فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تبارک وتعالی نے بیشمار انعامات سے انسان کونوازا، زبان بھی اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک قیمتی نعمت ہے، زبان اگرچہ چھوٹی ہے لیکن تمام اعمال کے اندر شریک ہوتی ہے،زبان اللہ تبارک وتعالی کی امانت ہے، جوشخص اسے شریعت کے حدودودائرے میں رہ کر اس کا استعمال کریگا تواسے سیدھے راہ کی طرف لیجائے گی، لیکن اگر اسے آزاد چھوڑدیا، اور اسے جہنم کی راہ کی جانب گامزن کرتی ہے، زبان کی حفاظت ہر مسلمان کے لئے لازم ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کی بات بولنے یا خاموش رہنے کی تلقین کیا ہے، زبان کوجب انسان آزاد چھوڑ دیتاہے تو بہت سی خرابیاں پیداہوتی ہیں، انہی بیماریوں میں سے ایک غیبت بھی ہے.
غیبت کی تعریف اورحکم
غیبت ایک شنیع بیماری ہے جوانسانوں کے نیکیوں کو کھا جاتا ہے، غیبت کی تعریف فرماتے ہوئے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ذکرك اخاك بمایکرہ" یعنی اپنے مسلمان بھائی کا ایسی برائی کاتذکرہ کرنا جواسے ناگوار گزرے،غیبت تبھی ہوگی جب وہ برائی اس بھائی کے اندر موجود ہو، اگر اس کے اندر وہ برائی موجود نہ ہو،تو وہ بہتان ہے.
بہتان غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے، غیبت عام ہے خواہ مال ودولت کے، دین یادنیا، بیوی بچہ، لباس وغیرہ کے سلسلہ میں کی جائے.
غیبت کی حرمت قرآن وحدیث سے ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالی نے غیبت کواپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دیاہے، یقینا انسان اپنے مرے بھائی کے گوشت کھانے کو برا سمجھتا ہے،اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کومخاطب کرکے فرمایا کہ تم اپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے کو ناپسندکرتے ہو،جب تم اسے ناپسند سمجھتے ہو تو غیبت کو بھی ناپسند سمجھو.
غیبت کاکفارہ
بیھقی شریف کی روایت ہے کہ آقانے فرمایا، غیبت کاکفارہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی سے اپنے لئے اورجس کی غیبت کی ہے، اس کے حق میں استغفار کرے، مشہورمحدث ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے مرقات المفاتیح میں روضہ العلماء کے حوالہ سے امام محمد رحمہ اللہ کاقول نقل کیا، کہ غیبت کرنے والی کی توبہ نفع بخش تبھی ہے جب وہ بات جس کی غیبت کی گئی ہے اس تک نہ پہنچی ہو، لیکن اگر غیبت کرنے والے تک وہ بات پہنچ گئی تواب صرف اللہ کے دربار میں توبہ کرنے سے وہ توبہ قبول نہی ہوگی بلکہ اب اس میں بندہ کاحق متعلق ہوگیاہے.
اب غیبت کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ جس کی اس نے غیبت کی ہے اس سے معافی طلب کرے، اپنے مسلمان بھائی سے کہے کہ میں نے آپ کی فلاں برائی کاتذکرہ میں نے لوگوں کے سامنے یافلاں شخص سے کیاتھا، جس کی غیبت کی گئی ہے اگر اس نے معاف کردیا توآخرت میں کوئی مواخذہ نہی ہوگا، ورنہ قیامت کے دن اس پر جس کی اس نے غیبت کی ہے اس کاحق رہے گا.
