ذیشان الہی منیر تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
7مارچ 2019 کو ہندوستان کی ایک مشہور و معروف اور تاریخی شہر لکھنؤ کے اندر چند بے چارے غریب و لاچار اور مزدور قسم کے کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نہایت ہی بدترین، دلسوز اور حیوانیت پر مبنی واقعہ تھا ۔دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ چند کشمیری بے چارے جو غربت کی وجہ سے اپنی ریاست سے دور آکر لکھنؤ میں میوہ اور اور پھل بیچا کرتے تھے اور وہ لوگ لگ بھگ بیس سال
سے یہ کام کررہے تھے ۔فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنا خون اور پسینہ ایک کرکے دو اور ڈھائی سو بڑی مشکل سے ایک دن میں کماپاتے ہیں ۔لیکن 7مارچ کو کچھ نام نہاد دیش بھکت بھگوا رنگ کا کپڑا پہنے ہاتھ میں لاٹھی لیئے ہوئے ان کے پاس آتا ہے اور انہیں کشمیری ہونے کی وجہ کر خوب پیٹتا ہے اور ظلم و ستم کرتا ہے اور ویڈیوں بھی انہیں میں سے ایک شخص بناتا ہے ۔اسی درمیان چند نیک صفت انسان تشریف لاتے ہیں اور وہ مارنے کی وجہ دریافت کرتے ہیں تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کشمیری، پلوامہ حملہ کے ملزم اور پتھر مارنے والے ہیں ۔ان لوگوں نے جواب میں کہا کہ کسی کو ملزم ٹہرانا یہ پولیس کا کام ہے تمہارا نہیں آخر تم کون ہوتے ہو کہ کسی کو دیش بھکت اور دیش کا دشمن قرار دو ۔بڑی مشکل سے بھگوادھاری غنڈے نے ان لوگوں کو مارنا بند کیا پھر اس کے بعد ان سے آدھار کارڈ وغیرہ بھی دیکھا گیا ۔میڈیا کا مانے تو پولیس تماشائی ان لوگوں کی غنڈہ گردی اور داداگیری دیکھ رہی تھی پھر ان ہی بے چارے کشمیریوں کو گرفتار کرکے جیل لے گئی لیکن جب ویڈیوں خوب وائرل ہونے لگا تو ان کشمیریوں کو چھوڑ کر ان بھگوادھاری غنڈو کو گرفتار کیا گیا ۔
ان تمام واقعات اور حادثات کو مد نظر رکھنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا بھگوا دھاری غنڈو کے آگے ہماری پولیس بھی لاچار ہیں ؟کیا اس طرح کے لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہے؟ کیوں یہ لوگ غریبوں پے ظلم کرتے ہیں؟ کیا کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں؟ جب کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے تو کیا کشمیری ہمارے نہیں؟ کیا کشمیری کو کشمیر کے باہر دوسری ریاست میں تجارت اور تعلیم حاصل کرنا جرم ہے؟ کیا کشمیری ہونا ظالم اور پتھر مارنے والا ہونا ہے؟ آخر کشمیریوں پر ہورہے ظلم پر وزیر اعظم اور سپریم کورٹ کی کڑی ہدایت کے بعد بھی غنڈو کی غنڈہ گردی رکنے کا نام نہیں لے رہی آخر اس کےذمہ دار کون ہیں؟ کیا ان نام نہاد دیش بھگت کو کھلی چھوٹ ملی ہے کہ وہ جب چاہے کشمیریوں کو مارے انہیں آتنک واد اور دہشت گرد قرار دے؟ آخر ان غنڈو اور وطن کے دشمن، سیکولر اور قوانین کے دشمن کو اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ وہ کھلے عام غنڈہ گردی کررہے ہیں؟ آخر ان کو دردناک اور عبرتناک سزا ہماری سرکار کب دے گی؟ ۔
