محمد سالم سریانوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
’’صحت‘‘ اور ’’تندرستی‘‘ اللہ تعالی کی ان نعمتوں میں ہے جن کا نعمت ہونا تقریبا ہر شخص محسوس کرتا ہے، اورہر ایک اپنے کو اس نعمت کے تحت دبا ہوا بھی محسوس کرتا ہے، اسی لیے احادیث میں اس نعمت کی قدر دانی کرنے اور اس زمانے میں زیادہ سے زیادہ اعمال خیر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن اس کے بر عکس ’’بیماری‘‘ ہے، جس کو عام طور سے عیب اور ظلم سمجھا جاتا ہے،
جب کہ یہ بات مبنی بر حقیقت نہیں ہے، اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بیماری ایک منفی پہلو کا نام ہے، جب کہ شریعت اسلامیہ میں اس کو بھی مؤمن کے لیے خیر وبرکت کا ذریعہ بنایا گیا ہے، اور اس کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ آدمی اس کو اپنے لیے باعث نفرت نہ سمجھے، بل کہ اس میں بھی اپنے کو خیر وبھلائی کا طالب اور امید وار بنائے، اسی لیے مختلف احادیث میں معمولی معمولی تکالیف پر صدقہ وغیرہ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، اور آدمی کو یہ احساس دلایا گیا کہ یہ بیماریاں بھی باعث خیر ہیں اور ان پر جہاں بندوں کے گناہ جھڑتے ہیں وہیں پر اس کے درجات کو بھی بلند کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہمارے مبارک پور میں ’’یرقان‘‘ (پیلیا) کا قہر جاری ہے، کئی ہفتوں سے اس بیماری سے ایک طبقہ جوجھ رہا ہے، جس میں دو تین افراد لقمۂ اجل بھی ہوچکے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایک بیماری ہے جو اللہ رب العزت کی پیدا کردہ ہے، وہ اگر کسی کو اس کے باعث موت دیدے تو انسان کیا کرسکتا ہے، یہ بیماریاں صرف باعث تکلیف نہیں ہوتی ہیں؛ بل کہ ان کے پیچھے اللہ رب العزت کی بہت سی عطایا چھپی ہوتی ہیں، لیکن انسان کو اللہ تعالی نے ظاہر کا مکلف بنایا ہے، اور اس کو اس کا پابند کیا ہے کہ وہ اس کی ذات پر بھروسہ وتوکل کرتے ہوئے اسباب ظاہرہ کو اختیار کرے اور اپنے آپ کو مصائب وبلا سے محفوظ کرنے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرے، اس ضمن میں چند چیزیں ہیں جو ہمارے لیے کرنے کی ہیں۔
(1) بیماریوں کے مواقع پر بنیادی طور سے ان کو اپنے لیے باعث مصیبت نہ سمجھیں، بل کہ اللہ تعالی سے بہتری اور بھلائی کی امید رکھیں۔
(2) جیسے ہی کسی بیماری مثلا یرقان وغیرہ کا علم ہوتو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اسی کو شافی سمجھتے ہوئے مناسب علاج کا انتظام کریں، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ، ان کا علاج بھی پیدا کیا ہے، بخاری شریف کی روایت میں ہے ’’ما أنزل اﷲ داء إلا أنزل لہ شفاء‘‘ (کتاب الطب) کہ اللہ تعالی نے جو بھی بیماری نازل کی ہے تو اس کی شفا کا بھی نزول فرمایا ہے، بعض روایات میں ’’تداووا‘‘ کا لفظ بھی منقول ہے کہ دوا وعلاج کرو، اور یہ چیز توکل کے خلاف نہیں ہے۔
(3) جیسے بیماریوں کا ظاہری علاج کیا جاتا ہے کہ ایسے ہی اس کے باطنی علاج کا بھی راستہ اختیار کیا جائے، قرآن وحدیث میں یہ بات مصرح ہے کہ حالات ومصائب انسانوں کی غلط کرتوتوں کی وجہ سے آتے ہیں، اس لیے کہ جب اللہ رب العزت ناراض ہوتے ہیں تو وہ اپنے بندوں کو جانچنے کے لیے مختلف مصائب کا نزول فرماتے ہیں، اسی لیے احادیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ مصیبتوں اور بلاؤں کو صدقہ کے ذریعہ دور کرو، ایک روایت میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا گیا ہے ’’داووا مرضاکم بالصدقۃ‘‘ (بیہقی وغیرہ) کہ اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو، اس روایت کے بعض روات پر اگرچہ کلام کیا گیا ہے، لیکن اس کا مفہوم ثابت ہے، بل کہ بعض ائمہ نے اس روایت کو صحیح بھی کہا ہے۔
(4) جیسے صدقہ کے ذریعہ بیماری کو دور کرنے کی کوشش کی جائے اسی طرح خود اللہ رب العزت کے حضور دعاؤں کا بھی اہتمام کیا جائے، اور اس ذات سے بیماری کو دور کرنے کی درخواست کی جائے جس نے خود بیماری دی ہے۔
(5) جو حضرات اہل ثروت ہیں اور اللہ نے ان کو اپنی عطا سے نوازا ہے تو ایسے افراد بیمار حضرات کی خبر گیری اور ایسے افراد کے علاج معالجہ کا نظم کریں جن کے پاس علاج کرانے کا نظم ہو، جہاں یہ اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے وہیں پر اخوت اسلامی کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے۔
(6) جو حضرات حکومت اور عہدہ داروں تک رسائی رکھتے ہوں وہ متعلقہ حکام اور ذمہ داروں تک بات کو پہنچائیں اور ان سے بروقت مناسب انتظام کرنے کی درخواست کریں۔
(7) بیمار کے دیگر اقرباء اور اعزہ واحباب بھی اس تعلق سے فکر مند ہوں اور ان کی دیکھ ریکھ اور حال چال لیتے رہیں اور ضرورت پڑنے پر ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار رہیں ، اس لیے کہ انسانوں کو جسم واحد کے مانند قرار دیا گیا ہے، اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو دوسرا بھی اس درد وتکلیف کو محسوس کرے۔
(8) وہ افراد جو طب اور داکٹری سے جڑے ہوئے ہیں وہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دیتے رہیں اور لوگوں کو بھی احتیاطی تدابیر سے روشناس کرانے کی فکر کریں، ایسی صورت میں وہ خود رب العالمین کے تعاون کے حق دار ہوں گے۔اس سلسلہ میں اگر کیمپ لگانے کی ضرورت محسوس ہو تو اس کا بھی نظم کریں۔
سر دست یہ چند چیزیں ذہن میں آئین، جن کو اس امید پر پیش کیا گیا ہے کہ جو حضرات بیماریوں سے دوچار ہیں وہ خیر وبھلائی کی امید رکھیں اور جو حضرات معاشرہ میں اس میں تعاون کرسکتے ہوں وہ بھی اس میں حصہ لیں اور دوسروں کی مدد کرکے آخرت میں اجر عظیم کے مستحق ہوں، ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ بہت سے افراد اس سلسلہ میں فکر مند ہیں اور ہر طرح کی کوششیں کررہے ہیں، اللہ ان کی کوششوں کو قبول فرمائے، ہم سب کو بیماریوں سے محفوظ فرمائے اور جو حضرات بیمار ہیں ان کو جلد از جلد شفا عطا فرمائے۔ (آمین)
واللہ ولی التوفیق
(تحریر: 15/ جمادی الاولی 1440ھ مطابق 22/ جنوری 2019ء منگل بعد نماز عشاء)
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
’’صحت‘‘ اور ’’تندرستی‘‘ اللہ تعالی کی ان نعمتوں میں ہے جن کا نعمت ہونا تقریبا ہر شخص محسوس کرتا ہے، اورہر ایک اپنے کو اس نعمت کے تحت دبا ہوا بھی محسوس کرتا ہے، اسی لیے احادیث میں اس نعمت کی قدر دانی کرنے اور اس زمانے میں زیادہ سے زیادہ اعمال خیر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن اس کے بر عکس ’’بیماری‘‘ ہے، جس کو عام طور سے عیب اور ظلم سمجھا جاتا ہے،
جب کہ یہ بات مبنی بر حقیقت نہیں ہے، اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بیماری ایک منفی پہلو کا نام ہے، جب کہ شریعت اسلامیہ میں اس کو بھی مؤمن کے لیے خیر وبرکت کا ذریعہ بنایا گیا ہے، اور اس کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ آدمی اس کو اپنے لیے باعث نفرت نہ سمجھے، بل کہ اس میں بھی اپنے کو خیر وبھلائی کا طالب اور امید وار بنائے، اسی لیے مختلف احادیث میں معمولی معمولی تکالیف پر صدقہ وغیرہ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، اور آدمی کو یہ احساس دلایا گیا کہ یہ بیماریاں بھی باعث خیر ہیں اور ان پر جہاں بندوں کے گناہ جھڑتے ہیں وہیں پر اس کے درجات کو بھی بلند کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہمارے مبارک پور میں ’’یرقان‘‘ (پیلیا) کا قہر جاری ہے، کئی ہفتوں سے اس بیماری سے ایک طبقہ جوجھ رہا ہے، جس میں دو تین افراد لقمۂ اجل بھی ہوچکے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایک بیماری ہے جو اللہ رب العزت کی پیدا کردہ ہے، وہ اگر کسی کو اس کے باعث موت دیدے تو انسان کیا کرسکتا ہے، یہ بیماریاں صرف باعث تکلیف نہیں ہوتی ہیں؛ بل کہ ان کے پیچھے اللہ رب العزت کی بہت سی عطایا چھپی ہوتی ہیں، لیکن انسان کو اللہ تعالی نے ظاہر کا مکلف بنایا ہے، اور اس کو اس کا پابند کیا ہے کہ وہ اس کی ذات پر بھروسہ وتوکل کرتے ہوئے اسباب ظاہرہ کو اختیار کرے اور اپنے آپ کو مصائب وبلا سے محفوظ کرنے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرے، اس ضمن میں چند چیزیں ہیں جو ہمارے لیے کرنے کی ہیں۔
(1) بیماریوں کے مواقع پر بنیادی طور سے ان کو اپنے لیے باعث مصیبت نہ سمجھیں، بل کہ اللہ تعالی سے بہتری اور بھلائی کی امید رکھیں۔
(2) جیسے ہی کسی بیماری مثلا یرقان وغیرہ کا علم ہوتو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اسی کو شافی سمجھتے ہوئے مناسب علاج کا انتظام کریں، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ، ان کا علاج بھی پیدا کیا ہے، بخاری شریف کی روایت میں ہے ’’ما أنزل اﷲ داء إلا أنزل لہ شفاء‘‘ (کتاب الطب) کہ اللہ تعالی نے جو بھی بیماری نازل کی ہے تو اس کی شفا کا بھی نزول فرمایا ہے، بعض روایات میں ’’تداووا‘‘ کا لفظ بھی منقول ہے کہ دوا وعلاج کرو، اور یہ چیز توکل کے خلاف نہیں ہے۔
(3) جیسے بیماریوں کا ظاہری علاج کیا جاتا ہے کہ ایسے ہی اس کے باطنی علاج کا بھی راستہ اختیار کیا جائے، قرآن وحدیث میں یہ بات مصرح ہے کہ حالات ومصائب انسانوں کی غلط کرتوتوں کی وجہ سے آتے ہیں، اس لیے کہ جب اللہ رب العزت ناراض ہوتے ہیں تو وہ اپنے بندوں کو جانچنے کے لیے مختلف مصائب کا نزول فرماتے ہیں، اسی لیے احادیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ مصیبتوں اور بلاؤں کو صدقہ کے ذریعہ دور کرو، ایک روایت میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا گیا ہے ’’داووا مرضاکم بالصدقۃ‘‘ (بیہقی وغیرہ) کہ اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو، اس روایت کے بعض روات پر اگرچہ کلام کیا گیا ہے، لیکن اس کا مفہوم ثابت ہے، بل کہ بعض ائمہ نے اس روایت کو صحیح بھی کہا ہے۔
(4) جیسے صدقہ کے ذریعہ بیماری کو دور کرنے کی کوشش کی جائے اسی طرح خود اللہ رب العزت کے حضور دعاؤں کا بھی اہتمام کیا جائے، اور اس ذات سے بیماری کو دور کرنے کی درخواست کی جائے جس نے خود بیماری دی ہے۔
(5) جو حضرات اہل ثروت ہیں اور اللہ نے ان کو اپنی عطا سے نوازا ہے تو ایسے افراد بیمار حضرات کی خبر گیری اور ایسے افراد کے علاج معالجہ کا نظم کریں جن کے پاس علاج کرانے کا نظم ہو، جہاں یہ اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے وہیں پر اخوت اسلامی کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے۔
(6) جو حضرات حکومت اور عہدہ داروں تک رسائی رکھتے ہوں وہ متعلقہ حکام اور ذمہ داروں تک بات کو پہنچائیں اور ان سے بروقت مناسب انتظام کرنے کی درخواست کریں۔
(7) بیمار کے دیگر اقرباء اور اعزہ واحباب بھی اس تعلق سے فکر مند ہوں اور ان کی دیکھ ریکھ اور حال چال لیتے رہیں اور ضرورت پڑنے پر ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار رہیں ، اس لیے کہ انسانوں کو جسم واحد کے مانند قرار دیا گیا ہے، اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو دوسرا بھی اس درد وتکلیف کو محسوس کرے۔
(8) وہ افراد جو طب اور داکٹری سے جڑے ہوئے ہیں وہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دیتے رہیں اور لوگوں کو بھی احتیاطی تدابیر سے روشناس کرانے کی فکر کریں، ایسی صورت میں وہ خود رب العالمین کے تعاون کے حق دار ہوں گے۔اس سلسلہ میں اگر کیمپ لگانے کی ضرورت محسوس ہو تو اس کا بھی نظم کریں۔
سر دست یہ چند چیزیں ذہن میں آئین، جن کو اس امید پر پیش کیا گیا ہے کہ جو حضرات بیماریوں سے دوچار ہیں وہ خیر وبھلائی کی امید رکھیں اور جو حضرات معاشرہ میں اس میں تعاون کرسکتے ہوں وہ بھی اس میں حصہ لیں اور دوسروں کی مدد کرکے آخرت میں اجر عظیم کے مستحق ہوں، ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ بہت سے افراد اس سلسلہ میں فکر مند ہیں اور ہر طرح کی کوششیں کررہے ہیں، اللہ ان کی کوششوں کو قبول فرمائے، ہم سب کو بیماریوں سے محفوظ فرمائے اور جو حضرات بیمار ہیں ان کو جلد از جلد شفا عطا فرمائے۔ (آمین)
واللہ ولی التوفیق
(تحریر: 15/ جمادی الاولی 1440ھ مطابق 22/ جنوری 2019ء منگل بعد نماز عشاء)