محمد ساجد شاہین
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ 16 ویں لوک سبھا کا آج آخری دن تھا کیونکہ اب اگلی لوک سبھا چنائو کے بعد تیار ہوگی، حالانکہ آخری دن کوئی بڑی خبر نہیں آئی لیکن ایک بیان جو سماجوادی پارٹی کے سرپرست ملائم سنگھ یادو نے دیا اس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا، ملائم سنگھ کا یہ بیان کہ "میں یہ چاہتا ہوں کہ مودی پھر سے وزیر اعظم بنیں" اپنے آپ میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہ ان لوگوں کے اوپر ایک کرارا طمانچہ ہے جو ملائم سنگھ کو مسلمانوں کا مسیحا سمجھتے ہیں.
حقیقت اگر دیکھی جائے تو ملائم سنگھ کا ہر ایک قدم سنگھ اور ہندوزم کو ترقی دینے والا ہوتا رہا ہے وہ چاھے کارسیوکوں پر فائرنگ ہو یا سادھوی رتمبھرا اور کلیان سنگھ جیسے نفرت کے سوداگروں کے ساتھ ہمدردی، بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملائم سنگھ نے کار سیوکوں پر گولیاں مسلمانوں کی حمایت میں چلوائی تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اس قدم سے ایک تیر سے دو شکار کئے.
پہلا تو یہ کہ انھوں نے اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کی بڑی تعداد میں ہمدردی حاصل کر لی اور انھیں مسلمانوں کی حمایت سے3 مرتبہ اترپردیش کے وزیر اعلی منتخب ہوئے، اور دوسرا شکار انھوں نے خفیہ طریقے سے حاصل کر لیا اور کار سیوکوں میں غصہ بھر دیا جو بعد میں بابری مسجد کی شہادت کی، ایک بڑی وجہ بنی اور ساتھ ہی ساتھ بی جے پی کے عروج کا بھی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ واقعہ بی جے پی کے لئی میل کا پتھر ثابت ہوا.
ملائم سنگھ ہندوستان کی سیاست کا وہ کھلاڑی ہے جس نے سیکولرزم کی آڑ میں نفرت کے لئے زمین ہموار کی، جس نے کبھی کلیان سنگھ کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے مسلمانوں کے زخم پر نمک چھڑکا اور کبھی راجہ بھیا جیسے بدمعاش سے مسلمانوں کا استحصال کرایا، ملائم سنگھ شروع سے ہی سیکولرزم کو کھوکھلا کرنے کا کام کرتے رہیں ہیں، ابھی پچھلے اسمبلی الیکشن میں عین چناؤ سے پہلے ان کی پارٹی میں جو ڈرامہ بازی ہوئی وہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت کروایا گیا تھا، ملائم سنگھ نے کبھی بھی مسلم قیادت کو پنپنے کا موقع نہ دیا.
اسدالدین اویسی جن کے دامن پر نفرت اور دنگوں کا ایک بھی داغ نہیں تھا انھیں انکے بیٹے کی حکومت نے اترپردیش میں ایک بھی ریلی کی اجازت نہیں دی، جبکہ یوگی پروین توگڑیا اور ان جیسے سماج دشمن عناصر کو نہ صرف ریلیاں کرنے کی اجازت دی بلکہ انہیں مکمل تحفظ اور نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی.
اخلاق کے قتل کا واقعہ کون بھول سکتا ہے جس نے گئو آتنکیوں کے اندر سے خوف ختم کر دیا، اگر واقعی ملائم سنگھ اور انکی پارٹی مسلم قوم کی ہمدرد ہوتی تو قاتلوں کے خلاف مضبوط پیروی کرتی لیکن اس کے برعکس ان کی حکومت نے اخلاق کے گھر والوں پر ہی مقدمہ کروا دیا اور رہی سہی کسر واصل جہنم ہونے والے آتنکی کے گھر والوں کو 25لاکھ اور سرکاری نوکری سے اعزاز دیکر قوم مسلم کے زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کیا.
مظفر نگر کے دنگے اسی کی حکومت میں ہوئے اور آج بھی وہاں کے لوگ کیمپ میں رہنے کو مجبور ہیں.
اگر اب بھی کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملائم سنگھ اکھلیش یا مایاوتی جیسے لوگ مسلم قوم اور سیکولرزم کے ہمدرد ہیں تو انہیں اپنے دماغ کا علاج کرانے کی ضرورت ہے.
باتیں اور بھی ہیں لیکن میں آخر می یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنی قیادت کو مضبوط کیجیے آج نہ سہی کل ضرور وہ ہمارا اتحاد دیکھ کر ہماری قیادت کے پاس گٹھبندھن کے لیے آئیں گے، اور تب ہم مجبور ہو کر نہیں بلکہ مضبوط ہو کر اور اپنی شرطوں کے ساتھ سمجھوتہ کریں گے.
