اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: موبائل گیمز ودیگر اپلیکیشنز اور مسلم قوم کے بڑھتے رجحانات!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 9 February 2019

موبائل گیمز ودیگر اپلیکیشنز اور مسلم قوم کے بڑھتے رجحانات!

محمد سالم سریانوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس وقت دنیا روز افزوں اور ترقی پذیر ہے، روزانہ نت نئی چیزیں متعارف ہورہی ہیں، اور ہر فرد ان کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کررہا ہے، ان نئی چیزوں میں بطور خاص موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کا استعمال ہے، جو حالیہ چند برسوں میں اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ پہلے اس کا تصور نا ممکن معلوم ہوتا تھا، اور آج کل موبائل وکمپیوٹر پر ایسی چیزوں کی بہتات ہو رہی کہ پوری دنیا بالخصوص مسلم قوم اس میں محو ہوکر اپنے فرض منصبی سے غافل ہورہی ہے، حالاں کہ انسانوں کی تخلیق با مقصد ہوئی ہے، جس کو خود اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بڑی صاف اور وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ } [سورۃ الذاریات:۵۶] ’’اور میں نے جنات اور انسان کو محض اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
 آج کل موبائل وکمپیوٹر پر گیمز کھیلنے کا ایک جنون ہے، مسلم طبقہ اس میں آخری حد تک مگن ہے، اسے نہ ہی دنیا کی فکر ہورہی ہے
اور نہ ہی آخرت کے بارے میں سوچ رہا ہے، حالاں کہ ان گیموں میں صرف تضییع اوقات ہی کا مسئلہ نہیں ہے؛ بل کہ بہت سے ایسے گیمز پائے جارہے ہیں جن میں فحاشی وعریانیت کے ساتھ اسلام مخالف چیزیں بھی شامل کی گئیں ہیں، جس میں نوجوان مشغول ہوکر اسلام مخالف سازشوں میں بالواسطہ شریک ہورہے ہیں، جو کہ بذات خود بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے علاوہ انٹر نیٹ پر بہت سے ایسے ’’اپلیکیشنز‘‘ بنائے گئے ہیں، جن میں سوائے عریانیت، فحاشی اور بے حیائی کے کچھ بھی نہیں پایا جاتا اور ان میں ہمارا قیمتی اثاثہ دن رات لگا ہوا ہے، اسی طرح آج کل انٹر نیٹ کی سہولت اور غیروں کی کوششوں سے ایک رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مال کمانے کے لیے محنت نہ کرنا پڑے اور بغیر محنت کے ہی ہم پیسے کما لیں، چناں چہ اس کے لیے ’’یوٹیوب‘‘ وغیرہ کا استعمال بالکل عام سی بات ہوتی جارہی ہے، اس پر ویڈیوز کا اپلوڈ کرنا روزانہ کا مشغلہ بنتا جارہا ہے، اور آدمی محنت سے جی چراکر صرف انھیں کے ذریعہ مال کمانے میں لگ رہا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان چیزوں کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے، اور مسلم قوم کو یہ یاد دلایا جائے کہ اس کی زندگی عام مخلوقات کی طرح آزاد وخود مختار نہیں ہے؛ بل کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں خدائے واحد کے احکام اور جناب نبی کریم ﷺ کی سنت اور طریقے کا پابند ہے، اسی نظریہ سے یہ تحریر پیش کی جارہی ہے، امید کہ قارئین مقصد پر نظر رکھتے ہوئے تحریر کو پڑھیں گے اور اس سے فائدہ اٹھانے، نیز دوسروں کو نفع پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ واللہ الموفق
 تخلیق انسانی کا مقصد اور حقیقی صورت حال:
 جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اللہ رب العزت نے انسان اور جنات کو اپنی عبادت وطاعت کے مقصد سے پیدا کیا ہے، جس زمانہ میں قرآن کریم کا نزول ہورہا تھا اس وقت ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ ہماری پیدائش کا کوئی مقصد نہیں ہے، بل کہ یوں ہی ہم کو پیدا کردیا گیا ہے، اسی لیے ان کا یہ نظریہ تھا ہماری زندگی صرف یہی دنیوی زندگی ہے، اس کے علاوہ اور اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے، اللہ رب العزت نے قرآن میں کئی مقامات پر ان کے اس باطل نظریے کی تردید کی ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ مقصد تخلیق کو ذکر فرمایا ہے۔ ایک موقع پر ارشاد ہے: {اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْن}[سورۃ المؤمنون:۱۱۵] ’’بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بے مقصد پیدا کردیا ہے اور تم کو واپس ہمارے پاس لایا نہیں جایا گیا؟‘‘ ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے: {وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْن}[سورۃ الجاثیۃ:۲۴] ’’اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کچھ زندگی ہے بس یہی ہماری زندگی ہے، (اسی میں) ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں کوئی اور نہیں زمانہ ہی ہلاک کردیتا ہے، حالاں کہ اس بات کا انھیں کچھ بھی علم نہیں ہے، بس وہمی اندازے لگاتے ہیں‘‘۔ (توضیح القرآن)
 مقصد تخلیق ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ } [سورۃ الذاریات:۵۶] ’’اور میں نے جنات اور انسان کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
 اس کے علاوہ احادیث کا ایک حصہ ایسا ہے جس میں عام انسانوں کو مقصد کے مطابق زندگی گزارنے اور غیر ضروری ولا یعنی مشاغل سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور مختلف احادیث میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ صحت وجوانی بیش بہا انعام وعطیہ ہے، اس کی قدر کرنا ضروری ہے، ورنہ اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا، بل کہ یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان سے اس کے اعمال وزندگی کا حساب لیا جائے گا اور حساب وکتاب کے بغیر وہاں سے ہٹنا نا ممکن ہوگا، حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: {لا تزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یسئل عن عمرہ فیم أفناہ، وعن علمہ فیم فعل، وعن مالہ من أین اکتسبہ وفیم أنفقہ، وعن جسمہ فیم أبلاہ؟} [رواہ الترمذي :۳۹۶، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب في القیامۃ، رقم الحدیث:۲۴۱۷، بیت الأفکار الدولیۃ، الریاض] ’’کہ قیامت کے دن کسی بھی بندے کے قدم اس وقت تک ہٹ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے اس کی عمر کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے کہ عمر کہاں خرچ کی؟ علم کے بارے میں کہ اس میں کیا کیا؟ مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جسم کے بارے میں اس کو کہاں ختم کیا؟‘‘
 اسی طرح ایک روایت میں پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھنا ارشاد فرمایا گیا ہے، جس میں جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجگی سے پہلے، فارغ البالی کو مشغولی سے پہلے اور زندگی کو موت سے غنیمت سمجھنا ذکر کیا گیا۔ (الترغیب والترہیب للحافظ المنذري)
 اسی کے ساتھ لایعنی اور غیر ضروری مشاغل ترک کرکے ایسے کاموں میں اپنے کو لگانا جو سود مند اور نفع بخش ہوں اس کی ترغیب دی گئی ہے، بل کہ ایک مسلمان کے اسلام کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کو چھوڑ دے۔ نفع بخش چیزوں کو حاصل کرنے کے بارے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: {احرص علی ماینفعک} [رواہ مسلم] ’’ کہ ان چیزوں کی حرص کرو جو تم کو نفع دے‘‘۔ لایعنی چھوڑنے کے تعلق سے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: {من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ} [رواہ الترمذي] ’’کہ کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور غیر ضروری چیزوں کو چھوڑ دے‘‘۔
  یہ نمونے کے طور پر چند آیات اور احادیث ذکر کردی گئی ہیں، جن سے زندگی کی قیمت اور مقصد کھل کر سامنے آجاتا ہے، اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آدمی کی زندگی بہت ہی زیادہ قیمتی ہے، یہی وہ اثاثہ ہے جو اس کو دنیا میں کامیابی وسرخروئی سے ہم کنار کرتا اور آخرت میں بھی کامیابی وکامرانی اسی کے صحیح استعمال سے ہوسکتی ہے، لیکن آج اس کے برعکس جس طرح مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی زندگی ضائع وبرباد ہوررہی ہے وہ نہایت ہی تشویش ناک ہے، عام طبقہ ایسی فضول اور غیر ضروری چیزوں میں مشغول ہے کہ اس کا بے کار ہونا دوپہر کے سورج کی طرح معلوم ہے، لیکن پھر بھی نوجوانوں کو اس کا احساس نہیں ہورہا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ اپنی چند روزہ زندگی کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہماری زندگی بامقصد گزر رہی ہے، یا یونہی بے کار اور ضائع ہورہی ہے، اگر ابھی ہم نے حساب لے لیا اور اصلاح کرلی تو ان شاء اللہ کامیابی ملے گی ورنہ سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
 گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
 موبائل ولیپ ٹاپ وغیرہ پر گیم کھیلنا:
 جیساکہ ماسبق میں لکھا گیا کہ انسان کی زندگی با مقصد ہے، اس لیے زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے، لہذا اسے غیر ضروری مشاغل اور بے کار کے کاموں میں ضائع کرنا کوئی عقل مندی وچالاکی نہیں، بل کہ سراسر نقصان اور خسارہ ہے، پہلے وقت میں لوگ کاموں کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور تفریح کے لیے بہت سی قسم کے کھیل کود میں حصہ لیتے تھے، ان میں بہت سے کھیل ایسے ہوتے تھے جو ذہنی سکون وآرام کے ساتھ بدنی سکون واطمینان کے بھی ضامن ہوتے تھے، لیکن اِدھر حال میں بہت تیزی کے ساتھ حالات اور ماحول میں تبدیلی آئی ہے، اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ تفریح اور خوش مزاجی کے لیے خارجی وحقیقی کھیلوں کو چھوڑ کر ایسے کھیلوں کو زندگی کا حصہ بنا لیا گیا جو صرف فرضی ہیں اور ان کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے، بس ان کے لیے انگلیاں ہیں اور موبائل یا لیپ ٹاپ وغیرہ کی اسکرین۔
 اسلام ایک فطری دین ہے، اس کے اندر فطری لچک پائی جاتی ہے، اسی لیے اس نے ترک لذات اور رہبانیت سے منع کیا ہے اور ایسے امور کی اجازت دی ہے جو کہ تفریح طبع کے ساتھ بدن کے لیے مفید اور کارآمد ہوں، اور ان سے آدمی ذہنی وجسمانی فائدہ حاصل کرسکے، جیسا کہ خود بعض روایات میں اس طرح کا تذکرہ ملتا ہے، البتہ اسلام اس چیز سے ضرور روکتا ہے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو، بل کہ صرف نقصان اور ضیاع ہو، یا اس میں نفع تو ہو لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرر ہو، یا نفع تو ہو لیکن صرف لہو ولعب کے مقصد سے برتا جارہا ہو؛ کیوں کہ یہ چیز انسان کی تخلیق کے منافی ہے، اسی لیے قرآن میں ایمان والوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے یہ لوگ لغو اور بے کار کاموں سے دور رہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: {وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن} (سورۃ المؤمنون:۳) ’’اور جو لوگ لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں‘‘۔ (توضیح القرآن)
  ایک دوسری جگہ نیک بندوں کی صفات میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جب لغو اور بے کار کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت کے ساتھ دامن بچاتے ہوئے گزرجاتے ہیں۔ ارشاد ہے: {وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا} (سورۃ الفرقان:۷۲)’’اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘‘۔ (توضیح القرآن)
 کھیل کود کے تعلق سے بنیادی طور پر یہ بات مستحضر ہونی چاہیے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کا پابند بناتا ہے کہ وہ کھیل کو برائے ’’کھیل‘‘ نہ استعمال کریں، بل کہ کھیل برائے ’’تفریح وورزش‘‘ ہو، ورنہ اگر ان چیزوں کا مقصد صرف لہو ولعب ہو تو یہ اسلامی اصولوں سے متصادم ہے۔ ایک حدیث میں جناب نبی اکرم ﷺ کا فرمان عالی ہے: ’’{من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ}(رواہ الترمذي:۳۸۲، أبواب الزہد، باب فیمن تکلم بکلمۃ یضحک بہا الناس، بیت الأفکار الدولیۃ الریاض) ’’کہ آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے یہ ہے کہ وہ غیر ضروری ولا یعنی چیزوں کو چھوڑ دے‘‘۔
