از قلم: ڈاکٹر محمد عمار خان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
24مارچ بروز اتوار مئو جانے کا اتفاق ہوا مئو صدر چوک کی جانب میں اپنی بائک سے صدر چوک کی طرف جارہا تھا کہ یکا یک نظر پڑی عوامی بیت الخلاء جو لب سڑک ہے ایک مسلح پولس والا بیت الخلاء کے گیٹ پر کھڑا ہے یہ منظر دیکھ کر گاڑی کی اسپیڈ تھوڑی کم کی اور اس پولس والے کو دیکھتے ہو ئے آگے نکل گیا ذہن میں مختلف خیالات گردش کرنے لگے شاید کوئی ملزم ہوگا یا پولس والا اپنے کسی ساتھی کا انتظار کر رہا ہو گا خیر میں کچھ دور جا کر اپنی بائک سائڈ میں لگا کر سامان کی خریداری میں مصروف ہوگیا چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے سڑک پر لوگوں کا ہجوم کم تھا تبھی نظر پڑتی ہے ایک لحیم شحیم سفید کرتا پائجامہ تن کئے ہوئے شخص پر جو خود کھڑا ہوکر الیکٹرانک رکشہ کو سڑک پاس کرارہا تھا رکشہ چلانے والا اپنی سیٹ سے ہی دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کررہا تھا اور انہیں پہلے جانے کا اشارہ کرہا تھا میری نظر اس منظر کو بغور دیکھ رہی تھی تبھی نظر پڑتی ہے روڑ اس پار بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کا بورڈ لگا ہوا ہے میری حیرت کی انتھا نہ رہی جب مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کو ئی عام شخص نہیں بلکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکریٹر ی جنا ب اتل کمار انجان صاحب ہیں اتنا بڑا قومی لیڈر اور یہ سادگی جب یہ شخص ٹی وی کے ڈیبیٹ شو پر بیٹھتا ہے تو مد مخالف کو بغلی جھانکنے پر مجبور کردیتا ہے جو عوامی اجلاس میں کسانو ں اور غریب عوام کی نہ صرف بات کرتا ہے بلکہ اسکا عملی نمونہ بھی پیش کرتا ہے یہ منظر دیکھ کر میری آنکھوں کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ اس سیاسی دور میں جب لیڈران صرف سوچالیہ کے فیتہ کٹائی رسم میں آتے اور اپنی تصویر بنا کر اشتہار کرتے ہیں اور پھر کبھی اس راستہ سے گزرنا بھی نہیں چاہتے
وہیں اس عام سے گندے سوچالیہ کا ایک نیشنل سطح کا لیڈر اسکو استعمال کرتا ہے جہاں حکمرانوں کی بڑی بڑی لگزری گاڑیوں کو پاس دینے کے لئے سارے راستے مسدود کردئے جاتے ہو ں وہاں ایک قومی لیڈر خود رکشہ کو پا س کرا رہا ہو اس گرتی پڑتی غیر اخلاقی سسکتی بلکتی سیاسی دور میں بھی ایسا لیڈر جسکے قول وفعل میں میں کوئی تضا د نہیں یقیناً اہل مئو اور پورے یوپی کے لئے ایک انمول ہیرا ہے جنکی شخصیت کو دیکھ کر دل نے بے ساختہ تیری سادگی کو سلام جناب اتل کمار انجان صاحب پچھلے کئی لوک سبھا الکیشن میں کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے گھوسی لوک۔سبھا سے امیدوار ہوتے ہیں جو خاموشی کے ساتھ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہ کر الیکشن میں مسلسل حصہ لیتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ "
میر ے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا ""
