ذیشان الہی منیر تیمی چکنگری ڈھاکہ مشرقی چمپارن بہار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سرزمین چمپارن ہندوستان کے صوبہ بہار کا ایک نہایت ہی اہم ضلع ہے, اس کے پورب میں مظفرپور اور دکھن میں سارن ضلع ہے, جبکہ اتر کی طرف ہمالیہ پہاڑ اور ملک نیپال ہے پچھم میں اتر پردیش کا گورکھپور ضلع ہے ہمالیہ کے کچھ حصے کا نام سومیشور ہے اس کا کچھ حصہ چمپارن میں پڑتا ہے وہی چمپارن اور نیپال کے بیچ کی سرحد ہے یو تو اس ضلع میں مختلف ندیاں ہیں لیکن سب سے بری ندی ناراینی ہے جس کو سالگرامی یا گنڈک بھی کہتے ہیں یہ ندی ہمالیہ کے تریوینی نام کی جگہ سے نکلتی ہے.
اس ضلع میں ہندؤں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے یہ قصہ بہت مشہور ہیکہ بتیا کے راجا دھورو سینگھ کی عورت ایک دفعہ بہت زیادہ بیمار ہوگئی اور وہ ایک عیسائی کے علاج سے اچھی ہوئی تھی اسی وجہ سے راجا نے خوش ہوکر 1745ء میں عیسائی پادریوں کو بلاکر بتیا میں بسا دیا اس وقت سے چمپارن میں عیسائیوں کی تعداد روز بروز برھنے لگی اور آج ان کی تعداد لگ بھگ چار ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے چمپارن ضلع کی زمین دو طرح کی ہے سیکرھنا ندی کے اتر اور موتیہاری سمیت ڈھاکہ کے علاقے کی زمین کڑوی اور زمین نیچی ہونے کی وجہ سے دھان کی کھتی کے لئے بڑی اچھی ہے جبکہ سیکرھنا ندی کے دکھن میں بالوں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس میں دھان کی اچھی کھیتی نہیں ہوتی اس لئے مکئی, چنا, گیہوں, جو اور گنا وغیرہ کی کھیتی کی جاتی ہے یو تو پہلے اسی سرزمین پر نیل بھی خوب اپجایا جاتا تھا (یہ وہی نیل ہے جس سے اٹھنے والی ایک چنگاری نے ہندوستان کے اندر آزادی کی ایسی لہر دورائی تھی کہ انگریزوں کی سلطنت کو جلاکر راکھ کر دیا تھا) اسی سرزمین کے بارے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ..
عجب دیش مجھوا جہاں بھات نہ پوچھے کوا
ہندوستان کے دیگر ضلعوں کی طرح یہاں بھی گنگا جمنی تہذیب دیکھنے کو ملتی ہے اگر یہ کہا جائے تو کچھ بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ حقیقی گنگا جمنی تہذیب کا دلکش نظارہ یہاں خوب پایا جاتا ہے یہاں کے ہندو اور مسلم کی زبان ہندی سے نکلی ہوئی ایک بھاسا ہے جسے بھوجپوری کہتے ہیں یہ بھاسا سارن کی بولی سے بالکل ملتی جلتی ہے آج کل یہ بولی ترقی کرتی ہوئی ایک زبان کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دن بدن ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے اب تک تو اس زبان میں کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں بہار میں تو اس زبان کو ہندی اور اردو کے بعد تیسرے نمبر کا زبان قرار دیا گیا ہے اب باضابطہ طور سے اسکول و کالج اور مدارس میں بھوجپوری پڑھانے والے ماسٹر, پروفیسر اور لکچرر کی بھی بحالی ہو رہی ہے اس بولی کو بام عروج تک پہنچانے میں بھوجپوری فلموں نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے اس ضلع کے دکھن اور پوربی حصے میں مظفرپور کی متھلا زبان کا اثر پایا جاتا ہے
پہلے تو اس ضلع کی معاشی و اقتصادی حالت کا دار و مدار کھیتی پر تھا لیکن اب یہاں کی معاشی حالت بہت حد تک بہتر ہوئی ہے کیونکہ یہاں کے نوجوان لاکھوں کی تعداد میں دھلی, ممبئی, کلکتہ, بنگلور اور سکم سے لیکر کویت, دبئی, سعودی عرب, اسکوٹلینڈ, تھائیلینڈ, سوئیزر لینڈ اور امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ملکوں میں کام کرتے ہیں.
