اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جملے بازی پھر ہوگی!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 21 January 2019

جملے بازی پھر ہوگی!

عزیز اصلاحی اعظمی اسرولی سرائےمیر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الیکشن کا زمانہ اور اسی دوران سعودی سے گھر جا رہا تھا لکھنئو ایئر پورٹ سے باہر نکلا دیکھا تو ہر طرف بڑے بڑے بینر پوسٹر لگے ہوئے تھے ملک کے مزاج کے مطابق پرکشش نعرے ، وعدے لکھے ہوئے تھے  ریلیوں کی وجہ سے پورا روڈ جام تھا لوگ سروں پر زعفرانی ٹوپی اور گمچھے باندھ کر سڑکوں پر اس قدر طوفان مچائے ہوئے تھے جیسے آئین و قانون بے معنی ہو ۔  برہمنی ذہنیت " سیاسی سوچ اور بے روزگار بھیڑ  ریلیوں میں کھل کر ناچتی ہیں  پارٹی کے کار کرتا اس کا بھر پور ثبوت پیش کر رہے تھے ، ملک کی بدحالی ، بد امنی ‘بدعنوانی، غربت ، خستہ حال سڑکیں سیاست دانوں کے اچھے دن ، ڈیجیٹل انڈیا ، میک ان انڈیا جیسے نعروں اور وعدوں کی حقیقت اور انکی نیت پر ماتم کر رہے تھے ، اورایک چائے پر بکنے والے بے ضمیر انسان ماتم کرنے کے بجائے ان جھوٹے وعدوں پر ناچ رہے تھے ۔
بیرون ممالک کے سیاسی نظام ، شفاف حکمرانی  بہترین سڑکیں چوبیس گھنٹے بجلی پانی  ترقی خوشحالی دیکھ کر جب  وطن جاؤ تو واقعی ملک کے حالات پر رونا آتا ہے ، اس وقت کے پارلیمانی الیکشن میں مودی کی انٹری کسی فلمی ہیرو سےکم نہ تھی ٹی وی سے ریڈ یو تک ، اخبار سے میگزین تک ضمیر فروش صحافت نے ملک میں ایسی فضاء قائم کی جیسے مودی آتے ہی ہندوستان راتو رات پیرس بن جائے گا ، ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی ، سڑکیں شیشے کی ہو جائیں گی ، بجلی ، پانی دوا علاج سب فری ہو جائے گا میڈیا کے زریعہ بنائی گئی ہندوستانی سیاست کی اس فضاء نے مجھے بھی بہت متاثر کیا دوسرے ہی دن مودی جی کی ریلی تھی بچے کی ہوائی جہاز دیکھنے کی ضد پر میں بھی ریلی گیا راستے میں ہی تھا کہ مودی جی کا جہازسر کے اوپر سے گزرا منچ کافی دور تھا سوچا تھوڑا اور قریب جاؤں تب تک لاؤڈ اسپیکر سے مترو کی آواز سنائی دی سمجھ گیا مودی جی منچ پر آچکے ہیں  وہیں لاؤڈ اسپیکر کے نیچے بیٹھ گیا اور بھاشن سننے لگا مودی جی  کے اچھے دن کے نعرے 15 لاکھ کے وعدے اور لچھے دار باتوں نے مجھےایسا اسیر بنایا کہ وہیں یٹھے بیٹھے سعودی نہ جانے کا فیصلہ کر لیا ، گھر آکر بیگم کو بتایا اب سعودی نہیں جاونگا مودی جی نے کہا ہے کہ الیکشن بعد سب کو 15 لاکھ روپئے ملیں گے سب کو نوکری اور روزگار ملے گا ، سب کے ساتھ سب کا وکاس ہوگا ، انکے وکاس کا حصہ بن کر اب میں یہیں کچھ کر لونگا  بیگم کے لئے اس سے خوشی کی بات کیا ہوتی جھٹ سے بولیں میں تو پہلے ہی کہ رہی تھی سعودی مت جائیں یہیں کچھ کرلیں لیکن آپ کو میری بات کہاں سمجھ میں آتی  جے ہو مودی جی کی جو انکی بات  آپکی سمجھ میں آگئی ، اب تو ووٹ مودی کو ہی دونگی ،  کونے والی چارپائی پر منھ میں پان دبائے بیٹھی اماں میری جذباتی  باتیں برداشت نہ کر سکیں پان تھوکتے ہوئے چھڑی کے سہارے میرے پاس آئیں اور کہا بیٹا ! اس ساٹھ سالہ زندگی میں ۔ میں نے بڑے سیاسی بھاشن سنے ہیں بڑی بڑی ریلیاں ، بڑے بڑے نعرے ، وعدے دیکھے ہیں وہ صرف سننے اور دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں حقیقت سے انکا کوئی سروکار نہیں ان سیاسی لوگوں کی باتوں کا بھروسہ مت کرو اگر انکی  باتوں میں سچائی اوردل میں حب الوطنی کا درد ہوتا تو یہ ملک کل سونے کی چڑیا تھا اور آج ہیرے کی چڑیا ہوتا ، میری بات مانو لگی لگائی روزی کو مت ٹھکراؤ ، شیخ صاحب نے بڑی مشکل سے میرے کہنےپر تم کو ویزہ دیا تھا اگر تم سعودی نہیں گئے تو انکے اعتماد کو بہت ٹھیس پہونچے گا بہتر ہوگا تم ان سے بھی مشورہ کر لو اور جس مودی کی تم بات کر رہے ہو نا اس رنگ کا تو خربوزہ میٹھا نہیں ہوتا اور تم اس کے جملے کا بھروسہ کر رہے ہو ...  نہ بابا نہ میں محلے کے فرتو پر بھروسہ کر لونگی پر ایسے سیاسی لوگوں پر نہیں جو ماں کو چھوڑ جائیں اور بیوی سے دغا کر جائیں ،  اماں کی باتوں میں بڑی سچائی تھی ، لیکن مودی جی کا یہ جملہ کہ 3 مہینے بعد کھاتے میں 15 لاکھ  آجائے گا جو سعودی عرب پورے سال کما کر بھی اکٹھا نہیں کر سکتا یہ بات میرے دل و دماغ میں اسی طرح اتر گئی جس طرح ماں کے خلاف کانوں میں بھرے گئے بہو کے الفاظ بیٹوں کے سینے میں اتر جاتے ہیں ، مودی جی کی برہمنی چال اور دام فریب میں ایسا الجھا کہ اماں کے مرضی کے خلاف سعودی عرب نہ جانے کا فصلہ کر لیا ، الیکشن ختم ہو گیا مودی جی جیت گئے 7 ملکوں کے سربراہان کی موجودگی میں بڑی شان وشوکت کے ساتھ وزیر اعظم  کی شپتھ لے لی اور ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے میری آنکھوں میں امید کی چمک اور بڑھ گئی وقت گزرتا گیا لیکن انتظار کی گھڑیاں وہیں رکی رہ گئیں ایک سال بیت گیا سعودی سے کما کر لایا ہوا سارا پیسہ ختم ہوگیا ، بیگم کے پاس رکھے کچھ پیسوں سے گھر کی ضرورت پوری کرتا لیکن اب بچوں کی پڑھائی ، ٹیوشن کی فیس اماں کی دوائی کی فکر ہونے لگی ہر اتوار مودی جی کی من کی بات اس امید میں سنتا کہ شاید نوٹ بندی کی طرح کسی شام وہ یہ بھی اعلان کر دیں کہ سب کے کھاتے میں کل پندرہ لاکھ  جمع ہو ہونے والے ہیں تین سال بعد تھوڑی بہت  بچی امید یں اس دن دم  توڑ گئیں جس دن امت شاہ نے یہ کہ دیا کہ الیکشن کے دوران  کہی گئیں ساری باتیں صرف چناوی جملہ تھیں کف افسوس ملتا رہا اور سوچتا رہا کاش اماں کی باتوں پر عمل کیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے ہوتے دکھ و رنج میں بیٹھا سوچ رہا تھا اب کیا کروں کس کے آگے ہاتھ پھیلاؤں ، ماں قربانی ، جانفشانی ، محبت و شفقت کا وہ مقدس نام