بقلم: محمد فہیم قاسمی گورکھپوری
جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ
ــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور دودھ شریک رضاعی بھائی ہیں، جنہیں ابولہب کی باندی ثویبیہ نے دودھ پلایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال پہلے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں، عرب کی اسی تاریک ماحول میں پرورش پائی اور یہی رنگ ان پر چڑھ بھی گیا، تیر اندازی اور نیزابازی میں کمال حاصل ہے جنہیں شکار کا شوق ہے، شکار کو جاتے ہوئے اور شکار سے واپس آتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرنا ان کی عادت میں شامل ہے، عربی عصبیت اور غیرت کی وجہ سے دوسرے عربوں سے ممتاز ہیں، اسلام کی صدائے باز گشت سے برگشتہ بھی ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے لئے ابوجہل ایک نام ہے جس کے دل اور کان پر مہر لگ چکی ہے جس کی کوشش ہے کہ اسلام کی صدائے باز گشت سے کسی کے کان آشنا نہ ہو سکیں جو بازاروں اور گلیوں میں اعلان کرتا ہوا گزرتا ہے کہ مکہ میں ایک کاہن، دیوانہ اور ایک جادوگر آیا ہوا ہے جس کے کلام کی بازی گری اور جس کے جادوکی جادگری دیکھ اور سن کر، لوگ اپنے دین کو چھوڑ بیٹھتے ہیں اور اپنے ہی معبودوں کی تکذیب کرنے لگتے ہیں لات و ہبل کی قسم تم ایسے شخص کے قریب بھی مت جانا، جس کے ظلم و زیادتی کا نشانہ مسلمان آئے دن ہوتے رہتے ہیں صحن حرم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہفوات سناتا ہے، پاگل اور دیوانہ، کاہن اور مجنوں کے القاب سے نوازتا ہے، خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرتا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ عادت کے مطابق شکار سے واپسی پر صحن حرم میں طواف کے لئے پہنچتے ہیں تو ایک باندی ان کی غیرت و حمیت کوعار دلاتے ہوئے کہتی ہے، کاش! تم اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کے دکھ کو جان سکتے، اس کی تکلیف کا اندازہ لگاسکتے ہیں، اس مصیبت اور پریشانی سے باخبر رہتے جو آج ان کو ابوجہل نے اسی جگہ پہنچائی ہے، غیرتمند عرب کی عربی حمیت پھڑک پڑتی ہے اور بھتیجے کی محبت بیدار ہوجاتی ہے، صحن حرم میں لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے ابوجہل کے پاس پہنچتے ہیں اور وہی کمان اس کے سر پر دے مارتے ہیں جس کی وجہ سے خون کی پھواریں بہہ پڑتی ہیں،یہ خون کی بوند ہے، جو اسلام کی مخالفت کرنے والے سردار کے سر سے بہہ کر صحن حرم میں گری ہے، یہ خون کی بوند جو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے گرائی گئی تھی، وہ اس واقعہ کی پیشگی اطلاع تھی کہ تجھ جیسے مغرور متکبر سرداروں کا سر بدر میں قلم کر دیا جائے گا وہ اس بات کا اعلان تھا کہ عنقریب کفر کی تاریکی اور مکہ کی ظلمت سے ایمان کے نور کی ایسی روشنی پھیلے گی جو اطراف عالم میں بسنے والے انسانوں کے قلب و نظر کو چمکا دے گی، صحن حرم میں گرنے والا خون اس بات کی تمہید تھا کہ آنے والے وقت میں یہ اعلان کیا جائے گا کہ آج جو صحن حرم میں داخل ہوجائے گا وہ مامون ہے اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی، سردار مکہ کے سر سے خون کا نکلنا آسمان کا زمین پر گرنا تھا، صحن حرم لوگوں سے بھرجاتا ہے اور یہ آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ آج حمزہ اپنے دین سے پھر گیا انہیں آوازوں میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی آواز بھی گونجتی ہے، میں نے اپنے بھتیجے کی سچائی کو جان لیا ہے میں نے اس کی حقانیت کو پہچان لیا ہے اور میں اسی کے دین پر ہوں، ابو جہل کا بڑھا ہوا کفر ایک شخص کا ایمان بن چکا ہے۔
