اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: دارالعلوم دیوبند کی مایہ ناز انجمن "انجمن نادیہ الاتحاد طلبہ ضلع اعظم گڑھ" کا اختتامی اجلاس بڑی ہی حسن وخوبی کے ساتھ اختتام پذیر!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 1 March 2019

دارالعلوم دیوبند کی مایہ ناز انجمن "انجمن نادیہ الاتحاد طلبہ ضلع اعظم گڑھ" کا اختتامی اجلاس بڑی ہی حسن وخوبی کے ساتھ اختتام پذیر!

باد بہار مژدہ لائی ہے کیا چمن میں
 پھر چھڑ گئے ترانے مرغان نغمہ زن میں
ابو عاصم اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز یکم مارچ 2019) گذشتہ کل بروز جمعرات بوقت بعد نماز عشاء بڑے ہی تزک احتشام سے ہماری محبوب ومایہ ناز انجمن "انجمن نادیہ الاتحاد " کا اختتامی اجلاس عمل میں آیا،اللہ تعالی نے ہماری اس محبوب انجمن کو "طلباء دارالعلوم دیوبند" کی نظر میں اس قدر مقبولیت وجازبیت عطا فرمائ ہےکہ مشغول سے مشغول طالب علم اپنی مشغولیوں کو ورے ڈال کر اس میں شرکت کا خواہاں رہتا ہے،چنانچہ کل رات اس مقبولیت کا یہ حال تھاکہ ایک وسیع حال اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامانی کا شکار ہوگیا،ہماری سوچ سے کہیں زیادہ سامعین کا ازدحام رہا،اور پروگرام کے حیرہ کن حسن وخوبی پر داد وتحسین کے الفاظ کے مسلسل جریان سے ان کی زبانیں خشک ہوگئیں،کچھ مضحکہ خیز پروگرام مثلا:"مکالمہ"کو دیکھ کر ہنستے ہنستے ان کے پیٹ میں بل پڑگئے،بالآخر پروگرام کے اختتام پر سامعین نے موجودہ "قیمتی شیرینیوں"سے اپنا منہ میٹھا کرکے "ٹھنڈے پانی"سے لبوں کو تر کیا اور ہماری پیاری انجمن کی مقبولیت وجازبیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی اپنی قیام گاہوں کا رخ کیا،
یہی نہیں بلکہ "دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کرام"کی بے لوث کرم فرمائیاں بھی ہماری اس پیاری انجمن کے ساتھ ہیں،اور ان کا اس سے شغف بھی طلباء سے کچھ کم نہیں،چنانچہ اس بزم میں براجمان کی حیثیت سے جس شخصیت کا نام تھا،وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں،بس میں اتنا ہی کہوں گا،کہ ان کی شخصیت پر جس اجنبی کی بھی نگاہ پڑجاتی ہے،وہ صاحب شخصیت کے غیر معمولی ہونے کا یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتا،وہ اپنی لاثانی قادر الکلامی کی وجہ سے ہر مقام اور ہر جگہ مرکز نگاہ بنے رہتے ہیں،حضرت کی آنکھوں سے ذہانت وعبقریت کے آثار صاف نمایاں ہوتے ہیں،دنیا ان کو "مولانا افضل صاحب بستوی"کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے،حضرت کی تشریف آوری کے ساتھ ساتھ دیگر بڑی بڑی قدآور عظیم الشان شخصیتوں نے بھی بزم ھذا میں شرکت کی زحمت برداشت کی اور اپنا بے حد قیمتی وقت دیکر ہم اراکین بزم کو احسان تلے دبادیا،جن کے اسماے گرامی کچھ اس طرح ہیں،
(1)حضرت مولانا مفتی مزمل صاحب بدایونی استاذ دارالعلوم دیوبند
(2)حضرت مولانا ارشد معروفی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند
(3)حضرت مولانا مفتی اشتیاق صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند
(4)حضرت مولانا کوکب صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند
(5)حضرت مولانا کاتب نیاز احمد صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند
(6)حضرت مولانا رضی آزاد صاحب جونپوری
(7)حضرت مولانا علقمہ صاحب اعظمی معین مدرس دارالعلوم دیوبند
(8)حضرت مولانا مفتی شمس عالم صاحب اعظمی قاسمی
(9)حضرت مولانا رضی اللہ صاحب اعظمی وغیرھم
اللہ تعالی ہمارے ان معزز مہمانوں کو جزاءے خیر دے،اور ان کا سایہء عاطفت ہم تا دیر قائم ودائم رکھے،اور ہماری اس پیاری انجمن کو ابدالآباد تک دن دوگنی رات چوگنی قبولیت وجازبیت سے بہرہ ور فرمائے- آمین یا ربی-
"پروگرام کی مختصر تفصیل پیش خدمت ہے،ملاحظہ فرمائیں"
پروگرام کا آغاز "قاری عبدالاحد صاحب اعظمی"کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا،قرات شروع ہوتے ہی جملہ سامعین مکمل طور پر گوش بر آواز ہوگۓ،اور قاری صاحب نے مجلس کو اپنی مبارک تلاوت سے زعفران زار بنائے رکھا،اختتام پر رسالت مآب -صلی اللہ علیہ وسلم-کی شان میں نذرانہء عقیدت و محبت کا گلدستہ پیش کرنے کے لیے "مداح رسول مولوی محمد کامل صاحب اعظمی"نے قدم بڑھایا،اور اپنی دلکش آواز اور چشم کشاں وعقل کشاں اشاروں کے ذریعے سامعین کے دلوں میں اپنی محبت و عقیدت اور گرویدگی و شیفتگی کا بیج ڈال دیا،ہر گوشے سے ماشااللہ ماشااللہ اور درود پاک کی صداءیں بلند ہوئیں،جبکہ وہیں اس بے مثال انجمن کی ایک اہم کڑی "نظامت"کے فرائض کو "عزیزم مولوی طاہر اعظمی صاحب"بڑی ہی حسن وخوبی کے ساتھ انجام دے رہے تھے،ان کے تعریف وتحسین اور شکر وسپاس کے جملے اور فقرے شرکاء بزم کے اندر موجودہ جوش میں آگ میں تیل کا کام کررہے تھے،بعد ازاں "خطبہء استقبالیہ"پیش کرنے کےلئے جس لسان العصر شخصیت کو مجلس عاملہ نے منتخب فرمایا،ان کی تعریف کے لئے میرے ذہن میں سر دست کوئی لفظ نہیں ہے جو ان کا موازنہ کرسکے،اس سے مراد "عزیزم رفیق درس مولوی محمد عمران صاحب اعظمی"ہیں، کسی شاعر نے ان کی محبت میں کیا خوب کہا ہے
"نیٹ کے پیکیج کو میں خرچ کیا کرتا ہوں
نام لکھ لکھ کے تیرا سرچ کیا کرتا ہوں"
اس سے فراغت ہوتے ہی "تحریک صدارت"و"تاءید صدارت"پیش کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے تین ایسی شخصیتیں رو برو آءیں،جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،بس کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ کوئی اردو نژاد بلیغ اور با کمال خطیب نوا سنج ہے،
بعدہ دو اہم موضوع("مودودیت کیا ہے "اور"بابری مسجد تاریخ کے آءینے میں")پر تقریر پیش کرنے کے لئے دو اہم خطیبوں کو اسٹیج کی سمت دکھائی گئی،ان کی تقریروں سے نہ صرف یہ کہ حقیقیت کھل کر سامنے آئ ؛بلکہ زمانے کے مذاق و ذہن نے جو نیا رنگ وآہنگ اختیار کرلیا ہے،اس کا بھی بڑے اچھے انداز میں قلع قمع ہوا،
لگے ہاتھ سامعین کی حاضر جوابی اور انتقال ذہنی کو پرکھنےاور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے یکے بعد دیگرے دو اہم عنوان("تدوین حدیث"اور"بابری مسجد")پر دو کوئزیں پیش کی گئیں ، جس میں قارئین اور علم کے رسیا حضرات نے بڑی ہی عبقریت سے کام لیا،اور گراں قیمت کتابوں کو اپنی ملکیت بنانے میں کامیاب ہوئے،
بعد ازاں ایک بہت ہی اہم موضوع ("ووٹر اور لیڈر")پر نہایت دلچسپ مکالمہ پیش کیا گیا ،جو نہ یہ کہ صرف لطیفہ سنجی پر مشتمل ہو ؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کلی طور پر اس حقیقت کا بھی انکشاف تھا،جسے زمانے کے مذاق و ذہن نے نئے رنگ وآہنگ میں ڈھال دیا ہے،جس کی وجہ سے ہر گوشہء عالم میں ظلم وتیرگی کا ماحول بپا ہے،افراد مکالمہ کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے ،میں بس اتنا ہی ان کے حق میں کہوں گا،کہ ان میں کا ہر فرد علمی اعتماد،فکری شعور وآگہی،ذہنی بالیدگی اور احساس ذمے داری کا پیکر نظر آرہا تھا،
جبکہ وہیں نظم وشعر کی دھوم مچانے کے لئے دو جماعتوں (بنام "بزم شبلی"اور"بزم سہیل")کو اشارہ کیا گیا،جس کے متعلق سامعین کی محبت وعقیدت اور گرویدگی و شیفتگی کا پوچھنا ہی کیا،ان کی آمد کی خبر سن کر سب کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،بالآخر اس کا آغاز ہوا اور افراد بیت بازی کے ہونٹوں سے
ایسے ایسے مصرعے رخصت ہوئے،کہ موجودہ سامعین نے دلوں میں عزم مصمم کرلیا کہ وہ اس میدان میں ضرور حصہ لیں گے،
فراغت کے بعد ایک حسین ترین "ترانہ"پیش کیا گیا اور اسکے اندر اس انجمن کی ان قائد و رائد شخصیتوں کا تذکرہ کیا گیا ،جو اس کی خدمت میں دامے،درمے،قدمے،سخنے ہمیشہ آگے آگے رہے،ان کی مسلسل محنت اور عرق ریزی کے گہرے نقوش ہماری انجمن میں دیکھے جاسکتے ہیں،ان کے حق میں بس یہی کہوں گا،کہ قسام ازل نے ذہانت و فطانت شوخی و زندہ دلی کی تقسیم میں ان کے لئے بڑی ہی فیاضی سے کام لیا،
بعدہ سال رواں میں جاری انجمن کی رپورٹ کو ہمارے موجودہ صدر انجمن"عزیزم رفیق درس مولوی احمد صاحب اعظمی"نے اس ترتیب سے پیش کیا ،کہ سامعین حیران و ششدر رہ گءے، اللہ تعالی ہمارے صدر صاحب کو جزاءے خیر دے،کہ ان کے اندر اپنی انجمن کے تحت ہمہ وقت ایک بے تابی و سیمابی کیفیت رہتی تھی،کہ انھوں نے اس انجمن میں اپنے عافیت و سکون،اپنی صحت و توانائی،رعنائ شباب،عزم جواں،خون تازہ،تف نالہ،جوش نوا اور بے باکیء جنون سبھی کچھ بے دریغ صرف کیا،ہفتے واری پروگرام میں وہ اپنی سبک خرامی کے طفیل مقام و منزل تک پیش قدمی کرکے سب سے پہلے رحل اقامت اتار لینے کی سعادت حاصل کرلیتے، بس میں تو یہی کہوں گا
"ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لئے"

الغرض ہر آن اور ہر پل نت نئے مرنجا مرنج پروگرام کی وضع نے سامعین کو پژمردگی و قنوطیت سے یکسر محفوظ رکھا؛بلکہ پروگرام کی ہر ہر قاش نے ان کے عزم و ہمت کے پرسان چڑھنے میں غیر معمولی اضافہ کیا ، بالآخر ہولے ہولے ہمارا یہ پیارا پروگرام سامعین کے چہروں پر خوشیوں کی موتیاں بکھیرتے ہوئے اختتام کی سمت چلا، اور آخر میں موجودہ عظیم الشان ہستیوں میں سے ایک ایسے شخص دعوت اسٹیج کی زحمت دی گئی، جو ایک طرف تو بہت ہی بڑا مدقق و مفسر تو دوسری طرف ایسا خطیب بھی ہے ، جو کسل مندوں کے لئے باغ درا، نا شکیبوں کےلئے ضرب کلیم، شرمندگان ساحل کےلئے بحر بے کراں،مغلوبان گماں کے لئے یقین محکم،اسیران آرزو کےلئے عمل پیہم، تخم عمل اور نخل فکر و نظر کےلئے ہمیشہ سازگار آب و ہوا بنا رہتا ہے ،اس سے میری مراد "حضرت مولانا افضل صاحب بستوی"کی ذات گرامی ہے ،حضرت نے ہم طالبان علوم نبویہ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا:کہ میں نے آپ حضرات کا تقریبا پورا پروگرام از اول تا آخر دیکھا اور سنا ،ماشااللہ مجھے بے حد خوشی ہوئی اور مجھے پوری امید ھیکہ آپ لوگوں کا نام انشاءاللہ مستقبل میں نامور اور بےباک خطیبوں میں ہوگا،پھر حضرت والا نے ہماری اس ہفتہ واری پروگرام میں شرکت کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:کہ ان چھوٹی چھوٹی انجمنوں میں آپ لوگوں کی شرکت اس زینے کی سی ہے ،جس کے واسطے سے آپ چھت پر پہنچتے ہیں،بالکل یہی حال ان انجمنوں کا ہے کہ آپ ان میں شرکت کے ذریعے ہی بڑے خطیب بن سکیں گے ،لیکن اگر آپ چاہیں کہ ہم ان میں شرکت کئے بغیر ہی بڑے خطیبوں کی فہرست میں آجاءیں تو یہ بالکل بغیر زینے کے چھت پر چڑھنے کے مترادف ہے ، جو آپ کی کھلی نادانی اور صریح بے وقوفی ہے ،اس کے بعد حضرت نے تقریر کی افادیت و اہمیت پر بڑے ہی شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: کہ تقریری صلاحیت کی ہی یہ انفرادیت ہے کہ آپ اس کے ذریعے خواص الناس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی پورا پورا فائدہ پہنچا سکیں گے،رہی بات صحافت کی تو یہ بھی کچھ کم نہیں،لیکن اس کے ذریعے مستفید صرف وہی حضرات ہو سکیں گے ،جو لکھنے اور پڑھنے پر قدرت رکھتے ہیں اور عوام الناس اپنی جہالت کے باعث اس فائدے سے یکسر محروم رہیں گے،بعد ازاں ہمارے اس محبوب اجلاس کی آخری کڑی بننے کا جسے شرف حاصل ہوا وہ کتابت و صحافت کے وہ لا ثانی فرد ہیں ،جنھیں ہم اور آپ "مولانا کاتب نیاز احمد صاحب اصلاحی"کے نام سے جانتے ہیں،حضرت نے کچھ دیر اپنے ذاتی اشعار سے ہم سامعین کو محضوض کیا ،بعدہ آپ ہی کے مبارک ہاتھوں سے انعامی کتب کی تقسیم ہوئی،فراغت کے بعد حضرت ہی کی مقبول و مستجاب دعاوں پر ہمارے اس پروگرام نے الوداع کہا -
"اللہ تعالی سے دعا ہے کہ باری تعالی ہمیں آءندہ بھی اس انجمن کے پروگرام میں شرکت کی توفیق نصیب فرمائے ،اور ہماری دارالعلوم میں اقامت کو طویل فرمائے،اور ہماری اس پیاری انجمن کو مزید مقبولیت و جازبیت سے نوازے " (آمین یا رب العالمین)