اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: آئین ہند سے چھیڑ چھاڑ جمہوریت کے لئے شدید خطرہ!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 16 February 2019

آئین ہند سے چھیڑ چھاڑ جمہوریت کے لئے شدید خطرہ!

احتشام الحق چھتہی ضلع سنت کبیر نگر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھِلے، وہ کھِلا رہے صدیوں
یہاں خِزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو​
سامعیں باتمکین! وطن عزیز ہندوستان کو دنیا کے دیگر ممالک پر یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں کے رہنے والے متعدد مذاہب کے پیرو اور مختلف تہذیبوں کے امین ہیں۔ یہاں پر کبھی بودھ مذہب کے ماننے والوں نے محبت انسانی کے گیت گائے ہیں تو کبھی جین، ہندو اور سکھ مذہب کے پیروؤں نے روحانیت کی شمعیں روشن کی ہیں۔ اسی سرزمین پر اہل اسلام نے انسان دوستی کی داستانیں رقم کی ہیں تو مسیحیت کے نام لیواؤں نے بھی اخوت انسانی کادرس دیا ہے۔ ارض ہند دراصل وہ مقدس سرزمین ہے جہاں ہر دور میں ہی انسان دوستی کے علمبردار اور محبت و اخوت کے داعی جنم لیتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے بجا طور پر وطن عزیز کو اس چمن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو گلہائے رنگا رنگ سے آراستہ ہو یا پھر اس کو اس خوشنما آسمان کی مانند قرار دیا جاسکتا ہے جو مختلف قسم کے ستاروں سے جگمگارہا ہو،
ایسے ملک کے لئے جو مذکورہ بالا صفات کا حامل ہو یقینا ایک ایسے آئین کی ضرورت تھی جو بلا امتیاز مذہب و ملت انسانی حقوق کا سچا علمبردار ہو اور اس میں کسی کے ساتھ کوئی امتیاز و تعصب نہ برتا گیا ہو۔
ہمارے آئین مذکورہ کچھ اہم و ممتاز انسانی حقوق اس طرح ہیں،
 ملک میں رہنے والے تمام ہی افراد باعتبار انسان یکساں حقوق کے مالک ہیں اورآئینی اعتبار سے ان کے اندر کسی قسم کی اونچ نیچ، ادنیٰ و اعلیٰ کی کوئی تفریق نہیں۔ حقوق و اختیارات میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی گئی ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آئین واضح طور پر مساویانہ حقوق کا پاسدار ہے اگر اسکی پاسداری نہ کی گئی تو یہ آئین ہند جمہوریت کے لئے شدید خطرہ کا باعث بن سکتا ھے  جیسا کہ آئین کی دفعہ 15,14 میں کہا گیا ہے۔ ”مملکت کسی شخص کو ملک کے اندر قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔“ اور ”مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بناء پر کسی طرح کا امتیاز نہیں برتے گی، سرکاری ملازمت کے سلسلے میں تمام باشندگان کو ملے ہوئے حقوق کا ذکر آئین کی دفعہ 16میں کیاگیا ہے۔ ”تمام شہریوں کو مملکت کے کسی عہدے پر ملازمت یا تقرر سے متعلق مساوی موقع حاصل ہوگا،
آج مزکودہ آئین کے دفعہ 16 کے تئیں باشندگان ہند کو ملنے والے حقوق پامال کئے جارھے ھیں گویاکہ آئین ہند پر تلوار چلائی جارھی ھے ،اس سے چھیڑ چھاڑ کیا جارھا ھے،،جمہوریت کے تمام رخوں کو نظر آتش کیا جارہا ھے  جس سے ہماری جمہوریت کو  شدید خطرہ لاحق پو سکتا   ھے،
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ  آئین ہند ہماری جمہوریت کو ترقی کے اعلی منزل تک لے جائے
آج آئین ہند کے ذمہ داروں کی طرف سے لاپروائی اور غفلت برتی جارھی ھے مفاد پرستوں اور وطن پرستوں کی سازشیں اور عیارانہ کوششیں ،،تنگ نظری اور تعصب کو جنم دے کر اس کو زبردست نقصان پہچا کر ملک کے آئین میں بد نظمی کی کیفیت پیدا کی جارھی ھے ،،جس سے جمہوریت کی جڑیں کمزور اور ملک میں انتشار کے حالات پیدا ہوتے جارھے ھیں ،،جس سے اس کی ترقی کہ رفتار میں رکاوٹیں اتی جارھی ھیں ،،اور اس کہ سمت منزل ھی بدلتی جارھی ھے
اسی لئے  جمہوریت کے طرز حکومت کے بجائے طرز حیات کی صورت اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہاگیا  تھا کہ اگر آئین ہند سے پنجہ آزمائی کی گئی تعصب جہالت اور قدامت پرستی کو جمہوریت پر حاوی ہونے دیا گیا  تو ہمارا یہ جمہوری نظام تباہ ہوجائیگا