جب ایک چچا کی محبت اپنے بھتیجے کے لئے بیدار ہو سکتی ہے، تو یقیناً وہ بھتیجا کم نصیبوں والا نہ ہو گا، وہ ہستی کم نصیبوں والی تھی بھی نہیں، وہ عالم کے لیے سراپا رحمت اور کائنات کے لیے مجسم محبت تھی، جنگ احد ختم ہو چکی ہے، مکہ میں خوشی اور شادیانی کا ماحول کہ آج ہم نے بدر کے مقتولین کا بدلہ لے لیا، ۔ ادھر مسلمان اپنے شہید ساتھیوں کی نعش اٹھا رہے ہیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیرت مند چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کی بھی نعش ہے۔ جس کے ناک اور کان جسم جدا ہیں، سینے مبارک کو چاک کرکے کلیجے کو چبایا گیا ہے، ایسی دل کے لہو کرنے والی نعش کی دلخراش حالت دیکھ کر حضور صدمہ سے چیخ پڑتے ہیں، اور قسم کھاتے ہیں اگر کفار پر مجھے قابو ہوا تو میں ستر کافروں کو مثلہ کرونگا، اللہ پاک کی جانب سے فورا تنبیہی پیغام پہنچ جاتا ہے۔ یہ اس مبارک انسان اور ایسے مقدس مقدس شہید کی نعش ہے کہ اگر کلیجے کو چبانے والی تھوکنے کے بجائے اسے نگل لیتی تو اسے جھنم کی آگ نہ جلاتی، لیکن ایسے مقدس شہید کے لئے مکمل کفن بھی میسر نہیں ہے، پائے اقدس کو گھاس سے ڈھنک کر بدر کے میدان ہی میں دفن کر دیا جاتا ہیں، مدینہ پہنچ کر جب آپ نے شہداء کے متعلقین کو روتے ہوئے دیکھا تو آپ نے کہا، کیا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی رونے والا بھی نہیں، فورا انصار کی عورتیں پہنچ کر روئیں اور خوب روئیں اور آج بھی جب کبھی انھیں کوئی حادثہ فاجعہ، اور دل کو غمگین کر دینے والا غم پہنچتا ہے تو پہلے اس عظیم شہید حمزہ رضی اللہ عنہ پر روتی اور آنسو بہاتی ہیں، پھر اپنے غم پر آہ و بکا کرتی ہیں۔
جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ
ــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور دودھ شریک رضاعی بھائی ہیں، جنہیں ابولہب کی باندی ثویبیہ نے دودھ پلایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال پہلے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں، عرب کی اسی تاریک ماحول میں پرورش پائی اور یہی رنگ ان پر چڑھ بھی گیا، تیر اندازی اور نیزابازی میں کمال حاصل ہے جنہیں شکار کا شوق ہے، شکار کو جاتے ہوئے اور شکار سے واپس آتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرنا ان کی عادت میں شامل ہے، عربی عصبیت اور غیرت کی وجہ سے دوسرے عربوں سے ممتاز ہیں، اسلام کی صدائے باز گشت سے برگشتہ بھی ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے لئے ابوجہل ایک نام ہے جس کے دل اور کان پر مہر لگ چکی ہے جس کی کوشش ہے کہ اسلام کی صدائے باز گشت سے کسی کے کان آشنا نہ ہو سکیں جو بازاروں اور گلیوں میں اعلان کرتا ہوا گزرتا ہے کہ مکہ میں ایک کاہن، دیوانہ اور ایک جادوگر آیا ہوا ہے جس کے کلام کی بازی گری اور جس کے جادوکی جادگری دیکھ اور سن کر، لوگ اپنے دین کو چھوڑ بیٹھتے ہیں اور اپنے ہی معبودوں کی تکذیب کرنے لگتے ہیں لات و ہبل کی قسم تم ایسے شخص کے قریب بھی مت جانا، جس کے ظلم و زیادتی کا نشانہ مسلمان آئے دن ہوتے رہتے ہیں صحن حرم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہفوات سناتا ہے، پاگل اور دیوانہ، کاہن اور مجنوں کے القاب سے نوازتا ہے، خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرتا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ عادت کے مطابق شکار سے واپسی پر صحن حرم میں طواف کے لئے