اگر تاریخی اعتبار سے چمپارن کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہیکہ مورخین کا چمپارن سے کافی گہرا تعلق رہا ہے. ہر زمانے کے مورخین نے تاریخ چمپارن کو اپنے صفحہ قرطاس پر جگہ دیا ہے اگر 600 ق م کی بات کی جائے تو چمپارن میں لچھوی نسل کی حکومت قائم تھی جس کا مقابلہ مگدھ کے راجا کے ساتھ ہوا تھا جس جنگ میں لچھوی لوگ شکست کے بعد مگدھ حکومت کو جزیہ دینے لگے تھے ابھی تک نند گڑھ جگہوں پہ پرانے قلعہ کے نشان اور سکے بھی پائے جاتے ہیں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ لچھوی حکومت کے وقت کا ہے بودھ مذہب کے یادگار تو چمپارن میں بہت پائے جاتے ہیں کہا جاتا ہیکہ گوتم بدھ ویشالی سے کوسینگر جاتے وقت چمپارن ہوتے ہوئے گئے تھے اسی طرح ڈھیر سارے بادشاہوں کا ذکر چمپارن سے جڑا ہوا ہے لیکن چودہوی صدی میں مسلمانوں نے چمپارن پر حملہ کیا پر کامیابی پورے اسٹیٹ پر نہ مل سکی حتی کہ سولہوی صدی کے ابتداء میں سیکندر لودھی نے ترہوت کو اپنے قبضے میں کر لیا اور اس وقت سے ترہوت جس میں چمپارن شامل تھا مسلمانی قبضہ میں مکمل طرح سے آگیا پھر سترہوی صدی میں جب علی وردی خان بہار اور بنگال کے ناظم مقرر ہوئے تو انہوں نے نئے طریقے سے چمپارن پر حملہ کی اور اس میں اس کو دربھنگہ کے افغانوں نے مدد دی اس لئے علی وردی خان فتح یاب ہوئے اور مال غنیمت بہت زیادہ حاصل ہوا کچھ دنوں کے بعد جن افغانوں سے انہیں مدد ملی تھی وہ ان سے بگڑ گئے اور علی وردی خان نے ان سے لڑ کر انہیں شکست دیا مجبورا افغانی سردار شمسیر خان اور سردار خان کو بتیا حکومت کی پناہ لینی پڑی اس لئے علی وردی خان نے بتیا حکومت پر چڑھائی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کی بتیا کے راجا نے افغانی سردار کو علی وردی کے سپرد کر دیا. 1760ء کے لگ بھگ چمپارن میں شاہ عالم اور انگریزوں کے درمیان دل دہلانے والی جنگ ہوئی تھی جس میں شاہ عالم کی شکست ہوئی یہ واضح رہے کہ شاہ عالم کے مددگاروں میں پورنیہ کا صوبہ دار خادم حسین خان تھا وہ لڑائی میں ہار کر بتیا کی طرف بھاگا وہاں اس کا پیچھا کرنے میرن اور جرنل کلوڈ پہنچے لیکن میرن کی موت بجلی کی وجہ سے ہوگئی اس لئے کلوڈ کو لوٹ آنا پڑا لوٹنے کے وقت جرنل کلوڈ نے بتیا کے راجا سے جزیہ لیا لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد بتیا کے راجا نے بغاوت شروع کردی .1765ء میں بنگال اور بہار کے ساتھ چمپارن کو بھی شاہ علم نے انگریزوں کو دے دیا کچھ سالوں کے بعد انگریزوں نے مال گزاری کے لئے دو زمینداریاں مجھوا اور سیمرا بنایا اور اس کی ذمہ داری یوگل کیشور سینگھ کو 1772ءمیں سونپ دی پھر اسی کے خاندان میں سری کرشن سینگھ اور اودھوت سینگھ کو دو اور زمینداریا مہسی اور پپرا دیئے گئے 1778ء میں انگریزوں نے مہسی اور پپرا کو ملا کر شیوہر راجئے بنایا پھر اسی وقت دو اور زمینداریاں رامنگر اور مدھوبن کا وجود عمل میں لایا گیا اس طرح چمپارن کو اس وقت چار بڑے بڑے زمینداروں کے ہاتھ بانٹ دیا گیا بتیا, رامنگر ,شیوہر اور مدھوبن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس زمینداری کی ابتداء اسی وقت میں ہوئی نہیں بتیاحکومت بہت پرانی ہے شاہ جہاں بادشاہ نے اسے اجین سینگھ کو دیا اور انہیں کے نسل میں برابر راجا ہوتے آئے ہیں اسی طرح رامنگر کا راجا بھی بھت پرانا ہے کہا جاتا ہیکہ رامنگر کے راجا کے اجداد نے چیتور سے آکر ملک نیپال کے کچھ حصے کو قبضہ کر لیا اور رامنگر کو بسایا ان کو راجا کا خطاب اورنگ زیب بادشاہ نے 1676ء میں دیا تھا.
سرزمین چمپارن کا جنگ آزادی سے بھی کافی گہرا تعلق رہا ہے 1917ء میں گاندھی نے راج کمار شکل موتیہاروی کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے سرزمین چمپارن میں تشریف لائے اور ڈھاکہ سے چار کیلو میٹر کی دوری پر برہڑوا نامی گاؤں میں قیام کیا یہاں گانھی نے ایک آشرم اور ایک اسکول بنوایا جو آج بھی موجود ہے گاندھی نے اسی آشرم سے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور ستیہ گرھ آندولن کا آغاز کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے بہت سارے حامیوں اور نئے نئے کارکنوں کو منظم کیا گیا اب ان لوگوں نے گاؤں کا ایک وسیع مطالعہ اور سروے کیا جس میں نیل کی کھیتی کرنے والے کسانوں پر انگریزی بربریت کی داستان اور لوگوں پر ہوئے ظلم کے خوفناک کانڈوں کا ریکارڈ تیار کیا گیا اس تحریک میں گاندھی کے ساتھ برے پیمانے پر ہندو اور مسلمان شریک ہوئے بہار کے چوٹی کے رہنماؤں میں سے مولانا مظہرالحق اور ڈاکٹر سید محمود کے علاوہ چمپارن کے ڈھیر سارے مسلمان شریک ہوئے جس میں مولوی عبد الباری جھمکاوی, مولوی شریف جھمکاوی, حافظ عبد الکریم, مولانا عبد الخبیر, شیخ حنیف چینپور ڈھاکوی, مسٹر انصار ہروانوی اور سسوا جگری کے رہنے والے جناب بطخ میاں انصاری وغیرہ قابل ذکر ہیں (طوبی اپریل, مئی 2014) چمپارنی آندولن کے اصل اثرات اس وقت دیکھنے کو ملا جب گاندھی کو بد امنی پھیلانے کے لئے پولیس نے گرفتار کیا اور انہیں صوبے چھوڑنے کے لئے حکم دیا تب ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور جیل پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے باہر ریلیاں نکال کر گاندھی کو بغیر شرط رہا کرنے کا مطالبہ کیا اسی دوران گاندھی کو عوام نے باپو اور مہاتما کے نام سے خطاب کیا اور اسی تحریک سے اٹھنے والی چنگاری نے ایک شعلہ کی شکل اختیار کر لیا اور 1947ء میں انگریزوں کی سلطنت کو جلاکر راکھ کر دیا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سرزمین چمپارن ہندوستان کے صوبہ بہار کا ایک نہایت ہی اہم ضلع ہے, اس کے پورب میں مظفرپور اور دکھن میں سارن ضلع ہے, جبکہ اتر کی طرف ہمالیہ پہاڑ اور ملک نیپال ہے پچھم میں اتر پردیش کا گورکھپور ضلع ہے ہمالیہ کے کچھ حصے کا نام سومیشور ہے اس کا کچھ حصہ چمپارن میں پڑتا ہے وہی چمپارن اور نیپال کے بیچ کی سرحد ہے یو تو اس ضلع میں مختلف ندیاں ہیں لیکن سب سے بری ندی ناراینی ہے جس کو سالگرامی یا گنڈک بھی کہتے ہیں یہ ندی ہمالیہ کے تریوینی نام کی جگہ سے نکلتی ہے.
اس ضلع میں ہندؤں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے یہ قصہ بہت مشہور ہیکہ بتیا کے راجا دھورو سینگھ کی عورت ایک دفعہ بہت زیادہ بیمار ہوگئی اور وہ ایک عیسائی کے علاج سے اچھی ہوئی تھی اسی وجہ سے راجا نے خوش ہوکر 1745ء میں عیسائی پادریوں کو بلاکر بتیا میں بسا دیا اس وقت سے چمپارن میں عیسائیوں کی تعداد روز بروز برھنے لگی اور آج ان کی تعداد لگ بھگ چار ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے چمپارن ضلع کی زمین دو طرح کی ہے سیکرھنا ندی کے اتر اور موتیہاری سمیت ڈھاکہ کے علاقے کی زمین کڑوی اور زمین نیچی ہونے کی وجہ سے دھان کی کھتی کے لئے بڑی اچھی ہے جبکہ سیکرھنا ندی کے دکھن میں بالوں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس میں دھان کی اچھی کھیتی نہیں ہوتی اس لئے مکئی, چنا, گیہوں, جو اور گنا وغیرہ کی کھیتی کی جاتی ہے یو تو پہلے اسی سرزمین پر نیل بھی خوب اپجایا جاتا تھا (یہ وہی نیل ہے جس سے اٹھنے والی ایک چنگاری نے ہندوستان کے اندر آزادی کی ایسی لہر دورائی تھی کہ انگریزوں کی سلطنت کو جلاکر راکھ کر دیا تھا) اسی سرزمین کے بارے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ..
عجب دیش مجھوا جہاں بھات نہ پوچھے کوا
ہندوستان کے دیگر ضلعوں کی طرح یہاں بھی گنگا جمنی تہذیب دیکھنے کو ملتی ہے اگر یہ کہا جائے تو کچھ بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ حقیقی گنگا جمنی تہذیب کا دلکش نظارہ یہاں خوب پایا جاتا ہے یہاں کے ہندو اور مسلم کی زبان ہندی سے نکلی ہوئی ایک بھاسا ہے جسے بھوجپوری کہتے ہیں یہ بھاسا سارن کی بولی سے بالکل ملتی جلتی ہے آج کل یہ بولی ترقی کرتی ہوئی ایک زبان کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دن بدن ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے اب تک تو اس زبان میں کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں بہار میں تو اس زبان کو ہندی اور اردو کے بعد تیسرے نمبر کا زبان قرار دیا گیا ہے اب باضابطہ طور سے اسکول و کالج اور مدارس میں بھوجپوری پڑھانے والے ماسٹر, پروفیسر اور لکچرر کی بھی بحالی ہو رہی ہے اس بولی کو بام عروج تک پہنچانے میں بھوجپوری فلموں نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے اس ضلع کے دکھن اور پوربی حصے میں مظفرپور کی متھلا زبان کا اثر پایا جاتا ہے
پہلے تو اس ضلع کی معاشی و اقتصادی حالت کا دار و مدار کھیتی پر تھا لیکن اب یہاں کی معاشی حالت بہت حد تک بہتر ہوئی ہے کیونکہ یہاں کے نوجوان لاکھوں کی تعداد میں دھلی, ممبئی, کلکتہ, بنگلور اور سکم سے لیکر کویت, دبئی, سعودی عرب, اسکوٹلینڈ, تھائیلینڈ, سوئیزر لینڈ اور امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ملکوں میں کام کرتے ہیں.
اگر تاریخی اعتبار سے چمپارن کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہیکہ مورخین کا چمپارن سے کافی گہرا تعلق رہا ہے. ہر زمانے کے مورخین نے تاریخ چمپارن کو اپنے صفحہ قرطاس پر جگہ دیا ہے اگر 600 ق م کی بات کی جائے تو چمپارن میں لچھوی نسل کی حکومت قائم تھی جس کا مقابلہ مگدھ کے راجا کے ساتھ ہوا تھا جس جنگ میں لچھوی لوگ شکست کے بعد مگدھ حکومت کو جزیہ دینے لگے تھے ابھی تک نند گڑھ جگہوں پہ پرانے قلعہ کے نشان اور سکے بھی پائے جاتے ہیں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ لچھوی حکومت کے وقت کا ہے بودھ مذہب کے یادگار تو چمپارن میں بہت پائے جاتے ہیں کہا جاتا ہیکہ گوتم بدھ ویشالی سے کوسینگر جاتے وقت چمپارن ہوتے ہوئے گئے تھے اسی طرح ڈھیر سارے بادشاہوں کا ذکر چمپارن سے جڑا ہوا ہے لیکن چودہوی صدی میں مسلمانوں نے چمپارن پر حملہ کیا پر کامیابی پورے اسٹیٹ پر نہ مل سکی حتی کہ سولہوی صدی کے ابتداء میں سیکندر لودھی نے ترہوت کو اپنے قبضے میں کر لیا اور اس وقت سے ترہوت جس میں چمپارن شامل تھا مسلمانی قبضہ میں مکمل طرح سے آگیا پھر سترہوی صدی میں جب علی وردی خان بہار اور بنگال کے ناظم مقرر ہوئے تو انہوں نے نئے طریقے سے چمپارن پر حملہ کی اور اس میں اس کو دربھنگہ کے افغانوں نے مدد دی اس لئے علی وردی خان فتح یاب ہوئے اور مال غنیمت بہت زیادہ حاصل ہوا کچھ دنوں کے بعد جن افغانوں سے انہیں مدد ملی تھی وہ ان سے بگڑ گئے اور علی وردی خان نے ان سے لڑ کر انہیں شکست دیا مجبورا افغانی سردار شمسیر خان اور سردار خان کو بتیا حکومت کی پناہ لینی پڑی اس لئے علی وردی خان نے بتیا حکومت پر چڑھائی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کی بتیا کے راجا نے افغانی سردار کو علی وردی کے سپرد کر دیا. 1760ء کے لگ بھگ چمپارن میں شاہ عالم اور انگریزوں کے درمیان دل دہلانے والی جنگ ہوئی تھی جس میں شاہ عالم کی شکست ہوئی یہ واضح رہے کہ شاہ عالم کے مددگاروں میں پورنیہ کا صوبہ دار خادم حسین خان تھا وہ لڑائی میں ہار کر بتیا کی طرف بھاگا وہاں اس کا پیچھا کرنے میرن اور جرنل کلوڈ پہنچے لیکن میرن کی موت بجلی کی وجہ سے ہوگئی اس لئے کلوڈ کو لوٹ آنا پڑا لوٹنے کے وقت جرنل کلوڈ نے بتیا کے راجا سے جزیہ لیا لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد بتیا کے راجا نے بغاوت شروع کردی .1765ء میں بنگال اور بہار کے ساتھ چمپارن کو بھی شاہ علم نے انگریزوں کو دے دیا کچھ سالوں کے بعد انگریزوں نے مال گزاری کے لئے دو زمینداریاں مجھوا اور سیمرا بنایا اور اس کی ذمہ داری یوگل کیشور سینگھ کو 1772ءمیں سونپ دی پھر اسی کے خاندان میں سری کرشن سینگھ اور اودھوت سینگھ کو دو اور زمینداریا مہسی اور پپرا دیئے گئے 1778ء میں انگریزوں نے مہسی اور پپرا کو ملا کر شیوہر راجئے بنایا پھر اسی وقت دو اور زمینداریاں رامنگر اور مدھوبن کا وجود عمل میں لایا گیا اس طرح چمپارن کو اس وقت چار بڑے بڑے زمینداروں کے ہاتھ بانٹ دیا گیا بتیا, رامنگر ,شیوہر اور مدھوبن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس زمینداری کی ابتداء اسی وقت میں ہوئی نہیں بتیاحکومت بہت پرانی ہے شاہ جہاں بادشاہ نے اسے اجین سینگھ کو دیا اور انہیں کے نسل میں برابر راجا ہوتے آئے ہیں اسی طرح رامنگر کا راجا بھی بھت پرانا ہے کہا جاتا ہیکہ رامنگر کے راجا کے اجداد نے چیتور سے آکر ملک نیپال کے کچھ حصے کو قبضہ کر لیا اور رامنگر کو بسایا ان کو راجا کا خطاب اورنگ زیب بادشاہ نے 1676ء میں دیا تھا.
سرزمین چمپارن کا جنگ آزادی سے بھی کافی گہرا تعلق رہا ہے 1917ء میں گاندھی نے راج کمار شکل موتیہاروی کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے سرزمین چمپارن میں تشریف لائے اور ڈھاکہ سے چار کیلو میٹر کی دوری پر برہڑوا نامی گاؤں میں قیام کیا یہاں گانھی نے ایک آشرم اور ایک اسکول بنوایا جو آج بھی موجود ہے گاندھی نے اسی آشرم سے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور ستیہ گرھ آندولن کا آغاز کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے بہت سارے حامیوں اور نئے نئے کارکنوں کو منظم کیا گیا اب ان لوگوں نے گاؤں کا ایک وسیع مطالعہ اور سروے کیا جس میں نیل کی کھیتی کرنے والے کسانوں پر انگریزی بربریت کی داستان اور لوگوں پر ہوئے ظلم کے خوفناک کانڈوں کا ریکارڈ تیار کیا گیا اس تحریک میں گاندھی کے ساتھ برے پیمانے پر ہندو اور مسلمان شریک ہوئے بہار کے چوٹی کے رہنماؤں میں سے مولانا مظہرالحق اور ڈاکٹر سید محمود کے علاوہ چمپارن کے ڈھیر سارے مسلمان شریک ہوئے جس میں مولوی عبد الباری جھمکاوی, مولوی شریف جھمکاوی, حافظ عبد الکریم, مولانا عبد الخبیر, شیخ حنیف چینپور ڈھاکوی, مسٹر انصار ہروانوی اور سسوا جگری کے رہنے والے جناب بطخ میاں انصاری وغیرہ قابل ذکر ہیں (طوبی اپریل, مئی 2014) چمپارنی آندولن کے اصل اثرات اس وقت دیکھنے کو ملا جب گاندھی کو بد امنی پھیلانے کے لئے پولیس نے گرفتار کیا اور انہیں صوبے چھوڑنے کے لئے حکم دیا تب ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور جیل پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے باہر ریلیاں نکال کر گاندھی کو بغیر شرط رہا کرنے کا مطالبہ کیا اسی دوران گاندھی کو عوام نے باپو اور مہاتما کے نام سے خطاب کیا اور اسی تحریک سے اٹھنے والی چنگاری نے ایک شعلہ کی شکل اختیار کر لیا اور 1947ء میں انگریزوں کی سلطنت کو جلاکر راکھ کر دیا.