   ناظرین ذی وقار ،
ملک کو آزاد ھوئے 70 سال اور جمہوریہ بنے 68 سال ہوگئے ھیں اگر ماضی کی طرف مڑ کر دیکھا جائے تو یہ آزادی اور جمہوریت محض سراب معلوم ہوتی ھے جو دور سے دیکھنے میں انتہائی خوبصورت اور دلکش ھے،، مگر قریب جاکر دیکھا جائے تو سیاہ چمکیلی ریت کے سوا کچھ بھی نھیں ھے ،،،کیا واقعی ہمارے بزرگوں نے اسی آزادی اور جمہوریت کے لئے اپنی بیش قیمت جانیں قربان کی تھیں ،،اور کیا ہمارے دستور ساز رہنما ایک ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جہاں طبقاتی کشمکش ھو ،،جہاں پس ماندگی ،،غربت افلاس و جہالت ہو ،،جہاں رنگ و نسل کہ تفریق پر مبنی سیاست کا بول بالا ھو،، جہاں اقتدار کے لئے تمام اخلاقیات اٹھا کر رکھ دی جاتی ھوں جہاں قانون تو ھو مگر صرف کمزوروں کےلئے،، جہاں طاقت ور قانون سے بالا تر ہوں ،، جہاں تنگ نظری عصبیت اور فرقہ واریت ھو،،جہاں بے گناہوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہو ،،اور مجرم کھلے بندوں گھومتے پھرتے ھوں
،،کیا یہی ہمارے ملک کا دستور ھے، کیا یہ آئین ہند سے کھلواڑ نھین ،کیا یہی ظالمانہ ہم آہنگی آئین ہند میں مزکور ھے،  کیا یہی جمہوریت ھے ،اگر یہی جمہوریت ھے تو شاید کسی مہذب سماج کو ایسی جمہوریت کی ضرورت ہو
؎ جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِسیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
   سامعین کرام ،
 حق مساوات کے ساتھ ہی ایک جمہوری آئین کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہاں کے رہنے والے مختلف قسم کی آزادی کے حامل ہوں۔ ان میں اظہار رائے کی آزادی بھی ہوسکتی ہے اورمختلف جلسے، انجمنیں اور جلوس وغیرہ منعقد کرنے، تنظیمیں اور تحریکیں بنانے اور چلانے، آزادانہ طور پر پورے ملک کا سفر کرنے، سرمایہ کاری کی آزادی اور جان و مال کی آزادی بھی ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے باوقار آئین میں کہا گیا ہے۔ دفعہ 19 تا 22 میں لکھا ہے کہ ،مملکت کے تمام شہریوں کو امن پسند طریقہ سے اور بغیر ہتھیار کے جمع ہونے کا ،مملکت کے ہر ایک حصہ میں تقریر اور اظہار کی آزادی کا ،انجمنیں یا یونین قائم کرنے کا ،بھارت کے تمام علاقہ میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے کا ،ہندوستان کے کسی بھی حصہ میں بود و باش کرنے اور مکمل رہائش کا ،، حق حاصل ہوگا،
آج آئین ہند کے  ان تمام حقوق کو زمین بوس کیا جارھا ھے،، اور اس سے زور آزمائی کی جارھی ھے ، جس کی وجہ سے ہماری جمہوریت خامیوں کے دل دل میں دھنستی چلی جارھی ھے
چناچہ  انسانی فطرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے حساس مذہبی جذبہ ہوتا ہے۔ اس کے تحت ہی مختلف افراد میں جنگ و جدل کاوجود نظر آتا ہے۔ یہ بات ان ملکوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار رہتے ہوں۔ ہمارے ملک کا اس سلسلہ میں بہت نمایاں مقام ہے کیونکہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ اس لئے آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کرنے، اس کی تبلیغ و تشہیر کرنے اوراس کے اصولوں پر چلنے کی مکمل آزادی دی گئی اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 25 میں کہا گیا ہے۔ ”تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے۔ اس کی پیروی کرنے کا مساوی حق حاصل ہے،
۔ اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 29میں کہا گیا ہے۔ ”بھارت کے علاقے میں یا اس کے کسی بھی حصے میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقے کو جس کی اپنی جداگانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہوگا،آئین کی دفعہ 30 میں یہ بھی کہا گیا ہے،تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کے نام پر ہوں یا زبان کے، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اوران کے انتظام کاحق حاصل ہوگا۔