پہنچتے ہیں تو ایک باندی ان کی غیرت و حمیت کوعار دلاتے ہوئے کہتی ہے، کاش! تم اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کے دکھ کو جان سکتے، اس کی تکلیف کا اندازہ لگاسکتے ہیں، اس مصیبت اور پریشانی سے باخبر رہتے جو آج ان کو ابوجہل نے اسی جگہ پہنچائی ہے، غیرتمند عرب کی عربی حمیت پھڑک پڑتی ہے اور بھتیجے کی محبت بیدار ہوجاتی ہے، صحن حرم میں لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے ابوجہل کے پاس پہنچتے ہیں اور وہی کمان اس کے سر پر دے مارتے ہیں جس کی وجہ سے خون کی پھواریں بہہ پڑتی ہیں،یہ خون کی بوند ہے، جو اسلام کی مخالفت کرنے والے سردار کے سر سے بہہ کر صحن حرم میں گری ہے، یہ خون کی بوند جو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے گرائی گئی تھی، وہ اس واقعہ کی پیشگی اطلاع تھی کہ تجھ جیسے مغرور متکبر سرداروں کا سر بدر میں قلم کر دیا جائے گا وہ اس بات کا اعلان تھا کہ عنقریب کفر کی تاریکی اور مکہ کی ظلمت سے ایمان کے نور کی ایسی روشنی پھیلے گی جو اطراف عالم میں بسنے والے انسانوں کے قلب و نظر کو چمکا دے گی، صحن حرم میں گرنے والا خون اس بات کی تمہید تھا کہ آنے والے وقت میں یہ اعلان کیا جائے گا کہ آج جو صحن حرم میں داخل ہوجائے گا وہ مامون ہے اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی، سردار مکہ کے سر سے خون کا نکلنا آسمان کا زمین پر گرنا تھا، صحن حرم لوگوں سے بھرجاتا ہے اور یہ آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ آج حمزہ اپنے دین سے پھر گیا انہیں آوازوں میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی آواز بھی گونجتی ہے، میں نے اپنے بھتیجے کی سچائی کو جان لیا ہے میں نے اس کی حقانیت کو پہچان لیا ہے اور میں اسی کے دین پر ہوں، ابو جہل کا بڑھا ہوا کفر ایک شخص کا ایمان بن چکا ہے۔
جب ایک چچا کی محبت اپنے بھتیجے کے لئے بیدار ہو سکتی ہے، تو یقیناً وہ بھتیجا کم نصیبوں والا نہ ہو گا، وہ ہستی کم نصیبوں والی تھی بھی نہیں، وہ عالم کے لیے سراپا رحمت اور کائنات کے لیے مجسم محبت تھی، جنگ احد ختم ہو چکی ہے، مکہ میں خوشی اور شادیانی کا ماحول کہ آج ہم نے بدر کے مقتولین کا بدلہ لے لیا، ۔ ادھر مسلمان اپنے شہید ساتھیوں کی نعش اٹھا رہے ہیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیرت مند چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کی بھی نعش ہے۔ جس کے ناک اور کان جسم جدا ہیں، سینے مبارک کو چاک کرکے کلیجے کو چبایا گیا ہے، ایسی دل کے لہو کرنے والی نعش کی دلخراش حالت دیکھ کر حضور صدمہ سے چیخ پڑتے ہیں، اور قسم کھاتے ہیں اگر کفار پر مجھے قابو ہوا تو میں ستر کافروں کو مثلہ کرونگا، اللہ پاک کی جانب سے فورا تنبیہی پیغام پہنچ جاتا ہے۔ یہ اس مبارک انسان اور ایسے مقدس مقدس شہید کی نعش ہے کہ اگر کلیجے کو چبانے والی تھوکنے کے بجائے اسے نگل لیتی تو اسے جھنم کی آگ نہ جلاتی، لیکن ایسے مقدس شہید کے لئے مکمل کفن بھی میسر نہیں ہے، پائے اقدس کو گھاس سے ڈھنک کر بدر کے میدان ہی میں دفن کر دیا جاتا ہیں، مدینہ پہنچ کر جب آپ نے شہداء کے متعلقین کو روتے ہوئے دیکھا تو آپ نے کہا، کیا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی رونے والا بھی نہیں، فورا انصار کی عورتیں پہنچ کر روئیں اور خوب روئیں اور آج بھی جب کبھی انھیں کوئی حادثہ فاجعہ، اور دل کو غمگین کر دینے والا غم پہنچتا ہے تو پہلے اس عظیم شہید حمزہ رضی اللہ عنہ پر روتی اور آنسو بہاتی ہیں، پھر اپنے غم پر آہ و بکا کرتی ہیں۔