب اور شخصیات کا تہہ دل شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ہاں ایک نام ڈاکٹر شمیم اصلاحی خداداد پورکا لینا چاہونگا جنکی ادب نوازی نے مجھے بہت متاثر کیا میں انکی اس ادب نوازی کو جھک کر سلام کرتا کہ عشائیہ میں میری حاضری پر انھوں نے مشتاق یوسفی مرحوم کی ایک کتاب بطور ہدیہ پیش کی اللہ انکو سلامت رکھے ۔
مادر علمی گیا اساتذہ کرام سے ملاقات ہوئی انکی شفقت و محبت نے اس بات کا احساس دلادیا کہ میں پھر سے وہیں آکھڑا ہوا جہاں سے چھوڑ کر گیا تھا مدرسے کی چہار دیواری میں پہونچ کر جس اپنائیت اورجاذبیت کا احساس ہوتا ہے ، روح کو جو تازگی اور دل کو جو فرحت ملتی ہے وہ کسی اور چہار دیواری کے اندر نہیں کیونکہ میرا تعلیمی خمیر جو اسی مٹی سے ہے اس لئے اس چمن سے محبت فطری ہے ۔
گھرکے یہ چند خوشگوار ایام گزارنے کے بعد دہلی جانے کی خواہش بھی تھی اور طبی ضرورت بھی ، دہلی کے تعلیمی سفر کے بعد جب اگست ۲۰۰۷ کو دہلی چھوڑ کر سعودی عرب کے معاشی سفر پر نکلا تو حالات اور ذمے داریوں نے دوبارہ دہلی ائیر پورٹ سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا جہاں زندگی کے خوبصورت ایام اور بے پناہ محبت و اپنائیت کو چھوڑ کر چلا گیا تھا لیکن جب کبھی دہلی کسی دوست سے بات کرتا اور وہ یہ کہ دیتا کہ میں جامعۃ میں ہوں تو زمانۂ طالب علمی کے سارے نظارے سامنے رقص کرنے لگتے اور یہی دل کرتا کہ ذمہ داریوں کی ساری چادریں اتار کر پھیک دوں اور پھر سے خیابان اجمل جا پہونچوں اور تعلیم کے ادھورے جام کو پی آوں جس کو پیمانے میں چھوڑ آیا تھا ۔۔ لیکن ہائے افسوس ۔۔۔۔۔ یہ نہ تھی ہماری قسمت ۔۔۔۔ میری ذمہ داریوں اور فرائض کے بیچ جذبات کی کوئی جگہ نہیں تھی اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ کر ذمہ داریاں نبھانا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس بار جب چھٹی پر گاؤں آیا اور میری بیماری کے بارے میں دہلی رہنے والے احباب کو پتہ چلا تو ان لوگوں نے دہلی آکر طبی معائنہ کروانے پر زور دیا مخلص احباب کے اصرار پر گیارہ سال بعد ایک بار پھر دہلی آنے کا موقع ملا ، راشد نے ٹکٹ بُک کیا اور ایک ہفتے کے لئے مع اہل و عیال دہلی آیا سردی کا موسم لیکن احباب کے پر جوش استقبال اور انکی گرم جوشی نے اخوت و محبت کی ایسی حرارت پیدا کی کہ سردی کا احساس تک نہیں ہوا دوستوں کے خلوص اور دِلّی کی خوش دلی و فراخ دلی کی طرف گیا تو ایک طویل تحریر ہوگی بس اتنا کہتے ہوئے آگے بڑھونگا کہ دہلی صرف جگہ کا نہیں بلکہ ایک محبت کا نام ہے اور وہاں کے رہنے والے دوست زندگی کے خوبصورت اور بیش قیمتی تحفہ ہیں جو دل کے ایک گوشے میں اسی طرح محفوظ ہیں جیسے وہ زمانۂ طالب علمی میں ملے تھے ۔
دہلی سے نکلا تو سوچا سر سید کی نگری دیار شوق کو سلام کرتا چلوں علم و فن کے اس سرچشمے سے گزرنے کے لئے ایک دن کافی تو نہیں لیکن یہاں پہونچ کر روح کو تازگی اور ذہن کو جو علمی سرور ملتا ہے وہ بلا مبالغہ دیار شوق کہنے پر مجبور کرتا ہے ، علی گڑھ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ہماری تہذیب ہے ، وہاں کی درسگاہیں ، تجربہ گاہیں ، وسیع و عریض رقبے پر محیط عمارتیں ، شاہراہیں ، وہاں کی سوچ اور فکر اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہی کہ یہ ادارہ تعلیمی تحریک کا وہ نقطہ آغاز ہے جو آخیر تک اس قوم کے نونہالوں کو سنوارتا رہے گا آنے والی نسلیں اس چشمہ فیض سے سیراب ہوتی رہیں گیں ، یہ قوم کی وہ میراث ہے جس کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے ، جسکی بقاء ہماری تعلیمی بقاء ہے اس ادارے کے لئے یہ جذبات صرف میرے نہیں بلکہ پوری قوم کے ہیں اللہ اس کو اسی طرح قائم و دائم رکھے ۔
یہاں پہونچ کر محترم وقار صاحب کے یہاں قیام ہوا جو طلبہ یونین کے ایک متحرک رکن ہیں اور اہلیہ کی بھانجی کے شوہر نامدار بھی اعظمی روایت کے مطابق چائے اور وائے کے بعد جناب وقار صاحب سے یونیورسٹی جانے کی خواہش ظاہر کی قبل اس کے کہ وہ تیار ہوتے میں نے ڈاکٹر صہیب اصلاحی کو فون کیا ان کا خلوص کہ وہ اسی وقت آئے اور انھیں کے ساتھ ڈاکٹر ساجد کے دوا خانے گیا ، طبیہ کالج گیا ، عربک ڈپارٹمینٹ گیا جہاں ڈاکٹر ابوذر سمیت بہت سارےاحباب سے بھی ملاقات ہوئی میں ڈاکٹر صہیب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنا قیمتی وقت مجھے دیا پورے دن بلکہ نصف شب تک میرے ساتھ رہے ، ایک طویل عرصے بعد آصف کارونی سے ملاقات ہوئی اسکا بے تکلفانہ انداز آج بھی اسی طرح تھا جیسے برسوں پہلے مجبت و خلوص کہ اپنے شاپنگ سینٹر سے کہیں ہلنےنہیں دیا کہ بغیر کھانا کھائے جانا نہیں شاپنگ سینٹر بند کیا ساتھ میں رات کا کھانا کھایا اجازت لیکر گھر پہونچا اور دوسرے دن علی گڑھ سے اعظم گڑھ کے لئے نکلا تو یہاں کی روایت کے مطابق جب احباب اسٹیشن تک چھوڑنے آئے تو وہ زمانہ نگاہوں کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہوگیا کہ جب یہاں کے طلبہ کسی کو چھوڑنے آتے تو سیافٹی لئے بغیر بیگ نہیں چھوڑتے یہ سارے وہ حسین لمحے تھے جس کو وقت کی رفتار نے روند ڈالا اب یاد کے سوا کچھ باقی نہیں رہا واقعی خوبصورت لمحوں کو پر نکل آتے ہیں جو اپنی رفتار سے تیز گزر جاتے ہیں، دوسرے دن گھر پہونچا اور ایک ہفتے بعد پھر سعودی عرب کے اسی اداس سفر پر نکل پڑا جس احساست کو میں نے دو مہینے پہلے ہی لکھ دیا تھا ۔
فی امان اللہ