 اسلام نے جہاں کھیل کود سے منع کیا ہے وہیں پر بعض کھیلوں کی اجازت بھی دی ہے، جیسا کہ روایات میں ہے، لیکن جن کھیلوں کی اجازت دی ہے وہ کھیل برائے کھیل نہیں ہیں، بل کہ وہ کھیل برائے تفریح وورزش ہیں، اسی لیے ہمارے اکابر علماء نے ان روایات وآثار کو جمع کیا ہے جن میں ممانعت وارد ہے، یا جن میں اجازت دی گئی ہے، اور تفصیل کے ساتھ مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کلام کیا ہے کہ کون سے کھیل جائز ہیں اور کون عدم جواز کے دائرے میں آتے ہیں؟
 قارئین کو یہ بات پیش نظر ہونی چاہیے کہ ہم اس تحریر میں صرف ان کھیلوں کی بات کررہے ہیں جو فرضی ہیں، اور ان کو موبائل وغیرہ پر کھیلا جاتا ہے، اوپر کی مختصر بات کے بعد اس تعلق سے عرض ہے کہ آج کل موبائل وغیرہ پر جو کھیل کھیلے جارہے ہیں ان کی متعدد اقسام ہیں، ہم ان کو سہولت کی خاطر دو قسموں میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ (۱) ایسے کھیل جو سادے ہیں اور ان میں تصاویر وغیرہ نہیں ہوتی ہیں، جیسے گاڑی کا مقابلہ، غبارہ پھوڑنا اور ایٹ بال پل وغیرہ۔ (۲) دوسری قسم ان گیموں کی ہے جو تصاویر کے ساتھ دوسرے مفاسد پر مشتمل ہوتے ہیں، جیسے فائٹنگ اور آج کل کا بہت مشہور گیم پب جی وغیرہ۔
 (1)پہلی قسم: ایسے گیم جو شرعی مفاسد سے خالی ہوں، یعنی اس میں تصاویر وغیرہ نہ ہوں اور نہ ہی اس میں ایسی چیزیں شامل ہوں جو جنسی ہیجان اور قتل وغارت گری وغیرہ پر آمادہ کریں، اگر ان گیموں کو ’’برائے کھیل کود‘‘اور وقت گزاری کے طور پر کھیلا جائے، جیسا کہ عام طور سے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے تو ان کھیلوں کی شرعی اجازت نہیں ہوگی، اس لیے کہ یہ تخلیق انسانی کے مقصد کے خلاف ہے، اسی طرح اگر ان گیموں کو برائے تفریح وورزش کھیلا جائے تب بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی، اس لیے کہ جن مقاصد کے تحت شریعت نے کھیل کود کی اجازت دی ہے وہ ان میں مفقود ہیں، یعنی بدنی وجسمانی یا ذہنی ورزش، ایسے کھیلوں میں جسمانی وبدنی ورزش کا نہ ہونا تو روز روشن کی طرح ظاہر ہے، جب کہ ذہنی ورزش کا نہ پایا جانا بھی بالکل عیاں ہے، اگر چہ کچھ لوگ اس کو ذہنی تفریح کا ذریعہ بتاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کھیلوں میں اشتغال سے ذہن میں ایک طرح کی الجھن وپریشانی پائی جاتی ہے، اسی کے ساتھ ماہرین اطباء کے بیان کے مطابق ان آلات کی برقی شعائیں انسانی آنکھ، دماغ اور دیگر اعضاء وجوارح کے لیے بہت مضر ہیں، نیز ان میں اشتغال وانہماک کی وجہ سے آدمی معاش ومعاد سے غافل ہونے لگتا ہے اور اس کے اندر فرائض وواجبات سے بے اعتنائی پائی جاتی ہے، اس لیے ان اسباب ووجوہات کی بنیاد پر ایسے کھیلوں کی اجازت نہیں ہوگی۔
 قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیْضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُوا اُولٰٓـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُہِیْن}(سورہ لقمان:۶) ’’اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں، تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں، ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا‘‘۔(توضیح القرآن)
 اس آیت کی تفسیر میں اگر چہ ایک خاص واقعہ منقول ہے لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک اس کا مفہوم عام ہے، حضرت حسن بصریؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ اس سے ہر وہ چیز مراد ہے جو بندہ کو اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر سے غافل کردے، خواہ وہ کسی قسم کی چیز ہو۔ علامہ آلوسیؒ نے اسی مفہوم کو راجح بھی قرار دیا ہے۔ چناں چہ لکھتے ہیں: ’’ولہو الحدیث: علی ما روي عن الحسن کل ما شغلک عن عبادۃ اﷲ تعالی وذکرہ، من السمر والأضاحیک والخرافات والغناء ونحوہا،… والأحسن تفسیرہ یما یعم کل ذلک کما ذکرنا ہ عن الحسن، وہو الذي یقتضیہ ما أخرجہ البخاري في الأدب المفرد … عن ابن عباس أنہ قال: ’’لہو الحدیث‘‘ ہو الغناء وأشباہہ‘‘۔ (روح المعاني:۲۱/۶۷، سورۃ لقمان، دار إحیاء التراث العربي بیروت)