مذکورہ بالا تمام سوالات صرف میرے ہی نہیں بلکہ ہر اس ہندوستانی کے ہیں جو سیکولر اور گنگا جمنی تہذیب میں یقین رکھتے ہیں ۔جو ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہیں جو نفرت اور ظلم و زیادتی کرنا نا پسند کرتے ہیں اور ایسی چیز کو انڈیا کی تہذیب و ثقافت کے خلاف قرار دیتے ہیں جو یہاں کی چین، سکون ،بھائی چارگی اور الفت و محبت کو ختم کردے۔یقینا ایسے لوگ ملک کے وفادار اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں ۔آج ہندوستان نام نہاد دیش بھگت کی وجہ کر ظلم و زیادتی کا اڈہ بنا ہوا ہے وہ کشمیر جو کبھی جنت ہوا کرتا تھا جہاں پر لوگ چین و سکون اور راحت و آرام کے لئے جایا کرتے تھے آج وہ جہنم بن چکا ہے ہر طرف فتنہ و فساد کا دور دورہ ہے اور اس میں جہاں ایک طرف ہندوستان کے دشمن ممالک شامل ہیں وہی دوسری طرف ایسے نام نہاد دیش کے دہشت گردوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو ظلم و زیادتی کو بڑھاوا دے کر لوگوں کو ظلم کرنے پر مجبور کررہے ہیں ۔اس لئے آج وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ہماری سرکار ایسے نام نہاد دیش بھگت غنڈو کو جیل کی سلاخوں میں ڈال کر کڑی سے کڑی سزا دے تاکہ آئندہ کوئی کشمیریوں یا کسی بھی معصوم پر ظلم کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے سے پہلے سو مرتبہ سوچے ۔کیونکہ کشمیر بھی ہمارا ہے اور کشمیری بھی ہمارے ہیں اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری سرکار اور ہماری پولیس کی ہے ۔اگر ہماری سرکار اور پولیس نے کشمیر اور کشمیریوں کے امن، شانتی اور تحفظ کے لئے بہتر اقدام کیئے تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر پھر سے امن کا گہوارہ اور دنیا کا جنت بن جائے گا ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
7مارچ 2019 کو ہندوستان کی ایک مشہور و معروف اور تاریخی شہر لکھنؤ کے اندر چند بے چارے غریب و لاچار اور مزدور قسم کے کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نہایت ہی بدترین، دلسوز اور حیوانیت پر مبنی واقعہ تھا ۔دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ چند کشمیری بے چارے جو غربت کی وجہ سے اپنی ریاست سے دور آکر لکھنؤ میں میوہ اور اور پھل بیچا کرتے تھے اور وہ لوگ لگ بھگ بیس سال
سے یہ کام کررہے تھے ۔فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنا خون اور پسینہ ایک کرکے دو اور ڈھائی سو بڑی مشکل سے ایک دن میں کماپاتے ہیں ۔لیکن 7مارچ کو کچھ نام نہاد دیش بھکت بھگوا رنگ کا کپڑا پہنے ہاتھ میں لاٹھی لیئے ہوئے ان کے پاس آتا ہے اور انہیں کشمیری ہونے کی وجہ کر خوب پیٹتا ہے اور ظلم و ستم کرتا ہے اور ویڈیوں بھی انہیں میں سے ایک شخص بناتا ہے ۔اسی درمیان چند نیک صفت انسان تشریف لاتے ہیں اور وہ مارنے کی وجہ دریافت کرتے ہیں تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کشمیری، پلوامہ حملہ کے ملزم اور پتھر مارنے والے ہیں ۔ان لوگوں نے جواب میں کہا کہ کسی کو ملزم ٹہرانا یہ پولیس کا کام ہے تمہارا نہیں آخر تم کون ہوتے ہو کہ کسی کو دیش بھکت اور دیش کا دشمن قرار دو ۔بڑی مشکل سے بھگوادھاری غنڈے نے ان لوگوں کو مارنا بند کیا پھر اس کے بعد ان سے آدھار کارڈ وغیرہ بھی دیکھا گیا ۔میڈیا کا مانے تو پولیس تماشائی ان لوگوں کی غنڈہ گردی اور داداگیری دیکھ رہی تھی پھر ان ہی بے چارے کشمیریوں کو گرفتار کرکے جیل لے گئی لیکن جب ویڈیوں خوب وائرل ہونے لگا تو ان کشمیریوں کو چھوڑ کر ان بھگوادھاری غنڈو کو گرفتار کیا گیا ۔
