محمد عباس دھالیوال
ــــــــــــــــــــــــــــــ
ہندی فلموں میں جب معروف نغمہ نگاروں کی بات چلتی ہے تو ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی شکیل بدایونی جانثار اختر اور قتیل شفائی جیسے نام ابھر کر سامنے آ تے ہیں . لیکن جانثار اختر نے فلموں میں نغمے لکھنے کے علاوہ اردو غزل میں اپنا ایک منفرد و نمایاں مقام قائم کیا اور فلمی دنیا میں ہو کر بھی اردو ادب میں اپنی ایک منفرد والگ پہچان بنائی.
18فروری 1914کو مدھیہ پردیش گوالیار میں پیدا ہونے والے جانثار اختر کو اہل ادب بیسویں صدی کا ایک بڑا رومانی شاعر تسلیم کر تے ہیں. رومانی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ ترقی پسندتحریک کے بھی فعال رکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے. جانثار کے والد مظفر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں ہی شاعر تھے اس طرح شاعری آپ کو ورثہ میں ہی ملی تھی ۔اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد دسویں پاس کرنے کے بعد آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے ۔یہاں سے آپ نے بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں ۔جانثار یہاں پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہے تھے کہ گھریلو حالات کی وجہ سے گوالیار واپس لوٹنا پڑا۔
اسی اثنا میں آپ وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو لیکچرر کے طور پر اپنی خدمات دینے لگے ۔اسی بیچ 1943ء میں آپ کی شادی معروف شاعر مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سراج الحق سے ہوئی ۔ان کے بطن سے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر 1945ء اور 1946ء میں پیدا ہوئے ۔
آزادی کے بعد گوالیار بھی جب فسادات کی لپیٹ میں آگیا. تب جانثار بھوپال شفٹ ہو گئے ۔ بھوپال میں حمیدیہ کالج میں جانثار نے اردو فارسی ڈیپارٹمنٹ سنبھالا. اس دوران آپ کی اہلیہ صفیہ بھی حمیدیہ کالج سے وابستہ ہو گئیں۔ دونوں میاں بیوی تحریک ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ جانثار اختر کو اس تحریک کا صدر بنا دیا گیا۔ 1949ء میں انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی چلے آئے ۔ممبئی آنے کے ان کے دو مقاصد تھے ایک فلمی گیت لکھنا اور دوسرا اپنے شعری مجموعوں کی اشاعت کروانا.
ممبئی میں ان کی ملاقات ملک راج آنند کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے ترقی پسند ادیبوں سے ہوئی۔1953ء میں ان کی اہلیہ صفیہ انتقال کر گئیں۔صفیہ کے جانثار کے نام خطوط کے مجموعے سب سے پہلے 1955میں شائع ہوئے۔ ہندی میں ان خطوط کا ترجمہ پروفیسر اصغر وجاہت نے کیا۔خطوط کے یہ مجموعے ’’حرف آشنا‘‘اور ’’زیر لب‘‘ کے نام سے شائع کئے گئے۔ 1956ء میں جانثار نے اپنی دوسری شادی خدیجہ طلعت سے کی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جانثار اختر کی شاعری میں بائیں بازو کے نظریات ملتے ہیں۔ان کی شاعری میں جہاں معروضی صداقتوں کا برملا اظہار ہے،وہیں ان کی شاعری رومانیت کی چاشنی سے بھی لبریز نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں مایوسی اور ناامیدی کی پرچھائیاں بھی جا بجا ملتی ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی غزلوں میں جو رومانیت ہے وہ ان کی گھریلو زندگی کے حوالوں سے بھری ہے۔ غزلوں میں جو مختلف رنگ ملتے ہیں وہ ان کے مندرجہ ذیل اشعار میں بآسانی ڈھونڈے جا سکتے ہیں.