 اسی لیے فقہاء کے یہاں مطلقا لہو ولعب مکروہ تحریمی ہے۔ صاحب در مختار لکھتے ہیں: وفي السراج: ودلت المسئلۃ أن الملاہي کلہا حرام۔ (الدر المختار مع الشامي:۹/۵۰۲، کتاب الحضر والإباحۃ، مکتبہ زکریا دیوبند)
 یہ بات مزید وضاحت کے ساتھ مفتی محمد شفیع صاحب عثمانیؒ لکھتے ہیں: فالضابطۃ في ہذا الباب -عند مشایخنا الحنفیۃ- المستفادۃ من أصولہم وأقوالہم المذکورۃ آنفا: إن اللہو المجرد الذي لا طائل تحتہ ولیس لہ غرض صحیح مفید في المعاش ولا المعاد حرام، أو مکروہ تحریما، وہذا أمر مجمع علیہ في الأمۃ، متفق علیہ بین الأئمۃ۔ (رسالۃ الناہي عن الملاہي، المشمولۃ في أحکام القرآن للعثماني ص:۱۹۹-۲۰۰)
 (2)دوسری قسم:یعنی ایسے کھیل وگیم جن میں شرعی مفاسد پائے جاتے ہیں، جیسے تصاویر، فحش وبے حیائی کے امور، اسی طرح لڑائی جھگڑا اور جنگ وجدال کی تربیت، جیسے کی فائٹر گیمز، بالخصوص پب جی (PUPG) تو ایسے کھیلوں کی سرے سے ہی اجازت نہیں ہے، بل کہ یہ حرام کے درجہ تک پہنچتے ہیں۔ اس لیے کہ تصاویر کو شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے، بل کہ تصاویر بنانے والوں پر سخت پھٹکار لگائی گئی ہے، اسی کے ساتھ ان گیموں میں نفسیاتی مرض، مار دھاڑ اور لڑائی حملہ کی طرف رجحان بڑھتا ہے، جو کہ کسی بھی صالح معاشرہ کے لیے انتہائی خطرناک ہے، پیچھے یہ بات وضاحت کے ساتھ عرض کردی گئی ہے کہ ’’کھیل برائے کھیل‘‘ کی شریعت میں اجازت نہیں ہے، بل کہ کھیل کی اسی وقت اجازت ہوگی جب کہ وہ فوائد پر مشتمل ہو، محرمات کو شامل نہ ہو، اسی کے ساتھ اس میں انہماک واشتغال فرائض وواجبات سے غافل نہ کرتا ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان گیموں میں بطور خاص پب جی میں یہ سب برائیاں پائی جاتی، بل کہ اگر یہ کہا جائے کہ پب جی ان گیموں کا بابا ہے تو کچھ بے جا نہیں ہوگا، ہم نے اس گیم سے متعلق کئی تحقیقات پڑھی ہیں جو انتہائی چوکادینے والی اور بہت خطرناک ہیں، اس گیم کا جنون نسل نو کے اندر بہت تیزی کے ساتھ سرایت کررہا ہے، اور وہ تمام معاش ومعاد کی فکروں کو چھوڑ کر اس میں مشغول ہورہے ہیں، نتیجۃ مختلف جسمانی امراض کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے ایسے گیم بھی شریعت کی نگاہ میں جائز نہیں ہیں، بل کہ ممانعت میں داخل ہیں۔ اس تعلق سے علامہ عثمانیؒ کا درج ذیل ٹکڑا بالکل واضح وبے غبار ہے: وأما ما لم یرد فیہ النہي عن الشارع، وفائدۃ ومصلحۃ للناس فہو بالنظر الفقہي علی نوعین: الأول: ما شہدت التجربۃ بأن ضررہ أعظم من نفعہ، ومفاسدہ أغلب علی منافعہ، وأنہ من اشتغل بہ ألہاہ عن ذکر اﷲ وحدہ عن الصلوات والمساجد التحق ذلک بالمنہي عنہ، لاشتراک العلۃ، فکان حراما أو مکروہا۔ (رسالۃ الناہي عن الملاہي، المشمولۃ في أحکام القرآن للعثماني ص:۲۰۰)
 اس تفصیل سے یہ معلوم ہوگیا کہ موبائل وغیرہ پر گیم کھیلنا اور اس میں اپنے اوقات کو لگانا شرعی نقطۂ نظر سے جائز نہیں ہے، بل کہ اس کے مفاسد اور مضرتیں بالکل واضح ہیں، اس لیے اس سے بچنا اور پوری قوم کو بچانا ہم میں سے ہر فرد کی ذمہ داری میں داخل ہے۔
 ہاں اگر کوئی شخص سادہ موبائل گیم بغرض تفریح ذہن کچھ دیر کھیلتا ہے، اس میں انہماک واشتغال نہیں ہوتا اور ایسے ہی وہ دیگر ہیجانی مفاسد پر مشتمل نہ ہو تو اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ علامہ عثمانیؒ لکھتے ہیں: والثاني: مالیس کذلک، فہو أیضا إن اشتغل بہ بنیۃ التلہي والتلاعب فہو مکروہ، وإن اشتغل بہ لتحسیل تلک المنفعۃ وبنیۃ استجلاب المصلحۃ فہو مباح۔ (رسالۃ الناہي عن الملاہي، المشمولۃ في أحکام القرآن للعثماني ص:۲۰۰-۲۰۱)