اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: نکاح کو عذاب نہ بنائیے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 2 February 2019

نکاح کو عذاب نہ بنائیے!

قسطِ اول
فضیل احمد ناصری
ـــــــــــــــــــــــــــ
نکاح کا عمل شریعت میں اتنا سادہ ہے کہ کسی اور دھرم میں اس کا تصور تک نہیں۔ مناسب رشتہ ملنے پر بالغ لڑکا، لڑکی دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کر لیں، بس نکاح ہو گیا۔ مہر ضرور لازم ہے، مگر نکاح میں اس کا ذکر ضروری نہیں۔ اتنا سادہ عمل، مگر اب اتنا مشکل ہو چکا ہے کہ لڑکی کے غریب اولیا آٹھوں پہر روتے ہیں۔ صبح سے شام غم و اندوہ میں گزار دیتے ہیں۔ ان کا سکون غارت ہے۔ ذہنی آسودگی کا دور دور تک واہمہ نہیں۔ زندگی اجیرن ہے۔ رشتہ مل نہیں رہا۔
نکاح کا عمل اتنا دشوار تو نہیں:
کسی کی شادی ہو تو اصل کام میں صرف دو منٹ صرف ہوتے ہیں، مگر لوازمات اس قدر شامل ہو جاتے ہیں کہ بیان سے باہر۔ اس دو منٹ کے عمل کے لیے غریب والدین اپنی عمرِ عزیز کے خوش گوار لمحے کھو بیٹھتے ہیں۔ اولاً تو غربت انہیں بڑھنے ہی نہیں دیتی، پھر قسمت یاوری کرے تو ان کے پاس مطالبات کی ایسی طویل فہرست آجاتی ہے کہ ہنوز روزِ اول۔
لڑکے والوں کے مظالم:
نکاح کو عبادت کے زمرے سے نکال کر عذاب کی صف میں لانے والے زیادہ تر لڑکے والے ہیں۔ رشتہ پیش ہو تو عموماً یہی ہوتا ہے کہ لڑکا داستانِ امیرحمزہ کی طرح طول طویل فہرست رکھ دیتا ہے۔ اس کی فرمائشیں اس بے شرمی سے سامنے آتی ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ کبھی لڑکا شریعت نواز ہوتا ہے اور ان خرافات سے بچتا ہے تو اس کے والدین زوردار دباؤ ڈال دیتے ہیں، والدین کی بدتمیزیوں سے مجبور لڑکا ان کے مطالبات کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ لڑکا بھی اسلام پسند ہوتا ہے، اس کے والدین بھی مذہب پسند ہوتے ہیں، مگر ظالم معاشرہ اس کارِخیر میں سدِ سکندری بن جاتا ہے۔ وہی لین دین کرواتا ہے اور لعنتوں کو دعوت دیتا ہے۔ غرض قصور واروں کی کمی کوئی نہیں۔
شادی کے موجودہ ارکان:
جس طرح وضو میں چار چیزیں فرض ہیں، اسی طرح شادی کے ارکان بھی چار ہیں۔ شادی کا پہلا رکن سلامی ہے، دوسرا رکن گاڑی، جب کہ تیسرا رکن قارونی جہیز ہے اور چوتھا رکن بارات ۔ جب تک یہ چاروں ارکان پائے نہ جائیں، شادی ہی ادا نہ ہوئی۔
ارکانِ اربعہ کی تشریح:
سلامی کا مطلب لڑکے کی قیمت ہے۔ کوئی رشتہ لڑکے کے پاس پہونچے تو سلامی سے ہی بات شروع ہوگی۔ یہ رقم درجات کے اعتبار سے بڑھتی اور گھٹتی ہے۔ لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے تو اس کی سلامی 7،8 لاکھ روپے سے کم نہ ہوگی۔ متوسط ہے تو اس کی قیمت 4،5 لاکھ روپے ہیں اور جاہلِ مطلق ہے تو ڈیڑھ دو لاکھ ۔ لڑکی والے مال دار ہوں تو لڑکے کا ریٹ وہ خود ہی اونچا لگاتے ہیں۔ 10،12 لاکھ روپے تک سلامی کے عنوان سے لٹا ڈالتے ہیں۔ گاڑی شادی کی رکنِ ثانی ہے، لڑکا اپنی قابلیت کے لحاظ سے گاڑی کی مانگ رکھتا ہے۔ اعلیٰ اور متوسط لڑکے  چار پہیے کی مانگ رکھتے ہیں اور ادنیٰ لڑکے موٹر سائیکل۔ سائیکل تو بے چاری کبھی کی مرحومہ بن چکی۔
رکنِ ثالث قارونی جہیز ہے۔ جہیز میں گھر کے تمام ضروری اشیا شامل ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی۔ لکڑی کے سارے سامان تخت وغیرہ تو پہلے ہی سے جہیز کے ارکانِ اعظم تھے، اب فریج، واشنگ مشین، مکسر اور بجلی سے چلنے والے تمام لوازمات بھی اس میں ان میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سارا مال لڑکے اور اس کے گھر والوں کی ملکیت بن جاتا ہے۔ لڑکی کا اختیار اس پر باقی نہیں رہتا۔ جہیز کے یہ مطالبات بالعموم لڑکے والوں کی طرف سے ہوتے ہیں، مگر کبھی لڑکی والے بھی اپنی دولت کی نمائش اور شوکت کے اظہار کے لیے خود ہی بھیج دیتے ہیں۔ شادی کا رکنِ رابع بارات ہے۔ شادی کے دن لڑکے کے گھر سے اس کے اہلِ خانہ، دوست احباب اور پڑوسی و اہلِ بستی کے افراد پر مشتمل ایک بھاری جمعیت دولہا کے ساتھ روانہ ہوتی ہے۔ یہ کہنے کو مہمان ہوتے ہیں، مگر آر ایس ایس کے اراکین کی طرح نظر آتے ہیں۔ بارات میں 100 افراد کی دعوت ہو تو ساڑھے تین سو افراد ٹپک پڑتے ہیں۔ شادی کے یہ ارکان اتنے خطرناک ہیں کہ لڑکی والوں کا تو دیوالیہ ہی نکل جاتا ہے۔ شادی سے پہلے رشتے کی تلاش میں شکستہ اور خستہ والدین شادی کے بعد انتہائی مفلوک الحال ہو جاتے ہیں۔ سچ کہیے تو یہ والدین مستحقِ زکوۃ بن جاتے ہیں۔