اگر کسی نے اپنے مسلمان بھائی کی کسی برائی کاتذکرہ کیا، اور اس بھائی تک یہ بات ابھی نہی پہنچی تھی تبھی اس نے توبہ کرلیا، توبہ کرنے کے بعدجس کی غیبت کی گئی تھی اس تک وہ بات پہنچ گئی توکیاغیبت کرنے والے شخص کی یہ توبہ قبول ہوگی یانہی،تواس کے بارے میں امام محمد شیبانی رحمہ اللہ نے فرمایا، اللہ کی ذات سےیہی امید ہے کہ اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرے گا، اللہ تعالی بڑا معاف کرنے والا ہے.
مباح غیبت
علماء کرام نے احادیث شریف کی روشنی میں چند لوگوں کی غیبت کومباح قراردیاہے، مذکورہ افراد کی غیبت کرنا جائز ہے.
علامہ نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین میں فرمایا ہے کہ چھ لوگوں کی غیبت کرنا جائز ہے بشرطیکہ نیت خالص ہو.
۱.ظلم.مظلوم شخص کے لئے جائز ہے کہ ظالم کی قاضی یابادشاہ سے ظلم کوروکنے کے لئے شکایت کرے، اس کی اجازت ہے، ظالم کے ظلم کی شکایت غیبت میں داخل نہیں.
۲.برائی کوروکنے میں مدد کرنے کے لئے اورگناہ گار کودرست راہ پر لانے کی غرض سے کسی ایسے شخص سے کہناجواس گناہ کوروکنے پر قادر ہو مثلا کسی شخص کالڑکا غلط کام میں ملوث ہو اس کی عادت بری ہو، اب اس کے باپ سے اس برائی کی شکایت کرنا تاکہ اس کے والد اس کو ڈانٹے اور برائی سے باز رہے، نیت یہ ہوکہ برائی کا ازالہ ہو تب جائز ہے، کسی اور مقصد سے غیبت کیاتوحرام ہے.
۳.تیسری صورت غیبت مباح کی یہ ہے مفتی سے فتوی طلب کررہاہے توایسی شکل میں باپ بھائی بیوی وغیرہ کے ظلم وستم تذکرہ کرناجائز ہے.
۴چوتھی جواز کی صورت یہ ہے کہ کسی سے کسی چیز کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیاجارہاہے تواس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی حالت کو بالکل نہ چھپائے، بلکہ خیر خواہی کی نیت سے اس کی تمام برائیوں کا ذکر کردے، مثلا کسی سے رشتہ کے لئے کسی لڑکے کے سلسلہ میں پوچھا گیا کہ لڑکاکیسا ہے تومشورہ دینے والے کے لئے لازم ہے خیر خواہی کی نیت سے لڑکے کی صحیح حالت سے واقف کرائے، اس کے اندر جوجوبرائی ہو اس کاتذکرہ کردے، بشرطیکہ نیت درست ہو.
۵؛کوئی آدمی کھلے طور پر فسق وفجور میں مبتلا ہو بدعت اختیار کرنے والاہو، مثلا اعلانیہ شراب نوشی کرتاہے، لوگوں کامال ظلمالے لیتاہے، اور ان سے بھتہ وصول کرتاہے، تواس کاتذکرہ کھلم کھلا کرنا ضروری ہے، اس پر گناہ نہیں.
۶؛مشہور نام سے پکارنا جب کوئی آدمی کسی لقب سے مشہور ہوجائے، اور اس لقب میں اس کی غیبت ہو تومشہور نام سے اس کاتذکرہ جائز ہے، جیسے ، اعرج کے معنی لنگڑا کے ہیں، لیکن اسی نام سے مشہور ہیں اس لئے اسی نام سے تذکرہ جائز ہے.
غیبت کی یہ چھ صورت مباح ہے، اس کے علاوہ تمام صورتیں حرام ہیں، حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہے.
غیبت کی حرمت اور ہمارا مسلم معاشرہ
غیبت ایک شنیع اوروقبیح فعل ہے، بدترین قسم کاحرام ہے، زنا سے بھی سخت گناہ اللہ کے نبی نے قراردیا ہے، لیکن افسوس ہماری مجلسیں غیبت سے خالی شاذونادر ہی ہوتی ہیں، عوام کوچھوڑئیے خواص بھی اس وباسے محفوظ نہی، ہم غیبت کرکے اپنے آخرت کوتباہ وبرباد کررہے ہیں، دوسروں کی غیبت کرکے اپنی نیکیاں اسے دے رہے ہیں، کیونکہ قیامت کے دن ہرچیز کاحساب ہوگا، اگر ہم نے دنیا میں دوسروں کی غیبت کی توہماری تہجد ہماری نفلی عبادتیں، فرائض کااہتمام ہمیں جہنم میں جانے سے ہرگز نہی روک سکتی، مسلم شریف کی روایت ہے، ایک متقی شخص کو قیامت کے دن حاضرکیاجائے گا،جس نے دنیا میں بہت زیادہ عبادت کی ہوگی، لیکن اس کی عادت یہ تھی کہ دنیا میں لوگوں کوتکلیف دیتاتھا، لوگوں کوگالیاں دیتا تھا، ان کی غیبت کرتاتھا، اس کے گناہ کے عوض اس کی نیکیاں جس کودنیا میں ستایاہے، دیدی جائیں گی، جب اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی توان کے گناہ اس پر لاد دئیے جائیں گے، اوراسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا، اگر ہم دنیا میں لوگوں کی غیبت کررہے ہیں، لوگوں کی برائیاں کرتے پھر رہے ہیں، توہم اپنی تہجد اور دوسری عبادتوں پر ہرگز ناز نہ کریں، یہ عبادتیں ہمیں جہنم میں جانے سے ہرگز نہی بچاسکتی ہیں، اس لئے ہم پر لازم ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں، غیبت اوردوسرے گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں،عبادت کرلیناکمال نہی بلکہ اس کی حفاظت کرنا اس کوضائع ہونے سے بچاناکمال ہے، اللہ تعالی ہم سب کو ان گناہوں سے بچنے کی توفیق دے...آمین..
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تبارک وتعالی نے بیشمار انعامات سے انسان کونوازا، زبان بھی اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک قیمتی نعمت ہے، زبان اگرچہ چھوٹی ہے لیکن تمام اعمال کے اندر شریک ہوتی ہے،زبان اللہ تبارک وتعالی کی امانت ہے، جوشخص اسے شریعت کے حدودودائرے میں رہ کر اس کا استعمال کریگا تواسے سیدھے راہ کی طرف لیجائے گی، لیکن اگر اسے آزاد چھوڑدیا، اور اسے جہنم کی راہ کی جانب گامزن کرتی ہے، زبان کی حفاظت ہر مسلمان کے لئے لازم ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کی بات بولنے یا خاموش رہنے کی تلقین کیا ہے، زبان کوجب انسان آزاد چھوڑ دیتاہے تو بہت سی خرابیاں پیداہوتی ہیں، انہی بیماریوں میں سے ایک غیبت بھی ہے.
غیبت کی تعریف اورحکم
غیبت ایک شنیع بیماری ہے جوانسانوں کے نیکیوں کو کھا جاتا ہے، غیبت کی تعریف فرماتے ہوئے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ذکرك اخاك بمایکرہ" یعنی اپنے مسلمان بھائی کا ایسی برائی کاتذکرہ کرنا جواسے ناگوار گزرے،غیبت تبھی ہوگی جب وہ برائی اس بھائی کے اندر موجود ہو، اگر اس کے اندر وہ برائی موجود نہ ہو،تو وہ بہتان ہے.
بہتان غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے، غیبت عام ہے خواہ مال ودولت کے، دین یادنیا، بیوی بچہ، لباس وغیرہ کے سلسلہ میں کی جائے.
غیبت کی حرمت قرآن وحدیث سے ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالی نے غیبت کواپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دیاہے، یقینا انسان اپنے مرے بھائی کے گوشت کھانے کو برا سمجھتا ہے،اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کومخاطب کرکے فرمایا کہ تم اپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے کو ناپسندکرتے ہو،جب تم اسے ناپسند سمجھتے ہو تو غیبت کو بھی ناپسند سمجھو.
غیبت کاکفارہ
بیھقی شریف کی روایت ہے کہ آقانے فرمایا، غیبت کاکفارہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی سے اپنے لئے اورجس کی غیبت کی ہے، اس کے حق میں استغفار کرے، مشہورمحدث ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے مرقات المفاتیح میں روضہ العلماء کے حوالہ سے امام محمد رحمہ اللہ کاقول نقل کیا، کہ غیبت کرنے والی کی توبہ نفع بخش تبھی ہے جب وہ بات جس کی غیبت کی گئی ہے اس تک نہ پہنچی ہو، لیکن اگر غیبت کرنے والے تک وہ بات پہنچ گئی تواب صرف اللہ کے دربار میں توبہ کرنے سے وہ توبہ قبول نہی ہوگی بلکہ اب اس میں بندہ کاحق متعلق ہوگیاہے.
اب غیبت کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ جس کی اس نے غیبت کی ہے اس سے معافی طلب کرے، اپنے مسلمان بھائی سے کہے کہ میں نے آپ کی فلاں برائی کاتذکرہ میں نے لوگوں کے سامنے یافلاں شخص سے کیاتھا، جس کی غیبت کی گئی ہے اگر اس نے معاف کردیا توآخرت میں کوئی مواخذہ نہی ہوگا، ورنہ قیامت کے دن اس پر جس کی اس نے غیبت کی ہے اس کاحق رہے گا.
اگر کسی نے اپنے مسلمان بھائی کی کسی برائی کاتذکرہ کیا، اور اس بھائی تک یہ بات ابھی نہی پہنچی تھی تبھی اس نے توبہ کرلیا، توبہ کرنے کے بعدجس کی غیبت کی گئی تھی اس تک وہ بات پہنچ گئی توکیاغیبت کرنے والے شخص کی یہ توبہ قبول ہوگی یانہی،تواس کے بارے میں امام محمد شیبانی رحمہ اللہ نے فرمایا، اللہ کی ذات سےیہی امید ہے کہ اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرے گا، اللہ تعالی بڑا معاف کرنے والا ہے.
مباح غیبت
علماء کرام نے احادیث شریف کی روشنی میں چند لوگوں کی غیبت کومباح قراردیاہے، مذکورہ افراد کی غیبت کرنا جائز ہے.
علامہ نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین میں فرمایا ہے کہ چھ لوگوں کی غیبت کرنا جائز ہے بشرطیکہ نیت خالص ہو.
۱.ظلم.مظلوم شخص کے لئے جائز ہے کہ ظالم کی قاضی یابادشاہ سے ظلم کوروکنے کے لئے شکایت کرے، اس کی اجازت ہے، ظالم کے ظلم کی شکایت غیبت میں داخل نہیں.
۲.برائی کوروکنے میں مدد کرنے کے لئے اورگناہ گار کودرست راہ پر لانے کی غرض سے کسی ایسے شخص سے کہناجواس گناہ کوروکنے پر قادر ہو مثلا کسی شخص کالڑکا غلط کام میں ملوث ہو اس کی عادت بری ہو، اب اس کے باپ سے اس برائی کی شکایت کرنا تاکہ اس کے والد اس کو ڈانٹے اور برائی سے باز رہے، نیت یہ ہوکہ برائی کا ازالہ ہو تب جائز ہے، کسی اور مقصد سے غیبت کیاتوحرام ہے.
۳.تیسری صورت غیبت مباح کی یہ ہے مفتی سے فتوی طلب کررہاہے توایسی شکل میں باپ بھائی بیوی وغیرہ کے ظلم وستم تذکرہ کرناجائز ہے.