"" سر تقلید کو مغز تفکر سے جلا دے کر
چراغ مردہ کومہر درخشاں کرکے چھوڑوں گا. ""
یقین کریں دور حاضر کی ساری سیاسی پارٹیوں اور سیاسی حکمرانوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے انھیں مطلب ہے تو صرف اقتدار سے انھیں مطلب ہے تو صرف اپنی کرسی سے اپنے عیش وآرام سے الیکشن میں یہی حکمران کبھی اپنے مذہب کی دہائی دیکر ووٹ حاصل کرتے کبھی اپنی ذات بتا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں تو کبھی مذھبی منافرت پھیلاکر تو کبھی جھوٹے وعدہ کرکے تو کبھی مندر مسجد کے نام پر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور فاتح بنکر شان وشوکت سے اپنی زندگیاں گزارتے پھر انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا آپ سے آپ کے مذہب سے آپکی قوم سے آپکے علاقہ سے آپکی پریشانیوں آپکی مصیبتوں سے چاہے آپ کے گھر کو نذر آتش کردیا جائے چاہے آپکے کسی عزیز کو انسان نما شیطانوں کی ٹولی آپکے گھر میں گھس کر مار ڈالے چاہے آپکی فیکٹریوں کو آگ کے حوالہ کردیا جائے چاہے آپ معصوم کے بچوں کو ٹرینوں میں مذہب کے نام قتل کر دیا جائے چاھے آپ کے عزیزوں کو پولس کسٹڈی پیٹ پیٹ کر ماردیاجائے چاہے آپ کی یونیورسٹی کے طلبہ پر ملک مخالف قوانین ایکٹ لگا دیا جائے سارے حکمران کی ذہنیت تقریباً یکساں ہوتی ہی۔ چاہے وہ کس بھی مذہب قوم ذات علاقہ کا ہو جب آپ پر ظلم ہو گا تو ان حکمرانوں کے منھ میں لقوہ کا مرض لاحق ہو جاتا مگر یہی ساری کیفیت جب انکے سیاسی آقاوں کے قریب جاتی تو یہی حکمران جنکی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں ہاتھ پیر مفلوج ہو گئے تھے اپنے سیاسی آقاءوں کے لئے دیوار آہنی بنکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی وفاداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں
سیاست اور سیاسی غلاموں سے اب گھبراھٹ ہونے لگی ہے اور سیاسی پہلو پر بولنے لکھنےسے دل اچٹ سا گیا ہے
دنیا میں بہت سارے ملکوں میں اب بھی اصولوں کی بات ہوتی ہے عوام کی فلاح وبہبود کا نقشہ سامنے ہو تا ہے سیاست داں ملک کی خوشحالی کو مقدم رکھتے ہیں ایک دوسرے کے مذہب قوم کا احترام کرتے ہیں جسکا عملی نمونہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم محترمہ جاسنڈا نے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا
مگر جب ہم اپنے ملک کے سیاست دانوں اور انکی ہر دلعزیز پارٹیوں کو دیکھتے ہیں تو سوائے تاریکی کے اور کچھ نظر نہیں آتا نہ ہی کوئی اصول وضوابط نہ ہی کوئی نظریہ نہ ہی کوئی عوام کی فلاح و بہبود کے ایجنڈے دعوے تو بڑے بڑے مگر صرف زبان خرچی تک محدود ایماندارانہ سیاست تو قصہ پارینہ بن چکی