سامعین کرام ،
بتاریخ 26 جنوری 1950 کو ہندوستان میں جمہوری قانون کا نفاذ عمل میں آیا جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ اس ملک میں مذھبی آزادی تہزہبی و تعلیمی حقوق کی پاسبانی جائداد کے حقوق اور حصول انصاف کا حق ہر ہندوستانی کو بلا تفریق مذھب و ملت برابر حاصل ہوگا اقلیتوں کو بالخصوص یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ انکے دین و مذھب اور انکے تشخص کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے ، کیا 68 سالہ طویل عرصہ گزرنے کے بعد ہماری موجودہ جمہوریت ان تقاضوں کو پورا کررھی ھے آج دن کے اجالے میں ڈنکے کی چوٹ پر اقلیتوں ،دلتوں، عیسائیوں ،اور بالخصوص مسلمانوں کے حقوق پر جس طرح شب خون مارنے کی کو شش کی جارھی ھے اس سے جمہوریت کا تصور بھی بے جا ھے ،
سوال یہ ھے کہ یہ کیسی جمہوریت ھے کہ ہر دن طلوع ہونے والا آفتاب اقلیتوں کی تباہی کی خبر لاتا ھے       جب سے آر ایس ایس لے سیاسی بازو  بی جے پی ملک پر قابض ہوئی فرقہ پرستی اپنے عروج پر پہچ چکی ھے کبھی مسلم مکت بھارت کا نعرہ ،تو کبھی  جے شری رام کے نام پر دلت اور مسلموں کا بے رحمانہ قتل ،کبھی تبدیلی مذھب، لو جہاد ، گئو کشی اور لینڈ جہاد کے نام پر دہشت پھیلانا ،حکومت کا مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے ولے آر یس یس کے لوگوں کے ساتھ پھر بھی ہمدردی کا سلسلہ جاری ھے ،دوسری طرف پرنٹ میڈیا ، الکٹرانک میڈیا ،شوشل میڈیا ،ہر جگہ حکومت کی چاپلوسی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیز بیانات اور ڈبیٹس کے ذریعہ ایک طبقہ کو مسلسل نشانہ بنا رھا ھے ،، اور ملک کا سر براہ بھی ایسا کہ فرقہ پرستی اور ظلم کے خلاف اسکے لب ہمیشہ بند رہتے ھیں ، ملک کے ماحول کو ایسا پراگندہ اور خوف زدہ کردیا ھے کہ جمہوریت کا دوسرا اہم ستون عدلیہ تک بھی محفوظ نھیں ھے ،، وہاں بھی بھگوئیت کا ہی سکہ رائج ھے چار جج پریس کانفرنس یہ کہنے پر مجبور ھیں کہ جمہورہت خطرے میں ھے ،، ان حالات اور واقعات کو دیکھ کر کیا کوئی کہ سکتا ھے کہ۔ملک میں جمہوریت نے جو حقوق ہمارے آئین نے دئیے تھے ان پر عمل کیا جارھا ھے ،
اگر یہی عمل ھے تو یقینا قریب ھے وہ وقت کہ جمہوریت کا چراغ گل ہوجائے
سامعین کرام ،
ہمارے ملک کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ وہ دنیاں کہ سب سے بڑی جمہوریہ قرار پاتا ھے اس عرصہ میں ہندوستان نے زندگی کے ہر شعبے میں  طویل سفر طے کیا ھے لیکن آئین و دستور کے معماروں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا اسکو یقینی بنانے اور دستور سازوں کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے بے تکان جد و جہد کی ضرورت ھے ،جب تک جد و جہد سے بھر پور راستہ اختیار نھیں کیا جائیگا اور جمہوری عمل میں پائی جانے والی خامیوں کو دور نھیں کیا جائیگا قومی رہنماؤں کے خواب کی تعبیر قرار پانے والے ہندوستان کی تعمیر نھیں ھوسکے گی
مندرجہ بالا تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے باوقار آئین میں جس طرح سے عوام الناس کو بالادستی حاصل تھی ،وہ اب بھی حاصل ہونی چاہئے ، اور یہاں کے رہنے والوں کے بنیادی حقوق کا جس طرح لحاظ رکھا گیا تھا،،  اب بھی رکھا جانا چاہئے،ورنہ یہ جمہوریت ماند پڑ جائیگی ،اگر حالات یہی رھے تو آئین ہند ملک کے حال و مستقبل کا امین نھین بن سکتا   اس بنا پر بلا خوف تردید یہ بات پایہٴ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ ہمارا آئین پوری طرح سے انسانی حقوق کا پاسدار اوراس کا سچا علمبردار ہے۔
نوٹ: یہ بھی ایک افسوسناک سچائی ہے کہ یہ دستور جن ہاتھوں میں ہے وہ اپنے ذہنی تحفظات کی بناء پر اس دستور کو مکمل طورپر نافذ کرنے سے گریز کرتے ہیں
                        ــــــــــعــــــ
ایک آنسوں بھی جمہوریت کے لئے خطرہ ہے
تم نے دیکھا ھی نھیں انکھوں کا سمندر ہونا