جمال احمد چھتہی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔
یونانی کہتے ہیں کہ عورت سانپ سے زیادہ خطرناک ہے، سقراط کا کہنا تھا کہ عورت سے زیادہ اور کوئی چیز دنیا میں فتنہ و فساد کی نہیں، بونا وٹیوکر کا قول ہے کہ عورت اس بچھو کی مانند ہے جو ڈنگ مارنے پر تلا رہتا ہے، یوحنا کا قول ہے کہ عورت شر کی بیٹی ہے اور امن و سلامتی کی دشمن ہے، رومن کیتھولک فرقہ کی تعلیمات کی رو سے عورت کلامِ مقدس کو چھو نہیں سکتی اور عورت کو گرجا گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، عیسائیوں کی سب سے بڑی حکومت رومتہ الکبریٰ میں عورتوں کی حالت لونڈیوں سے بدتر تھی، ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا، یورپ کی بہادر ترین عورت جون آف آرک کو زندہ جلا دیا گیا تھا، دورِ جاہلیت کے عربوں میں عورت کو اشعار میں خوب رسوا کیا جاتا تھا اور لڑکیوں کے پیدا ہونے پر ان کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔
لیکن محسنِ انسانیت، رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے عورت کے بارے میں ارشادات ملاحظہ فرمایئے:
قیامت کے دن سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھولوں گا تو دیکھوں گا کہ ایک عورت مجھ سے پہلے اندر جانا چاہتی ہے تو میں اس سے پوچھوں گا کہ تو کون ہے؟ وہ کہے گی میں ایک بیوہ عورت ہوں، میرے چند یتیم بچے ہیں۔
جس عورت نے اپنے رب کی اطاعت کی اور شوہر کا حق ادا کیا اور شوہر کی خوبیاں بیان کرتی ہے اور اس کے جان و مال میں خیانت نہیں کرتی تو جنت میں ایسی عورت اور شہید کا ایک درجہ ہوگا۔
جو عورت ذی مرتبہ اور خوبصورت ہونے کے باوجود اپنے یتیم بچوں کی تربیت و پرورش کی خاطر نکاح نہ کرے وہ عورت قیامت کے دن میرے قریب مثل ان دو انگلیوں کے برابر ہے۔
جس عورت نے نکاح کیا، فرائض ادا کیے اور گناہوں سے پرہیز کیا اس کو نفلی عبادات کا ثواب خدمتِ شوہر، پرورشِ اولاد، اور امورِ خانہ داری سے ملے گا.
جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں روزہ رکھ کر جہاد کرنے اور رات کو عبادت کرنے والی (عورت) کے برابر ثواب ملتا ہے۔
عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا، اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت کرکے دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا، اور عورت کو وہ بلند مقام عطا کیا جس کی وہ مستحق تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔
یونانی کہتے ہیں کہ عورت سانپ سے زیادہ خطرناک ہے، سقراط کا کہنا تھا کہ عورت سے زیادہ اور کوئی چیز دنیا میں فتنہ و فساد کی نہیں، بونا وٹیوکر کا قول ہے کہ عورت اس بچھو کی مانند ہے جو ڈنگ مارنے پر تلا رہتا ہے، یوحنا کا قول ہے کہ عورت شر کی بیٹی ہے اور امن و سلامتی کی دشمن ہے، رومن کیتھولک فرقہ کی تعلیمات کی رو سے عورت کلامِ مقدس کو چھو نہیں سکتی اور عورت کو گرجا گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، عیسائیوں کی سب سے بڑی حکومت رومتہ الکبریٰ میں عورتوں کی حالت لونڈیوں سے بدتر تھی، ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا، یورپ کی بہادر ترین عورت جون آف آرک کو زندہ جلا دیا گیا تھا، دورِ جاہلیت کے عربوں میں عورت کو اشعار میں خوب رسوا کیا جاتا تھا اور لڑکیوں کے پیدا ہونے پر ان کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔
لیکن محسنِ انسانیت، رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے عورت کے بارے میں ارشادات ملاحظہ فرمایئے:
قیامت کے دن سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھولوں گا تو دیکھوں گا کہ ایک عورت مجھ سے پہلے اندر جانا چاہتی ہے تو میں اس سے پوچھوں گا کہ تو کون ہے؟ وہ کہے گی میں ایک بیوہ عورت ہوں، میرے چند یتیم بچے ہیں۔
جس عورت نے اپنے رب کی اطاعت کی اور شوہر کا حق ادا کیا اور شوہر کی خوبیاں بیان کرتی ہے اور اس کے جان و مال میں خیانت نہیں کرتی تو جنت میں ایسی عورت اور شہید کا ایک درجہ ہوگا۔
جو عورت ذی مرتبہ اور خوبصورت ہونے کے باوجود اپنے یتیم بچوں کی تربیت و پرورش کی خاطر نکاح نہ کرے وہ عورت قیامت کے دن میرے قریب مثل ان دو انگلیوں کے برابر ہے۔
جس عورت نے نکاح کیا، فرائض ادا کیے اور گناہوں سے پرہیز کیا اس کو نفلی عبادات کا ثواب خدمتِ شوہر، پرورشِ اولاد، اور امورِ خانہ داری سے ملے گا.
جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں روزہ رکھ کر جہاد کرنے اور رات کو عبادت کرنے والی (عورت) کے برابر ثواب ملتا ہے۔
عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا، اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت کرکے دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا، اور عورت کو وہ بلند مقام عطا کیا جس کی وہ مستحق تھی۔