مولانا فرقان بدر قاسمی اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
1947ء میں ملک آزاد ہوا، اور بدقسمتی سے تقسیم بھی ہوگیا، تقسیم کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا، جس سے مسلمانوں کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا، اس وقت سے وطن عزیز میں مذہبی منافرت کا جو سلسلہ شروع ہوا، تاحال جاری ہے، بلکہ آج فرقہ پرستی کا ناگ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
مولانا آزاد نے اسی تناظر میں کہاتھا کہ جب مسلم قائدین مذہب کے نام پر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر راضی ہوگئے، اسی وقت دونوں طرف کے مسلمان کمزور ہوگئے، لاکھ کوششوں کے باوجود دونوں ملک کے مسلمان ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کرسکتے، آج سے ابد تک ہندوستانی مسلمان ہندوٶں کےظلم کا شکار رہے گا، تقسیم وطن سے ان کو مسلمانوں پر ظلم کرنے کا حق گویا کہ آٸینی طور پر مل گیا۔
مولانا آزاد کی بات حرف بحرف سچ ثابت ہورہی ہے، آزادی کے بعد ہی سے آر ایس ایس، جن سنگھ، ہندو مہاسبھا مسلمانوں کو حاشیہ پر لگانے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں، کانگریس کی نرم ہندوتو پالیسی کی وجہ سے فرقہ پرستی کو فروغ ملا، اور اب فرقہ پرستی کا ناگ سرچڑھ کر بول رہا ہے.
کانگریس سیکولر پارٹی ضرور ہے، سیکولرزم میں یقین بھی رکھتی ہے، لیکن ٦٠۔٦٥ سال کے دور اقتدار میں اکثریت کو ذہن میں رکھ کر فرقہ پرست ذہنیت کو نظرانداز کرتی رہی، اس کے سدباب کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، جبکہ دانشوران، ملی قائدین اور سیکولر برادران وطن نے گانگریس قیادت کو ہمیشہ اس خطرے سے متنبہ کیا، اقتدار کے مزے لینے والوں نے ان کی اس بات کو اہمیت نہیں دی، چنانچہ فرقہ پرست ذہنیت مسلسل ہندوستانی سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہی اور پورے ملک ملک میں نفرت کا بیج بودیا، اس وقت اسکی کوکھ سے منافرت اور فرقہ واریت کے ایسے ایسے کالے ناگ برآمد ہوئے ہیں جو کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھے۔
2014ء میں آخر وہی ہوا جس کا اندازہ سب کو ہوچلا تھا، آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کرنے والی فرقہ پرست پارٹی کی حکومت بنی، ظلم وستم کا ایک ناتلافی سلسلہ شروع ہوا اور درازتر ہوتا چلا جارہا ہے، نہ جانے کتنی معصوم جانیں فرقہ پرستی کی نظر ہوگئیں۔
فرقہ پرست حکومت اور اسکے کارندے نئے نئے روپ دھار کر مسلمانوں پر حملہ آور ہیں، اور منصوبہ بند طریقہ سے اپنے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ خاموش ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، ہمیں گردن جھکا کر اپنے گریبانوں میں جھانکنے، محاسبہ کرنے، اپنے عمل اور ردعمل کا جائزہ لینے کی کہاں فرصت؟ وقتی طور پر شور و غوغا اور ظلم کا رونا روتے ہیں اور خاموش بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان خاموشی سے کوئی لائحہ عمل اور منصوبہ بنائیں، جس سے ملت نفسیاتی خوف سے نکل سکے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
1947ء میں ملک آزاد ہوا، اور بدقسمتی سے تقسیم بھی ہوگیا، تقسیم کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا، جس سے مسلمانوں کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا، اس وقت سے وطن عزیز میں مذہبی منافرت کا جو سلسلہ شروع ہوا، تاحال جاری ہے، بلکہ آج فرقہ پرستی کا ناگ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
مولانا آزاد نے اسی تناظر میں کہاتھا کہ جب مسلم قائدین مذہب کے نام پر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر راضی ہوگئے، اسی وقت دونوں طرف کے مسلمان کمزور ہوگئے، لاکھ کوششوں کے باوجود دونوں ملک کے مسلمان ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کرسکتے، آج سے ابد تک ہندوستانی مسلمان ہندوٶں کےظلم کا شکار رہے گا، تقسیم وطن سے ان کو مسلمانوں پر ظلم کرنے کا حق گویا کہ آٸینی طور پر مل گیا۔
مولانا آزاد کی بات حرف بحرف سچ ثابت ہورہی ہے، آزادی کے بعد ہی سے آر ایس ایس، جن سنگھ، ہندو مہاسبھا مسلمانوں کو حاشیہ پر لگانے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں، کانگریس کی نرم ہندوتو پالیسی کی وجہ سے فرقہ پرستی کو فروغ ملا، اور اب فرقہ پرستی کا ناگ سرچڑھ کر بول رہا ہے.
کانگریس سیکولر پارٹی ضرور ہے، سیکولرزم میں یقین بھی رکھتی ہے، لیکن ٦٠۔٦٥ سال کے دور اقتدار میں اکثریت کو ذہن میں رکھ کر فرقہ پرست ذہنیت کو نظرانداز کرتی رہی، اس کے سدباب کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، جبکہ دانشوران، ملی قائدین اور سیکولر برادران وطن نے گانگریس قیادت کو ہمیشہ اس خطرے سے متنبہ کیا، اقتدار کے مزے لینے والوں نے ان کی اس بات کو اہمیت نہیں دی، چنانچہ فرقہ پرست ذہنیت مسلسل ہندوستانی سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہی اور پورے ملک ملک میں نفرت کا بیج بودیا، اس وقت اسکی کوکھ سے منافرت اور فرقہ واریت کے ایسے ایسے کالے ناگ برآمد ہوئے ہیں جو کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھے۔
2014ء میں آخر وہی ہوا جس کا اندازہ سب کو ہوچلا تھا، آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کرنے والی فرقہ پرست پارٹی کی حکومت بنی، ظلم وستم کا ایک ناتلافی سلسلہ شروع ہوا اور درازتر ہوتا چلا جارہا ہے، نہ جانے کتنی معصوم جانیں فرقہ پرستی کی نظر ہوگئیں۔
فرقہ پرست حکومت اور اسکے کارندے نئے نئے روپ دھار کر مسلمانوں پر حملہ آور ہیں، اور منصوبہ بند طریقہ سے اپنے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ خاموش ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، ہمیں گردن جھکا کر اپنے گریبانوں میں جھانکنے، محاسبہ کرنے، اپنے عمل اور ردعمل کا جائزہ لینے کی کہاں فرصت؟ وقتی طور پر شور و غوغا اور ظلم کا رونا روتے ہیں اور خاموش بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان خاموشی سے کوئی لائحہ عمل اور منصوبہ بنائیں، جس سے ملت نفسیاتی خوف سے نکل سکے۔