ہے دنیا میں جس کی کوئی مثال نہیں وہ اپنے بچے کو پریشان حال کیسے دیکھ سکتی ہے اسکی ممتا نے میری پریشان اور خاموش نگاہوں کو پڑھ لیا میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں بیٹا تیری ماں ابھی زندہ ہے تو کیوں پریشان ہوتا ہے اپنا پان دان کھولا اور اس میں رکھے کچھ  پیسے میرے ہاتھوں میں دیا اور کہا جا بازار سے ضرورت کے سامان اور بچوں کے لئے بسکٹ و چاکلیٹ لے کر آ ، آگے اللہ مالک ہے وہ اپنے بندوں پر بہت ہی مہربان ہے کوئی زریعہ بنائے گا بیمار ماں کی یہ حوصلہ کن باتیں سن کر میری آنکھیں بھر آئیں ماں کی محبت بے مثال ہےدنیا میں اسکی کوئی نظیر نہیں-
۔دوسرے ہی دن گاوں کے کچھ لوگ  بمبئی جا رہے تھے  میں بھی چالو ٹکٹ لیا اور انکے ساتھ بمبئی چلا گیا بھونڈی میں گاوں کے بہت سارے لوگوں کا پاور لوم  ہے جمال اور حبیب کی کوششوں سے ایک کارخانے میں ۸ ہزار ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے لگا 2 ہزار خرچ ہوجاتا 6 ہزار ہر مہینے گھر اماں کو بھیجتا جو آج کی اس مہنگائی کے دور میں کافی تو نہیں لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ضرور تھا 2 بچوں کے اسکول فیس ہر مہینہ اماں کی دوائی دوسرے اخراجات کیسے اماں پورا کرتی ہونگی یہ سوچ کر  پریشان ضرور رہتا  کبھی اماں کو فون کرکے پوچھتا تو کہتیں ہم سب خوش ہیں لیکن فون پر انکی کپکپاتی آواز سے لگتا سب کچھ ٹھیک نہیں والدہ نے بیگم کو منع کیا تھا کبھی گھر کی پریشانی کا ذکر جاوید سے نہیں کرنا ایک دن بیگم سے زبردستی پوچھا تو ڈرتے ہوئے بولی کی اماں اپنی دوا کے پیسےسے محمد کے اسکول کی فیس بھر دیتی ہیں جس سے انکی دوا ئی کا اکثر ناغہ ہو تا ہے فون رکھ کر گھنٹوں اپنی حالت زار پر روتا رہا  اپنی بیوقوفی اورسیاسی چالوں پر ماتم کرتا رہا اور اسکے علاوہ مجھ جیسا  کم عقل اور بے بس انسان کر کیا سکتا ہے ملک کے حالات پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو چکے ہیں لوم والوں کی مندی ہر طرف بے روزگاری ایسی حالت کو دیکھ کر سعودی اکثر یاد آتا کہ وہاں کی ہزار ریال تنخواہ میں اتنی برکت تھی کہ بیوی بچوں کا خرچ اماں کی دوائی شادی بیاہ رسم و رواج ساری زمہ داریاں مختصر ہی صحیح لیکن  بخوبی پوری ہو جاتی تھیں ۔

یہاں تک کہ میرے بھیجے ہوئے پیسے سے اماں بچا کر چھوٹی بہن کی شادی کے لئے  کچھ زیور اور دوسرے سامان بھی بنا لئے تھے لیکن اب بھیونڈی کی کمائی سے بچوں کے پیٹ بھر جائیں یہی بہت ہے  دوسری اخراجات کہاں ممکن ۔۔ ذہن میں بہت سارے سوالات لئے خود سے باتیں کرتے لوم کے سامنے کھڑا تھا کہ ادھر مہتا جی کی آواز آئی کی جاوید گاؤں سے تمہارا فون ہے دل دھک سے کیا اللہ خیر کرے آج تک گھر سے کبھی فون نہیں آیا کیا ہوسکتا ہے فون اٹھایا  ہلو کون .... جاوید میں گاؤں سے رفیق بول رہا ہوں تمہاری والدہ کی طبیعت زیادہ خراب ہے یہیں سرکاری ہاسپیٹل میں ایڈمیٹ ہیں سرکاری اسپتالوں کی حالت تم تو جانتے ہو دوائی ہے تو ڈاکٹر نہیں ، ڈاکٹر ہیں تو بیڈ نہیں ، صبح سے شام تک شکلا جی  ، پانڈے جی  ، روم نمبر دس میں جاو ، بیس میں جاو کے چکر میں پورا دن ختم ہوجاتا ہے اس کنڈیشن میں یہاں فوری علاج ممکن نہیں تمہیں یاد بھی کر رہی ہیں تو آجاو تو کہیں آگے دیکھتے ہیں یہ سنتے ہی جیسے میرے پیروں سے زمین نکل گئی میری آواز میرے گلے میں اٹک کر رہ گئی فون رکھ کر وہی بیٹھ گیا آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مہتا جی سمجھ گئے کچھ انہونی ہوگئ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا بیٹا کیا ہوا ... ماں بہت بیمار ہے میں انکا اکلوتا بیٹا ہوں میرے سوا انکا کوئی نہیں وہ مجھے یاد کر رہی ہیں مہتا جی فورا مجھے آفس لے گئے سیٹھ سے کہ کر 5 ہزار روپیہ دلوایا گاڑی پر بیٹھایا سیدھا اسٹیشن لے گئے اتفاق سے گئودان ایکسپریس چھوٹنے ہی والی تھی ویٹنگ ٹکٹ لیکر سوار ہو گیا دوسرے دن سرائمیر اسٹیشن پہنچا باہر نکلا تو دیکھا ببلو اور احسان میرے انتظار میں کھڑے ہیں اماں کی حالت کو جانتے تھے اس لئے جلدی سے مجھے گاڑی پر بیٹھایا اور تیزی سے نکلے گاڑی ابھی ننداؤں موڑ  پر ہی پہونچی تھی کہ ببلو کے موبائیل پر فون آیا کہ اماں انتقال کر گئیں جس ماں نے ساری زندگی اپنا آنچل نچوڑ نچوڑ کر میری پیاس بجھائی اس ماں کو آخری لمحے میں ایک قطرہ پانی پلانا میرے نصیب میں نہ تھا  باپ کا سایہ تو بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا ماں کا سایہ ہر تپش سے بچاتا تھا آج اس سے بھی محروم ہوگیا گھر پہونچا تو رسما کاندھا دینے والے دوست احباب رشتے داروں سے دروازہ بھرا پڑا تھا اندر گیا تو چھوٹی بہن کے رونے کی آواز سن کر جیسے کلیجہ ہی  پھٹ گیا ۔ اسکے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوسکی میرا ضبط ٹوٹتا تو وہ بکھر جاتی آنسوؤں کو پی کر باہر آیا بزرگوں نے نماز جنازہ کا وقت طے کیا عصر بعد تدفین ہو گئی سارے رشتے دار چلے گئے اماں کی بہن سروری خالہ اور  محلے کی ہاجرہ دادی کے سوا کوئی میرے ساتھ نہ تھا ایسا لگا جیسے ایک طوفان آیا سب کچھ بہا لے گیا اور میں اکیلا بچ گیا ۔۔

آج چار سال بعد پھر الیکشن آگیا ، پھر بھاشن ہوگا پھر جملے بازی ہوگی پھر سیکولر ، کمیونل کارڈ کھیلا جائے گا ، سیاست داں ، کار کرتا سیاسی و ذاتی مفاد کی خاطر ہم جیسے عام لوگوں کے جذبات سے کھلیں گے ، جھوٹے نعروں  ، وعدوں ، جملوں سے ہمارا استحصال کریں گے مقاصد پورے ہونے بعد پھر آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دینگے ، کمیونل آپ کو مارے گا ، سیکولر خاموش رہے گا آپ اس ملک میں کیا ہیں ، آپ کا وقار کیا ہے ، سیاسی ، تعلیمی ، معاشی اعتبار سے آپکی حیثیت کیا ہے اس کا فیصلہ آپ خود کرئیے گا ۔