اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 21 February 2019

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ!

عبدالاحد خان چتوڑی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
انسان ایک سوشل جاندار ہے، ایک دوسرے کے کام آنا اس کا بنیادی وصف ہے، مثال کے طور پہ یوں سمجھیں کہ ایک انسان کی بہت ساری ضرورتیں ہوتی ہیں، کپڑا، جوتا، چپل، کھانا، پینا، مکان وغیرہ، مگر انسان کپڑا دوکان سے خریدتا ہے، پھر درزی سے سلواتا ہے، لیکن کپڑے کا دھاگہ کہیں بنا اور پھر اس کی بنائی کہیں اور ہوئی، پھر سلائی کہیں، یعنی اس کپڑے کی بنائی اور پھر اس کے سلائی تک بہت سارے لوگوں کی محنتیں شامل ہوتی ہیں، یہی مثال جوتے ،چپل، کھانے، پینے کی اشیاء اور رہائشی مکان وغیرہ کی بھی ہے۔
یہ ساری چیزیں کئی مرحلوں سے گذرنے کے بعد ہی قابل استعمال بن پاتی ہیں، ان سب کو تیار کرنے میں بہت سارے افراد کی ضرورت ہوتی ہے، اور ان کاموں کے ماہرین ہاتھوں کو کام دینے نیز وہ سب اپنا کام ایمانداری سے کرتے رہیں، اس کی نگرانی کرنے کے لئے ایک تیسری آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے، اور اسی تیسری آنکھ کا نام حکومت ہے۔
انسان کے سوشل جاندار ہونے کے متعلق "ارسطو" نے لکھا کہ اگر ایک بہت بڑے گھنے جنگل میں ایک کوا کو تنہا چھوڑ دیا جاۓ تو کوا تو جی لے گا تنہا اگر کسی انسان کو ایسے جنگل میں چھوڑ دیا جاۓ تو انسان کچھ ہی گھنٹوں  میں مر جائے گا۔
فرق یہ ہے کہ کوے کی ساری ضرورتیں اس کی اپنی ذات سے وابستہ ہیں، اور انسان کی ضروریات زندگی ایک دوسرے کے سہارے پہ ٹکی ہوئی ہیں۔
یہی تیسری آنکھ یعنی حکومت اگر خود ایماندار ہے اور سب کے حق و حقوق کی نگرانی اور حفاظت ایمانداری سے کرتی ہے، تو اسے کامیاب اور انصاف پہ مبنی حکومت مانا جائے گا۔
یہ تو کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی سرکار نے کسی خاص طبقے کے محرومی کا احساس کرکے اسے ریزروریشن دے دیا، کسی نے غریب لڑکیوں کی تعلیمی حوصلہ افزائی کے لئے کنیا ودیا دھن کا تحفہ دے دیا، ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت نے اعلیٰ ذات کے غریبوں کے لئے دس فیصد ریزرویشن لاگو کر دیا، اور فی الحال راجستھان گورنمنٹ نے گوجروں کے لئے پانچ فیصد ریزرویشن پاس کر دیا، حکومت نے کسی طبقے کی محرومی کو پیش نظر رکھ کے اگر یہ فیصلہ لیا ہے تو یقینا اس کا استقبال ہونا چاہیے، حکومتیں محروم طبقوں کو کچھ دیتی ہیں تو یقیناً یہ اچھا قدم ہے، اس کی تعریف ہونی چاہئے، لیکن اگر کوئی حکومت کسی خاص طبقے کے بنیادی اور پیدائشی حق میں مداخلت کرے اور وہ بھی ایسا طبقہ جس کی حفاظت اور اسکے حقوق کی مکمل حفاظت کئے بغیر انسان اور انسانیت کی تکمیل کا تصور ہی نا ممکن ہو، تو حکومت کے اس طرح کے قدم کو مبنی بر انصاف کیسے مانا جائے، میری مراد دفعہ 377 کے کالعدم قرار دینے سے ہے۔
عورتوں کی عزت اور آزادی اور ان کے درد کا مداو کا دعویٰ کرنے والی سرکار نے تین طلاق کے نام پر عورتوں کی مظلومیت کا واویلہ خوب مچایا، اور پھر خود ہی ہندوستانی قانون سے دفعہ 377 کو ختم کر کے مردوں کو جسمانی تسکین کے لیے دوسرے راستے فراہم کرکے عورتوں کی بے عزتی اور ناقدری کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا، تین طلاق کے نام پر عورتوں کے لئے گھڑیالی آنسو بہانے والی حکومت خود اپنے گریبان میں جھانکے اور فیصلہ لے کہ کیا اس قدم سے صنف نازک کی ناقدری اور اس کی بے عزتی میں اضافہ نہیں ہوگا، جبکہ انسا نیت کو شرم سار کرنے والے اس حیوانی فعل سے مردوں کو بھی کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، تو سوچیے کہ کچھ حیوان صفت مردوں کی آزادی کے لئے عورت طبقے کے بنیادی وپیدائشی حق اور فطری ریزرویشن میں دخل دینا کیا حکومت کا سہی فیصلہ ہے.