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ 16 ویں لوک سبھا کا آج آخری دن تھا کیونکہ اب اگلی لوک سبھا چنائو کے بعد تیار ہوگی، حالانکہ آخری دن کوئی بڑی خبر نہیں آئی لیکن ایک بیان جو سماجوادی پارٹی کے سرپرست ملائم سنگھ یادو نے دیا اس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا، ملائم سنگھ کا یہ بیان کہ "میں یہ چاہتا ہوں کہ مودی پھر سے وزیر اعظم بنیں" اپنے آپ میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہ ان لوگوں کے اوپر ایک کرارا طمانچہ ہے جو ملائم سنگھ کو مسلمانوں کا مسیحا سمجھتے ہیں.
حقیقت اگر دیکھی جائے تو ملائم سنگھ کا ہر ایک قدم سنگھ اور ہندوزم کو ترقی دینے والا ہوتا رہا ہے وہ چاھے کارسیوکوں پر فائرنگ ہو یا سادھوی رتمبھرا اور کلیان سنگھ جیسے نفرت کے سوداگروں کے ساتھ ہمدردی، بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملائم سنگھ نے کار سیوکوں پر گولیاں مسلمانوں کی حمایت میں چلوائی تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اس قدم سے ایک تیر سے دو شکار کئے.
پہلا تو یہ کہ انھوں نے اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کی بڑی تعداد میں ہمدردی حاصل کر لی اور انھیں مسلمانوں کی حمایت سے3 مرتبہ اترپردیش کے وزیر اعلی منتخب ہوئے، اور دوسرا شکار انھوں نے خفیہ طریقے سے حاصل کر لیا اور کار سیوکوں میں غصہ بھر دیا جو بعد میں بابری مسجد کی شہادت کی، ایک بڑی وجہ بنی اور ساتھ ہی ساتھ بی جے پی کے عروج کا بھی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ واقعہ بی جے پی کے لئی میل کا پتھر ثابت ہوا.
ملائم سنگھ ہندوستان کی سیاست کا وہ کھلاڑی ہے جس نے سیکولرزم کی آڑ میں نفرت کے لئے زمین ہموار کی، جس نے کبھی کلیان سنگھ کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے مسلمانوں کے زخم پر نمک چھڑکا اور کبھی راجہ بھیا جیسے بدمعاش سے مسلمانوں کا استحصال کرایا، ملائم سنگھ شروع سے ہی سیکولرزم کو کھوکھلا کرنے کا کام کرتے رہیں ہیں، ابھی پچھلے اسمبلی الیکشن میں عین چناؤ سے پہلے ان کی پارٹی میں جو ڈرامہ بازی ہوئی وہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت کروایا گیا تھا، ملائم سنگھ نے کبھی بھی مسلم قیادت کو پنپنے کا موقع نہ دیا.
اسدالدین اویسی جن کے دامن پر نفرت اور دنگوں کا ایک بھی داغ نہیں تھا انھیں انکے بیٹے کی حکومت نے اترپردیش میں ایک بھی ریلی کی اجازت نہیں دی، جبکہ یوگی پروین توگڑیا اور ان جیسے سماج دشمن عناصر کو نہ صرف ریلیاں کرنے کی اجازت دی بلکہ انہیں مکمل تحفظ اور نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی.
اخلاق کے قتل کا واقعہ کون بھول سکتا ہے جس نے گئو آتنکیوں کے اندر سے خوف ختم کر دیا، اگر واقعی ملائم سنگھ اور انکی پارٹی مسلم قوم کی ہمدرد ہوتی تو قاتلوں کے خلاف مضبوط پیروی کرتی لیکن اس کے برعکس ان کی حکومت نے اخلاق کے گھر والوں پر ہی مقدمہ کروا دیا اور رہی سہی کسر واصل جہنم ہونے والے آتنکی کے گھر والوں کو 25لاکھ اور سرکاری نوکری سے اعزاز دیکر قوم مسلم کے زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کیا.
مظفر نگر کے دنگے اسی کی حکومت میں ہوئے اور آج بھی وہاں کے لوگ کیمپ میں رہنے کو مجبور ہیں.
اگر اب بھی کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملائم سنگھ اکھلیش یا مایاوتی جیسے لوگ مسلم قوم اور سیکولرزم کے ہمدرد ہیں تو انہیں اپنے دماغ کا علاج کرانے کی ضرورت ہے.
باتیں اور بھی ہیں لیکن میں آخر می یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنی قیادت کو مضبوط کیجیے آج نہ سہی کل ضرور وہ ہمارا اتحاد دیکھ کر ہماری قیادت کے پاس گٹھبندھن کے لیے آئیں گے، اور تب ہم مجبور ہو کر نہیں بلکہ مضبوط ہو کر اور اپنی شرطوں کے ساتھ سمجھوتہ کریں گے.