۴چوتھی جواز کی صورت یہ ہے کہ کسی سے کسی چیز کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیاجارہاہے تواس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی حالت کو بالکل نہ چھپائے، بلکہ خیر خواہی کی نیت سے اس کی تمام برائیوں کا ذکر کردے، مثلا کسی سے رشتہ کے لئے کسی لڑکے کے سلسلہ میں پوچھا گیا کہ لڑکاکیسا ہے تومشورہ دینے والے کے لئے لازم ہے خیر خواہی کی نیت سے لڑکے کی صحیح حالت سے واقف کرائے، اس کے اندر جوجوبرائی ہو اس کاتذکرہ کردے، بشرطیکہ نیت درست ہو.
۵؛کوئی آدمی کھلے طور پر فسق وفجور میں مبتلا ہو بدعت اختیار کرنے والاہو، مثلا اعلانیہ شراب نوشی کرتاہے، لوگوں کامال ظلمالے لیتاہے، اور ان سے بھتہ وصول کرتاہے، تواس کاتذکرہ کھلم کھلا کرنا ضروری ہے، اس پر گناہ نہیں.
۶؛مشہور نام سے پکارنا جب کوئی آدمی کسی لقب سے مشہور ہوجائے، اور اس لقب میں اس کی غیبت ہو تومشہور نام سے اس کاتذکرہ جائز ہے، جیسے ، اعرج کے معنی لنگڑا کے ہیں، لیکن اسی نام سے مشہور ہیں اس لئے اسی نام سے تذکرہ جائز ہے.
غیبت کی یہ چھ صورت مباح ہے، اس کے علاوہ تمام صورتیں حرام ہیں، حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہے.
غیبت کی حرمت اور ہمارا مسلم معاشرہ
غیبت ایک شنیع اوروقبیح فعل ہے، بدترین قسم کاحرام ہے، زنا سے بھی سخت گناہ اللہ کے نبی نے قراردیا ہے، لیکن افسوس ہماری مجلسیں غیبت سے خالی شاذونادر ہی ہوتی ہیں، عوام کوچھوڑئیے خواص بھی اس وباسے محفوظ نہی، ہم غیبت کرکے اپنے آخرت کوتباہ وبرباد کررہے ہیں، دوسروں کی غیبت کرکے اپنی نیکیاں اسے دے رہے ہیں، کیونکہ قیامت کے دن ہرچیز کاحساب ہوگا، اگر ہم نے دنیا میں دوسروں کی غیبت کی توہماری تہجد ہماری نفلی عبادتیں، فرائض کااہتمام ہمیں جہنم میں جانے سے ہرگز نہی روک سکتی، مسلم شریف کی روایت ہے، ایک متقی شخص کو قیامت کے دن حاضرکیاجائے گا،جس نے دنیا میں بہت زیادہ عبادت کی ہوگی، لیکن اس کی عادت یہ تھی کہ دنیا میں لوگوں کوتکلیف دیتاتھا، لوگوں کوگالیاں دیتا تھا، ان کی غیبت کرتاتھا، اس کے گناہ کے عوض اس کی نیکیاں جس کودنیا میں ستایاہے، دیدی جائیں گی، جب اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی توان کے گناہ اس پر لاد دئیے جائیں گے، اوراسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا، اگر ہم دنیا میں لوگوں کی غیبت کررہے ہیں، لوگوں کی برائیاں کرتے پھر رہے ہیں، توہم اپنی تہجد اور دوسری عبادتوں پر ہرگز ناز نہ کریں، یہ عبادتیں ہمیں جہنم میں جانے سے ہرگز نہی بچاسکتی ہیں، اس لئے ہم پر لازم ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں، غیبت اوردوسرے گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں،عبادت کرلیناکمال نہی بلکہ اس کی حفاظت کرنا اس کوضائع ہونے سے بچاناکمال ہے، اللہ تعالی ہم سب کو ان گناہوں سے بچنے کی توفیق دے...آمین..