ان تمام واقعات اور حادثات کو مد نظر رکھنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا بھگوا دھاری غنڈو کے آگے ہماری پولیس بھی لاچار ہیں ؟کیا اس طرح کے لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہے؟ کیوں یہ لوگ غریبوں پے ظلم کرتے ہیں؟ کیا کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں؟ جب کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے تو کیا کشمیری ہمارے نہیں؟ کیا کشمیری کو کشمیر کے باہر دوسری ریاست میں تجارت اور تعلیم حاصل کرنا جرم ہے؟ کیا کشمیری ہونا ظالم اور پتھر مارنے والا ہونا ہے؟ آخر کشمیریوں پر ہورہے ظلم پر وزیر اعظم اور سپریم کورٹ کی کڑی ہدایت کے بعد بھی غنڈو کی غنڈہ گردی رکنے کا نام نہیں لے رہی آخر اس کےذمہ دار کون ہیں؟ کیا ان نام نہاد دیش بھگت کو کھلی چھوٹ ملی ہے کہ وہ جب چاہے کشمیریوں کو مارے انہیں آتنک واد اور دہشت گرد قرار دے؟ آخر ان غنڈو اور وطن کے دشمن، سیکولر اور قوانین کے دشمن کو اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ وہ کھلے عام غنڈہ گردی کررہے ہیں؟ آخر ان کو دردناک اور عبرتناک سزا ہماری سرکار کب دے گی؟ ۔
مذکورہ بالا تمام سوالات صرف میرے ہی نہیں بلکہ ہر اس ہندوستانی کے ہیں جو سیکولر اور گنگا جمنی تہذیب میں یقین رکھتے ہیں ۔جو ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہیں جو نفرت اور ظلم و زیادتی کرنا نا پسند کرتے ہیں اور ایسی چیز کو انڈیا کی تہذیب و ثقافت کے خلاف قرار دیتے ہیں جو یہاں کی چین، سکون ،بھائی چارگی اور الفت و محبت کو ختم کردے۔یقینا ایسے لوگ ملک کے وفادار اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں ۔آج ہندوستان نام نہاد دیش بھگت کی وجہ کر ظلم و زیادتی کا اڈہ بنا ہوا ہے وہ کشمیر جو کبھی جنت ہوا کرتا تھا جہاں پر لوگ چین و سکون اور راحت و آرام کے لئے جایا کرتے تھے آج وہ جہنم بن چکا ہے ہر طرف فتنہ و فساد کا دور دورہ ہے اور اس میں جہاں ایک طرف ہندوستان کے دشمن ممالک شامل ہیں وہی دوسری طرف ایسے نام نہاد دیش کے دہشت گردوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو ظلم و زیادتی کو بڑھاوا دے کر لوگوں کو ظلم کرنے پر مجبور کررہے ہیں ۔اس لئے آج وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ہماری سرکار ایسے نام نہاد دیش بھگت غنڈو کو جیل کی سلاخوں میں ڈال کر کڑی سے کڑی سزا دے تاکہ آئندہ کوئی کشمیریوں یا کسی بھی معصوم پر ظلم کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے سے پہلے سو مرتبہ سوچے ۔کیونکہ کشمیر بھی ہمارا ہے اور کشمیری بھی ہمارے ہیں اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری سرکار اور ہماری پولیس کی ہے ۔اگر ہماری سرکار اور پولیس نے کشمیر اور کشمیریوں کے امن، شانتی اور تحفظ کے لئے بہتر اقدام کیئے تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر پھر سے امن کا گہوارہ اور دنیا کا جنت بن جائے گا ۔