انھیں فکر ہے تو بس کسی طرح الیکشن کو فتح کرنا اس فتح کو حاصل کرنے کے لئے چاہے ملک کے بھائی چارگی کے ماحول پر نشتر چلانے پڑے چاہے کسی بدمعاش مافیا نچنیا گوئیا مکار عیار چاپلوس کو ٹکٹ دینا پڑے دینگے بس فتح ہی چاہیے اس سے کم کچھ منظور نہیں فتح ملنی چاہیے چاہے پر سکون پر امن بستیوں کے سکون کو غارت کرنا پڑے ٹکٹ کی تقسیم کا ضابطہ اخلاق کم وبیش سب کے یہاں یکساں ہے ان ساری خصوصیت کے حاملین امیدوارں کے نام دن کے اجالے یا رات کے اندھیر ے میں کسی وقت بھی شائع کر دیا جاتا ہے وہ کارکن جو گاوں گاوں گلی گلی شہر در شہر دھول۔مٹی کھا کر لوگوں کے دکھ سکھ میں برابر شریک ہوکر پارٹی کو بلندیوں پر لے جاتے وہ اپنی بے بسی کا کچھ دن ماتم۔کرکے پھر اسی دلدل میں آس لگائے بیٹھ جاتے ہیں کہ" آج نہیں تو کل" لیکن سویرا کبھی ہوتا ہی نہیں اور پھر وہ اپنی قسمت کو کوستے ہو ئےخاموش تماشائی بنکر کسی کونے میں دبک جاتے ہیں ایسی سیاست سے چمٹے افراد بلا جھجک اور بے شرمی سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ" سیاست میں سب جائز ہے " مفاد پرستی دور حاضر کی سیاست کا جزء لا ینفک بن چکا ہے بلکہ مجھ جیسے بہت سارے لوگوں کو اندیشہ ہیکہ کوئی مفاد پرست سیاست داں اسے سیاست کا جزء اعظم نہ قرار دے دےاور اپنی پارٹی کے مینفسٹوں میں اسکا اضافہ کراکے یہ تحریک چلادے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے
آج ہمارے پاس جمھوریت کی شکل میں ایک عظیم ہتھیار ہے جس کے ذریعہ ہمیں اپنے لیڈر کو منتخب کرنی کی مکمل آزادی حاصل ہے آج اگر ہم اس ہتھیار کا وقت رہتے اسکا صحیح استعمال کر لیں اچھے کردار جمھوری فکر کے حامل لیڈران جنکی نہ صرف زبانیں ہی سیکولر زم کا دعوی کرتی ہوں بلکہ اسکا عملی مظاہرہ بھی کرتی ہوں ایسے افراد کو منتخب کرنے میں اگر کوتاہی کی تو کل ہمیں کوئی گھاس ڈالنے کو بھی روادار نہ ہوگا ہم انتخاب ان لیڈران کا کریں جو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہو جو پارٹی سے زیادہ عوام کا نمائندہ ہو جو حقیقی معنوں میں لیڈر ہو پارٹی کا مطلق غلام نہ ہو ں جو پارٹی سپر پاور کے سامنے بھی آپ حقوق کو رکھتا ہوں
لیڈر کبھی آسمانوں سے نہیں اترتے بلکہ روئے زمین پر بسنے والے انسانوں میں سے ہی پیدا ہوتے ہیں
ایسے افراد جو اپنے اندر خدمت انسانیت کا جذبہ رکھتے ہوں قومی یک جہتی کے علمبردار ہوں چاہے وہ کسی قوم کسی مذہب کا ہو ہمیں اسکی حوصلہ افزائی کرنی چاہے اسکے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا چاہیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا پڑیگا اگر عوام سیاست دانوں کے ذات پات مذہب کے چنگل میں پہنس گئی تو پھر پانچ سال اپنی خود کردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے اور پھر جلسے جلوس کانفرنس منعقد کرتے رہیں ہمیں تبدیلی لانی پڑیگی اپنی فکر میں ہمیں ایک ووٹر کی ذمہ داری کو سمجھنا پڑیگا ہمیں سیاسی پارٹیوں کو یہ باور کرانا پڑیگا کہ ہم غلام قوم نہیں کہ جسے چاہے آپ ہم پر مسلط کردیں اور ہم آپ کے کہنے پر لبیک کہ دے ہمیں اپنے قیمتی ووٹ کو ضائع ہونے سے بچانا ہوگا ہمیں کسی گٹھبندہن کے جال میں نہ پھس کر بلکہ خود مختار بن کر اپنے ووٹوں کو دینا ہوگا پورے ملک میں ہر سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے سے ملکر گٹھبندن کیا لیکن کسی ایک پارٹی نے بھی کسی مسلم قائد کو گٹھبندہن کے قریب آنے نہیں دیا یوپی دوفیصد جاٹ ایک فیصد نشاد ایک فیصد پٹیل کوگٹھبندھن میں شامل کیا جاسکتاہے لیکن 20فیصد مسلمان کو نہیں نہ ہی یوپی گٹھبندھن کے اسٹیج پر کسی مسلم قائد کو جگہ دی جارہی نہ بوا ببوا راہل اجیت کی دبی ہوئی زبانوں سے لفظ مسلمان نکل رہا ہے
مسلمانوں کا ووٹ سب کو چاہیے مگر مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی کوئی نہیں لڑے گا 1947سے آج تک مسلمان صرف سیکولرزم کی حفاظت کے لئے ووٹ کرتا چلاآیا سیاسی چالیں بدلتی رہی مگر مسلمان کے ذمہ صرف یہی ایک ذمہ داری جو پوری مستعدی سے کرتا آیا
آج ساری نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ووٹ تو چاہیے مگر مسلمانوں کی قیادت نہیں چاہیے
ھم مسلمان بھی عہد کرلیں ہم کسی گٹھبندھن کے غلام نہیں ہم آزاد ہیں
راقم کو سیاست دانوں سے زیادہ عوام سے شکایت ہے کیونکہ ہم ہی انکو فاتح بناتے ہیں اور اسکے بعد پانچ سال گزرجاتا وہ اپنی شکلیں نہیں دکھاتے پھر الیکشن میں ہم انھی نیتاوں کے لئے زندہ آباد کے فلک شگاف نعرہ لگا کر پچھلے سارے زخموں کو بھول جاتے ہیں پچھلے پانچ سال کی کارکردگی مطالعہ کرنے سے پہلے اگلے پانچ سال کا خاکہ دیکھکر ہوا محل تعمیر کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
24مارچ بروز اتوار مئو جانے کا اتفاق ہوا مئو صدر چوک کی جانب میں اپنی بائک سے صدر چوک کی طرف جارہا تھا کہ یکا یک نظر پڑی عوامی بیت الخلاء جو لب سڑک ہے ایک مسلح پولس والا بیت الخلاء کے گیٹ پر کھڑا ہے یہ منظر دیکھ کر گاڑی کی اسپیڈ تھوڑی کم کی اور اس پولس والے کو دیکھتے ہو ئے آگے نکل گیا ذہن میں مختلف خیالات گردش کرنے لگے شاید کوئی ملزم ہوگا یا پولس والا اپنے کسی ساتھی کا انتظار کر رہا ہو گا خیر میں کچھ دور جا کر اپنی بائک سائڈ میں لگا کر سامان کی خریداری میں مصروف ہوگیا چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے سڑک پر لوگوں کا ہجوم کم تھا تبھی نظر پڑتی ہے ایک لحیم شحیم سفید کرتا پائجامہ تن کئے ہوئے شخص پر جو خود کھڑا ہوکر الیکٹرانک رکشہ کو سڑک پاس کرارہا تھا رکشہ چلانے والا اپنی سیٹ سے ہی دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کررہا تھا اور انہیں پہلے جانے کا اشارہ کرہا تھا میری نظر اس منظر کو بغور دیکھ رہی تھی تبھی نظر پڑتی ہے روڑ اس پار بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کا بورڈ لگا ہوا ہے میری حیرت کی انتھا نہ رہی جب مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کو ئی عام شخص نہیں بلکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکریٹر ی جنا ب اتل کمار انجان صاحب ہیں اتنا بڑا قومی لیڈر اور یہ سادگی جب یہ شخص ٹی وی کے ڈیبیٹ شو پر بیٹھتا ہے تو مد مخالف کو بغلی جھانکنے پر مجبور کردیتا ہے جو عوامی اجلاس میں کسانو ں اور غریب عوام کی نہ صرف بات کرتا ہے بلکہ اسکا عملی نمونہ بھی پیش کرتا ہے یہ منظر دیکھ کر میری آنکھوں کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ اس سیاسی دور میں جب لیڈران صرف سوچالیہ کے فیتہ کٹائی رسم میں آتے اور اپنی تصویر بنا کر اشتہار کرتے ہیں اور پھر کبھی اس راستہ سے گزرنا بھی نہیں چاہتے
وہیں اس عام سے گندے سوچالیہ کا ایک نیشنل سطح کا لیڈر اسکو استعمال کرتا ہے جہاں حکمرانوں کی بڑی بڑی لگزری گاڑیوں کو پاس دینے کے لئے سارے راستے مسدود کردئے جاتے ہو ں وہاں ایک قومی لیڈر خود رکشہ کو پا س کرا رہا ہو اس گرتی پڑتی غیر اخلاقی سسکتی بلکتی سیاسی دور میں بھی ایسا لیڈر جسکے قول وفعل میں میں کوئی تضا د نہیں یقیناً اہل مئو اور پورے یوپی کے لئے ایک انمول ہیرا ہے جنکی شخصیت کو دیکھ کر دل نے بے ساختہ تیری سادگی کو سلام جناب اتل کمار انجان صاحب پچھلے کئی لوک سبھا الکیشن میں کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے گھوسی لوک۔سبھا سے امیدوار ہوتے ہیں جو خاموشی کے ساتھ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہ کر الیکشن میں مسلسل حصہ لیتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ "
میر ے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا ""
"" سر تقلید کو مغز تفکر سے جلا دے کر
چراغ مردہ کومہر درخشاں کرکے چھوڑوں گا. ""
یقین کریں دور حاضر کی ساری سیاسی پارٹیوں اور سیاسی حکمرانوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے انھیں مطلب ہے تو صرف اقتدار سے انھیں مطلب ہے تو صرف اپنی کرسی سے اپنے عیش وآرام سے الیکشن میں یہی حکمران کبھی اپنے مذہب کی دہائی دیکر ووٹ حاصل کرتے کبھی اپنی ذات بتا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں تو کبھی مذھبی منافرت پھیلاکر تو کبھی جھوٹے وعدہ کرکے تو کبھی مندر مسجد کے نام پر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور فاتح بنکر شان وشوکت سے اپنی زندگیاں گزارتے پھر انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا آپ سے آپ کے مذہب سے آپکی قوم سے آپکے علاقہ سے آپکی پریشانیوں آپکی مصیبتوں سے چاہے آپ کے گھر کو نذر آتش کردیا جائے چاہے آپکے کسی عزیز کو انسان نما شیطانوں کی ٹولی آپکے گھر میں گھس کر مار ڈالے چاہے آپکی فیکٹریوں کو آگ کے حوالہ کردیا جائے چاہے آپ معصوم کے بچوں کو ٹرینوں میں مذہب کے نام قتل کر دیا جائے چاھے آپ کے عزیزوں کو پولس کسٹڈی پیٹ پیٹ کر ماردیاجائے چاہے آپ کی یونیورسٹی کے طلبہ پر ملک مخالف قوانین ایکٹ لگا دیا جائے سارے حکمران کی ذہنیت تقریباً یکساں ہوتی ہی۔ چاہے وہ کس بھی مذہب قوم ذات علاقہ کا ہو جب آپ پر ظلم ہو گا تو ان حکمرانوں کے منھ میں لقوہ کا مرض لاحق ہو جاتا مگر یہی ساری کیفیت جب انکے سیاسی آقاوں کے قریب جاتی تو یہی حکمران جنکی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں ہاتھ پیر مفلوج ہو گئے تھے اپنے سیاسی آقاءوں کے لئے دیوار آہنی بنکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی وفاداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں
سیاست اور سیاسی غلاموں سے اب گھبراھٹ ہونے لگی ہے اور سیاسی پہلو پر بولنے لکھنےسے دل اچٹ سا گیا ہے
دنیا میں بہت سارے ملکوں میں اب بھی اصولوں کی بات ہوتی ہے عوام کی فلاح وبہبود کا نقشہ سامنے ہو تا ہے سیاست داں ملک کی خوشحالی کو مقدم رکھتے ہیں ایک دوسرے کے مذہب قوم کا احترام کرتے ہیں جسکا عملی نمونہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم محترمہ جاسنڈا نے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا
مگر جب ہم اپنے ملک کے سیاست دانوں اور انکی ہر دلعزیز پارٹیوں کو دیکھتے ہیں تو سوائے تاریکی کے اور کچھ نظر نہیں آتا نہ ہی کوئی اصول وضوابط نہ ہی کوئی نظریہ نہ ہی کوئی عوام کی فلاح و بہبود کے ایجنڈے دعوے تو بڑے بڑے مگر صرف زبان خرچی تک محدود ایماندارانہ سیاست تو قصہ پارینہ بن چکی
انھیں فکر ہے تو بس کسی طرح الیکشن کو فتح کرنا اس فتح کو حاصل کرنے کے لئے چاہے ملک کے بھائی چارگی کے ماحول پر نشتر چلانے پڑے چاہے کسی بدمعاش مافیا نچنیا گوئیا مکار عیار چاپلوس کو ٹکٹ دینا پڑے دینگے بس فتح ہی چاہیے اس سے کم کچھ منظور نہیں فتح ملنی چاہیے چاہے پر سکون پر امن بستیوں کے سکون کو غارت کرنا پڑے ٹکٹ کی تقسیم کا ضابطہ اخلاق کم وبیش سب کے یہاں یکساں ہے ان ساری خصوصیت کے حاملین امیدوارں کے نام دن کے اجالے یا رات کے اندھیر ے میں کسی وقت بھی شائع کر دیا جاتا ہے وہ کارکن جو گاوں گاوں گلی گلی شہر در شہر دھول۔مٹی کھا کر لوگوں کے دکھ سکھ میں برابر شریک ہوکر پارٹی کو بلندیوں پر لے جاتے وہ اپنی بے بسی کا کچھ دن ماتم۔کرکے پھر اسی دلدل میں آس لگائے بیٹھ جاتے ہیں کہ" آج نہیں تو کل" لیکن سویرا کبھی ہوتا ہی نہیں اور پھر وہ اپنی قسمت کو کوستے ہو ئےخاموش تماشائی بنکر کسی کونے میں دبک جاتے ہیں ایسی سیاست سے چمٹے افراد بلا جھجک اور بے شرمی سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ" سیاست میں سب جائز ہے " مفاد پرستی دور حاضر کی سیاست کا جزء لا ینفک بن چکا ہے بلکہ مجھ جیسے بہت سارے لوگوں کو اندیشہ ہیکہ کوئی مفاد پرست سیاست داں اسے سیاست کا جزء اعظم نہ قرار دے دےاور اپنی پارٹی کے مینفسٹوں میں اسکا اضافہ کراکے یہ تحریک چلادے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے
آج ہمارے پاس جمھوریت کی شکل میں ایک عظیم ہتھیار ہے جس کے ذریعہ ہمیں اپنے لیڈر کو منتخب کرنی کی مکمل آزادی حاصل ہے آج اگر ہم اس ہتھیار کا وقت رہتے اسکا صحیح استعمال کر لیں اچھے کردار جمھوری فکر کے حامل لیڈران جنکی نہ صرف زبانیں ہی سیکولر زم کا دعوی کرتی ہوں بلکہ اسکا عملی مظاہرہ بھی کرتی ہوں ایسے افراد کو منتخب کرنے میں اگر کوتاہی کی تو کل ہمیں کوئی گھاس ڈالنے کو بھی روادار نہ ہوگا ہم انتخاب ان لیڈران کا کریں جو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہو جو پارٹی سے زیادہ عوام کا نمائندہ ہو جو حقیقی معنوں میں لیڈر ہو پارٹی کا مطلق غلام نہ ہو ں جو پارٹی سپر پاور کے سامنے بھی آپ حقوق کو رکھتا ہوں
لیڈر کبھی آسمانوں سے نہیں اترتے بلکہ روئے زمین پر بسنے والے انسانوں میں سے ہی پیدا ہوتے ہیں
ایسے افراد جو اپنے اندر خدمت انسانیت کا جذبہ رکھتے ہوں قومی یک جہتی کے علمبردار ہوں چاہے وہ کسی قوم کسی مذہب کا ہو ہمیں اسکی حوصلہ افزائی کرنی چاہے اسکے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا چاہیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا پڑیگا اگر عوام سیاست دانوں کے ذات پات مذہب کے چنگل میں پہنس گئی تو پھر پانچ سال اپنی خود کردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے اور پھر جلسے جلوس کانفرنس منعقد کرتے رہیں ہمیں تبدیلی لانی پڑیگی اپنی فکر میں ہمیں ایک ووٹر کی ذمہ داری کو سمجھنا پڑیگا ہمیں سیاسی پارٹیوں کو یہ باور کرانا پڑیگا کہ ہم غلام قوم نہیں کہ جسے چاہے آپ ہم پر مسلط کردیں اور ہم آپ کے کہنے پر لبیک کہ دے ہمیں اپنے قیمتی ووٹ کو ضائع ہونے سے بچانا ہوگا ہمیں کسی گٹھبندہن کے جال میں نہ پھس کر بلکہ خود مختار بن کر اپنے ووٹوں کو دینا ہوگا پورے ملک میں ہر سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے سے ملکر گٹھبندن کیا لیکن کسی ایک پارٹی نے بھی کسی مسلم قائد کو گٹھبندہن کے قریب آنے نہیں دیا یوپی دوفیصد جاٹ ایک فیصد نشاد ایک فیصد پٹیل کوگٹھبندھن میں شامل کیا جاسکتاہے لیکن 20فیصد مسلمان کو نہیں نہ ہی یوپی گٹھبندھن کے اسٹیج پر کسی مسلم قائد کو جگہ دی جارہی نہ بوا ببوا راہل اجیت کی دبی ہوئی زبانوں سے لفظ مسلمان نکل رہا ہے
مسلمانوں کا ووٹ سب کو چاہیے مگر مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی کوئی نہیں لڑے گا 1947سے آج تک مسلمان صرف سیکولرزم کی حفاظت کے لئے ووٹ کرتا چلاآیا سیاسی چالیں بدلتی رہی مگر مسلمان کے ذمہ صرف یہی ایک ذمہ داری جو پوری مستعدی سے کرتا آیا
آج ساری نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ووٹ تو چاہیے مگر مسلمانوں کی قیادت نہیں چاہیے
ھم مسلمان بھی عہد کرلیں ہم کسی گٹھبندھن کے غلام نہیں ہم آزاد ہیں
راقم کو سیاست دانوں سے زیادہ عوام سے شکایت ہے کیونکہ ہم ہی انکو فاتح بناتے ہیں اور اسکے بعد پانچ سال گزرجاتا وہ اپنی شکلیں نہیں دکھاتے پھر الیکشن میں ہم انھی نیتاوں کے لئے زندہ آباد کے فلک شگاف نعرہ لگا کر پچھلے سارے زخموں کو بھول جاتے ہیں پچھلے پانچ سال کی کارکردگی مطالعہ کرنے سے پہلے اگلے پانچ سال کا خاکہ دیکھکر ہوا محل تعمیر کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں.