اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: بچپن کی کہانی ذیشان کی زبانی!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 5 March 2019

بچپن کی کہانی ذیشان کی زبانی!

ذیشان الہی منیر تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
   انسان کو اپنی زندگی میں کئی طرح کے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے لیکن ان تمام مراحل پر بچپن کو ٹھیک ایسے ہی فوقیت و برتری حاصل ہے جس طرح گلاب کو تمام پھولوں میں ایک خاص قسم کی اہمیت و فضیلت حاصل ہے. بچپن کی زندگی ہر شخص کے لئے ایک انمول تحفہ ہوا کرتا ہے. اس میں ہرشخص بلا خوف وخطر , تمام طرح کے الجھنوں سے بالاتر ہوکر جہاں چاہتا ہے گھومتا اور پھڑتا ہے. اس زندگی میں انہیں بھائی کی الفت بہن کی چاہت اور والدین کی رحمت و شفقت ہرطرح سے ملتی ہے.
بچپن کی زندگی یقینا ایک عجیب زندگی ہوا کرتی ہے اس میں بچوں کو آپس میں لڑنا, جھگڑنا اور طرح طرح کے کھیل کھیلنے میں بہت مزہ آتا ہے. بچوں کے دماغ ایک صاف و شفاف  صفہ کے طرح ہوتے ہیں جس پرجو لکھا جاتا ہے وہی اگتاہے. اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیداہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی, نصرانی, مجوسی وغیرہ بنادیتے ہیں .یہ حدیث اس بات پر پر دال ہیکہ بچوں کو سدھارنے اور بگاڑنے میں والدین  بہت اہم رول ادا کرتے ہیں. اس لٰئے والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ وہ اپنے بچوں کو اس کے بچپن سے ہی صالح انسان بنانے کی کوشش کرے. ان کے سامنے جھوٹ بولنے, غیبت و چنغل خوری سے پرہیز کرے, ان کے سامنے میاں بیوی کوئی ایسی بات نہ کرے جو بچوں کو بچپن میں ہی جوانی کے سپنے دیکھانے لگے, والدین کےسامنے اگر ان کے بچے کوئی ایسی حرکت کرتے ہیں جو اخلاق حسنہ کے خلاف ہو تو وہ پرزور طریقے سے انکی تنبیہ کرے. لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ آج کل اس کے برخلاف ہورہا ہے .کاتب سطور کا یہ عینی مشاھدہ ہے کہ انہوں نے بہت سارے ایسے بچوں کو دیکھا جو رذائل کام کررہے تھے اور ان کے والدین اس بچے کی ہمت افزائی کررہے تھے. کچھ ایسے بھی بچے تھے  جو فلمی گانا گارہے تھے اور ڈائنس کررہے تھے اور ان کے والدین  قہقہے لگاتے ہوئے اس کی تعریف پہ تعریف کئے جارہے تھے .یہ منظر دیکھ کر مجھے بےحد افسوس ہوا. میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ان کے والدین اسے  بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑا کیونکہ ایسے ہی بچے آگے چل کر گمراہ ہوتے ہیں. شباب وکباب ان کا شیوہ ہو جاتا ہے گانے بجانے اور فلمی ہیرو بننے کے شوقین ہوجاتے ہیں جو یقینا ان کے آخرت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے. اس لئے اگر کسی شخص کی یہ تمنہ ہے کہ اس کا ننھا منھا بچہ نہ بگڑے. ان کے مرنے کے بعد ان کے بچے صالح ہو جو اس کے لئے کچھ کام آسکے تو ان پر ضروری ہیکہ وہ پہلے خود صالح بن کر اپنی زندگی کو ایک آئیڈیل کے طور پر اپنے بچوں کے سامنے پیش کرے کیونکہ بچوں کے اندر والدین کا ہی عکس ہوتا ہے اس بات کو اس مثال سے یوں سمجھے کہ ایک دفعہ میں جامعہ سے گھر آرہا تھا میرے گھر اور جامعہ کے بیچ میں ایک گاؤں ہے جو کسمہوا کے نام سے جانا جاتا ہے اس گاؤں کے چوک پر شراب بندی سے قبل بہت ساری شراب کی دکانیں تھیں اس میں ایک دکان کے اندرمیں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے دو بچے جو لگ بھگ پانچ سے آٹھ سال کے درمیان کے تھے  اپنے باپ کے ساتھ مزے لیکر شراب پی رہے تھے. اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں جو روزانہ ہمارے اور آپ کے سامنے پیش آتے ہیں. اس عمر میں والدین کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرے میں رہنے والے افراد کو بھی چاہئے کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کرے تاکہ آگے چل کر اس کی وجہ سے ٹولہ اور محلہ کا نام روشن ہو اور وہ قوم کی تعمیر و ترقی میں کچھ کام آسکے. اس عمر میں بچوں کو اسلامی تعلیم دلوائے اگر انہیں عالم و فاضل نہ بنانا ہو تو کم سے کم انہیں ثانویہ تک کی تعلیم دلوائے اگر ایسا نہ ہوا تو بہت ممکن ہیکہ ہمارے بچے  بھی سلمان رشدی کے راہ پر چل پڑینگے اور اسلام و نبی صلعم کے خلاف بول کر اپنی آخرت برباد کرلینگے. اللہ ہم سب کو اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق دے آمین تقبل یا رب العالمین.