حکومتیں محروم طبقوں کو کچھ دیا کرتی ہیں، ان کے بنیادی اور جائز حقوق ان سے چھینتی نہیں، اور نہ ہی اس میں مداخلت کرتی ہیں، مگر اس حکومت نے چور دروازے سے صنف نازک کے بنیادی حق پہ ڈاکہ ڈال دیا، اور مزید افسوس یہ ہے کہ عورتوں کی ترقی اور ان کے حقوق کے حفاظت کی علمبردار تنظیمیں بھی خواب خرگوش میں مبتلا ہیں، انھیں یہ خبر ہی نہیں کہ حکومت نے مذکورہ قدم کے ذریعہ ہم عورتوں سے کیا چھین لیا  اور ہمیں کس حد تک سماجی سب کی اور ناقدری کے گڈھے کے قریب پہونچا دیا، اور آگے چل کر اسکے انجام کس قدر خطرناک صورت میں ظاہر ہوں گے۔
غیر ملکوں کی بات چھوڑیں، آج یہاں اپنے ملک میں بھی ایسی ذہنیت پنپ رہی ہے، جو شادی بیاہ کو بارگراں اور فضول نیز بیوی بچوں کو بیکار کا بوجھ تصور کرتے ہیں، ایسی ذہنیت کے لوگ دیہات میں تو ابھی نا کے برابر ہیں‌لیکن شہروں کا ر ن سہن اسسے اچھوتا نہیں ہے، اور پھر ہمارے یہاں تو پوری ایک تنظیم ہی اس پر عمل پیرا ہے، ممکن ہے کہ مذکورہ دفعہ کے ختم کرانے کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہو، کیوں کہ حکومت میں مکمل طور پر اسکا عمل و دخل ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، ہرکس وناکس اس سے باخبر بھی ہے۔
میں اپنے تحریر سے پورے ملک کے عوام و خواص دانشور طبقہ اور خاص طور پہ عورتوں کے فلاح وبہبود اور انکے وقار و تحفظ کی علمبردار تنظیموں کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں کہ آپ حضرات مل بیٹھ کے سوچیں اور غور کریں کہ کیا دفعہ 377کا خاتمہ صنف نازک کے پیدائشی حق سے چھیڑ چھاڑ اور ان کے فطری ریزرویشن (بلا شرکت غیرے) میں دخول ہے کہ نہیں۔
کوئی ضروری نہیں کہ ہمارے گھر میں داخل ہونے کے لئے چور ہمارے ہی دیوار کا سہارا لے پڑوسی کے دیوار کے سہارے بھی چور اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہے، اور ببانگِ دہل دعویٰ بھی کر سکتے ہیں کہ میں نے آپ کی دیوار کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔
بہر حال اس فعل قبیح سے جہاں انسانیت کی حد درجہ شرم ساری ہے، وہیں عورتوں کے حقوق سے ان کے صبرو منزلت اور وقار پہ ایک ضرب کاری بھی ہے، اور یہ فیصلہ صنف نازک کے لئے میٹھا زہر ثابت ہوگا، جس سے انکی اگلی نسل کافی حد تک متاثر ہونا شروع ہو جائے گی، اس میں بڑی ہوشیاری سے ایک تنہا لکیر کے سامنے ایک دوسری لکیر کھینچ دی گئی ہے، اور اس تنہا لکیر کے پیدائشی و فطری ریزرویشن میں دوسری لکیر کو بھی بڑی چالاکی سے شریک کر دیا گیا ہے، اور لواطت پسندوں اور اس کے حامیوں نیز سرکار جننی تنظیم کا مقصد بھی پورا ہو گیا، اور مظلوم کو اپنے اوپر کئے گئے ظلم کا احساس تک نہیں ہو پایا، مگر ایک بات بالکل صاف اور واضح نظر آتی ہے کہ یہ میٹھا زہر دھیرے دھیرے اپنے اثرات بڑھاۓ گا، اور ایک نہ ایک دن پورے ہندوستانی سماج (بلا تمیز ہندو،مسلم ،سکھ،عیسائی) یعنی پورے ملک کو اپنے لپیٹ میں لے لے گا، اس دن کے متعلق ذرا سوچیے، اگر آپ سوچیں گے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے کہ تب ان مظلوم عورتوں کی کیا حالت ہوگی، کون انکا پرسان حال ہوگا، کیوں اس وقت تو پورا سماج یا اس کی اکثریت اس کی لپیٹ میں آچکی ہوگی۔
اس لئے ابھی وقت ہے کہ دانشورانِ ملک و قوم اور خصوصاً صنف نازک کے لئے قائم کردہ فلاحی تنظیمیں مل بیٹھ کر اس پہ غورو خوض کریں، اور ہو سکے تو حکومت نیز معزز عدلیہ سے اس پہ نظر ثانی کی گذارش بھی کریں ۔
ورنہ وہ دن ضرور آۓ گا کہ آج کی یہ معمولی سی نظر آنے والی چنگاری ایک دن شعلہ جوالہ بنکر پورے ہندوستانی سماج نیز پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیگی، اور پھر ہاتھ ملنے اور افسوس کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جائیگا، کیونکہ بہت دیر ہوچکی ہوگی اور یہ حیوانی سوچ و فکر اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہوگی۔