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگا ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بددعا لگے ہے مجھے
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے
جب لگے زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
خود بخود نیند سی آنکھوں میں گھلی جاتی ہے
مہکی مہکی ہے شب غم ترے بالوں کی طرح
رہی ہیں داد طلب ان کی شوخیاں ہم سے
ادا شناس بہت ہیں مگر کہاں ہم سے
اشعار میرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’نظرتباں‘‘، ’’سلاسل‘‘،’’جاوداں‘‘،’’پچھلی پہر‘‘،’’گھر آنگن‘‘،اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔
’’خاک دل‘‘پر انہیں 1976میں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا. جانثار اختر نے مجموعی طور پر 151فلمی گیت لکھے۔ آ پ نے زیادہ تر سی رام چندر،اوپی نیر اور خیام جسے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا یہاں قابل ذکر ہے کہ جانثار کو ۔اے آر کاردار کی فلم ’’یاسمین‘‘ کے نغمات سے بے حد مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ گورودت کی فلم ’’سی آئی ڈی‘‘کے نغمے بھی بے حد مقبول ہوئے اس کے بعد جانثار نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ آپ کی مشہور فلموں میں ’’رستم سہراب‘‘،’’پریم پربت‘‘،’’شنکر حسین ‘‘اور رضیہ سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے 1967میں بہو بیگم کے نام سے فلم بھی بنائی اس فلم کا سکرپٹ انہوں نے خود لکھی تھی ۔
جانثار کے چند نغمات کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے انھیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی اور انکی پہچان کی ایک بڑی وجہ بنے ان میں. ۔آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ ہو گیا(سی آئی ڈی) ۔آ جا رے میرے دلبر آ جا(نوری) ۔چوری چوری کوئی آئے(نوری). کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی(شنکر حسین). غریب جان کے ہم کو نہ تم دغا دینا(چھومنتر) ۔پیا پیا(باپ رے باپ) ۔اے دل ناداں(رضیہ سلطان)
(یہاں قابل ذکر ہے کہ جانثار اختر کے بڑے بیٹے جاوید اختر نے بھی شعرو ادب کی دنیا میں خوب نام کمایا ہے اور ساتھ ہی جاوید اختر نے ہندی فلموں کی سکرپٹ و کہانیوں کے میدان میں بھی اپنی ایک منفرد و الگ پہچان بنائی ہے )
فلموں میں گیت لکھنے کے علاوہ جانثار کی اکثر غزلیں و نظمیں بھی اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں. چند ایسی ہی شاہکار تخلیقات کو آپ بھی یہاں ملاحظہ فرمائیں…
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے
نہ جانے وقت کی رفتار کیا دکھاتی ہے
کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے
بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود
ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے
۔۔۔۔۔
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں
شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر
چپ چاپ سے سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
۔۔۔۔۔
تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے
تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے
جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار
وہ شخص مجھ کو بہت بدنصیب لگتا ہے
حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے
۔۔۔۔۔
اپنا کوئی ملے تو گلے سے لگائیے
کیا کیا کہیں گے لوگ اسے بھول جائیے
قدموں سے چل کے پاس تو آتے ہیں غیر بھی
آپ آ رہے ہیں پاس تو کچھ دل سے آئیے
ہم دھڑکنوں کے پاس ہیں دل کے قریب ہیں
ہے شرط یہ کہ ڈھونڈ کر ہم کو دکھائیے
۔۔۔۔
ایک تو نیناں کجرارے اوراس پر ڈوبے کاجل میں
بجلی کی بڑھ جائے چمک کچھ اور بھی گہرے بادل میں
آج ذرا للچائی نظر سے اُس کو بس کیا دیکھ لیا
پگ پگ اُس کے دل کی دھڑکن اُتری آئے پائل میں
پیاسے پیاسے نیناں اُس کے جانے پگلی چاہے کیا
تٹ پر جب بھی جاوے ‘سوچے’ ندیا بھر لوں چھاگل میں
صبح نہانے جوڑا کھولے، ناگ بدن سے آ لپٹیں
اُس کی رنگت، اُس کی خوشبو کتنی ملتی صندل سے
چاند کی پتلی نوک پہ جیسے کوئی بادل ٹِک جائے
ایسے اُس کا گِرتا آنچل اٹکے آڑی ہیکل میں
گوری اس سنسار میں مجھکو ایسا تیرا روپ لگے
جیسے کوئی دیپ جلا ہو گھور اندھیرے جنگل میں
کھڑکی کی باریک جھری سے کون یہ مجھ تک آ جائے
جسم چرائے، نین جھکائے، خوشبو باندھے آنچل میں
آج پتہ کیا، کون سے لمحے، کون سا طوفاں جاگ اُٹھے
جانے کتنی درد کی صدیاں گونج رہی ہیں پل پل میں
۔۔۔۔۔
زندگی تنہا سفر کی رات ہے
اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے
کس عقیدے کی دہائ دیجئے
ہر عقیدہ آج بھی بے اوقات ہے
کیا پتہ پہنچیں گے کب منزل تلک
گھٹتے بڑھتے فاصلوں کا ساتھ ہے
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
کُوئے قاتل کی بڑی دھوم ہے، چل کر دیکھیں
کیا خبر کُوچۂ دلدار سے پیارا ہی نہ ہو
دل کو چھو جاتی ہے رات کی آواز کبھی
چونک اُٹھتا ہوں کہیں تم نے پُکارا ہی نہ ہو
کبھی پلکوں پہ چمکتی ہے جو اشکوں کی لکیر
سوچتا ہوں تیرے آنچل کا کنارا ہی نہ ہو
زندگی اک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو
درد وہ دے جو کسی صورت گوارا ہی نہ ہو
شرم آتی ہے کہ اُس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
۔۔۔۔
بھولے نہ کسی حال میں آدابِ نظر ہم
مُڑ کر نہ تجھے دیکھ سکے وقتِ سفر ہم
اے حسن کسی نے تجھے اتنا تو نہ چاہا
برباد ہوا تیرے لئے کون؟ مگر ہم
جینے کا ہمیں خود نہ ملا وقت تو کیا ہے
لوگوں کو سکھاتے رہے جینے کا ہنر ہم
اب تیرے تعلّق سے ہمیں یاد ہے اتنا
اک رات کو مہمان رہے تھے تیرے گھر ہم
دنیا کی کسی چھاؤں سے دھندلا نہیں سکتا
آنکھوں میں لئے پھرتے ہیں وہ خوابِ سحر ہم
وہ کون سی آہٹ تھی جو خوابوں میں دھر آئی
کیا جانئے کیوں چونک پڑے پچھلے پہر ہم
یہاں قابل ذکر ہے کہ جب جانثار اختر 1976ء میں رضیہ سلطان کے نغمے لکھ رہے تھے تو اسی بیچ آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور اس طرح رضیہ سلطان آپ کی زندگی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ بے شک جانثار اختر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن جانثار اختر نے جو زبان و ادب کے لیے اپنی خدمات پیش کیں ہیں انھیں اہل ادب کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے.
ــــــــــــــــــــــــــــــ
ہندی فلموں میں جب معروف نغمہ نگاروں کی بات چلتی ہے تو ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی شکیل بدایونی جانثار اختر اور قتیل شفائی جیسے نام ابھر کر سامنے آ تے ہیں . لیکن جانثار اختر نے فلموں میں نغمے لکھنے کے علاوہ اردو غزل میں اپنا ایک منفرد و نمایاں مقام قائم کیا اور فلمی دنیا میں ہو کر بھی اردو ادب میں اپنی ایک منفرد والگ پہچان بنائی.
18فروری 1914کو مدھیہ پردیش گوالیار میں پیدا ہونے والے جانثار اختر کو اہل ادب بیسویں صدی کا ایک بڑا رومانی شاعر تسلیم کر تے ہیں. رومانی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ ترقی پسندتحریک کے بھی فعال رکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے. جانثار کے والد مظفر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں ہی شاعر تھے اس طرح شاعری آپ کو ورثہ میں ہی ملی تھی ۔اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد دسویں پاس کرنے کے بعد آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے ۔یہاں سے آپ نے بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں ۔جانثار یہاں پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہے تھے کہ گھریلو حالات کی وجہ سے گوالیار واپس لوٹنا پڑا۔
اسی اثنا میں آپ وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو لیکچرر کے طور پر اپنی خدمات دینے لگے ۔اسی بیچ 1943ء میں آپ کی شادی معروف شاعر مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سراج الحق سے ہوئی ۔ان کے بطن سے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر 1945ء اور 1946ء میں پیدا ہوئے ۔
آزادی کے بعد گوالیار بھی جب فسادات کی لپیٹ میں آگیا. تب جانثار بھوپال شفٹ ہو گئے ۔ بھوپال میں حمیدیہ کالج میں جانثار نے اردو فارسی ڈیپارٹمنٹ سنبھالا. اس دوران آپ کی اہلیہ صفیہ بھی حمیدیہ کالج سے وابستہ ہو گئیں۔ دونوں میاں بیوی تحریک ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ جانثار اختر کو اس تحریک کا صدر بنا دیا گیا۔ 1949ء میں انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی چلے آئے ۔ممبئی آنے کے ان کے دو مقاصد تھے ایک فلمی گیت لکھنا اور دوسرا اپنے شعری مجموعوں کی اشاعت کروانا.
ممبئی میں ان کی ملاقات ملک راج آنند کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے ترقی پسند ادیبوں سے ہوئی۔1953ء میں ان کی اہلیہ صفیہ انتقال کر گئیں۔صفیہ کے جانثار کے نام خطوط کے مجموعے سب سے پہلے 1955میں شائع ہوئے۔ ہندی میں ان خطوط کا ترجمہ پروفیسر اصغر وجاہت نے کیا۔خطوط کے یہ مجموعے ’’حرف آشنا‘‘اور ’’زیر لب‘‘ کے نام سے شائع کئے گئے۔ 1956ء میں جانثار نے اپنی دوسری شادی خدیجہ طلعت سے کی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جانثار اختر کی شاعری میں بائیں بازو کے نظریات ملتے ہیں۔ان کی شاعری میں جہاں معروضی صداقتوں کا برملا اظہار ہے،وہیں ان کی شاعری رومانیت کی چاشنی سے بھی لبریز نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں مایوسی اور ناامیدی کی پرچھائیاں بھی جا بجا ملتی ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی غزلوں میں جو رومانیت ہے وہ ان کی گھریلو زندگی کے حوالوں سے بھری ہے۔ غزلوں میں جو مختلف رنگ ملتے ہیں وہ ان کے مندرجہ ذیل اشعار میں بآسانی ڈھونڈے جا سکتے ہیں.
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگا ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بددعا لگے ہے مجھے
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے
جب لگے زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
خود بخود نیند سی آنکھوں میں گھلی جاتی ہے
مہکی مہکی ہے شب غم ترے بالوں کی طرح
رہی ہیں داد طلب ان کی شوخیاں ہم سے
ادا شناس بہت ہیں مگر کہاں ہم سے
اشعار میرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’نظرتباں‘‘، ’’سلاسل‘‘،’’جاوداں‘‘،’’پچھلی پہر‘‘،’’گھر آنگن‘‘،اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔
’’خاک دل‘‘پر انہیں 1976میں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا. جانثار اختر نے مجموعی طور پر 151فلمی گیت لکھے۔ آ پ نے زیادہ تر سی رام چندر،اوپی نیر اور خیام جسے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا یہاں قابل ذکر ہے کہ جانثار کو ۔اے آر کاردار کی فلم ’’یاسمین‘‘ کے نغمات سے بے حد مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ گورودت کی فلم ’’سی آئی ڈی‘‘کے نغمے بھی بے حد مقبول ہوئے اس کے بعد جانثار نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ آپ کی مشہور فلموں میں ’’رستم سہراب‘‘،’’پریم پربت‘‘،’’شنکر حسین ‘‘اور رضیہ سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے 1967میں بہو بیگم کے نام سے فلم بھی بنائی اس فلم کا سکرپٹ انہوں نے خود لکھی تھی ۔
جانثار کے چند نغمات کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے انھیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی اور انکی پہچان کی ایک بڑی وجہ بنے ان میں. ۔آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ ہو گیا(سی آئی ڈی) ۔آ جا رے میرے دلبر آ جا(نوری) ۔چوری چوری کوئی آئے(نوری). کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی(شنکر حسین). غریب جان کے ہم کو نہ تم دغا دینا(چھومنتر) ۔پیا پیا(باپ رے باپ) ۔اے دل ناداں(رضیہ سلطان)
(یہاں قابل ذکر ہے کہ جانثار اختر کے بڑے بیٹے جاوید اختر نے بھی شعرو ادب کی دنیا میں خوب نام کمایا ہے اور ساتھ ہی جاوید اختر نے ہندی فلموں کی سکرپٹ و کہانیوں کے میدان میں بھی اپنی ایک منفرد و الگ پہچان بنائی ہے )
فلموں میں گیت لکھنے کے علاوہ جانثار کی اکثر غزلیں و نظمیں بھی اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں. چند ایسی ہی شاہکار تخلیقات کو آپ بھی یہاں ملاحظہ فرمائیں…
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے
نہ جانے وقت کی رفتار کیا دکھاتی ہے
کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے
بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود
ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے
۔۔۔۔۔
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں
شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر
چپ چاپ سے سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
۔۔۔۔۔
تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے
تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے
جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار
وہ شخص مجھ کو بہت بدنصیب لگتا ہے
حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے
۔۔۔۔۔
اپنا کوئی ملے تو گلے سے لگائیے
کیا کیا کہیں گے لوگ اسے بھول جائیے
قدموں سے چل کے پاس تو آتے ہیں غیر بھی
آپ آ رہے ہیں پاس تو کچھ دل سے آئیے
ہم دھڑکنوں کے پاس ہیں دل کے قریب ہیں
ہے شرط یہ کہ ڈھونڈ کر ہم کو دکھائیے
۔۔۔۔
ایک تو نیناں کجرارے اوراس پر ڈوبے کاجل میں
بجلی کی بڑھ جائے چمک کچھ اور بھی گہرے بادل میں
آج ذرا للچائی نظر سے اُس کو بس کیا دیکھ لیا
پگ پگ اُس کے دل کی دھڑکن اُتری آئے پائل میں
پیاسے پیاسے نیناں اُس کے جانے پگلی چاہے کیا
تٹ پر جب بھی جاوے ‘سوچے’ ندیا بھر لوں چھاگل میں
صبح نہانے جوڑا کھولے، ناگ بدن سے آ لپٹیں
اُس کی رنگت، اُس کی خوشبو کتنی ملتی صندل سے
چاند کی پتلی نوک پہ جیسے کوئی بادل ٹِک جائے
ایسے اُس کا گِرتا آنچل اٹکے آڑی ہیکل میں
گوری اس سنسار میں مجھکو ایسا تیرا روپ لگے
جیسے کوئی دیپ جلا ہو گھور اندھیرے جنگل میں
کھڑکی کی باریک جھری سے کون یہ مجھ تک آ جائے
جسم چرائے، نین جھکائے، خوشبو باندھے آنچل میں
آج پتہ کیا، کون سے لمحے، کون سا طوفاں جاگ اُٹھے
جانے کتنی درد کی صدیاں گونج رہی ہیں پل پل میں
۔۔۔۔۔
زندگی تنہا سفر کی رات ہے
اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے
کس عقیدے کی دہائ دیجئے
ہر عقیدہ آج بھی بے اوقات ہے
کیا پتہ پہنچیں گے کب منزل تلک
گھٹتے بڑھتے فاصلوں کا ساتھ ہے
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
کُوئے قاتل کی بڑی دھوم ہے، چل کر دیکھیں
کیا خبر کُوچۂ دلدار سے پیارا ہی نہ ہو
دل کو چھو جاتی ہے رات کی آواز کبھی
چونک اُٹھتا ہوں کہیں تم نے پُکارا ہی نہ ہو
کبھی پلکوں پہ چمکتی ہے جو اشکوں کی لکیر
سوچتا ہوں تیرے آنچل کا کنارا ہی نہ ہو
زندگی اک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو
درد وہ دے جو کسی صورت گوارا ہی نہ ہو
شرم آتی ہے کہ اُس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
۔۔۔۔
بھولے نہ کسی حال میں آدابِ نظر ہم
مُڑ کر نہ تجھے دیکھ سکے وقتِ سفر ہم
اے حسن کسی نے تجھے اتنا تو نہ چاہا
برباد ہوا تیرے لئے کون؟ مگر ہم
جینے کا ہمیں خود نہ ملا وقت تو کیا ہے
لوگوں کو سکھاتے رہے جینے کا ہنر ہم
اب تیرے تعلّق سے ہمیں یاد ہے اتنا
اک رات کو مہمان رہے تھے تیرے گھر ہم
دنیا کی کسی چھاؤں سے دھندلا نہیں سکتا
آنکھوں میں لئے پھرتے ہیں وہ خوابِ سحر ہم
وہ کون سی آہٹ تھی جو خوابوں میں دھر آئی
کیا جانئے کیوں چونک پڑے پچھلے پہر ہم
یہاں قابل ذکر ہے کہ جب جانثار اختر 1976ء میں رضیہ سلطان کے نغمے لکھ رہے تھے تو اسی بیچ آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور اس طرح رضیہ سلطان آپ کی زندگی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ بے شک جانثار اختر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن جانثار اختر نے جو زبان و ادب کے لیے اپنی خدمات پیش کیں ہیں انھیں اہل ادب کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے.